Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Purpose of Life and Religion
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]نہایت قابل احترام بھائی سیفے میرا!! آپ کی آخری تحریر واقعی لاجواب تھی اور اب میرے خیال سے بحث کو مزید طول دینے کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی ضرورت۔ تاہم اس آخری تحریر کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں : آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنی تحریر میں بہت سے نکات کو بار بار بیان کیا ہے ۔ مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کسی معاملے میں شدتِ اظہار سے کام لینا چاہتا ہے تو وہاں تکرار کا درآنا بالکل فطری اور متوقع بات ہے ۔ آپ کے خیالات سے اتفاق اختلاف سے قطع نظر آپ کے انداز بیان کے بعض پہلو اور آپ کے لکھے ہوئے بعض جملے مجھے بے حد کَھلے ، کیوں کہ ان کے حوالے سے میرا احساس یہ تھا کہ ان میں خواہی نہ خواہی اسلام پر حرف رکھا گیا اور ناروا تنقید و تعریض کی گئی ہے ۔ جیسے آپ نے بڑ ے آرام سے یہ فرمادیا کہ اسلام کے تاریخی رول کو اس کے پیروکاروں کے اعتبار سے آخری درجہ شاندار و پر معیار قرار دینا ممکن نہیں ہے ۔ اگر آپ مسلم تاریخ یا مسلمانوں کے تاریخی کردار کے بارے میں یہی الفاظ اس سے بھی زیادہ سخت و شدید انداز میں لکھتے تو شاید مجھ پر بالکل بھی گراں نہ گزرتا لیکن اس موجودہ ہیئت میں میرے نزدیک اس کے واضح معنی اسلام کو الزام دینے اور مسلمانوں یا مسلم حکمرانوں کی بدکرداریوں کی ذمہ داری میں شریک قرار دینے ہی کے بنتے ہیں ۔ اپنی اسی برہمی و بے چینی کا اظہار میں نے اپنی تحریر میں کیا ہے جس میں شدتِ اظہار کے باعث بہت سے نکات کی تکرار بھی ہوگئی ہے ۔ میں بھی یہی سمجھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ زیرِ بحث امور میں سے اکثر کے معاملے میں آپ اور میں ہم خیال و ہم فکر ہیں ۔ میرے اور آپ کے بیانات و اعتقادات اس طرح کے امور میں مشترک نظریات و احساسات کا درجہ رکھتے ہیں ، تاہم ان کے اظہار و پریزینٹیشن کے اسلوب و انداز کے معاملے میں مجھے آپ سے بہت گہرا اختلاف ہے ۔ کیوں کہ میرا احساس ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مؤقف و آرا کو اس طرح بیان کرتے ہو کہ مجھے اسلام پر زد پڑ تی ہوئی محسوس ہوتی ہے گو آپ اسے اظہارِ بیان کا ایک سادہ ہ بے ضر ر طریقہ گمان کرتے رہو۔ میں بار بار کہہ اور لکھ چکا ہوں کہ مسلمانوں کی ساری کی ساری تاریخ کو سیاہ داستان اور بدی و بدکرداری کا ہفت خواں قرار دے لو، مجھے کوئی غم نہیں اگر چہ میں اس سے اتفاق بھی نہیں کرتا۔ تاہم اس مدعا کے اظہار کے لیے یہ انداز مت اختیار کرو کہ اسلام کو مسلمانوں کی ان ان تاریخی ستم رانیوں اور عیاشی پرستیوں کی وجہ سے سے شرمندہ و مأخوذ ٹھہرنا چاہیے ۔ ہرگز نہیں ، اسلام مسلمانوں کے عام افراد اور ان کے حکمرانوں اور ان کے مجموعی وجود کے ہر طرح کے شر و فساد اور بگاڑ و خرابی اور شقاوت و ضلالت سے پاک و بری الذمہ ہے ۔ یہ بات آپ بھی تسلیم کرتے اور بڑ ے اچھے اور واضح الفاظ میں اس کا اعتراف و اقرار بھی کرتے ہو، لیکن اپنے طرزِ بیان کے مذکورہ قابل اعتراض انداز و اسالیب کو چھوڑ نے یا تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ میں واقعتا کسی تاریخی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا، نہ مجھے اس طرح کے کسی موضوع سے کوئی خاص دلچسپی ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی کسی بحث میں کسی چیز کے ثابت یا رد ہونے یا کسی پچھلوں سے چلے آتے مؤقف کی غلطی کے نمایاں ہونے وغیرہ کسی بھی چیز سے میرے ایمان، اخلاق، کردار اور عمل پر کوئی دور رس اثر پڑ ے گا یا اسلام کی مسلّم حیثیت میں کسی لحاظ سے کوئی فرق واقع ہوجائے گا۔ جہاں تک اس تلقین کا معاملہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ ابتدائی تیس، پینتیس یا چالیس سالوں کے بعد اپنی اصل معیاری حیثیت کھو بیٹھی اور مسلم سلطنتیں اور بادشاہتیں بھی اسی سطح پر اتر آئیں جس پر دنیا کی باقی اقوام موجود تھیں لہٰذا مسلمانوں کو اپنی تاریخ کے بارے میں جھوٹے بھرم و فخر میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ تاریخ کے تمام حقیقی رُخوں کو نگا ہوں کے سامنے رکھتے ہوئے معتدل ومتوازن نقطۂ نظر اور طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ تو یہ اپنی جگہ ٹھیک بات ہے ، گواس تلقین کے لیے مسلم تاریخ کی تفصیل اور اس کے اصلی خد و خال کی حقیقی تصویر کو بیان و نمایاں کرنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ویسے ہی خدا کی ہدایت ہے کہ وہ فخر و مباہات سے پرہیز کریں ۔ انہیں عجز و انکساری ہی زیب دیتی ہے ۔ ان کے شایانِ شان خضوع و تذلل اور خشوع و خشیت ہی ہے نہ کہ فخر و تعلّی اور غرور و ناز کی ادائیں اور سرمستیاں ۔ میرا احساس یہ ہے کہ اس طرح کی بحثوں اور موضوعات میں الجھ کر انسان حاصل تو کچھ نہیں کرپاتا، البتہ اس کے اندر روحانیت، سنجیدگی اور دینی گداز میں ضرور کمی واقع ہوجاتی ہے اور جو لوگ ان چیزوں کی اہمیت کو جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنا بڑ ا نقصان و سانحہ ہے ۔ لہٰذا انسان کو اصلاً اسلام کی خالص و واضح تعلیمات ہی کو اپنی توجہ اور دھیان کا موضوع بنانا چاہیے اور بس یہی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی زندگی اسلام اور خدا کے رنگ میں پوری طرح رنگ کراور اعلیٰ ایمانی کیفیات سے سرشاری کے عالم میں گذرے ۔ نہ کہ ان بحثوں میں الجھ کر وہ اپنے اندر قساوت و بے دردی اور دینی بے حسی کو راہ دینے کی نادانی کرے ۔ اس بحث میں الجھنے سے انکار کے رجحان کو واضح طور پر بیان کرنے کے باوجود جو میں نے آپ کے مؤقف کو مبالغے اور تنگ نظری پر مبنی قرار دیا ہے وہ محض اپنے حاصل مطالعہ کا ایک تأثراتی بیان ہے ۔ جس طرح مجھے حق ہے کہ میں مسلم تاریخ کے حوالے سے کوئی مجموعی تأثر و مؤقف رکھوں ، اسی طرح یہ حق آپ بھی رکھتے ہیں اور جس طرح آپ کو حق ہے کہ آپ مسلم تاریخ کو اپنے زاویے سے دیکھیں اور دوسروں کو دکھائیں ، ایسے ہی میں بھی تو یہ حق رکھتا ہوں کہ اس حوالے سے آپ کے مؤقف پر کوئی مجموعی تبصرہ یا کمنٹ کروں ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس طرح آپ کا نقطۂ نظر علمی و استدلالی طور پر رد نہیں ہوجاتا۔ لیکن میں یہ کر کے دکھانا بھی نہیں چاہتا اور نہ اس میں کوئی دلچسپی رکھتا ہوں بلکہ میرا کنسرن محض یہ ہے کہ اسلام آج بھی زندہ و پائندہ اور پوری آب و تاب سے جلوہ گر و روشن ہے ۔ اس کی تعلیمات اور اس کے ریسورسز بھی پوری طرح موجود و محفوظ ہیں ۔ دنیا میں انسانوں کی ہدایت اور آخرت میں ان کی نجات و خلاصی اسی سے وابستہ ہے ۔ لہٰذا انہیں اس بحث سے احتراز کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنانے کی کوشش و جستجو کرنی چاہیے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار اور وقت کے بہتے دریا کی روانی میں مسلمان کیا کیا گل کھلاتے اور تماشے لگاتے رہے ہیں اس کا حساب ان کا پرودگار اُن سے بروزِ قیامت خود لے لے گا۔ ہمیں دنیا میں ان کا محتسب بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ یہ تاریخی مباحث نہ آج تک فیصل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ان کے صاف ہونے اور سلجھنے کی کوئی ادنیٰ توقع کی جا سکتی ہے ۔ ہمیں یہ تو حق ہے کہ تاریخ کے مطالعے کے بعد اپنے طور پر اس کے بارے میں کوئی مؤقف و راے رکھیں اور اس کی علمی انداز میں تائید و تردید و تنقیح کے لیے بھی مذا کرہ و تبادلۂ خیال کریں ، لیکن ہمیں یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے کسی بھی مسلمان معاشرے یا مسلم حکمرانوں کی چین کی چین کی غلط و ناروا کاروائیوں کا الزام اسلام کو دیں ۔ کسی شخص کو بے شعور، نادان اور جاہل قرار دینے اور اس کے کسی بیان یا حرکت کو بے شعورانہ، جاہلانہ اور نادانہ قرار دینے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا مرد و عورت میں ہوتا ہے ۔ براہِ مہربانی اسے ملحوظ رکھیں ۔ مجھے اپنے جذباتی ہونے کا اقرار ہے ۔ کیوں کہ میں جذبات و احساسات رکھنے والا ایک انسان ہی ہوں ، کوئی مٹی کا بنا بے حس و جذبہ پتلا یا پتھر کی بے جان و شعور مورت نہیں ۔ مسلمان قوم یا مسلم ہسٹری میں جو غلطیاں موجود ہیں اور انہیں دبا کر مسلم تاریخ کا جو غیر واقعی جلوہ و نقشہ دکھایا اور پڑ ھایا جاتا ہے ، ان غلطیوں اور تحریفات اور ناجائز توجیہات وغیرہ کو تسلیم کرنے میں مجھے کوئی باک نہیں ہے ، اگر ان کا ثبوت فراہم کیا جا سکے ۔ میں تو اس بات کا واضح طور پر معترف ہوں کہ مسلم تاریخ میں اور مسلمان حکمرانوں کے ہاں بے شمار غلطیاں ، بدکرداریاں ، عیاشیاں اور قابل اعتراض امور و معاملات رہے ہیں ۔اگرچہ ساری مسلم تاریخ کو سیاہ ابواب و صفحات کا پلندہ قرار دینے پر مجھے سخت اشکال و اعتراض ہے ۔ لہٰذا میرے حوالے سے محترم سیفے میرا کا یہ احساس سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے کہ میں مسلم تاریخ یا مسلمان امہ وغیرہ کے کردار و معاملات کی غلطیوں کے حوالے سے کوئی بات سننے اور ماننے کا روادار نہیں ہوں ۔ میں ہوں ، بالکل ہوں ، آخری درجے میں ہوں ۔ مجھے سیفے میرا کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ اسلام ماضی میں اور موجودہ مسلمانوں کی زندگیوں میں پریکٹس کی سطح پر کہیں بالکل معدوم ہے ، کہیں اس کا کوئی خودساختہ ایڈیشن رائج ہے ، کہیں قطع و برید کے ساتھ نافذ ہے ، کہیں بدعات و فرقہ بازیوں کے ہجوم و ڈھیر میں پڑ ا ہے ، کہیں تعصبات و اکابر پرستی کے بہاؤ میں بہہ رہا اور کہیں مسلمانوں کی مختلف ٹولیوں ، تحریکوں اور فرقوں کے اپنے اپنے باہمی طور پر نہایت متضاد و مختلف تعبیری و تشریحی اسلام کی شکل میں ان کے درمیان رائج و موجود ہے وغیرہ۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں بھی یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسلام اپنی اصل حیثیت میں یعنی قرآن و سنت کی شکل میں پوری طرح خالص و بے آمیز انداز میں موجود و محفوظ ہے ۔ اسے جو بھی پانا چاہے ان مصادر میں پا سکتا اور جان سکتا ہے ۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی ایک بھی مسلمان یا مسلم حلقہ یا متفرق طور پر مسلم حلقوں کے بہت سے مسلمان اصل اسلام پر قائم نہ ہوں اور مسلمان بحیثیت مجموعی اصل اسلام کو ترک کیے ہوئے ہوں اور کہیں بھی اصل اسلام پریکٹس نہ ہورہا ہو۔ اصل زیرِ بحث باتوں پر بہت حد تک اتفاق کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بحث کو ختم کر دینا چاہیے ۔ باقی مسلم تاریخ کی داستان و واقعات اور اس کے اصل و حقیقی خد و خال اور تفصیلات کی بحث میں الجھنے میں ، میں نہ کوئی دلچسپی رکھتا ہوں اور نہ ہی اس کے لیے فرصت اور تحقیقی و تفصیلی مطالعے کا موقع، اس لیے اس میں پڑ نے سے تو معذور و مفرور ہوں ۔ تاہم اس وقت میں اپنے دل میں سیفے میرا کے لیے بڑ ی محبت و احترام محسوس کر رہا ہوں اور ان سے بصد عاجزی التجا گزار ہوں کہ دورانِ بحث کی کسی تیز و تند اور سخت بات سے انہیں چوٹ لگی اور دکھ پہنچا ہو، تو اس کے لیے مجھے معاف فرمائیں ۔ مزید گزارش یہ ہے کہ بہت جلد میں اسلم میر کے شروع کردہ ایک اور ٹاپک ’خلافت کے انعقاد‘ کے حوالے سے اپنی تفصیلی تحریر پوسٹ کرنے والا ہوں ، اس پر ان کا تبصرہ و تنقید میرے لیے باعثِ خوشی بھی ہو گی اور باعثِ رہنمائی بھی۔ والسلام مع الحب الکثیر والا کرام[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top