Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Purpose of Life and Religion
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b]محترم بھائی اسلم میر آپ نے بڑ ا اچھا سوال کیا ہے لیکن یہ ایک ایسا ٹاپک ہے جو تفصیلی جواب بھی چاہتا ہے اور اس معاملے میں یہ امکان بھی پوری طرح موجود ہے کہ اس تناظر میں سوچنے سمجھنے اور غور کرنے والوں کی راے اور تجزیات مختلف ہوں ۔ ان تمہیدی گزارشات کے بعد میں بغیر کسی توقف کے عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک مسلمانوں کا اپنے اولین مثالی ادوار کے بعد بتدریج مختلف فرقوں ، مسالک اور گروہوں میں بٹتے چلے جانا اور علم و فکر کا میدان ہو یا عمل و طریقۂ کار کے شعبہ جات، ہر ایک کے معاملے میں بے شمار را ہوں ، راستوں اور پگڈنڈیوں میں منتشر و تتر بتر ہوجانا اور اس سفر میں باہمی دشمنیوں ، عداوتوں اور تکفیر و تضلیل بازیوں بلکہ اس سے بھی آگے بڑ ھ کر قتال و جدال اور باہمی خون ریزیوں تک کے واقعات سے اسلامی تاریخ یا مسلمانوں کی تاریخ کو بدنما داغ دھبوں سے بڑ ے پیمانے پر داغدار بنادینا اور پھر بالخصوص پچھلی دو تین صدیوں میں جہادی و متشددانہ افکار سے متأثر و مغلوب ہوکر ساری غیر مسلم دنیا کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے جہاد و قتال اور مختلف شکلوں میں لفظی و قلمی اور لسانی و ہتھیاری اور احتجاجی و مظاہراتی اور نہ جانے کن کن صورتوں میں نبرد آزما اور برسرجنگ و جدال ہونا جیسے تمام سانحات کے بہت سے عوامل و اسباب ہیں جن کے باعث یہ تمام افسوسناک تفصیل ایک واقعی دفترِ حقیقت و واقعہ بنی ہے ۔ ذیل میں میں اپنے علم و فہم کے مطابق ان اسباب و وجوہات کی کچھ تفصیلات عرض کیے دیتا ہوں : ۱) سب سے پہلی چیز، مسلمانوں کا قرآن مجید سے بتدریج اشتغال کم ہوتا چلا گیا۔ آہستہ آہستہ فقہ و حدیث مسلمانوں کی توجہات اور تحقیقات و تدقیقات کا مرکز و محور بنتے چلے گئے ۔ فقہ و حدیث سے اشتغال و اتصال اپنی جگہ گو کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے غیر دینی یا قابل اعتراض قرار دیا جائے لیکن ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ قرآن بالکل ہی پس پشت چلا گیا اور نظر انداز ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ یہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مسلمانوں کا تعلق بالقرآن مضبوط و مستحکم رہے ، اُن میں سے بعض نے اپنے اس بڑ ھے ہوئے جذبہ کی زور دار لہروں میں بہہ کر قرآن کے فضائل اور اس کے مطالعے کے ثمرات و بشارات پر مبنی عجیب و غریب حدیثیں تک گھڑ ڈالیں ۔ قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کی مخصوص تعداد میں تلاوت کے جو ہوش ربا فضائل معاشرے کے ماحول میں عام سننے کو ملتے یا بعض دیگر مخصوص سورتوں کی خصوصی تلاوت و ورد سے مختلف مشکلات و امراض سے شفا و نجات اور طرح طرح کے آفات و مصائب سے چھٹکارے کی پیشن گوئیاں ہر طرف سنائی دیتی ہیں ، یہ اسی اعراضِ قرآن کے ظاہرے کے رونما ہونے کے بعد قرآن سے محبت و انس رکھنے والوں کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے گھڑ ے گئے اس طرح کے روایات کے ذخیرے کے کمالات اور کرشمے ہیں ۔ عام معلوم بات ہے کہ انہونی باتیں اور معمولی کاموں پر اجرِ کثیر کی بشارات اور بلاؤں اور آفتوں سے بچنے کے وظائف اور نسخے عوام میں بہت جلد اتنا مقبول و مروج ہوجاتے ہیں کہ پھر ان کو جڑ سے اکھاڑ نا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں رہتی۔ ۲) جس طرح قرآن سے دوری نے وضع احادیث جیسے فتنے کو جنم دیا، اسی طرح دنیا کے مال و اسباب کی فراوانی اور اموالِ غنیمت کے راستوں سے آنی والی معاشی و مادی خوشحالی نے مسلم دنیا میں دنیا پرستی کو فروغ دینا اور آخرت سے بے توجہی اور غفلت کو عام کرنا شروع کر دیا۔ اس ظاہرے نے کچھ اور نیک دل اور آخرت پسندی کا رجحان رکھنے والوں اور دنیا اور اس کے اموال و اسباب اور رونق و رنگینی سے پرہیز کرنے والوں اور انہیں فتنہ و فساد کی دلدل سمجھنے والوں کو اکسایا۔ انہوں نے لوگوں کو دنیا کی محبت و پرستش سے نکالنے کے لیے دنیا اور اس کی گرویدگی کی مذمت کرنا اور لوگوں کو آخرت پسندی کی طرف مائل کرنے کے لیے وعظ و نصیحت کی محفلیں منعقد کرنا شروع کیں اور اس بات پر زور دیا کہ لوگ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اپنی ترجیح بنائیں اور اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوں ۔ یہ لوگ عملاً بھی دنیا اور اس کی آسائشات و لذات سے کتراتے اور سادہ زندگی اور سادہ رہن سہن پر اصرار کرتے تھے ۔ ابتدا میں یہ معاملہ بس یہیں تک تھا۔ لیکن اس نے مزید ترقی کی اور پھر یہ آگے بڑ ھ کر تصوف کے ایک نظریے اور ادارے کی شکل میں نمایاں سے نمایاں اور اسلامی دنیا میں زیادہ سے زیادہ رائج و مقبول ہوتا چلا گیا۔ بعد میں اس نے تدریجاً اسلام کے متوازی ایک مابعد الطبیعیاتی فلسفے اور نظام عمل یا آسان لفظوں میں ایک پورے دین کی شکل و صورت اختیار کر لی۔ ۳) قرآن کو عملاً چھوڑ نے کے بعد اس امت کے اہل علم فقہ و حدیث کے میدانوں میں داد تحقیق دینے میں مصروف ہوگئے تھے ۔ اس عمل نے آگے چل کر مختلف مکاتب فکر اور متعدد مسالک فقہ کے اسکولز کا روپ ڈھارا۔ ہر مسلک و فقہی ا سکول کا جداگانہ نظام اصول و فروع تھا۔ تاہم شروع شروع میں ان کے باہمی اختلافات علمی آداب کے مروج ہونے اور رسول و اصحاب رسول سے چلنے والی اخلاقی و عملی روایت کے مضبوط شکل میں موجود ہونے کے باعث باہمی احترام و محبت کی اقدار کو مٹا نہ سکے اور وہ تفرقہ و تعصب اور تکفیر و تذلیل کا ہنگامہ اور باہمی فساد و بگاڑ کے واقعات وجود میں نہیں آئے جو اس دورِ حاضر کی نمایاں ترین چیزوں میں سے ایک ہیں ۔ لیکن آگے چل کر ان فقہی اختلافات اور ا سکولز نے بھی تعصبات و گروہ بندیوں کے جراثیم پھیلانے شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ ان کی کوکھ سے برآمد ہونے والے علمی اختلافات ایسی متعصبانہ و متشددانہ صورت اختیار کرگئے کہ بعد کے ادوار میں پہلے کے ادوار کی اخلاقی و عملی روایت قائم نہ رہ سکی۔ جس کے باعث باہمی احترام بھی ختم ہوا، تکفیر و تضلیل کے فتاویٰ بھی مرتب ہوئے ، نماز کی جماعت بھی الگ ہوئی، الگ الگ مدارس و مکاتب بھی وجود میں آئے اور ان اختلافات و تفرقات نے باہمی لڑ ائی اور تشدد کے بھی مختلف رنگ اختیار کیے ۔ ۴) مسلمانوں کو اسلام کی بدولت دنیا کے بیش تر حصے پر جو غلبہ و اقتدار اور بے تحاشا دولت و وسائل حاصل ہوئے اور جس طرح دنیا کے ایک بڑ ے حصے پر انہیں بلاشرکتِ غیرے حکومت و فرمانروائی کے مواقع میسر آئے ۔ ان چیزوں نے ان کے اندر عیاشی، آرام طلبی، سستی و کاہلی، نوابی، دنیا پرستی اور دیگر امراض بھی عام کیے ۔ ان کا ذہن یہ بن گیا کہ یہ دنیا پر حکومت کرنے اور عیاشی کی داد دینے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کا مقام و حیثیت ہی یہی ہے کہ وہ دنیا کی قوموں کی قیادت کریں اور ان کی دولت کو اپنی خواہشات اور عیاشیوں اور رنگ رلیوں کی مدوں میں بے دریغ لٹائیں ۔ اس ذیل میں مسلم حکمرانوں نے مسلم و غیر مسلم حکومتوں اور گروہوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی، جس طرح انہیں لوٹا اور تاراج کیا اور دنیا کے زرخیز اور وسائل و قدرتی ذخائر سے مالا مال علاقوں پر بلاجواز فوج کشی کر کے قبضہ جمائے وغیرہ، اس عمل نے بھی مسلمانوں کے مجموعی فکر و عمل پر اپنے دور رس اثرات چھوڑ ے ۔ ۵) یہ تمام عوامل مختلف وقتوں میں روبعمل ہوتے رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی وسعت و پھیلاؤ اور اثرات و نتائج میں شدید ہوتے گئے ۔ تاآنکہ تاریخ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ غیر مسلم دنیا نے بیدار ہوکر اور علم و ٹکنالوجی کی دنیا میں نئی نئی دریافتوں اور برتریوں کے بل پر مسلم ممالک پر اپنا قبضہ جمالیا اور مسلمانوں کی حکومت و خلافت کو ماضی کی ایک داستان میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں ایک رد عمل شروع ہوا اور وہ جو حکمرانی اور قیادت و سیادت کی نفسیات میں جی رہے تھے اور اس کے علاوہ اپنے لیے کسی حیثت و مقام پر راضی ہونے کے لیے بالکل تیار نہ تھے انہوں نے اس صورتحال کو بدلنے اور اپنے غلبے اور حکومت و خلافت کو پھر سے قائم کرنے کے لیے تگ و دو اور جدوجہد شروع کر دی۔ سیا سی مزاحمت اور رد عمل کی اس گرمی نے بھی مسلمانوں کے درمیان بہت سے مفکرین کو اٹھایا جنہوں نے الفاظ و اسالیب کے اختلاف کے ساتھ ایک ہی دعوت اور فکر مسلمانوں کے سامنے رکھی کہ مسلمان اس زمین پر خدا کا نائب و خلیفہ ہے اور اسی کی یہ حیثیت ہے کہ دنیا کا اقتدار اور تختِ فرمانروائی اسے حاصل ہو اور دنیا کی قومیں اس کی ماتحت بن کر رہیں ۔ ایسا جب تک نہیں ہوتا اور طاغوت جب تک مغلوب نہیں ہوجاتا دنیا میں سے ظلم و فساد اور بگاڑ و برائی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ اور نہ مسلمانوں ہی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے دین پر اجتماعی طور پر عمل پیرا ہونا تو دور کی بات رہی انفرادی طور پر ہی پوری طرح عمل پیرا ہو سکیں ۔ اور یہ کہ اسلام اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ لوگ انفرادی طور پر اس سے وابستہ رہیں لیکن زندگی کے تمام اجتماعی شعبوں میں طاغوت کی حکمرانی اور غلبہ قائم رہے اور اسلامی احکام و قوانین معلق ہوکر پڑ ے رہیں ۔ یہی وہ سوچ و فکر ہے جس کی صدا اس دورِ ہنگامہ خیز میں مسلمان ملت کے مختلف اطراف سے مختلف نمائندہ اشخاص نے بلند کی اور اس زور و قوت اور تسلسل کے ساتھ بلند کی کہ وہی ان کا عمومی فکر و عمل بن گئی۔ مسلمانوں کی موجودہ تمام جہادی تحریکیں اور متشددانہ تنظیمیں اسی فکر و ذہنیت کی کوکھ سے نمودار ہوئی ہیں ۔ بیک گراؤنڈ میں نام مختلف ہو سکتے ہیں ، اصطلاحات و اسالیب اور طریقۂ کار میں بھی کچھ فرق ہو سکتا ہے ، لیکن اصلاً یہ تمام ایک ہی ماں کی بیٹیاں اور ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد دنیا پر اسلام کا غلبہ قائم کرنا اور زندگی کے تمام اجتماعی شعبوں میں اسلامی احکام و قوانین کا اجرا ہے ۔ نظام مصطفی، شریعت کا نفاذ، مطالبۂ نظام اسلامی سب اسی کے معروف اور مختلف روپ ہیں ۔ اوپر کی تفصیل اس باب میں میرے مطالعے کا ایک حاصل ہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی سوال کے جواب میں کوئی مفصل مقالہ یا مرتب و جامع مضمون تو نہیں پیش کیا جا سکتا بلکہ ایک حاصل مطالعہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ویسے بھی میں کوئی باقاعدہ محر ر و مضمون نگار نہیں ہوں ، ایک عام سا لکھنے والا ہوں ۔ لہٰذا اوپر میں نے اس باب میں اپنے فہم کے مطابق ایک نقشہ پیش کر دیا ہے جس نے مسلمانوں کو منتشر کیا اور ایسی را ہوں میں سرگرمِ سفر کر دیا جن کا کوئی مثبت نتیجہ ان کے مقدر میں نہیں آیا، انہیں کچھ ملا تو محرومی اور مسائل و آفات میں اضافے کی تاریکی۔ لیکن اس باب میں ایک اہم پہلو وہ علاج و تجاویز بھی ہیں جو اب مسلمانوں کو ان حالات اور اس بھیانک صورتحال سے نکالنے کے لیے صاحب درد مخلصین کو اپنے پیش نظر رکھنی اور زیر عمل لانی چاہیے ۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک نہایت تفصیل طلب سوال ہے ۔ لیکن میں اس کا مختصر جواب دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے پہلے مسلمانوں کو قرآن مجید کی طرف لوٹنا چاہیے اور ہر طرح کی فرقہ وارانہ سوچ و کاروائی سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اپنے اختلافات کو علمی آداب و شائستہ انداز ہی میں زیرِ بحث لانا چاہیے ۔ اپنی راے پر اصرار کے ساتھ دوسرے کے مؤقف کے صحیح و درست ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اختلاف کے باوجود دوسروں کے ادب و احترام کی اولین ادوارِ اسلام کی روایت کو زندہ اور رائج کرنا چاہیے۔ پھر عام مسلمانوں کو دین کے معاملے میں سنجیدہ ہونا چاہیے انہیں جاہل اور پیشہ ور مولوی قسم کے دینی پیشواؤں اور کم علم قسم کے واعظین و خطبا کے بجائے سچے اور محقق اہل علم سے دین سیکھنا چاہیے ۔ اسلامی اخلاقیات کو ہر ہر سطح پر پوری جانفشانی و بیداری سے اپنانے اور رواج دینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ غیرمسلموں سے نفرت و عداوت کے بجائے انہیں بھی خدا کی مخلوق محسوس کرتے ہوئے ان سے محبت و ہمدردی کا تعلق رکھنا چاہیے ۔ ہمارا دین تو جانور سے بھی اعلیٰ سلوک کی تعلیم دیتا ہے پھر غیرمسلم گھرانوں اور غیر مسلم دنیا میں پیدا ہونے کے باعث اسلام سے دور لوگوں سے کیسے نفرت کی جا سکتی اور ان کے جان مال آبرو کے حلال ہونے کے احساسات رکھے جا سکتے ہیں ۔ یقینا یہ لوگ بھی ہمدردی و خیرخواہی کے مستحق اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی سلوک و برتاؤ کے حق دار ہیں ۔ اس دور میں مسلمانوں کے درمیان مختلف ناموں سے اصلاحی مقاصد کے پیش نظر بہت سی ایسی تحریکیں اٹھ کھڑ ی ہوئی ہیں جنہوں نے آسانی کے لیے اپنے مختصر نصابات ترتیب دے رکھے ہیں ۔ ان نصابات میں ضعیف و غیر معتبر روایات، بے سر و پا حکایات اور بہت سے نت نئے اجنبی و مبتدعانہ تصورات کی بھرمار موجود ہے ۔ ایسی تحریکیں اور تنظیمیں جو دعوت دیتی اور جو تعلیمات بیان کرتی ہیں وہ اپنی مجموعی شکل میں بہت سی اسلامی اساسات و عبادات و معمولات کو سموئے ہونے کے باوجود اپنی تفصیلی ہیئت و ڈھانچے اور اثرات کے لحاظ سے بہت حد تک غیر اسلامی محسوس ہوتی ہیں ۔ عام مسلمانوں میں ان سے متعلق ہوکر بظاہر نماز و تبلیغ اور دیگر ظاہری دینی علامتوں کی تو ترویج ہوتی ہے لیکن ان کے ذریعے سے ان مسلمانوں کو فکر و عمل کے باب میں پہنچنے والے مضر اثرات بھی کم اہم اور نظر انداز کرنے کے لائق نہیں ہے ۔ ان تنظیموں کے نصابات و مواد کی اصلاح اور ان سے متعلق بے شمار مسلمانوں کے فکر و عمل کو ان تحریکوں کے موجودہ نصابات و مواد کے ذریعے پہنچنے والے نقصانات و مضر اثرات کا ازالہ بھی ایک بڑ ا مشن و میدان ہے ۔ سب سے بڑ ھ کر آج جو ضرورت ہے وہ خدا کے ساتھ اپنے ایمانی و ذاتی تعلق کی تجدید و تشکیل نو کی ہے ۔ اسے مضبوط و مؤثر اور زندہ و توانا بنانے کی ہے ۔ مسلمانوں میں مروج دینداری بہت بڑ ی حد تک بے روح اور کھوکھلی ہو چکی ہے ۔ اس میں سے روح و معنویت اور جذبہ و کیفیت رخصت ہو چکے ہیں ۔ اس صورتحال کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے ۔ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو اخلاص و حساسیت اور جذبات و کیفیات کی شمولیت کے ساتھ از سر نو استوار کرنے کی بہت ضروت ہے ۔ پھر عبادات و دینی معمولات کا رواج بھی بے شعوری کی سطح پر جاری ہے ۔ اس میں بھی جان ڈالنے اور شعور و فہم کو داخل کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کے بجائے اصل ٹھکانہ آخرت ہے اس تصور کو ایک ضمنی عقیدے اور سائڈ پر پڑ ے خیال کے مقام سے اٹھا کر ایک زندہ و جاندار حقیقت کی حیثیت سے توجہات کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔ پھر انفرادی و اجتماعی اخلاق و کردار نہایت پستی و گراوٹ کا شکار ہیں ۔ انہیں درست کرنا اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی اوصاف و کردار سے انفرادی و اجتماعی طور پر آراستہ ہونا بے حد ضروری ہے ۔ بچوں کی تربیت کا نظام و رجحان خطرناک حد تک کم یا بالکل ختم ہو چکا ہے ۔ جبکہ اس کی اہمیت اساسی و کلیدی ہے ۔ اس پہلو کو زندہ کرنے اور بچوں اور نوجوان نسل کی دینی، اخلاقی اور سماجی تربیت و نگہداشت کی روایت کو بھرپور طور پر زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کو سربلند کرنے اور اس کے عزت و وقار کر بڑ ھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سماجی و فلاحی شعبوں اور مادی و ٹکنکل علوم و سائنسز کی طرف بھی بھرپور دھیان دیں ۔ ان میدانوں میں توجہ اور ترقی کے بغیر ہم کبھی مستحکم نہیں ہو سکتے اور نہ ہی قیادت و سیادت اور اقوام عالم میں توانا و مؤثر حیثیت کے مالک بن سکتے ہیں ۔ الغرض معارفِ اسلامی کی تشکیل جدید سے لے کر اس کی بنیاد پر ایک نئے نظام فکر و عمل کو رواج دینے اور اسلامی و سماجی اخلاقیات و کردار کے باب میں بنیادی و اجتہادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کے بعد ہی ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہم دین و دنیا کے حوالے سے سرخرو ہوں اور جو انعامات و کمالات ابتدائی ادوار کے مسلمانوں کا حصہ بنے ، ہمیں بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوجائے ۔ [/b][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top