اللہ تعالی نے اس جہاں کو محنتوں کا جہان بنایا ہے یہاں جو، جس شعبے اور جس فیلڈ کی محنت کرتا ہے اسی کے مطابق ثمر پاتا ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ گندم اگانے کی محنت کی جائے تو گندم ہی پیدا ہوتی ہے، چنا نہیں، اسی طرح چاول کاشت کیا جائے تو چاول ہی پیدا ہوگا، باجرہ نہیں۔ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی چنے بو کر کبھی گندم کی توقع نہیں رکھے گا اور گندم کاشت کر کے کبھی چاول کی امید نہیں کرے گا۔ لیکن وطن عزیر کے ضمن میں ہماری سوچ اور امیدوں کے دھارے الٹ بہتے ہیں۔ ہم یہاں خار بو کر پھولوں کی امید کر رہے ہیں اور خزاں کی پرورش کرکے بہار کی آس رکھے ہوئے ہیں جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز بھی قانون قدرت سے بالاتر نہیں ہے۔ یہاں بھی وہی پیدا ہوگا جس کی محنت کی جائے گی اور اسی تناسب سے پیدا ہوگا جس قدر محنت کی جائے گی۔ پچھلے باسٹھ برس اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں جس نے جس طرح کی محنت کی اس کا پھل پایا۔ لوگوں نے ڈاکٹر بننے کی کوشش کی، وہ بہت کامیاب ڈاکٹر بنے، لوگوں نے انجینر بننے کی کوشش کی وہ اعلی پائے کے انجینر بنے، لوگوں نے سائنسدان بننا چاہا، وہ عالمی شہرت یافتہ سائنسدان بنے، لوگوں نے تاجر، صنعتکار، کسان، جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹ بننے کی محنت کی، وہ کامیاب ہوئے اور وہ سب کچھ بنے جو وہ بننا چاہتے تھے۔ پاک سرزمین میں فوجی اگانے کی محنت ہوئی ، اس سرزمین نے بڑے بڑے فوجی پيدا کیے ۔اس سرزمین میں سیاستدان بونے کی محنت ہوئی تو اس زمین نے ہر رنگ اور ہر سائز کے سیاستدان اگلے۔ اس سرزمین میں جس جس نے بھی کرپشن، بددیانتی، ظلم ، ناانصافی، بد اخلاقی ، بے دینی، رشوت، سفارش، غربت، ناخواندگی، جہالت، رنگ و نسل اور زبان کے تعصبات کے بیج بونے کوشش کی ، اس زمین نے اسے مایوس نہیں کیا ، وجہ یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے زمین زرخیز ہے۔ اور زرخیز زمین محنت کرنے والوں کو مایوس نہیں کیا کرتی۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے ہر محنت کی، نہیں کی تو انسان بنانے کی محنت نہیں کی۔ اور ہمارے خیال میں پاکستان کا اصل مسئلہ یہی ہے ۔
غربت، ناخواندگی، ظلم، ناانصافی، جہالت، کرپشن سب کے سب مسائل اسی ایک وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ یہاں اصل میں وہ محنت اور کوشش ہی ناپید ہے جو انسان بنایا کرتی ہے نتیجتاً یہاں آجر اور اجیر، جاگیردار اور کسان، صنعتکار اور مزدور، استاد اور شاگرد، سیاستدان اور ورکر، جماعتیں اور ان کے کارکن، پیر اور مرید، مولوی اور ان کی بھیڑیں، ڈاکٹر، انجینر، تاجر، دکاندار، بیوپاری ٹھیکیدار وغیرہ سب پیدا ہوئے، نہیں ہوئے تو انسان پيدا نہیں ہوئے۔ باسٹھ برس گزر گئے ہم یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم کچھ نظام، کچھ سسٹم، کچھ مخصوص ادارے اور بعض قانون بناکر ترقی کر لیں گے اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں جگہ پالیں گے مگر نتیجہ صفر کا صفر ہے۔ باوجود تمام ادارے، تمام سسٹم، تمام نظام، تمام قوانین اور تمام وسائل ہونے کے ہر آنے والا دن ہمیں تنزلی کی راہوں میں ایک قدم اور آگے بڑھا دیتا ہے۔ وجہ وہی ایک ہے کہ نظام، سسٹم اور اداروں کو چلانے والے، اور قوانین کو نافذ کرنے والے ہاتھ چاہییں جبکہ ہم ایسے ہاتھوں سے محروم ہیں جو قوموں کو بام عروج کیطرف لے جانے میں معاون ہوا کرتے ہیں۔ ہر طبقے کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ نتیجتاً یہاں ہر سسٹم اور ہر قانون کسی نہ کسی طبقے کے مفادات کا نگران بن کر رہ جاتا ہے ہر طبقہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قوانین اور اداروں کو اپنی جانب موڑ لیں۔
