Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Qanoon-e-Itmam e Hujjat ( Javed Ghamidi - Q&A )
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]اس اہم ویڈیو کو سمجھنے کے لئے نیچھے دی گئی مختصر عبارت کو ضرور پڑھ لیں۔ اس ویڈیومیں اس موضوع کی شرح و وضاحت میں چند سوالات کیے گئے ہیں۔ " یٰآَیُّھَا النَّبِیُّ، اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٰ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا. ﴿الاحزاب ۳۳ : ۵۴-۶۴﴾ ’’اے پیغمبر ،ہم نے تمھیں گواہی دینے والا اور خوش خبری پہنچانے والا اور انذار کرنے والا اور اللہ کے اذن سے اُس کی طرف دعوت دینے والا اور ﴿انسانوں کی ہدایت کے لیے﴾ ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب دعوت ہے جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں پوری تفصیل کے ساتھ کر دی ہے۔ اللہ کے جو پیغمبر بھی اِس دنیا میں آئے ،قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِسی دعوت الی اللہ اور انذار و بشارت کے لیے آئے۔ سورۂ بقرہ کی آیت ’کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٰنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ‘ ۱ میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ اِن نبیوں میں سے اللہ تعالیٰ نے جنھیں رسالت کے منصب پر فائز کیا ،اُن کے بارے میں البتہ ، قرآن بتاتا ہے کہ وہ اِس انذار کو اپنی قوموں پر شہادت کے مقام تک پہنچا دینے کے لیے بھی مامور تھے ۔ قرآن کی اصطلاح میں اِس کے معنی یہ ہیں کہ حق لوگوں پر اِس طرح واضح کر دیا جائے کہ اِس کے بعد کسی شخص کے لیے اُس سے انحراف کی گنجایش نہ ہو : ’لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ‘ ۲ ﴿تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے ﴾۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں ۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اِس سے انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی ۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیا جا تا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگو ں تک پہنچا دیں ۔یہی شہادت ہے ۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت ،دونوں میںفیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اور اِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں ۔ سورۂ احزاب کی اِن آیات میں ’شاھدًا‘ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِسی منصب کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔ نبیوں کا انذار و بشارت تو کسی وضاحت کا تقاضا نہیں کرتا، لیکن رسولوں کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انذاروبشارت کے ساتھ وہ شہادت کی جس ذمہ داری کے لیے مامور ہوتے ہیں ، اُس کے تقاضے سے اُن کی دعوت کے چند مراحل اور اُن مراحل کے چند لازمی نتائج ہیں جو اُنھی کے ساتھ خاص ہیں ۔یہ دعوت کی کسی دوسری صورت سے متعلق نہیں ہیں http://goo.gl/lDi2xY[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top