Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Establishment of khilafah?
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]کیا خلافت قائم کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ؟ Is Establishment of Khilafat is a Religious Responsibility and NecessaryDuty of Muslims [نیچے میں نے اس ٹاپک پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں ۔ اور ایک ترتیب کے ساتھ مختلف شرکا میں سے ان لوگوں کی تحریروں اور پوسٹوں پر تبصرہ کیا ہے جو مجھے اہم محسوس ہوئیں ۔ میری تحریر بہت طویل ہوگئی ہے اور میں اس میں زیادہ ربط و ترتیب بھی برقرار نہیں رکھ سکا۔ شاید اس لیے کہ یہ کوئی عالمانہ و محققانہ مضمون تو ہے نہیں بلکہ عمومی انداز میں ایک ٹاپک پر اپنے احساسات کا بیان ہے ۔ اور پھر مصروفیات کے ہجوم کے باعث مختلف قسطوں میں مکمل کیا گیا ہے ۔ لہٰذا میری شرکا سے گزارش و اپیل ہے کہ ان کمیوں اور خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میرے اصل مؤقف و مدعا پر نظر رکھیں اور اس میں اگر کوئی نقص و خامی نظر آئے تو اپنے جواب میں اس کی نشان دہی کر کے مجھے اپنی تصحیح کا موقع دیں ] اسلم میر کے اس سوال کا واضح اور سیدھا جواب دینے کے لیے پہلی ضروری چیز یہ ہے کہ خلافت سے کیا مراد ہے ؟ اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے ۔ عام طور پر خلافت کو اسلامی حکومت کے معنوں میں لیا جاتا اور اسلامی خلافت کے قیام سے مراد اسلامی حکومت کا قیام لیا جاتا ہے ۔ موجودہ زمانے میں نہایت زور و شور کے ساتھ اس اسلامی حکومت یا اسلامی خلافت کے قیام و انعقاد کو مسلمانوں کی اولین اور پہلی اساسی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کتنے ہی مسلم گروہ اور تحریکیں دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں سرگرم عمل ہیں ۔ ان کا بنیادی فکر یہ ہے کہ اقتدار و حکومت خدا کے نائب اور اس کے دین کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے صرف اور صرف مسلمانوں کا حق ہے اور جب تک یہ انہیں حاصل نہیں ہوجاتا اسلام کا اصل نشانہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ مسلمان اپنے دینی فرائض سے واقعی معنوں میں سبکدوش و عہدہ برآ ہو سکتے ہیں ۔ اور نہ اس طاغوتی صورتحال کو بدلے بغیر دنیا پر دین کی شہادت و گواہی دینے کی مسلمانوں پر عائد ذمہ داری کی تکمیل ہو سکتی ہے ۔ میرے نزدیک اس باب میں اسلام کا مسلمانوں سے جو مطالبہ ہے وہ کسی حکومت قائم کرنے یا نظامِ اقتدار رائج کرنے کا نہیں بلکہ اقتدار و حکومت کے حاصل ہونے کی صورت میں اپنے اجتماعی وجود و معاملات میں بھی اپنے انفرادی وجود و معاملات کی طرح اسلامی تعلیمات اور احکام و قوانین کی پابندی و پیروی کرنے کا ہے ۔ اس کا واضح اور نہایت قابلِ فہم اور بہت سی الجھنوں کو ختم کرنے والا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان کسی معاشرے میں اکثریت میں ہوجائیں اور وہ اپنے درمیان حکومتی نظم و سیاسی اقتدار نافذ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں تو انہیں اپنی مسلمان حیثیت کو پیشِ نظر رکھ کر ہی یہ معاملات انجام دینے چاہییں ۔ یعنی وہ قرآن و سنت کی اجتماعی زندگی کے حوالے سے اصولی و قانونی ہدایات کو ملحوظ رکھیں ، اپنے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کے دوران انہیں رو بعمل لائیں اور ان کی پیروی ہی میں اپنے اجتماعی ادارے استوار اور مختلف اجتماعی معاملات انجام دیں ۔ قرآن کے کسی بیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان و عملی نشان سے یہ بات ثابت نہیں کی جا سکتی کہ دنیا سے لڑ کر اور غیر مسلم اقوام سے چھین کر اسلامی حکومت قائم کرنا اور شریعت کا نظام رائج و نافذ کرنا مسلمانوں کی کوئی دینی ذمہ داری ہے ۔ بلکہ وہاں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کا اصلی و اساسی مقصد و نشانہ تزکیۂ نفس کا حصول اور ان کا اصل کام خدا کے پیغمبروں کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے انسانیت کو خدا کا پیغام پہنچانا اور انہیں اس کی بندگی اور آخرت کی تیاری اور تزکیۂ نفس کی دعوت دینا ہے ۔ پیغام رسانی اور دعوت کے اس کام کی قبولیت کے نتیجے میں جب کسی سوسائٹی میں مسلمان اکثریت میں اور اجتماعی سطح پر اپنی مرضی کے نفاذ کے قابل ہوجائیں اور ان کے افراد کی تربیت و اسلامی نگہداشت اس سطح پر پہنچ چکی ہو کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات میں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے نفاذ اور اس کے تعلیم کیے ہوئے اجتماعی احکام و قوانین کے رواج کو سہارنے اور برداشت کرنے کے قابل ہو چکے ہوں ، تب مسلمانوں کے اصحابِ اقتدار و اہلِ حل و عقد کے لیے خدا اور دین کی ہدایت یہی ہے کہ اپنے اجتماعی احاطے میں اسلام کی بالاتری قائم رکھیں ۔ معاشرے میں دینی بیداری اور اسلام پرستی کی روح برقرار رکھنے کے لیے احتساب اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نظام قائم کریں ۔ اور اپنے تمام اجتماعی امور اسلامی ہدایات کی روشنی میں منظم و روبعمل کریں ۔ قرآن حکومت و اقتدار کو مسلمانوں کا مقصد و نشانہ قرار دینے کے بجائے واضح طور پر اسے ایک عطیہ الہٰی اور ایک امتحان و آزمائش قرار دیتا ہے ۔ وہ کسی بھی طرح کے جبر و ا کراہ کا قائل نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی سیاسی بالادستی اس کے نزدیک کوئی ایسی ضروری و لازمی قابلِ حصول چیز ہے جس کے بغیر نہ دین پر چلا جا سکتا ہے اور نہ مسلمان اپنے فرائض سے سبکدوش ہو سکتے ہیں ۔ بلکہ حکومت و اقتدار کی بازیافت ایک ایسا معاملہ ہے جو دنیا کی مختلف اقوام کے ساتھ خدا کے وضع کردہ نظام و قوانین کی بنیاد پر مختلف صورتوں میں پیش آتا رہتا ہے ۔ وہ احادیث جن میں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متصل بعد کے زمانے کے حوالے سے خبریں بتائیں اور پیشن گوئیاں ارشاد فرمائی ہیں ، ان میں صاف طور پر ایک محدود مدت تک اقتدار کے پوری طرح اسلامی رنگ و مزاج پر برقرار رہنے اور اس کے بعد دورِ انتشار و بدامنی و بدکرداری اور جابرانہ ملوکیت و مطلق العنان شہنشاہیت وغیرہ کے رونما ہونے کی خبر ملتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو مختلف بدکردار و غیر معیاری حکمرانوں اور جابر و ظالم پیشواؤں اور لیڈروں کی حکومت و اقتدار کے برسرکار آنے کے باوجود خروج اور ان کے خلاف اصلاحی و انقلابی اقدام سے روکا اور منع کیا گیا ہے اور انہیں ان حالات پر صبر کرتے ہوئے دوسرے میدانوں اور مصروفیات میں مشغول ہونے کی تلقین و نصیحت کی گئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت و اقتدار اسلام کی نظر میں واقعتا کوئی ایسا ہی مطلوب و لازمی معاملہ ہوتا اور اسلامی شریعت کے اجتماعی احکام و قوانین کا اجرا آخری درجے میں ہمہ وقتی طور پر ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد کے دور کے لیے ہدایات کچھ اور ہی ہوتیں ۔ آپ نصیحت فرماتے کہ ان بدکردار اور باغی حکمرانوں سے اقتدار کی کنجیاں اور کرسیاں چھین کر تم ان پر قابض ہوجانا اور اسلام کو پورے کا پورا رائج و نافذ کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ نہ یہ کہ آپ خروج و اقدام سے سختی سے باز رہنے کی تاکید کرتے اور اسے نہایت مکروہ و مبغوض اور برے اثرات و نتائج مرتب کرنے والا اقدام قرار دیتے ۔ بعد کے ادوار میں گو مسلمان حکمرانوں اور معاشروں کے نظم و اقتدار پر اسلام کی گرفت ڈھیلی پڑ تی گئی اور ان کے ہاں اسلامی رنگ و مزاج بھی تدریجاً پھیکا پڑ تا چلا گیا، لیکن بہرحال غیر معیاری طور پر اور طرح طرح کے عیوب و خامیوں کے باوجود اسلامی حکومت و خلافت کا سلسلہ بھی قائم دائم رہا۔ کیوں کہ اسلامی حکومت و خلافت کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان معاشرہ و حکومت اسلام کو اپنے ہاں بالاتر قرار دیں ، اس کے اجتماعی زندگی سے متعلق احکام و قوانین کو جاری و لاگو کریں اور اپنے اجتماعی ادارے اور معاملات اسلامی تعلیمات و رجحانات کی روشنی میں منظم و مشکّل کریں ۔ اور یہ کسی نہ کسی سطح اور انداز میں بعد کے ادوار میں بھی ہوتا رہا۔ لہٰذا اسلامی حکومت و خلافت کا سلسلہ بھی بعد میں غیر معیاری سطح پر ضرور چلا گیا، تاہم قائم اور باقی رہا۔ بلکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کے مسلمان بھی اجتماعی و سماجی سطح پر اپنے نظام میں اسلام کی بالاتری اور قرآن و سنت کے قوانین کو سپریم لاء کا مقام دیے ہوئے ہیں ۔ گو ان کے ہاں بے تحاشا خرابیاں ، خامیاں ، نقائص اور کجیاں موجود ہیں اور یہ سب کچھ عمل کی کتاب سے زیادہ کاغذ کی سیاہی ہی کی دنیا میں ہے تاہم اصل معیار کی روشنی میں وہ ناقص و غیر معیاری طور پر ہی سہی اسلامی حکومت و خلافت ہی کے حامل و مدعی ہیں ۔ کون ایسا عالم و مفتی ہے جو ایک مسلمان کے کردار و اعمال میں بے شمار داغ دھبوں کی موجودگی اور اس کی ہزار طرح کی بداعمالیوں اور بدکرداریوں کے باعث اسے غیر مسلم قرار دینا جائز و روا سمجھتا ہو، ایسے ہی مسلمانوں کے نظام کی خامیوں اور خرابیوں کے باوصف اسے از سرتاپا خلافِ اسلام یا باغیٔ اسلام یا طاغوتی نظام قرار دینا بھی نہایت تشدد اور مبالغہ روی ہے ۔ اس کی اصلاح کے لیے صدا اٹھانا اور عملا کوشاں ہونا تو بلاشبہ ایک درست کام ہے لیکن اسے مکمل معنوں میں اسلام کا باغی اور شیطانی و طاغوتی نظام قرار دینا کسی بھی طرح منصفانہ و معتدلانہ روش نہیں ہے ۔ اسلام کوئی حکومتی مینی فیسٹو نہیں بلکہ ایک فرد کے لیے دنیا میں راہِ ہدایت کا بیان ہے جس پر گامزن ہوکر کوئی بھی انسانی فرد آخرت کی آنے والی ابدی زندگی میں نجات و سرخروئی اور ہمیشہ ہمیشہ کی فوز و فلاح پا سکتا ہے ۔ کسی مسلمان کی کامیابی کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس نے دنیا میں اسلامی حکومت برپا کرنے کی کوشش و جدوجہد میں اپنی ساری زندگی اور تمام سرمایۂ مال و اسباب و قوت و صلاحیت لگا دیا یا نہیں اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوا یا اسی راہِ جستجو میں محنت و قربانی کی زندگی جی کر اس نے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ بلکہ واضحتاً ایک مسلمان کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ دنیا میں اس نے خدا کی ہدایت، جو اب قیامت تک قرآن و سنت کی شکل میں موجود و محفوظ ہے ، کو اپنی زندگی میں اس طرح اپنایا اور اس پر ایسے عمل درآمد کیا کہ وہ اس کے ذریعے اپنا تزکیہ کرنے اور اپنے نفس کو فکر و عقیدہ اور عمل و اخلاق کی تمام آلائشات اور نجاستوں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہر شخص کی سرخروئی اور نامرادی کا فیصلہ اسی معیار وبنیاد پر کیا جائے گا نہ کہ اسلامی خلافت قائم کرنے یا اس کے قیام کی تگ و دو میں لگ کر زندگی گزارنے کی بنیاد پر۔ اس میں یہ بات اپنی جگہ ضرور شامل ہے کہ زندگی کے مختلف احوال کے درمیان اس پر اسلام اجتماعی و سماجی سطح کے فرائض اور تقاضے بھی لاگو کرتا اور ان کی تکمیل بھی اس پر اس تزکیۂ نفس کے پہلو سے ضروری ہوتی ہے ۔ لیکن اس بات کا تعلق احوال و استطاعت کے دائرے سے ہے ۔ عمومی طور پر اسلامی اقتدار کو اپنے معاشرے اور پھر ساری دنیا کے نظام و قانون پر بالادست بنانے کی جدوجہد کو ہر ہر مسلمان کا بنیادی اسلامی فریضہ قرار دینا ایک بالکل بے اصل و بے دلیل بات ہے ۔ ’’سیفے میرا نے اس قضیے پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ اسلامی خلافت بس تیس، پینتیس یا چالیس سال ہی رہی اور اس کے بعد بادشاہت اور مطلق العنانی کے ادوار آ گئے ۔ اور یہ کہ آج چودہ پندرہ سو سال گزرنے کے بعد اگر ہم اسلامی خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کی سوچ رکھتے ہیں ، تو یہ نری خوش فہمی اور دیوانگی ہے ۔ ‘‘ اس کے حوالے سے میں عرض کروں گا کہ یوں کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ بلکہ درست بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی حیثیت سے معیاری ادوار بہت کم رہے ہیں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کی قیادت و سیادت میں جو حکومتی نظم اسلام کی بالاتری و بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے وضع کیا گیا، اس کی مدت تاریخی حقیقت کے بطور تین چار دہائیاں ہی رہی ہے ۔ اس کے بعد واقعتا پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پیشن گوئیوں کے مطابق بہت زیادہ بگاڑ و انحراف رونما ہوتا چلا گیا۔ بیچ بیچ میں عادل و خداترس حکمران بھی منظرِ عام پر ابھرے ، تاہم بگاڑ و انحراف مسلسل بڑ ھتا اور پھیلتا ہی چلا گیا۔ لیکن اس کا مطلب اسلامی حکومت و خلافت کا معدوم ہوجانا نہیں ہے بلکہ اس کا معیاری درجے سے نیچے چلے آتے جانا ہے ۔ اسلامی حکومت و خلافت کا سلسلہ تو بعد میں بھی قائم رہا لیکن جس سطح اور معیار پر وہ صحابہ کرام کے دور میں تھا اس کی بنسبت بہت زیادہ تنزل و زوال اور پستی و خرابی کے ساتھ ہی بعد کے دور میں باقی رہا۔ بعد کے ادوار میں جس چیز کے مفقود ہونے کی خبر دی گئی اور جس کے مطابق بعد کے ادوار میں یہ واقعہ پیش آیا بھی، وہ اسلامی خلافت کا ختم ہوجانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان رائج خلافت کا منہاجِ نبوت سے ہٹ جانا ہے ۔ یعنی وہ اپنے اصل معیار یعنی منہاجِ نبوت کے مطابق نہ رہے گی بلکہ اس میں طرح طرح کا بگاڑ و فساد برپا ہوجائے گا۔ اسی لیے مختلف ادوار میں جس جس طرح کے شر و برائی کے غلبہ کی توقع تھی اسی کے اعتبار سے اس پیشن گوئی میں ترتیب قائم کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ اتنے سالوں تک خلافت منہاجِ نبوت پر قائم رہے گی اور پھر اس کے بعد جابرانہ ملوکیت، مطلق العنان شہنشاہیت وغیرہ رونما ہوں گی۔ لہٰذا یہ بات بجائے خود مخدوش و ناقابل قبول ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اسلامی خلافت یا مسلمانوں کے درمیان خلافت بس تیس پینتیس یا چالیس سال رہی۔ ٹھیک بات یوں ہے کہ خلافت منہاجِ نبوت کے مطابق اتنے اور اتنے عرصے باقی رہی۔ وہ گو اس کے بعد بھی باقی اور جاری رہی تاہم منہاجِ نبوت کے راستے سے تدریجاً ہٹتی چلی گئی۔ اور یہ کہ آج بھی اسے دوبارہ قائم کرنے سے مراد نئے سرے سے اسے وجود میں لانا نہیں ہے بلکہ جیسے کہ پاکستان میں وہ مسلمانوں کی حکومت کے معنوں میں انتہائی غیرمعیاری شکل و حالت میں موجود ہے ، اسے دوبارہ سے زیادہ سے زیادہ منہاجِ نبوت سے قریب و مطابق بنانے کی کوشش و جستجو کرنا ہے ۔ یہاں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کا کوئی معیاری حکومتی نظام ہے ہی نہیں جس کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ وہ بس اتنے عرصے کے لیے قائم رہا اور اس کے بعد وہ قائم نہ رہ سکا یا آہستہ آہستہ ختم ہوکر بالکل ہی معدوم ہو گیا۔ اسلام نے تو اصل میں مسلمانوں کے اُس معاشر ے کو، جو اپنے اندر حکومتی نظم قائم کرنے ، سیاسی اقتدار بروے کار لانے اور عدل و انصاف کی فراہمی اور جرائم کی پاداش و سزا دینے کے لیے آزاد و با اختیار ادارے قائم کرنے کی پوزیشن میں ہو، اپنی اجتماعی زندگی کی تنظیم و تشکیل کے لیے چند بنیادی اصولی ہدایات دی ہیں ۔ کوئی مرتب و مفصل قانون و نظام ہرگز نہیں دیا۔ ہاں ان اصولوں کو بنیاد و اساس بنا کر آزاد و با اختیار مسلمان معاشرہ ضرور کوئی اعلیٰ و پائیدار نظام بنا سکتا ہے ۔ اس لیے اسلامی خلافت کے کچھ عرصہ قائم رہنے اور اس کے بعد ختم ہوجانے کی بات ان معنوں میں تو صحیح ہے کہ صحابہ کرام جیسا اسلام کی بالادستی و بالاتری کو برقرار رکھنے والا معیاری اور اسلام کی اصولی تعلیمات کی بنیاد پر وجود میں آنے والا اعلیٰ درجے کا حکومتی نظام زیادہ عرصے تک قائم نہ رہا لیکن ان معنوں میں یہ بات سراسر نادرست اور کوتاہ فہمی پر مبنی ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کے کسی با اختیار معاشرے اور آزاد قوم نے اپنے حکومتی نظم میں اسلام کی بالاتری و بالادستی کو قائم رکھنے اور اس کی اجتماعی زندگی سے متعلق ہدایات کو روبعمل لانے کی نہ کبھی کوشش کی اور نہ کبھی توفیق ہی پائی۔ آج بھی یہ ممکن ہے اور مثال کے طور پر پاکستان کی حد تک ایک قائم شدہ واقعہ ہے ، چاہے زبانی کلامی حد تک ہی سہی، کہ کوئی مسلم قوم و معاشرہ اپنی آزادانہ اجتماعی مرضی سے اسلام کو اپنے نظام میں بالاتر قرار دے لے اور اجتماعی زندگی سے متعلق اس کی دی ہوئی ہدایات و قانون سازی کو اپنے دائرۂ حکومت و اقتدار میں نافذ کر دے ۔ ایسا بالکل ممکن ہے اور اگر ہو گا تو اسے اسلامی حکومت یا اسلامی خلافت کے قیام سے تعبیر کرنے میں کوئی مانع نہیں ہو گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے اکیلے اور اکلوتے پیغمبر نہیں تھے ۔ بلکہ آپ سے پہلے بھی بہت سے نبی اور رسول آئے تھے ۔ آپ کے ساتھ یہ جو معاملہ پیش آیا کہ آپ پر صحابۂ کرام جیسی جاں نثار جماعت ایمان لے آئی اور آپ کی ساتھی بنی اور پھر ان کی سرفروشیوں اور قربانیوں ہی کی بدولت آپ کی زندگی ہی میں اسلام فکری و نظریاتی دعوت کے دور سے آگے بڑ ھ کر حکومت و سلطنت کے دور میں پہنچ گیا۔ یہ کوئی انوکھا اور استثنائی معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک پیغمبرانہ دعوت کے برپا ہونے اور اس کے ردِ عمل کے نتیجے میں رونما ہونے والا ایک سادہ واقعہ تھا۔ اور یہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اسلامی حکومت و خلافت قائم و جاری کرنے کا واقعہ نہیں تھا بلکہ پیغمبر کے انکار پر جمے رہنے کے باعث کفار و مشرکین کے خدائی عذاب کی زد میں آ کر تباہ و غارت ہوجانے اور ان کی طاقت و غلبے کے ملیا میٹ ہوجانے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے ایک واقعہ تھا۔ ان فطری وجوہات و واقعات نے اسلام کو خود بخود غلبے اور اقتدار کے مقام پر پہنچادیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نظم کے فطری قائد و سربراہ تھے ۔ آپ نے بھی اس کے بعد کیا کیا ماسوا اس کے کہ اسلام کی اجتماعی زندگی سے متعلق ہدایات اور احکامات کو نافذ و لاگو کیا۔ یعنی سادہ طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر کی موجودگی میں مسلمانوں کی اکثریت اور انہیں کفار و مشرکین پر ملنے والی فتوحات نے انہیں اس پوزیشن میں پہنچادیا کہ وہ اپنی آزادانہ و خودمختارانہ مرضی کے مطابق اپنا اجتماعی نظام و حکومت قائم کرسکیں ۔ تو انہوں نے یہ کام کیا۔ بعد کے مسلمان معاشروں اور اقوام کو بھی ایسی پوزیشن میں ہونے کی صورت ہی میں یہ کام کرنا ہے نہ کہ اس سے پہلے ۔ لیکن حکومت و اقتدار کو مقصد و ٹارگٹ بنا کر متحرک ہونا اور اسلامی حکومت و خلافت کو قائم کر دینا یا قائم کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہرگز اسلام کی مسلمانوں پر عائد کردہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ’’اسٹڈنگ اسلام یوکے کا حکومت و خلافت کے قیام کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دینے کی فکر کے حاملین کی طرف سے پیش کی جانے والی آیات کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ ان کا تعلق رسولوں کے حوالے سے خدا کی مستقل سنت و طریقۂ کار سے ہے ۔ وہ یہ بتاتی ہیں کہ رسولوں کا معاملہ ایک خاص معاملہ ہوتا ہے ۔ ان کا خدا سے تعلق بھی خصوصی ہوتا ہے اور ان کے مدعوئین کے حوالے سے خدا کی یہ مستقل اور خصوصی سنت رہی ہے کہ آخر وقت تک نہ ماننے اور ڈھٹائی کے ساتھ کفر و شرک پر جمے رہنے کی صورت میں خدا انہیں اس دنیا ہی میں عذاب سے دوچار کر دیتا اور رسول اور اس کے ساتھیوں کو ان پر غلبہ عطا فرماتا ہے ۔ اسی تناظر میں اُن آیات کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے جو خاص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ان کے منکرین کی ہلاکت و مغلوبیت اور ان کے اور ان کے ساتھیوں کے فتح و غلبے کو بیان کرتی ہیں ۔ اور پھر اس زمانے میں قائم جابرانہ شہنشایتوں کے نظام، جس نے انسانوں سے فکر و راے کی آزادی جیسا بنیادی حق بھی چھین رکھا تھا، کو ختم کرنے کو بھی ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ذمہ داری قرار دیتی ہیں ۔ ‘‘ یہاں یہ بات نوٹ کر لی جائے کہ جس طرح رسول اللہ کی ایک مخصوص و جداگانہ حیثیت ہے ، اسی طرح آپ پر براہِ راست ایمان لانے والی جماعتِ صحابہ کی بھی ایک مخصوص حیثیت ہے ۔ جابرانہ شہنشاہیتوں کے فکر و راے کی آزادی پر قدغن لگائے نظام کو ختم کرنے کا پیغمبرانہ مشن ان ہی نفوس قدسیہ کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ’’اس ذیل میں یہ اگلا سوال کہ کیا مسلمانوں کی ایک ہی عالمی خلافت ہونی چاہیے یا وہ بہت سی قومی اکائیوں کی شکل میں الگ الگ حکومتیں بنا سکتے ہیں اور یہ کہ کیا کسی غیرمسلم حکومت کے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک لیڈر شپ پر مجتمع ہوجائیں ۔ ‘‘ اس حوالے سے اوپر جو گزارشات پیش کی گئی ہیں ۔ ان کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ مسلم حکومت و خلافت کے جو معنی ہم نے بیان کیے ہیں اس کے مطابق اس کا مفہوم بس اتنا ہے کہ مسلمانوں کا با اختیار معاشرہ اپنے نظمِ حکومت میں اسلام کو بالاتر قرار دے یعنی وہ یہ طے کر دے کہ ہمارے ہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا اور اپنے اجتماعی اداروں کی تشکیل اور اجتماعی امور و معاملات کی انجام کاری و تکمیل کے معاملے میں اسلامی ہدایات و قوانین کو ملحوظ خاطر رکھے ۔ اگر ایسا ہوجائے کہ مسلمانوں کی ایک عالمی حکومت ہو اور وہ اس پر متفق ہوجائیں تو یہ بھی کوئی نامحمود بات نہیں ہے لیکن اگر وہ الگ الگ اقوام میں تقسیم ہوں مگر ان میں سے ہر ایک کے نظام میں اسلام بالاتر حیثیت رکھتا ہو اور وہ اسلام کی اجتماعی تعلیمات کو بھی اپنے درمیان رائج کیے ہوئے ہوں ، تو اس میں بھی کوئی حرج و مضائقہ نہیں ہے ۔ مسلمانوں کا اصل باہمی رشتہ اخوت کا ہے نہ کہ ہم قومیت و حکومت کا۔ انہیں خدا، رسول، قرآن، آخرت اور تزکیۂ نفس جیسے حقائق پر ایمان و عمل رشتۂ اخوت و محبت میں جوڑ تے ہیں نہ کہ سیاسی حدود و قیود کا پھیلاؤ، سمٹاؤ اور لگی بندگی یا الگ الگ احاطہ بندی۔ لہٰذا اس معاملے میں کسی آدرش کو واحد معیار بنانے کے بجائے پریکٹکل حالات و امکانات کو دیکھا جائے گا اور اسی کے دائرے میں رہ کر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ ویسے بھی انسانوں کو مختلف قبائل، شعوب، اقوام اور اکائیوں میں خدا ہی نے تقسیم کیا ہے اور اس کا مقصد محض پہچان و تعارف ہے ۔ کسی کو اپنے رنگ، زبان، علاقے وغیرہ کی بنیاد پر کسی دوسرے پر کوئی فضیلت و ترجیح حاصل نہیں ہوجاتی۔ لیکن یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ جب خدائی نقشے اور فطرت کے مطابق انسانوں کا مختلف قبائل و اقوام میں تقسیم ہونا ہی زیادہ موزوں ہے تو ہم کیوں انہیں ایک ہی جھنڈے تلے لانے کے ناممکن کی جستجو کریں ۔ کیوں نہ ہم ان مختلف اکائیوں اور اقوام کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے حالات و ظروف کے مطابق اسلام کی تعلیمات و ہدایات کے تابع بنانے کی کوشش کریں ۔ صحابۂ کرام کے زمانے میں جو ایک عالمی خلافت قائم ہوئی اس کی تصویر یہ نہیں تھی کہ دنیا میں بہت سی مختلف اسلامی اقوام موجود تھیں اور انہوں نے انہیں جوڑ کر اور یکجا و مشترک کر کے ایک اسلامی حکومت و خلافت قائم کر دی۔ بلکہ ایک جگہ اسلامی حکومت و خلافت قائم ہوئی اور پھر اس کے حدود پھیلتے پھیلتے جن جن جگہوں تک پہنچتے گئے وہ فطری طریقے سے اسی حکومت کا حصہ بنتے گئے ۔ لیکن بعد کے ادوار میں یہ ممکن نہ رہا اور مسلمانوں کی الگ الگ حکومتیں اور خلافتیں وجود میں آتی چلی گئیں ۔ لہٰذا آج بھی آئیڈیل یہ نہیں ہے کہ اگر موقع ہو تو مسلمانوں کی ایک عالمی اسلامی خلافت و حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ ممکن یہی ہے کہ ہر آزاد و با اختیار مسلمان معاشرہ اپنے درمیان اسلام کی بالادستی اور اس کے اجتماعی اصول و قوانین کے رواج کو قائم کرے ۔ اس ڈسکشن میں ابو سیٹ نے حصہ لے کر جو گل افشانیاں فرمائی ہیں ۔ ان پر تفصیلی تبصرہ کرنے کے بجائے میں مختصراً کچھ گزارشات پیش کرنا کافی سمجھتا ہوں : محترم ابو سیٹ نے بہت ساری آیات پیش کر کے قرآن کے بیان کی روشنی میں یہ باتیں واضح کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ بار بار اپنی نازل کردہ وحی کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرنے کا حکم ارشاد فرما رہے اور مکر ر تاکید کر رہے ہیں ۔ اپنے معاملات میں فیصلہ کرتے ہوئے اس کے نازل کردہ ہدایت و قانون سے روگردانی کو کفر و شرک اور گمراہی قرار دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان آیات سے اصلاً جو بات و حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان انفرادی حیثیت میں ہوں یا اجتماعی حیثیت میں ، انہیں خدائی تعلیم و ہدایات اور احکام و قوانین کی پابندی کرنی چاہیے ۔ یہ اُن پر لازم ہے ۔ لیکن جو سوال اس وقت زیرِ بحث ہے وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی حکومت و خلافت قائم کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ؟ ابوسیٹ کی اس ساری طول بیانی سے یہ بات تو ضرور سامنے آتی ہے کہ اگر مسلمان اقتدار و حکومت کی حالت و پوزیشن میں ہوں تو ان پر فرض و لازم ہے کہ وہ اسلام کے اجتماعی قوانین و ہدایات کو بھی اپنے ہاں نافذ و جاری کریں اور اپنے اداروں اور معاملات کی تنظیم میں انہیں بھی لازماً ملحوظ و پیش نظر رکھیں ، لیکن اس سوال کا کوئی مثبت یا منفی جواب واضح نہیں ہوتا اور نہ ان قرآنی بیانات کا اس سوال کے جواب سے کوئی تعلق ہے ۔ ابوسیٹ کا رجحان ا س سوال کے اثباتی جواب کی طرف ہے لیکن وہ ان آیات سے بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ان کا تعلق تو ایک دوسرے ہی موضوع سے ہے اور زیرِ بحث موضوع کے حوالے سے یہ سراسر غیر متعلق آیات ہیں ۔ ان آیات کا سیاق و سباق، سلسلۂ کلام، لب و لہجہ اور انداز و اسلوب ہر چیز اسی بات کو واضح کر رہی ہے کہ ان میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ مسلمانوں کو انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی ہدایت و مرضی کی پیروی اور مکمل وفاداری کی تاکید فرما رہے ہیں ۔ اور اس میں جس رویے کی مذمت کی گئی ہے وہ ہے اپنے انفرادی و اجتماعی اختیار و استطاعت کے دائرے میں غیر خدائی قوانین، طریقۂ مشرکین اور اہل کفر و شرک کے رجحانات و خواہشات کی تابعداری کرنا ہے ۔ لیکن ان آیات کا اسلامی خلافت و حکومت کے قیام کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہونے یا نہ ہونے کے سوال و موضوع سے مثبت و منفی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لہٰذا ابو سیٹ کا اسٹوڈنٹ افیئرز کو دیا ہوا یہ طعنہ اور پھبتی تو اس پر نہ فٹ آتی ہے اور نہ ہی راست ٹھہرتی ہے کہ اس نے اپنے مطلب و پسند کی آیات کا حوالہ دے کر اپنا من مانا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن ابوسیٹ پر ضرور یہ بات صادق آتی ہے کہ انہوں نے ایک خاص سوال کے جواب میں قرآن کے غیر متعلق بیانات و آیات کو پیش کر کے زبردستی اس میں سے اپنا مؤقف برآمد کرنے کی نامحمود کوشش فرمائی ہے ۔ ابوسیٹ کی یہ کج فہمی بہت قابل داد ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔ خیر کوئی بات نہیں ، ایسا ہوجاتا ہے کہ اپنے فکر و مؤقف کے تعصب و لگاؤ کے بہاؤ میں انسان متعلق و غیر متعلق چیزوں کے فرق کو نظر انداز کرنے کے باوجود اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اُس نے اپنا مدعا ثابت کر دکھایا ہے ۔ سیفے میرا! آپ نے ابوسیٹ کے حوالے سے بالکل درست طور پر یہ سمجھا ہے کہ وہ اسلامی حکومت و خلافت کے قیام کے حق میں ہیں اور اسے مسلمانوں کی لازمی ذمہ داری قرار دیتے ہیں ۔آپ کی یہ بات بھی مبہم طور پر ہی سہی لیکن ٹھیک ہے کہ اسٹوڈنٹ افیئرز ابو سیٹ کی پیش کی ہوئی آیات کے خلاف نہیں بلکہ انہوں نے زبردستی کر کے اور ان آیات کے موقع و محل اور سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے ان سے جو خاص مقصد و مفہوم اخذ کرنے کی جو تعبیری و تشریحی کوشش کی ہے اس کے خلاف ہے ۔ آپ کی یہ بات بھی بلا کی خوبصورت ہے کہ شریعت تو ہر مسلمان کے لیے (زیرِ عمل لانا) ضروری ہے لیکن اسلامی اسٹیٹ (قائم کرنا) اس کے لیے ضروری نہیں ہے ۔ یہ خوب جملہ ہے ۔ پسند آیا۔ ہر مسلمان کو اپنی استطاعت و توسع کے دائرے ہی میں اسلامی شریعت کی پابندی کرنی ہے ، یہ بات بھی درست ہے ۔ اس امکان کو تسلیم کرنا بھی بالکل صحیح ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بہت سے مسلمان اتنی اکثریت و اختیار حاصل کر لیں کہ وہ اپنے اجتماعی نظم کو اسلامی حکومت و خلافت کی شکل میں قائم کرسکیں ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی وہی راگنی الاپی ہے جس میں گو صداقت و حقیقت کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن جتنا مبالغہ آپ کرتے ہو تصویر اتنی دلخراش نہیں ہے ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ تاہم علما و محققین کے کام و خدمات کو آپ نے جس انداز و پرجوش طریقے سے سراہا ہے وہ یقینا قابلِ غور و مسرت ہے ۔ اس کے بعد ابوسیٹ نے بحث کا رخ موڑ دیا ہے ۔ عنوانِ بحث یہ تھا کہ خلافت و حکومت کا قیام مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے یا نہیں ؟ ابوسیٹ نے اس کے جواب میں جو آیات کوٹ کی ہیں ، وہ اس سوال سے سراسر غیر متعلق ہیں ، ان کا تعلق مسلمانوں کو انفرادی و اجتماعی طور پر خدائی ہدایت پر کاربند رہنے کی تلقین سے ہے ۔ پھر ابوسیٹ نے یہ فرما کر کہ اسلامی خلافت اور اسلامی حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور حدیث کے مطابق خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بس تیس سال رہے گی، بحث کو مزید الجھا دیا ہے ۔ حالانکہ انہیں یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ اگر حدیث کی پیش گوئی کے مطابق خلافت نے بس کم و بیش تیس سال ہی رہنا تھا تو اب جو لوگ اس کے دوبارہ انعقاد و اجرا کے لیے کوشاں ہیں وہ صحیح کام کر رہے ہیں یا ایسی چٹان سے اپنا سر ٹکرانے میں مشغول ہیں کہ اس سے ان کا سر تو یقینا پھٹ جائے گا مگر خلافت کے دوبارہ انعقاد کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو گا۔ لیکن اسلم میر کمال کے فہیم و دانش مند شریک ہیں ۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر سے اس اصل سوال کو مفصلاً ابھارا اور اجاگر کیا ہے کہ قرآن و حدیث میں کس جگہ مسلمانوں کو واضح طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس مقصد یعنی اسلامی خلافت و حکومت کے قیام و انعقاد کے لیے کوشش کریں یا تحریکیں اٹھائیں تاکہ اسلامی خلافت و حکومت قائم یا بحال کی جا سکے ۔ جیسا کہ بہت سے مسلم مفکرین و قائدین ماضی و حال میں یہ صدا لگاتے رہے ہیں اور لاکھوں مسلمانوں نے یہ راستہ اختیار کیا ہے ؟ لیکن افسوس کے شرکا دوسرے غیر متعلق امور پر بحث و تنقید اور ایک دوسرے پر خفیف سے طنز و تعریض میں الجھ گئے ہیں ۔ بالخصوص مہدی و مسیح کی آمد اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات وغیرہ زیادہ زیرِ بحث آ گئی ہیں ۔ گو یہ موضوعات بھی بحث کے متقاضی ہیں لیکن ان پر الگ سے بحث ہونی چاہیے نہ کہ ایک ڈسکس ہوتے ٹاپک کو درمیان سے ڈسمس کر کے انہیں زیرِ غور و بحث بنالیا جائے ۔ عمار یاسر نے بھی شریک ہوکر بحث کو اس کے اصل رخ کی طرف لانے کی کوشش کی ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا حدیث کے مطابق خلافت کے تیس برس تک ہی برقرار رہنے کی بات محض ایک پیغمبرانہ پیشن گوئی تھی یا یہ خدائی فیصلے کا اظہار و بیان تھا کہ اسلامی خلافت بس تیس برس تک ہی باقی و مستحکم رہے گی، اس سے زیادہ عرصے تک نہیں ۔ اسلم میر کا کہنا ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ کسی خدائی فیصلے کا بیان نہیں بلکہ بعد کے زمانے میں رونما ہونے والے حالات جھلک دکھاتی محض ایک پیشن گوئی ہے ۔ اس پر ابو سیٹ نے ایک اور غیر متعلق بحث شروع کر دی ہے کہ احادیث، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی ذاتی یا خواہشاتی بیانات نہیں ہوتے بلکہ یہ وحی پر مبنی ہوتے ہیں اس لیے دین سے متعلق امور کے حوالے سے موجود روایات کو قبول کرنا اور ان کو ماننا ضروری ہے کیوں کہ خدا کا فرمان ہے کہ یہ رسول اپنے جی کی خواہش سے کوئی کلام نہیں کرتے بلکہ (ان کا کلام) وہ وحی ہوتا ہے جو ان پر (خدا کی طرف سے )نازل کی جاتی ہے اور یہ کہ رسول جو (قول یا عمل) دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیں ، اس سے رک جاؤ، وغیرہ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس غیر متعلق نکتے پر میں مختصراً یہ گزارش کرنا چا ہوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامینِ مبارکہ و ارشاداتِ مقدسہ کا اصولی طور پر کیا مقام و حیثیت ہے ، یہ ایک الگ موضوع ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام و نسبت سے روایت ہونے والے ذخیرۂ احادیث کو سند و روات کے کوائف و حالات کی کن بنیادوں پر مستند، قابل قبول یا لائقِ ترک قرار دیا جائے گا اور پھر اس پر روایت و درایت کے کن اصولوں اور پہلوؤں کی روشنی میں غور کیا جائے گا اور کیسے قرآن کی حاکمانہ و برترانہ حیثیت کو برقرار رکھتے اور دین کے مجموعی فہم و مزاج کے زاویے سے اس کے مفہوم و مطالب کا تجزیہ کر کے ان کے رد و قبول کا مؤقف اپنایا جائے گا، یہ ایک دوسرا عنوان و موضوعِ بحث ہے ۔ اس لحاظ سے اسلم میر کے کہنے کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ روایت ان سب حوالوں اور کسوٹیوں پر قابل قبول بھی ہے تو میرے فہم کے مطابق یہ کسی خدائی منشا کا بیان نہیں ہے بلکہ بعد کے دور میں سامنے آنے والے حالات کا ایک بیان ہے ۔ اس پر یہ تقریر شروع کر دینا کہ رسول اپنے جی سے کلام نہیں فرماتے اور ان کی ہر بات قبول کرنا ایمان کا تقاضا ہے ، ایک ناقابلِ فہم اور غیر متعلق اسلوب و رویہ ہے ۔ رسول کے خدا کے نمائندہ ہونے کی حیثیت بلاشبہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی طرف سے آنے والے تمام مستند سرمایۂ اقوال و افعال کو بلاچون و چرا تسلیم کیا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے ۔ لیکن اس سرمایے میں کیا چیز مستند ہے اور کیا ضعیف و من گھڑ ت، یہ بہرحال ایک قابلِ غور و تحقیق معاملہ ہے اور محدثین کی بے نظیر تاریخی و علمی کارگزاریاں جن پر مسلم امہ کو بلاریب فخر کرنا چاہیے ، اس کا سارا دار و مدار اور میدان کار ہی رسول سے منسوب ہوکر نقل ہونے والے ذخیرۂ ارشادات و معلومات کی چھان پھٹک اور اس کے اصلی و نقلی اور مستند و من گھڑ ت کو الگ الگ کرنا ہے ۔ محدثین کی یہی وہ عظیم و بے نظیر خدمت ہے جس پر انہیں بالاتفاق خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ اور ان کے کیے ہوئے تحقیقی کام ہی کی روشنی میں ذخیرۂ احادیث کے خالص و کھوٹ زدہ مواد کو الگ الگ دیکھا جاتا اور اس سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس اصول پر مبنی کسی حدیث کی تردید یا اس کے معنیٰ و مفہوم کی تعیین پر مشتمل راے کے رد کے لیے اس قسم کی تقریر شروع کر دینا کہ ہم کون ہوتے ہیں کسی حدیث کو ضعیف و من گھڑ ت قرار دینے والے اور اس کے معنیٰ و مراد کا تعین کرنے والے ، انتہائی کم علمی، محدثین کے کام کی شان و حقیقت سے نری بے خبری اور علمی بحث میں شرکت کی قابلیت سے مکمل طور پر تہی ہونے کی نشانی ہے ۔ تاہم میں اصل موضوع پر بحث کے دوران سامنے آنے والے یا پیدا کر دیے جانے والے غیر متعلق پہلوؤں پر بحث میں الجھ کر اصل ٹاپک کو پیچھے دھکیلنے میں دوسروں کا ساتھی نہیں بننا چاہتا۔ اس لیے میں دوبارہ اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے اپنی اس ساری طول بیان کا خلاصہ کیے دیتا ہوں تاکہ میرے مؤقف کو سمجھنا آسان رہے : میرے نزدیک اسلامی حکومت و خلافت کے انعقاد و قیام سے مراد مسلمانوں کی کوئی حکومت قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اور اس ذمہ داری کے تحت مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں ان کی اکثریت ہوجائے اور وہ اس پوزیشن میں ہوں کہ اپنا اجتماعی و قانونی نظام اپنی مرضی کے مطابق بنا سکیں تو انہیں اس وقت دین میں دی گئی اجتماعی نظام و امور سے متعلق ہدایات کو اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔ اور اپنی اجتماعی استطاعت ہی کے بقدر دین کی اجتماعی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ دین کا مقصد حکومتِ الہٰیہ کا قیام یا شریعتِ اسلامی کا نفاذ یا اقامتِ دین اپنے موجودہ معنوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ دین کا کوئی اجتماعی مقصد ہی نہیں ہے ۔ وہ تو ایک فرد کے سامنے اس کی انفرادی حیثیت میں تزکیۂ نفس کا مقصد رکھتا ہے ۔ ہاں جب مسلمان کسی سوسائٹی میں غلبہ حاصل کر لیں ۔ اپنا نظام بنانے کی پوزیشن میں آجائیں ۔ تب دین کے اجتماعی احکام کے وہ مخاطب ہوتے اور انہیں بروے کار لانے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔ تزکیۂ نفس تو وہ اساسی مقصد ہے جو ہر حال میں ایک مسلمان کے روبرو رہنا چاہیے لیکن دین کے اجتماعی احکام و قوانین کے اطلاق و نفاذ کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ وہ ہر وقت ایک مسلمان کی اس کی انفرادی حیثیت میں ذمہ داری ہوں ، بلکہ وہ ایک با اختیار مسلمان معاشرے ہی پر لاگو ہوتے ہیں اور اسی وقت ہوتے ہیں جب بالفعل ایک با اختیار مسلمان معاشرہ کہیں موجود ہو یا وجود میں آجائے ۔ اس کی بہت سادہ سی مثال زکوٰۃ و حج کی فرضیت ہے کہ وہ ہر حال میں ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ صاحبِ نصاب مسلمان پر اور حج صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے ۔ اسی طرح اجتماعی ہدایات و قوانین کا اجرا و نفاذ مسلمانوں کے اس اجتماع کی ذمہ داری ہے جو با اختیار ہو اور اپنا قانونی و عدالتی نظام اور سیاسی و حکومتی نظم قائم کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اور جس طرح نصاب سے کم مال رکھنے والے مسلمان کی یہ ذمہ دار نہیں ہے کہ وہ ضرور صاحبِ نصاب بنے تاکہ زکوٰۃ کے فرض کی ادائیگی کرسکے ، اسی طرح کسی مسلمان پر یہ ذمہ داری بھی نہیں ہے کہ وہ اس بات کے لیے کوشش کرے اور جان لڑ ائے کہ سوسائٹی میں مسلمانوں کا غلبہ و اقتدار قائم ہو اور وہ صورتحال رونما ہو کہ اسلامی احکام و قوانین کا اجرا کیا جا سکے ۔ بلکہ غلبہ و اقتدار خدائی عطیہ ہیں اور اسی کی مرضی و منشا کے مطابق کسی کو ملتے اور کسی سے چھنتے ہیں ۔ مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب ان کا مالک اپنی حکمت و مشیت کے مطابق انہیں غلبہ و اقتدار عطا فرمائے تو وہ اپنی اجتماعی حیثیت میں بھی خدا کے باغی بننے کے بجائے اس کے مسلمان (فرمانبردار) بنیں اور اپنے اجتماعی ادارے ، معاملات اور نظام و قوانین ہر چیز پر اسلام کی اجتماعی ہدایت و اصولی تعلیمات کی بالاتری قائم کریں ۔ اور شریعت کے اُن احکام کو بھی اپنے درمیان اور اپنے معاشرے میں جاری و نافذ کریں جو ایک با اختیار مسلمان معاشرے کو دیے گئے ہیں۔ اپنے اجتماعی وجود میں مسلمانوں کو اگر کوئی ضروری کام کرنا ہے تو وہ دین کی دعوت و پیغام رسانی کا کام ہے جو انہیں نیابتِ رسول میں دنیا کی اقوام و ملل کے درمیان انجام دینا ہے ۔ اور اس کام کی ادائیگی کے لیے جن اوصاف سے مسلمانوں کا مسلح ہونا آخری درجے میں لازمی ہے وہ ہے دوسروں کی محبت و خیرخواہی اور ان کی ایذا رسانی پر یک طرفہ صبر و تحمل سے کام لینا۔ پھر یہ کام انہیں لوگوں کی زبان و اسلوب اور ان کے قابلِ فہم معیار و سطح پر انجام دینا ہے ۔ اعلیٰ درجے کی حکمت، بہترین موعظت، دلنشین مباحثے اور بہترین علمی و عقلی و تاریخی استدلال کی قوت سے انہیں یہ دعوتی کام کرنا ہے ۔ پھر یہ بھی کوئی آئیڈیل اور ضروری نہیں ہے کہ مسلمانوں کی ایک ہی عالمی خلافت و حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھا جائے اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے ۔ بہت سے مسلمان ممالک اپنی الگ الگ حکومت و ریاست قائم کر کے اپنے درمیان اسلام کی بالادستی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اجتماعی احکام و قوانین جاری کر دیں ، یہی کافی ہے اور عملاً یہی ممکن ہے اور کسی نہ کسی حد تک آج ہوبھی یہی رہا ہے ۔ ہماری بحث کا یہی دائرہ ہے اور اس دائرے کے حدود میں رہتے ہوئے میں نے اس وقت تک اٹھائے گئے تمام گوشوں سے متعلق اپنے مؤقف کو بیان کر دیا ہے ۔ میری خواہش ہے کہ دوسرے اسے پڑ ھ کر اس کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں تاکہ بحث کو اس کے دائرے میں رکھتے ہوئے مزید آگے بڑ ھایا جا سکے ۔[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top