انسانیت کا مفاد انسان کو عزیز ہوگا کسی ڈاکٹر، انجینر، فوجی یا سیاستدان کو نہیں۔ اسی طرح پاکستان کا مفاد پاکستانی کو عزیر ہوگا کسی تاجر، صنعتکار، ملازم، افسر یا صاحب اقتدار کو نہیں۔اس لیے ہمارے خیال میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بنتے ہی یہاں اس بات کی محنت شروع کی جاتی کہ لوگوں کو اس بات کا شعور حاصل ہو جائے کہ وہ سب سے پہلے انسان ہیں بعد میں کچھ اور۔ اگر یہ شعور انہیں مل جاتا تو پھر ان کے لیے پاکستانی بننا بھی آسان ہوتا اور مسلمان بننا بھی لیکن ہم نے وطن کی تخلیق کے ساتھ ہی یہاں طبقات اور طبقاتی امتیاز کی پرورش شروع کردی ۔ چنانچہ طبقات بڑھتے چلے گئے اور عوام کم ہوتے چلے گئے۔ اور اسی طرح انسان نما لوگ بڑھتے چلے گئے اور انسانیت کم ہوتی چلی گئی۔ بعینہ پاکستانیوں کی گنتی بڑھتی گئی اور پاکستانیت کم ہوتی چلی گئی۔ اس لیے ہمارے خیال میں ابھی وقت ہے کہ ہم لوٹ جائیں اور پھر سے وہ محنت شروع کر لیں جو درکار ہے ورنہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہیں گے۔ وسائل آتے رہیں گے اور ہڑپ ہوتے رہیں گے۔ زمین سونا اگلتی رہے گی اور وہ سونا محض چند طبقوں، چند خاندانوں اور چند پیٹوں کا ایندھن بنتا رہے گا۔ ادارے بنتے رہیں گے اور تباہ ہوتے رہیں گے قانون بنتے رہیں گے اور اپنی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فرد سے لے کر معاشرے تک اور خاندانوں سے لے کر اداروں تک ہر ایک اس بات کی آواز لگائے، ہر ایک خود کو اور دوسرے کو سمجھائے اور ہر ایک اس بات کی پوری کوشش کر ے کہ لوگ یہ بات سمجھ جائیں کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں بعد میں کچھ اور۔ اور یہ کہ ہم سب کو انسانی اقدار کا تحفظ بہر حال کرناہے اسی میں ہماری بقا ہے اور اسی میں وطن عزیز کی۔
اس شعور کو عام کرنے میں بنیادی کردار تعلیمی اداروں کا ہے اور پھر جماعتوں اور تنظیموں کا۔ لیکن تعلیمی ادارے اب کمرشل ازم کی آماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں اور جماعتیں اور تنظیمیں ایوان اقتدار کے کوچے میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ برسر اقتدار طبقے کے سارے برس اقتدار بچانے کی کوشش میں صرف ہو جاتے ہیں اور محروم اقتدار کے شب و روز اقتدار پانے کی کوشش میں۔
اے کاش کوئی جماعت، کوئی تنظیم، کوئی گروہ، کوئی این جی او اس بات کا تہیہ کر لے کہ اسے اپنی تمام تر صلاحیتیں اس بات پر صرف کرنی ہیں کہ وطن عزیز میں انسانیت کا شعور بیدار کرنا ہے اور نتیجتاً پاکستانیت کا شعور حاصل کر نا ہے۔ چند ایک مخلص جماعتوں اور گروہوں نے اس ضمن میں بعض مخلصانہ کوششیں کیں بھی لیکن بالآخر وہ جماعتیں بھی سیاست کے گھاٹ اتر کر اپنی پہچان کھو بیٹھیں اور گروہ اور افراد بھی اپنی انفرادیت اور نام کے چکر میں ایک نئے طبقے کا اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں نے اس راہ چلنا بھی چاہا مگر بظاہر خاطر خواہ نتائج نہ پاتے ہوئے مایوس ہو کر بیٹھ رہے۔ چنانچہ اس بات کا مدنظر رہنا از حد ضروری ہے کہ ہم نتائج کے ذمہ دار نہیں۔ نتیجہ اور ثمر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ہمیں تو مخلصانہ کوشش کرنی ہے اور کرتے چلے جانا ہے ۔ہے کوئی، جو سوئے حرم کے ساتھ اس راہ چلے!
(سوے حرم اگست 2009 http://www.suayharam.org
)