Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Attainment of Tazkiya nafs?
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b]تزکیۂ نفس کیسے حاصل کیا جائے۔ اسلم میر کے اس سوال کا ابوسیٹ کی طرف سے یہ مختصر جواب نہایت معقول ہے کہ قرآن و سنت پر عمل کرکے حاصل کیا جائے۔ قرآن ہمیں جہاں یہ بتاتا ہے کہ خدا کی ابدی بادشاہی کا مقام جنت ان پاکیزہ لوگوں کا مسکن و رہائش گاہ بنے گا جو اپنے نفس کو علم و عقیدہ اور اخلاق و کردار کی آلائشوں اور نجاستوں سے آلودہ ہونے سے بچاتے ہوئے زندگی گزاریں گے وہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت و رسالت کے منصب پر تقرر کے پس منظر میں یہ بھی بتاتا ہے کہ تزکیۂ نفس کا یہ عمل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کے دین یعنی اللہ کے نازل کردہ کتاب (شریعت، قوانین) اور حکمت (ایمان و اخلاق) کی بنیاد پر کرنا ہے۔ کتاب و حکمت کا یہ بیش بہا ذخیرہ ہی وہ علمی و عملی نصاب ہے جسے اپنی زندگی میں اختیار کرکے ایک مسلمان تزکیۂ نفس کی منزل تک پہنچ سکتا اور خدا کی جنت میں داخلے کا خود کو حق دار بناسکتا ہے۔ سوال کے جواب میں کہنے کو تو یہ ایک بہت درست اور شارٹ سا بیان ہے۔ لیکن عمل کی دنیا میں جب انسان اس روش پر چلنا اور اس نسخے کو استعمال میں لانا چاہتا ہے تو نفس میں موجود شر کے داعیات، شیطان کے وساوس، دنیا کی ترغیبات، حیوانی خواہشات اور دوسرے عوامل و داعیات انسان کو لبھاتے اور اس راستے سے ہٹانے کے لیے پورا پورا زور لگاتے ہیں۔ انہی وجوہ سے یہ سفر ایک نہایت کٹھن سفراور اس نصاب پر عمل ایک سخت امتحان و آزمائش اور صبر و ثابت قدمی کا معاملہ بن جاتا ہے۔ زندگی میں گوناگوں احوال آتے ہیں۔ مختلف طرح کے سرد و گرم حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ محرومی، غم، تکلیف، بیماری اور دوسری مصیبتوں کی شکل میں انسان کی جانچ کی جاتی ہے۔ لوگوں کی طرف سے طرح طرح کے رد عمل اور تجربات پیش آتے ہیں۔ دشواریوں، کانٹوں، رکاوٹوں اور تلخیوں ہر چیز سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں شب و روز حق و انصاف کے راستے پر استوار رہنا اور تزکیۂ نفس کے مقصد کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دینا اور دین کی تعلیمات و معیارات کو اپنے عمل و کردار اور اخلاق و برتاؤ کی تشکیل میں شامل کیے رہنا بلاشبہ زندگی بھر کے ایک مسلسل و زبردست جہاد کا معاملہ بن جاتا ہے جسے نبھانا آسان کام نہیں ہے بلکہ حقیقتا لوہے کے چنے چبانے اور پہاڑ کا بوجھ اٹھانے کے مترادف ہے۔ تاہم انسان اگر عزم مصمم کرلے اور اپنی طاقت و صلاحیت کے بقدر اخلاص و ثابت قدمی کا ثبوت پیش کردے تو پھر خدا اپنے بندے کی مدد پر آجاتا ہے کیوں کہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کو بے آسرا اور تن تنہا نہیں چھوڑتا اور زندگی کے ہر موڑ و مرحلے پر ان کی رہنمائی اور دستگیری کرتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر یہ راہ انسان کے لیے آسان ہوجاتی اور تزکیۂ نفس کے نصب العین تک پہنچنا اس کے لیے ممکن و سہل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس راہ میں غفلت اور لاپرواہی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان کا کھلا دشمن شیطان وسوسہ اندازی سے باز نہیں آتا، نفس امارہ برائیوں کی جانب اکسانا ختم نہیں کرتا اور دیگر شر کے داعیات و عوامل انسان پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہوجاتے۔ اس لیے اس راہ میں انسان کو ہر لمحہ چوکنا رہنا اور ہر دم خدا سے مدد مانگتے رہنا پڑتا ہے۔ اس تمام تفصیل سے ظاہر ہے کہ انسان کا خدا کی جنت کو پانا اسی بات پر منحصر ہے کہ وہ دنیا میں اپنے نفس کا تزکیہ کرلے۔ اس کا راستہ قرآن و سنت یعنی دین اسلام پر چلنا ہے۔ اس راہ میں امتحان پیش آتے اور رکاوٹوں سے سابقہ پڑتا ہے لیکن اگر انسان ہمت نہ ہارے اور اپنا حوصلہ نہ کھوئے اور خدا سے طالب مدد ہو تو پھر خدا اس کی مدد کرتا اور اس کے لیے اس راہ پر چلنا آسان بنادیتا ہے۔ ( By: Isfandyr Azmat on 27-05-2010) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک واضح و روشن حقیقت ہے کہ اسلام ایک انسان کے سامنے تزکیۂ نفس کے نصب العین کے علاوہ کوئی اور مقصد و ٹارگٹ نہیں رکھتا۔ حکومت الہیہ کا قیام یا اقامت دین اپنے جدید معنوں میں جیسے نظریات اور مطالبات دین اسلام کے لیے سراسر اجنبی اور نامانوس ہیں ۔ جہاد و تشدد اور جبر و ا کراہ کے بل بوتے پر اگر لوگوں کو ایمان و اسلام کے حلقے میں لانا مقصود و مطلوب ہوتا یا شرعی احکام و قوانین کا بالجبر یا احتجاج و مارچ جیسے ہنگاموں کے ذریعے نفاذ و رواج مطلوب و مفروض ہوتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے یہ کام خود ہی کیوں نہیں کر دیے ۔ اور کیوں بلاوجہ اپنے بندوں کو لڑ انے اور باہم فساد و خونریزی مچانے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور پھر کیوں اپنی کتاب میں اس طرح کے واشگاف اعلانات فرمائے کہ ’لا ا کراہ فی الدین‘ دین کے معاملے میں کوئی جبر (روا) نہیں ۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کی ابتدائی زندگیاں کیوں ان مقاصد کے حصول کی جدوجہد سے بالکل خالی اور کفار کے ہر طرح کے ظلم و ستم اور شقاوت و قساوت کے مقابلے میں صبر و برداشت اور تحمل و اعراض سے بھری نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ بہت سے اصحاب ایمان لانے کے بعد اسی دور میں دنیا سے وقتاً فوقتاًرخصت بھی ہوتے رہے ۔ تو کیا وہ دین کے نصب العین کو جاننے اور اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرنے کی سعادت پانے سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی بعد کی زندگیاں بھی موجودہ زمانے میں مشہور و رائج مفاہیم کے لحاظ سے ان مقاصد اور ان کے حصول کے لیے موجودہ طرز کی کاروائیوں اور حکمت عملیوں سے خالی ہیں لیکن ہم ان سے محض طولِ بحث سے بچنے کے لیے صرف نظر کر لیتے ہیں کیوں کہ ان میں خدائی سزا کے بطور ہونے والے جنگ و قتال کو غلط تعبیر و تشریح کر کے اپنے نظریات کے حق میں استدلالی مواد کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔ تزکیۂ نفس مشہور و معروف اسلامی اصطلاح ہونے کی وجہ سے بظاہر سادہ سی بات نظر آتی ہے مگر حقیقتاً یہ پوری زندگی اور اس کے تمام شب و روز جاری رہنے والی ایک مستقل و مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔ اسی کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا گیا ہے اور قرآن کے چار مقامات پر خدا کے نازل کردہ کتاب (شریعت) اور حکمت (ایمان و اخلاقیات) کی تعلیم کو اس کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ کتاب و حکمت خدا کے پورے دین کی تعبیر ہے ۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلام سے ملا ہوا دین قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے اور یہی قرآن و سنت وہ مصادر و منابع ہیں جن میں یہ کتاب و حکمت پورے کا پورا موجود ہے ۔ آسان لفظوں میں ہم اسے دین کا علم و عمل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تو گویا کہ تزکیہ کے حصول کے لیے دین کے علم و عمل سے واقف اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ دین کا علم انسان کے فکر کا تزکیہ کرتا ہے اور دین کے اعمال اس کے ظاہری وجود کو پاک صاف بناتے ہیں ۔ توحید و رسالت پر ایمان، آخرت پر اعتقاد اور ملائکہ وغیرہ غیبی حقیقتوں پر یقین، اسی طرح کھانے پینے کے معاملات میں حلال و حرام اور خبیث و طیب کی تمیز انسان کے علم وفکر اور اس کے عمل و اخلاق کی پاکیزگی کی چند نمائندہ مثالیں ہیں ۔ بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دین کا مقصود و نصب العین تزکیہ کا حصول ہے اور یہی ہر ہر فرد انسانی کا مطلوب و نشانہ ہونا چاہیے ۔ اسی کی بنیاد پر انسان کی نجات اور جنت میں اس کے مقام کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ اور یہ ایک ایسا ٹارگٹ ہے کہ جس سے انسان زندگی کے کسی بھی لمحے اور موڑ پر غافل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہر وقت اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ علم و عمل کی کوئی گندگی یا آلائش اس کے تزکیے کو متأثر کرڈالے ۔ لہٰذا یہی وہ جہاد ہے جو زندگی بھر جاری رہتا اور ایک مؤمن و مسلم کو ہر پل بیدار و ہوشیار رکھتا ہے ۔ مزید آسانی کے لیے ہم اسے خدا اور بندوں کے حقوق کے عنوان سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اصل میں ایک انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ خدا و خلق کے حقوق پورے کے پورے ادا کر دے ۔ وہ خدا کا نیازمند بندہ اور اس کی مخلوق کا مہربان و مخلص اور ہمدرد و خیرخواہ بن کر جیے ۔ ایسا انسان ایک بلند اخلاق انسان، دوسروں کے لیے بے ضر ر و بے مسئلہ شخصیت اور خدا کا آخری حد تک فرماں بردار و وفادار بندہ ہو گا۔ اور اسی روش پر مبنی اس کی زندگی اسے نجات و فلاح کا حق دار بنائے گی۔ایسا شخص ایمان و عمل صالح کی مکمل تصویر ہو گا۔ خدا کے لیے سراپا خضوع و تذلل، عاجزی و انکساری اور انسانوں کے لیے سراپا رحمت و شفقت، رأفت و عنایت ہو گا۔ تزکیہ اصلاً روحانی مشاہدات یا کرامات و خارق عادت کمالات کے حصول کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب سادہ طور پر علم و عمل کو ہر طرح کے فسادات، آلائشوں اور خباثتوں سے پاک بنانا اور اس پاکیزگی کو بڑ ھاتے رہنا ہے ۔ جس طرح مؤمن کا سفرِ معرفت کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح تزکیے کا میدان لامحدود ہے اس کا بھی کوئی کنارہ اور سرحد نہیں ہے ۔ یہ بڑ ھتا گھٹتا رہتا ہے لیکن اگر بڑ ھاتے رہو تو کبھی بڑ ھنا بند نہیں ہوتا۔ الغرض روز مرہ زندگی میں اخلاق و شرافت اور تہذیب و آداب کے ساتھ جینا اور توہمات و خلاف حقیقت تصورات و اعتقادات سے خود کو بچانا، اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ جب تک زندگی باقی ہے تزکیے کے حصول و افزائش کی جدوجہد چلتی رہتی ہے اور زندگی کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے ، اس سے پہلے کبھی نہیں ۔ ( By: Isfandyr Azmat on 26-05-2010) اس سلسلے میں تصوف کا کیا رول اور دعوے اور نظریات و طریقۂ کار ہے اس پر شاید پھر کبھی بات کرنے کی نوبت آئے۔ [/b][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top