Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Purpose of Life and Religion
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b]میرے محترم بھائی اسلم میر نے جو جواب دیا ہے وہ بلاشبہ اس امت کی پچھلی دو صدیوں کی تاریخ میں ایک انوکھی علمی دریافت ہے ۔ خدا کی کتاب کا تدبر و تفکر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اس میں یہ بات ایک واضح اور دوٹوک فیصلے کی حیثیت سے نمایاں نظر آئے گی، مگر مسلمانوں کی سب سے بڑ ی علمی و تاریخی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ انہوں نے اپنے افکار و تصورات کی اساس خدا کے کلام کو بنانے کے بجائے پہلے سے چلے آتے نظریات یا نئے زمانے کے پیدا کردہ حالات اور اپنے وقت کے دورِ رواں کے ابھرتے اور غلبہ حاصل کرتے فلسفوں اور نظام ہاے حیات کے تناظر و ردِ عمل کے نتیجے میں بننے والے اپنے رجحانات کو بنایا ہے ۔ ملت مسلمہ کی یہ بڑ ی سنگین درجے کی غفلت اور اس کے نتیجے میں نہایت افسوسناک سطح کی بدقسمتی رہی ہے کہ خدا کی کتاب کو حکم و میزان اور برہان و فرقان نہ بنانے کے باعث اس نے فکر و عمل کی بے شمار کجیوں اور کوتاہیوں کو اپنے درمیان جگہ مہیا کی اور پروان چڑ ھنے دیا۔ نتیجتاً کتنے ہی مخلص و صاحبِ جوش و جذبہ مسلمان غلط راستوں میں اسلام کی سربلندی اور غلبے کی آرزوؤں اور امنگوں میں سرفروشیوں اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے ۔ لیکن یہ ایک واضح و روشن حقیقت ہے کہ اسلام ایک انسان کے سامنے تزکیۂ نفس کے نصب العین کے علاوہ کوئی اور مقصد و ٹارگٹ نہیں رکھتا۔ حکومت الہیہ کا قیام یا اقامت دین اپنے جدید معنوں میں جیسے نظریات اور مطالبات دین اسلام کے لیے سراسر اجنبی اور نامانوس ہیں ۔ جہاد و تشدد اور جبر و ا کراہ کے بل بوتے پر اگر لوگوں کو ایمان و اسلام کے حلقے میں لانا مقصود و مطلوب ہوتا یا شرعی احکام و قوانین کا بالجبر یا احتجاج و مارچ جیسے ہنگاموں کے ذریعے نفاذ و رواج مطلوب و مفروض ہوتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے یہ کام خود ہی کیوں نہیں کر دیے ۔ اور کیوں بلاوجہ اپنے بندوں کو لڑ انے اور باہم فساد و خونریزی مچانے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور پھر کیوں اپنی کتاب میں اس طرح کے واشگاف اعلانات فرمائے کہ ’لا ا کراہ فی الدین‘ دین کے معاملے میں کوئی جبر (روا) نہیں ۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کی ابتدائی زندگیاں کیوں ان مقاصد کے حصول کی جدوجہد سے بالکل خالی اور کفار کے ہر طرح کے ظلم و ستم اور شقاوت و قساوت کے مقابلے میں صبر و برداشت اور تحمل و اعراض سے بھری نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ بہت سے اصحاب ایمان لانے کے بعد اسی دور میں دنیا سے وقتاً فوقتاًرخصت بھی ہوتے رہے ۔ تو کیا وہ دین کے نصب العین کو جاننے اور اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرنے کی سعادت پانے سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی بعد کی زندگیاں بھی موجودہ زمانے میں مشہور و رائج مفاہیم کے لحاظ سے ان مقاصد اور ان کے حصول کے لیے موجودہ طرز کی کاروائیوں اور حکمت عملیوں سے خالی ہیں لیکن ہم ان سے محض طولِ بحث سے بچنے کے لیے صرف نظر کر لیتے ہیں کیوں کہ ان میں خدائی سزا کے بطور ہونے والے جنگ و قتال کو غلط تعبیر و تشریح کر کے اپنے نظریات کے حق میں استدلالی مواد کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ۔ تزکیۂ نفس مشہور و معروف اسلامی اصطلاح ہونے کی وجہ سے بظاہر سادہ سی بات نظر آتی ہے مگر حقیقتاً یہ پوری زندگی اور اس کے تمام شب و روز جاری رہنے والی ایک مستقل و مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔ اسی کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا گیا ہے اور قرآن کے چار مقامات پر خدا کے نازل کردہ کتاب (شریعت) اور حکمت (ایمان و اخلاقیات) کی تعلیم کو اس کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ کتاب و حکمت خدا کے پورے دین کی تعبیر ہے ۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلام سے ملا ہوا دین قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے اور یہی قرآن و سنت وہ مصادر و منابع ہیں جن میں یہ کتاب و حکمت پورے کا پورا موجود ہے ۔ آسان لفظوں میں ہم اسے دین کا علم و عمل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تو گویا کہ تزکیہ کے حصول کے لیے دین کے علم و عمل سے واقف اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ دین کا علم انسان کے فکر کا تزکیہ کرتا ہے اور دین کے اعمال اس کے ظاہری وجود کو پاک صاف بناتے ہیں ۔ توحید و رسالت پر ایمان، آخرت پر اعتقاد اور ملائکہ وغیرہ غیبی حقیقتوں پر یقین، اسی طرح کھانے پینے کے معاملات میں حلال و حرام اور خبیث و طیب کی تمیز انسان کے علم وفکر اور اس کے عمل و اخلاق کی پاکیزگی کی چند نمائندہ مثالیں ہیں ۔ بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دین کا مقصود و نصب العین تزکیہ کا حصول ہے اور یہی ہر ہر فرد انسانی کا مطلوب و نشانہ ہونا چاہیے ۔ اسی کی بنیاد پر انسان کی نجات اور جنت میں اس کے مقام کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ اور یہ ایک ایسا ٹارگٹ ہے کہ جس سے انسان زندگی کے کسی بھی لمحے اور موڑ پر غافل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہر وقت اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ علم و عمل کی کوئی گندگی یا آلائش اس کے تزکیے کو متأثر کرڈالے ۔ لہٰذا یہی وہ جہاد ہے جو زندگی بھر جاری رہتا اور ایک مؤمن و مسلم کو ہر پل بیدار و ہوشیار رکھتا ہے ۔ مزید آسانی کے لیے ہم اسے خدا اور بندوں کے حقوق کے عنوان سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اصل میں ایک انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ خدا و خلق کے حقوق پورے کے پورے ادا کر دے ۔ وہ خدا کا نیازمند بندہ اور اس کی مخلوق کا مہربان و مخلص اور ہمدرد و خیرخواہ بن کر جیے ۔ ایسا انسان ایک بلند اخلاق انسان، دوسروں کے لیے بے ضر ر و بے مسئلہ شخصیت اور خدا کا آخری حد تک فرماں بردار و وفادار بندہ ہو گا۔ اور اسی روش پر مبنی اس کی زندگی اسے نجات و فلاح کا حق دار بنائے گی۔ایسا شخص ایمان و عمل صالح کی مکمل تصویر ہو گا۔ خدا کے لیے سراپا خضوع و تذلل، عاجزی و انکساری اور انسانوں کے لیے سراپا رحمت و شفقت، رأفت و عنایت ہو گا۔ تزکیہ اصلاً روحانی مشاہدات یا کرامات و خارق عادت کمالات کے حصول کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب سادہ طور پر علم و عمل کو ہر طرح کے فسادات، آلائشوں اور خباثتوں سے پاک بنانا اور اس پاکیزگی کو بڑ ھاتے رہنا ہے ۔ جس طرح مؤمن کا سفرِ معرفت کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح تزکیے کا میدان لامحدود ہے اس کا بھی کوئی کنارہ اور سرحد نہیں ہے ۔ یہ بڑ ھتا گھٹتا رہتا ہے لیکن اگر بڑ ھاتے رہو تو کبھی بڑ ھنا بند نہیں ہوتا۔ الغرض روز مرہ زندگی میں اخلاق و شرافت اور تہذیب و آداب کے ساتھ جینا اور توہمات و خلاف حقیقت تصورات و اعتقادات سے خود کو بچانا، اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ جب تک زندگی باقی ہے تزکیے کے حصول و افزائش کی جدوجہد چلتی رہتی ہے اور زندگی کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے ، اس سے پہلے کبھی نہیں ۔ محترم بہن سارہ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ ہم غیر مسلموں تک تزکیۂ نفس جو کہ اسلام کا اصل مقصود ہے ۔ اس کا پیغام کیسے پہنچائیں ۔ میں گزارش کروں گا کہ اس طرح کے ماحول میں دعوت کی ترتیب کیا ہو گی اس کا بیان خود قرآن مجید میں یہ ہے کہ بنیادی مسلمات سے بات شروع کی جائے ۔ اس دنیا کی سب سے بڑ ی سچائی اور اس عالم کی سب سے برتر حقیقت اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کا کسی نہ کسی شکل میں اقرار و تصور رکھتے ہیں ۔ اسے ہی گفتگو کی اولین بنیاد بنایا جائے ۔ خدا کے وجود، اس کی کارفرمائی، اس کی ہدایت، اس کی پسند و ناپسند، آخرت ، اس کے نمائندہ پیغمبرانِ گرامی، اس کی نازل کردہ آسمانی کتابیں اور عالمی طور پر انسانیت کا مشترکہ ورثہ و سرمایہ بنیادی اخلاقیات جیسے موضوعات پر دلنشین، سنجیدہ، ہمدردانہ اور خیرخواہانہ انداز میں بات شروع کی جائے ۔ شرک کی نفی کی جائے ، اس کا بے بنیاد، غیر علمی و عقلی اور سراسر خلاف فطرت ہونا جیسے پہلو واضح کیے جائیں ۔ اسلام کے تاریخی استناد اور جدید حقائق و انکشافات کے اسلامی معتقدات و تعلیمات کے حق میں تائیدی بیانات و عنوانات کو زیرِ بحث لایا جائے ۔ خیر اس میں اصلاً تو اس پہلو کو دیکھا جائے گا کہ مخاطب کون ہے ؟ اس کی ذہنی و فکری سطح کیا ہے ؟ اس کے لیے کس ٹاپک اور اشو پر بات کرنا مفید و مؤثر ہو سکتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ میں تو اس سلسلے میں بڑ ی انوکھی انوکھی مثالیں ملتی ہیں کہ مثال کے طور پر کسی نے اسلامی حکومت کے سربراہ کو قانون کی ماتحتی کرتے اور عام آدمی کی طرح عدالت میں حاضر ہوتے دیکھا تو اسے اسلام کی یہ مساوات اور عدل و انصاف پسندی کے یہ غیر معمولی طور پر ممتاز پہلو اتنے پسند آئے کہ وہ اسی بنیاد پر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر معمولی ایثار و عطا اور آپ کے برتر اخلاق و اوصاف سے قائل ہوکر اسلام لے آیا، کوئی قرآن کے کسی حصے یا آیت کو سن کر اس قدر متأثر ہوا کہ محض یہی تجربہ اس کے قبول اسلام کا سبب بن گیا۔ وغیرہ وغیرہ لہٰذا اس باب میں مختلف لوگوں کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہی مفید و مناسب ہو سکتا ہے ۔ اس کا فیصلہ اس شخص کو کرنا ہے جسے کسی غیر مسلم شخص سے سابقہ پیش آیا ہے اور وہ اسے اسلام کی دعوت پہنچانے کا جذبہ رکھتا ہے ۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے حلقے کے کسی اہل علم و صاحب فہم شخص سے اس غیر مسلم کی ملاقات کرادی جائے ۔ غرض اس معاملے میں بنیادی بات یہ ہے کہ اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے مسلمات اور اتفاقی بنیادوں پر توجہ دی جائے اور بات اساسی پہلوؤں اور اخلاقی بنیادوں سے شروع کر کے آگے بڑ ھائی جائے ۔ قرآن کا کوئی بہتر ترجمہ یا کسی اسلامی مفکر و ا سکالر کی کوئی اچھی دعوتی یا اسلام کے تعارف پر مبنی کتاب بھی اس سلسلے میں کسی غیر مسلم کو مطالعے کے لیے دی جا سکتی ہے ۔ بس یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اپنے کسی بھی قول و عمل سے اسے بدکایا اور بدظن نہ کیا جائے بلکہ ہر ہر ادا سے اس کا دل موہ لینے اور اسے متأثر کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بالخصوص اپنے اعلی اخلاق و کردار اور شائستہ برتاؤ اور ہمدردانہ و خیرخواہانہ رویوں کے ساتھ اس کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے ۔ پھر جب کوئی اسلام کے قریب ہوجائے اور اس کے دائرے میں آجائے تو ایک ترتیب و تدریج کے ساتھ اسے روز مرہ کے آداب و فرائض، اسلام کی دوسری تعلیمات، احکامات اور تفصیلات بتائی جائیں ۔ اسی میں تزکیۂ نفس کے مقصود و مطلوب اصلی ہونے کی بات بھی آجائے گی۔ باقی آپ نے محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کے جس قضیے کا ذکر کیا ہے ، میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ تاہم ان کی راے مجھے زیادہ معقول و مناسب اور مضبوط معلوم ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے ۔ اس کا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے ۔ وہ فطرت و وجدان کے شعور و رجحانات، اخلاقی احساسات، صحف انبیا اور ایسے عقلی و تاریخی مسلمات پر کھڑ ا ہوا ہے کہ ہر مسلم و غیر مسلم کے ساتھ پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ اس کے حوالے سے گفتگو کی جا سکتی اور اس کے سامنے اس کی دعوت رکھی جا سکتی ہے ۔ اس معاملے میں ہرگز کوئی رکاوٹ اور پابندی نہیں ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام کی ترجمانی و نمائندگی کرنے والے اہل اور لائق انسان ہونا چاہیے ۔ اصل مقدمے کی تفصیلات اور فریقین کے خیالات اور استدلالات اگر میرے سامنے ہوتے تو میں بھی تفصیل کے ساتھ کسی جانب اپنے رجحان اور اس کے دلائل عرض کر دیتا۔ چونکہ تفصیلات ہمارے سامنے نہیں ہیں اسی لیے ہم اوپر دیے گئے اپنے اصولی و اشاراتی بیان ہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ [/b][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top