ہمارے محترم دوست ظفرصاحب باقوی نے بتایا کہ ان کے ایک عزیز پندرہ برس سعودی عرب بحیثیت
ڈاکٹر جاب کرتے رہے اور اب وہ لندن میں جاب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے
پوچھا کہ وہ سعودی عرب اور لندن دونوں مقامات میں جاب کرتے ہوئے کیا فرق محسوس کرتے
ہیں ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ سعودیہ میں مسلمان ہیں اسلام نہیں اور لندن میں اسلام
ہے اور مسلمان نہیں۔
یہ بامعنی تبصرہ یا چھوٹا
سا جملہ اس وقت کی اسلامی دنیا کی بالکل صحیح عکاسی کر رہا
ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں جیسا نام رکھ کر یا مسلمانوں کی چند
رسمیں ادا کر کے ہم مسلمان کہلانے کے حقیقی حق دار بن جائیں گے چاہے ہمارے اعمال
کچھ بھی ہوں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام چند رسموں یا چند مخصوص نام رکھنے کا نام
نہیں
بلکہ ایک طریقہ زندگی ہے ، ایک رویہ ہے، ایک کردار ہے اور معاملات ، معاشرت اور
اخلاقیات کا پورا نظام ہے ۔ اپنی زندگی بدلے بغیر مسلمان کہلانا ایسے ہی ہے جیسے
پریکٹس کے بغیر ڈاکٹر کہلانا۔
نہ ہماری سوچ بدلتی ہے ، نہ رویے ، نہ کردار ، نہ اخلاق لیکن ہم پھر بھی دھڑلے سے
خود کو مسلمان کہلاتے ہیں ۔ آج کے مسلمان پر رسول اللہ کا یہ فرمان بالکل
منطبق ہو رہا ہے
قال رسو ل الله لياتين علی امتی ما اتی علی بنی اسرائيل حذو النعل با لنعل حتی ان
کان۔۔۔۔۔۔
یہود
خود کو اللہ کے رشتے دار سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ کچھ بھی
كريں
جہنم کی آگ انہیں چھوئے گی بھی نہیں اور اگر چھوا بھی تومحض چند دن۔ چند رسموں کے
پورا کرنے کو وہ پورا دین سمجھتے تھے یہی حال آج کے مسلمانوں کا ہے حتی کہ خود کو
مذہبی کہلانے والے مسلمان بھی چند رسمیں پوری کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور اپنی
زندگی ، رویے اور اخلاق بدلنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے۔ اللہ کریم نے قرآن مجید
میں بار بار بنی اسرائیل کا حوالہ دے کر یہی سمجھایا ہے کہ تم ان جیسا رویہ اختیار
کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو ان کے ساتھ ہوا۔ بنی اسرائیل قوموں کی
امامت سے معزول کیے گئے تو مسلمان بھی معزول کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام کبھی معزول نہ
ہو گا، تمام انبیا کا دین یہی ہے اور قیامت تک کا دین یہی ہے البتہ اس کے جھوٹے
دعویدار معزول کیے جانے کا حق رکھتے ہیں اور آج مسلمان اصلاًاس منصب سے معزول ہو
چکے ہیں لیکن وہ پھر بھی پدرم سلطان بود کہہ کر خود کو اطمینان دلاتے رہتے ہیں۔
اسلام صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ چند صفات کا نام بھی ہے ان کو جو بھی اس دنیا میں
اپنا ئے گا وہ عزت و اعزاز پائے گا۔ مسلمانوں کے عقائد ان کو آخرت میں یقینا فائدہ
دیں گے لیکن اس دنیا میں عزت و منصب ان اصولوں اور اُس اخلاق و کردار سے وابستہ ہے
جو اسلام کے اصول اور اخلاق و کردار ہے۔ ہماری معیشت یہود کی ہے، عقائد نصاری کے
ہیں، معاشرت ہندووں کی ہے اور اخلاق نفس پرستوں اورمفاد پرستوں کے ہیں پھر بھی ہم
امید رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں عزت و اعزار پائیں گے ۔ یہ سوچ ایک ایسا خواب ہے جس
کی تعبیر ممکن نہیں۔ ادخلوا فی السلم کافۃ کے بغیر ایسی ساری امیدیں نقش برآب ثابت
ہوتی رہیں گی۔ آج ضرورت اس ا مر کی ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ جائیں کہ جس طرح زمین
کی محنت کیے بغیر زمیندار کہلانا اور زمین سے فصل کی امیدر کھنا ایک مذاق ہے ، جس
طرح طب پڑھے بغیر اور اس کی پریکٹس کیے بغیر ڈاکٹر کہلا نا ایک مذاق ہے اور جس طرح
تجارت کی محنت کیے بغیر تاجر کہلانا ایک مذاق ہے اسی طرح اسلام کی زندگی ، رویہ ،
کردار اور اخلاق اپنائے بغیر مسلمان کہلانا بھی ایک مذاق ہے اور اللہ کو ایسا مذاق
بالکل پسند نہیں۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ خود بھی پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ
اور اسلام کو بھی پورے کا پورا اپنی زندگی میں داخل ہونے کا موقع دو۔ جبکہ ہمارا
حال یہ ہے کہ ہمارا ایک پاؤں اسلام کے دروازے کے اند ر ہے اور ایک باہر ۔ کوشش یہ
کرنی چاہیے کہ ہم جلد از جلد باہر والا پاؤں بھی اندر کر لیں ورنہ یہ عین ممکن ہے
کہ اللہ اندر والا پاؤں بھی باہر نکال دے اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں ۔
اس دنیا میں قوموں کے عرو ج و زوال کا قانون قرآن مجید میں کھول کر
بیان کر دیا گیا ہے (ان
الله لا يغير مابقوم حتی يغير ما بانفسهم)
جس سے صاف واضح ہے کہ کسی قوم کا عروج اسکے نام کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتا بلکہ چند
صفات کے ساتھ وابستہ ہے ۔ جو قوم بھی عدل وانصاف ، دیانت ، سچ ، اور مخلوق کی نفع
رسانی اپنائے گی وہ دنیا میں ترقی پائے گی چاہے اس کا نام جو بھی ہو۔اور جو بھی ان
سے منہ موڑے گی زوال آشنا ہو گی چاہے اس کا نام مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رکھیے اس
دنیا میں اللہ قوموں کے ساتھ اجتماعی معاملہ کرتا ہے اور آخرت میں انسانوں کے ساتھ
انفرادی معاملہ کرے گا۔ اگر کسی قوم کی اجتماعی ہیئت صحیح اصولوں پر قائم ہے چاہے
اس میں انفرادی انحرافات بھی ہوں تووہ قوم عروج پائے گی اور جس قوم کی ہیئت
بددیانتی ، جھوٹ ، ظلم ، اقربا پروری ، رشوت اور ناانصافی پرقائم ہے چاہے ان میں
انفرادی سطح پر ولی اللہ بھی موجود ہوں وہ زوال پائے گی۔عروج کے لیے ضروری ہے کہ
مسلمان بحثیت قوم خود کوعدل و انصاف ،اور اخلاقیات کے میدان میں اس کا اہل ثابت
کریں کہ ان سے برتر کوئی نہیں۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