Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][blue][size=4]ہمارے ہاں انقلاب سیاسی اقتدار کی تبدیلی کو سمجھ لیا گیا ہے ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی اقتدار کی کرسیوں اور سماجی تنظیم کی کنجیوں کے ایک طرح کے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے طرح کے ہاتھوں میں چلے جانے کا نام سماجی انقلاب ہے۔ یہ انقلاب کا نہایت فرسودہ اور محدود تصور ہے ۔ انقلاب مکمل تبدیلی اور کامل تغیر کا نام ہے ۔ انقلاب کسی سماج میں اس وقت برپا ہوتا ہے جب اس کے افراد و اجزا کے فکر و سوچ اور رہن سہن اور نصب العین و مقاصدِ حیات سے لے کر اس کے سماجی نظم اور زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی واقع ہوجائے ۔ لوگوں کی سوچ اور ذہنیت تبدیل ہوجائے ۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا اور رہنا سہنا اور چلنا پھرنا ایک نئے انداز پر ڈھل جائے ۔ ان کے معاملات کے ڈھنگ بالکل بدل جائیں ۔ ان کی اقدار و اخلاقیات مکمل تبدیلی سے دوچار ہوں ۔ اور یہ تبدیلی و تغیر درجہ بدرجہ ان کے اجتماعی نظام اور سماجی شعبوں میں بھی نمایاں اور ظہور پذیر ہو۔ محض سیاسی اقتدار کی تبدیلی اور قانون و نظام کی شکست و ریخ اور تشکیلِ نو کو انقلاب کا نام دینا نری سطحیت ہے ۔ [/size=4][/blue][/right] [size=4][green][right]اس طرح جب آپ اپنے فکر و نظریے کی قوت افرادِ سماج کی ایک قابلِ قدر تعداد پر ثابت کر دیتے اور ان کو اپنا ہمنوا و حامی بنالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب خود افرادِ سماج اس فکر و نظریہ سے بغاوت و انحراف پر مبنی ماحول و نظام کو برداشت کرنے کے روادار نہیں رہتے اور بالکل فطری طریقے سے اس سماج میں خوبیاں جڑ پکڑ تی اور خرابیاں دم توڑ تی چلی جاتی ہیں ۔ آہستہ آہستہ وہ فکر و نظریہ اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ماحول و نظام سماج میں رائج ماحول و نظام کو دیس نکالا دینا اور اس سماج کی زندگی سے باہر نکالنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس طرح بالکل نیچرل اور پائدار طریقے سے کوئی فکر و نظریہ کسی سوسائٹی میں اپنی جڑ یں جماتا اور مضبوط بناتا ہے اور دھیرے دھیرے آنے والا یہ انقلاب ایک دن اس مقام تک جاپہنچتا ہے کہ افرادِ معاشرہ کی اکثریت اور ان کے مؤثر و مقتدر طبقات سب اس فکر و نظریہ کے علمبردار بن جاتے اور اس پر مبنی ماحول و نظام کے طالب و متمنی نظر آتے ہیں اور پھر اس سوسائٹی میں اپنے آپ بغیر کسی جبر و ا کراہ اور جنگ و تشدد کے کسی دوسرے فکر کا غالب رہنا اور اس پر مبنی ماحول و نظام کا چلنا محال و ناممکن ہوجاتا ہے ۔ [/right][/green][/size=4] [size=4][right][blue]اس مذکورہ خاکے اور نقشے کی روشنی میں خدا کے آخری جلیل القدر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، سیرت اور آپ کے طریقۂ کار کا جائزہ لیجیے تو آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ بالکل اسی طرح سب سے پہلے اسلام کی بنیادی دعوت اور توحید و رسالت و آخرت کا پیغام ہے جو اس وقت لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ بار بار کیا گیا۔ ہر ہر زاویے اور پہلو سے کیا گیا۔ اس کے حوالے سے لوگوں کے شکوک و شبہات اور مخالفین کے پیدا کردہ اعتراضات و شوشہ جات کا اطمینان بخش جواب دیا گیا۔ اس اولین مرحلے میں ہر طرح کا ظلم و ستم ہوا۔ قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ وحشت و بربریت کا شکار کیا گیا، لیکن خدا کے پیغمبر اور آپ کے اصحاب سراپا صبر و عزیمت اور امن و آشتی بنے رہے ۔ پھر جب اسلام کی دعوت وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی اور سوسائٹی کی ایک بڑ ی تعداد اس کی حامی و پشت پناہ بن گئی تو بالکل فطری نتیجے کے طور پر اس سماج میں اسلامی حکومت ابھرتی چلی گئی تاآنکہ مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست خدا کے رسول کی سربراہی میں قائم ہوگئی۔ اس کے علاوہ کفار سے جو جنگیں اور غزوات پیش آئے اور وہ جس طرح ذلیل و مغلوب کیے گئے ، اُس میں جہاں امتِ پیغمبر کے لیے بہت کچھ ہدایت و نمونہ موجود ہیں وہیں اس کا ایک بہت بڑ ا حصہ رسول اللہ کی حیثیتِ رسالت کے ساتھ مخصوص اور آپ کا اور آپ کے براہِ راست مخاطبین و مومنین صحابۂ کرام کا استثنائی معاملہ ہے ۔ آپ خدا کے رسول تھے ۔ رسالت کے قانون کے مطابق آپ کے مخاطبین کو حق کے آخری درجے میں واضح ہوجانے کے بعد بطورِ عذاب و سزا مغلوب و مفتوح کیا گیا اور صحابۂ کرام کو وقت کی سلطنت و فرمانروائی کے بڑ ے بڑ ے تخت و تاج کا مالک بنایا گیا۔[/blue][/right][/size=4] [right][size=4][green]تاہم اس مذکورہ تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی سوسائٹی میں اسلام کو غالب کرنے کا نقشہ و لائحۂ عمل کیا ہونا چاہیے ۔ یقینا کسی قسم کی سیاسی زور آزمائی اور الیکشنی تگ و دو اس کا کوئی درست راستہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا واحد درست راستہ تعلیم و تربیت اور اسلام کے بنیادی پیغام کی پرامن ذرائع سے فطری و عقلی استدلال کے ساتھ بار بار اور ہر ہر سطح پر پیغام رسانی ہے ۔ اس سلسلے میں لوگوں کے خدشات و سوالات کا جواب دینا ہے ۔ معاندین کے اعتراضات و شبہات کو رفع کرنا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی نافعیت و برتری کو مبرہن کرنا ہے ۔ اور یہ بتانا اور ثابت کرنا ہے کہ اسلام ترقی اور ایڈوانس منٹ کا مخالف نہیں بلکہ رہبر و رہنما ہے ۔ وہ ہر اچھی اور نافع چیز کو اپنانے اور ہر معقول و مثبت تجربے سے فائدہ اٹھانے کی نہ صرف تلقین کرتا ہے بلکہ پوری پوری حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اسلام ساری انسانیت کا دین ہے ۔ وہ برتر اور مسلمہ اخلاقیات کا دین ہے ۔ وہ امن اور پیار و محبت کا دین ہے ۔ اس میں کسی طرح کی زور زبردستی اور فتنہ و فساد کی گنجائش نہیں ہے ۔ وہ ظلم و ستم اور وحشت و بربریت کا سب سے بڑ ا مخالف ہے ۔ وہ باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تو بہرحال تیار نہیں ہے لیکن اس کے معاملے میں اس حد تک پوری طرح رواداری کا قائل ہے کہ اس کے حامی و وارث بھی زندگی کا پورا پورا حق رکھتے اور اپنے مذہب و مراسم کو بجالانے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ [/green][/size=4][/right] [size=4][right][blue]اسلام کی ان تعلیمات کو سوسائٹی میں فروغ دیجیے ۔ توحید و رسالت و آخرت اور بلند اخلاقی و انسان دوستی پر مبنی اسلامی پیغام کو پھیلائیے ۔ جب معاشرے کی اکثریت اس پیغام کو اپنی فطرت، اپنی روح اور اپنے دل و دماغ کی آواز و صدا سمجھ کر قبول کر لے گی اور اسے اپنی زندگی بنالے گی، اسلامی نظام و قانون آپ سے آپ سماج کے ماحول اور اجتماعی نظم کو بدلنا اور اسے صالح و پاکیزہ بنانا شروع کر دیں گے ۔ اور وہ وقت بھی آجائے گا جب وقت کا حکمران دور کسی دریا کے کنارے مرنے والے بھوکے کتوں کے لیے بھی فکرمند و پریشان ہو گا، وقت کا خلیفہ اور حکمران ایک عام آدمی کی طرح قاضی کی عدالت اور کٹہرے میں کھڑ ا ہو گا اور سستا اور فوری انصاف لوگوں کے در پر دستک دے گا اور ان کی چوکھٹ پر خود چل کر جائے گا۔وہ وقت دوبارہ لوٹ کر آ سکتا اور تاریخ کا نقشہ پھر سے اسی ڈھب پر استوار ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ طریقہ اور طرز اپنایا جائے جو خدا کے رسول اور آپ کے جلیل القدر اصحاب نے اپنایا تھا۔ وہ طریقہ زور زبردستی، لڑ ائی جھگڑ ے ، قتل و غارگری اور سیاست بازی کا طریقہ نہیں تھا بلکہ سراپا امن و خیرخواہی بن کر خدا کے پیغام و کلام کو عام کرنے اور لوگوں کو توحید و رسالت و آخرت کے حقائق پر ایمان لانے کی دعوت دینے کا طریقہ تھا۔ بلند اخلاقیات اور انسانی الفت و ہمدردی کو اپنی زندگی بنا کر جینے کا طریقہ تھا۔ ہم بھی اسی طریقے کو اپنا کر اور رسول و اصحابِ رسول کے نقوشِ سیرت کو اختیار کرکے ہی اپنے معاشرے کے افراد کے فکر و عمل میں تبدیلی اور اس کے نتیجے میں سوسائٹی میں بحیثیتِ مجموعی درجہ بدرجہ ایک پائیدار و مضبوط انقلاب لا سکتے اور اپنے معاشرے کو زبانی ہی نہیں عملی، واقعاتی اور حقیقی طور پر اسلام کا گہوارہ اور قلعہ بنا سکتے ہیں ۔[/blue][/right][/size=4][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top