Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Evil eye (nazar)
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]بدنظری کا ظاہرہ: حقیقت یا سراب میرے خیال سے بدنظری انسانی تجربات سے سامنے والی حقیقتوں میں سے ایک واضح ظاہرہ ہے ۔ اس کا کوئی تعلق توہمات سے نہیں ہے ۔ جس طرح جادو کو انسان تجرباتی طور پر جانتا اور اس کے توڑ کے عملیات سے بھی واقف ہے اور جادو کے خدشے کے وقت ان سے مدد لیتا اور انہیں اس کے توڑ اور اس سے حفاظت کے لیے استعمال میں لاتا ہے ۔ اس کا کوئی تعلق توہمات اور بدعقیدگی وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے انسان نے اپنے تجربے سے جانا ہے اور یہ انسان کی نفسی صلاحیتوں کا ایک شریرانہ اظہار ہے ۔ جس طرح انسان اپنی جسمانی قوتوں اور عقلی و فکری صلاحیتوں کو اپنے اندر موجود شر اور خیر دونوں طرح کے رجحانات کے زیرِ اثر استعمال میں لاتا ہے ویسے ہی وہ اپنی نفسی صلاحیتوں کو بھی انہی داعیات کے تحت اچھے یا برے مقاصد کے لیے استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس میں نہ اچھنبے کی کوئی بات ہے اور نہ ہی یہ کوئی بدعقیدگی یا توہم پسندی کے زمرے کی چیز ہے بلکہ ایک سیدھا سادہ اور عام واقعہ ہے ۔ ایسے ہی بدنظری حاسدانہ کیفیت یا رشک و حسرت کی کیفیت میں ڈوب کر کسی کو دیکھنے سے ظاہر ہونے والے ایک اثر کا نام ہے نہ کہ کسی قسم کی بد عقیدگی یا توہم پرستی کا۔ لہٰذا اسے ماننا یا ایک واقعہ قرار دینا اور اس کے علاج و توڑ کے لیے کوئی نسخہ یا دم پھونک جیسے ٹوٹکے ایک حد کے اندر اندر استعمال میں لانا ہرگز کوئی مکروہات کے قسم کے کام اور توہم پرستانہ طور طریقے نہیں ہیں ۔ جب آپ انسانی تجربے اور قرآن میں تسلیم شدہ انداز میں مذکور ہونے کی بنیاد پر جادو کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ، اسے ایک واقعہ سمجھتے اور اس کے اثر کے وقت دوا و تدبیر کے قائل ہیں تو اسی طرح بد نظری کو انسانی تجربے اور عام مشاہدے کی بنیاد پر قبول کرنے اور اس کے علاج کے لیے انسانی تجربے سے مؤثر ثابت ہونے والی تدابیر اختیار کرنے پر آپ کو کیوں تأمل اور تردد ہے ؟ قرآن کوئی ایسی کتاب تو ہے نہیں کہ وہ دنیا اور انسانوں کے علم و عمل کی ہر ہر چیز کے بارے میں یہ بتانا اور گنوانا شروع کر دے کہ وہ درست ہے یا نادرست اور قابل قبول ہے یا قابل رد اور حقیقت کی دنیا سے متعلق ہے یا غیر حقیقی تخیلات اور توہم پرستی کی پیداوار وغیرہ۔ بلکہ وہ اصولی ہدایات کا ایک منبع و ذخیرہ ہے اور اس کا بنیادی تعلق انسان کے مابعد الطبیعیاتی اعتقادات و مسائل و مہمات سے ہے ۔ اور انہی کے باب میں وہ انسان کی گمراہیوں کو واضح کرتا اور ایک صحیح و محقق فکر انسان کے سامنے رکھتا ہے ۔ اور پھر اسی فکر پر تشکیل دیے جانے والے نظام فکر و عمل کی اساسات و اصولی تفصیلات متعین کرتا ہے وغیرہ۔ لہٰذا اگر وہ اس طرح کی تمام چیزوں کو بیان کرنے کے بجائے کسی خاص پہلو سے زیرِ بحث آجانے کے باعث اکا دکا چیزوں ہی کے تذکرے پر اکتفا کرجاتا ہے تو یہ بات کس طرح معقول قرار دی جا سکتی ہے کہ آپ اس خاص چیز کو تو ’جس کا تذکرہ اتفاقی طور پر قرآن میں موجود ہے ‘ تسلیم کریں لیکن اسی باب سے متعلق دوسری غیر مذکور چیزوں کے باب میں تردد اور اشکال کا شکار ہوجائیں ؟ ڈیئر سیفے میرا آپ نے اپنی تمام ناکامیوں اور تکالیف اور اپنی اور اپنی فیملی کی تمام بیماریوں اور پریشانیوں وغیرہ کو ہمیشہ امتحانِ خداوندی سمجھا۔ بالکل درست کیا، لیکن یہ بتائیے کہ اگر کسی شخص کا ایکسیڈنٹ ہوجائے اور اس واقعہ کو یوں بیان کیا جائے کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ شخص کہے کہ یہ خدا کی طرف سے میرا ایک امتحان ہے تو اس پورے بیان میں کیا چیز قابلِ اعتراض ہے ۔ آپ کو کاروبار میں نقصان پیش آ گیا اور آپ کہیں کہ یہ خدا کی طرف سے میری آزمائش کا پرچہ ہے تو اس میں کیا قابلِ اعتراض بات ہے ۔ ایسے ہی اگر کسی کو بدنظری کی شکل میں ایک شر یا مصیبت سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ اسے مذکورہ واقعات کے ایکسیڈنٹ اور کاروباری نقصان کی طرح بدنظری ہوجانے سے تعبیر کرنے کے بعد یہی یقین کرے کہ اس میں بھی خدا کی طرف سے میری آزمائش ہی پیشِ نظر ہے تو اس میں توہم پرستی اور بے بنیاد عقیدہ ایجادی جیسی چیزیں کیسے رونما ہوگئیں ؟ یہی وہ باریک سی بات ہے جو آپ مس کرگئے ہیں ۔ جس طرح آپ نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں میں خدا کی طرف رجوع کیا اور اس سے مدد مانگ کر آپ سرخرو ہوئے اور ایک بیمار شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ دوا علاج بھی کرتا اور شفا پاتا ہے تو اسی طرح اگر کسی کو بدنظری سے سابقہ پیش آجائے اور وہ اسے خدائی امتحان بھی سمجھے اور خدا سے مدد و عافیت بھی طلب کرے اور ساتھ ہی اس کے تریاق کے بطور انسانی تجربات کی کسوٹی پر پرکھے اور تلے ہوئے تدابیر و اسباب بھی بروے کار لے آئے تو اس میں کون سی جگہ ہے جہاں بد اعتقادی اور توہم پرستی آپ کو موجود و جلوہ گر نظر آتی ہے ؟ اسی طرح اگر تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بدنظری سے سابقہ محض حاسد کی نظر بازی ہی کے سبب پیش نہیں آتا بلکہ اس سے سابقہ اس صورت میں بھی پیش آ سکتا ہے جبکہ کوئی اپنا اور خیرخواہ بھی اچھی نظر سے آپ کو یا آپ کے کمال و جمال وغیرہ کسی خصوصیت و انوکھی صفت کو بغور دیکھ رہا اور سراہ رہا ہو تو اس میں بھی کیا بات ہے جو ناممکن الفہم ہے ۔ کیا آپ نے نادان دوست والی کہاوت نہیں سنی۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے اور خیر خواہ کے اس طرح سے دیکھنے میں بھی کوئی غیرشعوری حاسدانہ جذبہ کارفرما ہوجائے ۔ یا بہت سے لوگوں کے بیک وقت سراہنے کے انداز میں دیکھنے کا یہ اثر ظاہر ہو کہ کہا جائے کہ اسے نظر لگ گئی ہے وغیرہ۔ جیسا کہ عام طور پر چھوٹے اور صحت مند و خوبرو بچوں کے معاملے میں عام مشاہدے کی بات ہے کہ وہ اپنوں کے درمیان ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں نظر لگ جاتی ہے یا کہیے کہ ان کے ساتھ بدنظری کا حادثہ پیش آ جاتا ہے ۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ ایسا ہوتا ہے انسانی تجربات اس کی تصدیق کرتے ہیں تو اس کو اپنے فہم میں لانے کے لیے اس عمل کی تفصیل و حقیقت کو جاننے کی جستجو کرنا تو بہر حال معقول ہو گا لیکن محض بظاہر ناقابلِ فہم ہونے یا خودساختہ خدشات اور پہلوؤں کے پیش نظر ایک ایسے واقعے اور حقیقت کو جھٹلانا یا اس پر شک کرنا جو عمومی انسانی تجربے کی حیثیت رکھتا ہو سراسر غیر علمی و عقلی رویہ ہے ۔ انسانی نفسیات ایک پورا علم ہے ۔ اس کے ماہرین و واقفین سے مل کر آپ اس طرح کے امور و معاملات کی حقیقت و تفصیلات سے آگاہی حاصل کرسکتے ہو لیکن چند عقلی قیاسات جو ایک غلط موازنے پر مبنی ہیں ، ان کی بنیاد پر اس طرح کی چیزوں کو غیر حقیقی یا توہم پرستی کی پیدا کردہ قرار دے دینا کسی طرح مناسب و معقول رویہ نہیں ہے ۔آپ کا تسلیم کردہ جادو بھی انہی بنیادوں پر ایک ثابت شدہ واقعہ و ظاہرہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر ایک خاص پس منظر میں مذکور ہو گیا ہے جس طرح قرآن میں مختلف اقوام کی بہت سی برائیاں اور ضلالتیں تو بیان ہوئی ہیں لیکن برائیوں اور ضلالتوں کی کیٹگری میں آنے والی تمام جزئیات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح قرآن میں جادو کے مذکور ہونے اور بدنظری کے واضح طور پر مذکور نہ ہونے کی بنا پر ایک کو تسلیم کرنا اور ایک کو غیر حقیقی اور ناقابلِ تصور و فہم قرار دینا کوئی عاقلانہ و بصیرت مندانہ روش نہیں ہے ۔ اس طرح تو ہمیں اُن بہت سی برائیوں کو برائیوں کی کیٹگری سے متعلق ماننے میں بھی تردد لاحق ہوجائے گا جن کا قرآن میں صاف طور پر تذکرہ موجود نہیں ہے اور وہ زمانے کے حالات کی تبدیلیوں اور وقت کی رفتار کی جدتوں کے باعث نزولِ قرآن کے بعد کے ادوار میں وجود میں آئی اور قرآن میں مذکور نہ ہو سکیں ۔ آپ نے جو تقابل کیا ہے یعنی میں اپنی ناکامیوں اور مصیبتوں کو ہمیشہ خدائی امتحان سمجھتا اور ان کے سلسلے میں خدا سے پناہ و عافیت طلب کرتا رہا۔ جبکہ بدنظری جیسی چیزوں کو ماننے کا نتیجہ شاید اس کا الٹ ہوتا ہے یعنی یہ ناکامیاں اور مصیبتیں خدا کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی آزمائش ہیں ۔ آپ نے جس پیراے میں اپنے عمل (مصیبت و پریشانی کو خدائی امتحان سمجھنے ) کو بدنظری کو تسلیم کرنے کے تقابل میں پیش کیا ہے اس کا مطلب یہی نکلتا ہے ۔ لیکن آپ کے اسی تقابل و موازنے میں آپ کی بظاہر ایک معمولی و چھوٹی لیکن درحقیقت ایک بڑ ی اور فاش غلطی چھپی ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ آپ بدنظری کو (جو کہ ایک عملی چیز ہے ، ایک تصور و توجیہہ بنا کر) مشکلات کے خدائی امتحان ہونے کے تصور کے مقابلے میں لے آئے ہو۔ کسی مشکل و پریشانی کو ’چاہے وہ بیماری کی شکل میں ہو، حادثے کی صورت میں ہو یا معذوری، کاروباری نقصان، کسی کی وفات یا کسی دوسری شکل میں ‘، خدائی امتحان سمجھنا دراصل اس کی اصل حقیقت کو بیان کرنا اور اس واقعے کی ایک مؤمنانہ توجیہہ کرنا ہے ۔ اسی طرح بدنظری بھی ایک مشکل و آفت ہی ہے اور اس کے بارے میں بھی خدائی امتحان سمجھنے کی بات بالکل ممکن ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کو مالی نقصان پیش آ گیا۔ اب آپ اسے مالی نقصان ہی کہو گے لیکن اسے ایک خدائی معاملہ اور آزمائش بھی سمجھو گے ۔ لیکن اس سے اس کی یہ شکل نہیں بدل جاتی کہ وہ ایک مالی نقصان کا معاملہ ہے ۔ یعنی ہے تو مالی نقصان یا حادثہ کا واقعہ ہی جو ایک مشکل و مصیبت کی شکل میں آپ کو پیش آ گیا ہے ۔ لیکن آپ اسے کسی بت یا بزرگ کی ناراضگی پر محمول کرنے کے بجائے اسے خدا کی طرف سے آنے والی آزمائش قرار دیتے ہو۔ بدنظری بھی کوئی توہم پرستانہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی مشکل و مصیبت کی ایک شکل ہے ۔ جسے آپ اسی طرح خدائی آزمائش و امتحان سمجھ سکتے ہو جس طرح آپ دوسری مشکلات اور مصیبتوں کو سمجھتے ہو۔ آپ نے یہاں یہ غلطی کی ہے کہ مشکل و پریشانی کی ایک صورت ’بدنظری‘ کو آپ مشکل و پریشانی کی اصل حقیقت یعنی ان کا خدا کی طرف سے بطورِ آزمائش ہونا کے مقابلے میں لے آئے ہو۔ جبکہ اس خدائی امتحان ہونے کی توجیہہ کا صحیح تقابل اس بات سے بنتا ہے کہ کوئی اسے کسی بت یا بزرگ کی ناراضگی اور قہر وغیرہ سے منسوب کرے ۔ گویا کہ آپ توجیہہ اور توجیہہ کا تقابل کرنے کے بجائے ایک طرف توجیہہ کو رکھ رہے ہو اور دوسری طرف اُن واقعات اور عملی چیزوں میں سے ایک واقعہ اور عملی چیز کو جن کی وضاحت میں وہ توجیہہ وجود میں آئی ہے ۔ جبکہ صحیح تقابل اُس وقت وجود میں آتا جب آپ ان واقعات اور عملی چیزوں کی وضاحت کرنے والی دو توجیہوں کے درمیان موازنہ کر کے یہ بتاتے کہ ان میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہے اور اس کی یہ اور یہ وجوہات ہیں ۔ مزید آسانی کے لیے یوں سمجھیے کہ مثلاً بیماری، معذوری، مالی نقصان، کاروباری گھاٹا، ایکسیڈنٹ اور بدنظری وغیرہ مشکلات و مصائب اور آفات و آلام کی مختلف اشکال و اقسام ہیں ۔ ان میں سے جو چیز بھی پیش آئے گی ہم اسے بیان کرتے ہوئے اسی کا نام لیں گے ، مثلاً کہیں گے کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا یا کاروبار میں خسارہ ہوا یا نظرِ بد لگ گئی وغیرہ۔ لیکن اسی کے ساتھ ہم یہ بھی تصور رکھیں گے کہ یہ شر، مشکل اور پریشانی خدا ہی کی طرف سے پیش آئے ہیں اور ایک امتحان و آزمائش کا معاملہ ہیں ۔ اس ساری بات میں کوئی اشکال اور بدعقیدگی یا توہم پرستی نہیں ہے ۔ ہاں اگر ہم کسی مصیبت و پریشانی کو کسی بت، ستارے ، بزرگ یا استھان و آستانے سے منسوب کریں اور کسی غیر خدا کی ناراضگی اور غصے اور بے رخی وغیرہ کا نتیجہ قرار دیں تب تو یہ بدعقیدگی اور توہم پرستی ہو گی۔ چاہے ہم یہ معاملہ بدنظری ہونے کی صورت میں کریں یا حادثہ پیش آنے یا مال و اسباب و کاروبار میں نقصان و گھاٹا پانے کی صورت میں ۔ لیکن اگر ہم ایکسیڈنٹ وغیرہ کو ایک پریشانی سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے خدا کی طرف سے ایک امتحان کا معاملہ سمجھ کر کسی بد عقیدگی یا توہم پسندی کے مرتکب نہیں ہوتے تو بدنظری کو بھی خدا کی طرف سے آنے والی ایک امتحانی مشکل یقین کرنے کی صورت میں ہم کیسے بدعقیدگی اور توہم پرستی کے مجرم ہوگئے ؟ اس بات کو ایک حدیث کے تناظر میں ناقابلِ فہم قرار دے کر آپ نے جس طرح احادیث کے بعض دفعہ عقلی و قرآنی کسوٹی پر رد کیے جانے کے واقعے کی طرف اشارہ کر کے اس حدیث کو بھی رد کرنے کی تجویز پیش کی ہے ، غالباً وہ مذکورہ تشریح و توضیح کے بعد آپ کو واپس لے لینی چاہیے ۔ اور جب یہ پروف و واضح ہو گیا کہ بدنظری کو ایک حقیقی ظاہرہ اور نارمل انسانی واقعہ ماننے کی صورت میں آپ پر کسی بھی طرح توہم پرست ہونے کا الزام عائد نہیں ہوتا تو پھر اس طرح کی کسی حدیث کو تسلیم کرنے کے معاملے میں بھی کوئی ایسا اشکال باقی نہیں رہ جاتا کہ آپ کو محسوس ہو کہ فلاں حدیث کو مان کر میں توہم پرست بن جاؤں گا۔ ایک مزید چیز جو ابو سیٹ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ کے ذہن کے حوالے سے واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ آپ خوامخواہ یہ تصور قائم کیے ہوئے ہو کہ بدنظری کا جو تصور عام پایا جاتا ہے اسے مشکلات و پریشانیوں کی ایک دوسری توجیہہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ انہیں خدائی امتحان قرار دینا اس طرح کی چیزوں کے پیش آنے کی پہلی اور واحد صحیح توجیہہ ہے ۔ یہاں آپ نے پھر اسی غلطی کو دہرایا ہے کہ ایک چیز کو غلط طور پر موازنہ کرتے ہوئے دوسری چیز کے مدمقابل بنادیا ہے ۔ بدنظری کو کوئی بھی یہ حیثیت نہیں دیتا کہ وہ انسان کی سار ی آفات و مصائب اسی کے سبب سے واقع قرار دینے لگے ۔ بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ بدنظری تو خود انسانی مشکلات اور پریشانیوں میں سے ایک چیز ہے نہ کہ ان کی خدائی امتحان ہونے کے علاوہ کوئی دوسری توجیہہ۔ جس طرح جادو ایک حقیقت ہے ۔ اس کے بعض اثرات بھی ہوتے ہیں کہ مثلاً انسان اول فول بکنے لگتا ہے ، پاگلوں کی سی حرکات کا ارتکاب کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اسی طرح مثلاً کسی بیماری کی وجہ سے انسان بالکل نحیف و دبلا پتلا ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھیں بالکل پیلی پڑ جاتی ہیں وغیرہ۔ اسی طرح بدنظری بھی ایک ایسی ہی انسانی مصیبت وبرا واقعہ ہے کہ اس کے بھی کچھ اثرات و مظاہر ہوتے ہیں ۔ مثلاً بچے کو نظر لگتی ہے تو یا تو وہ بے چین ہوجاتا اور مستقل رونے لگتا ہے یا پھر بالکل ڈھیلا پڑ جاتا یا بار بار کسی چوٹ یا زخم سے دوچار ہونے لگتا ہے وغیرہ۔ تو بدنظری کے یہ واقعات بھی اصلاً خدا ہی کی طرف سے پیش آتے اور انسان کے لیے ایک امتحان ہی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لوگ بھی عام طور پر یہی تصورات رکھتے ہیں نہ یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ ان کی ساری مشکلات اور پریشانیاں اور مصیبتیں بدنظری کی پیدا کردہ ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بدنظری کی وجہ سے لوگوں کو دوسری مشکلات اور پریشانیوں اور حادثوں کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جیسا کہ پیچھے بچے کی مثال گزری کہ نظر لگ جانے کے نتیجے میں وہ بے چین ہوجاتا یا بالکل ڈھیلا پڑ جاتا ہے وغیرہ، لیکن یہ عقیدہ اور تصور کوئی جاہل سے جاہل شخص بھی نہیں رکھتا کہ یہ سب کچھ خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہے ۔ بدنظری کو اس طرح کے واقعات کا سبب بتانا محض اس واقعے کی مزید توضیح و تشریح ہوتی ہے نہ کہ توجیہہ۔ جیسے کسی کا ایکسیڈنٹ ہو اور اس کے عزیز یہ تفصیلات بتائیں کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے الف ہوا اور ب ہوا اور پھر اس الف اور ب کی وجہ سے ت اور ث ہو گیا۔ تو یہ ت اور ث کے الف اور ب کی وجہ سے ہونے کا بیان محض اس واقعے کی مزید توضیح اور تفصیلات ہیں نہ یہ کہ کہنے والے کا یہ مطلب ہے کہ یہ ت اور ث خدا کی طرف سے نہیں بلکہ الف اور ب کی طرف سے ہیں ۔ یہ تشریح ہے نہ کہ توجیہہ۔ غلطی یہ ہورہی ہے کہ آپ بدنظری کے اثرات کے توضیحی و تشریحی بیان کو مشکلات کے خدائی امتحان ہونے کی توجیہہ کے مقابلے میں ایک دوسری توجیہہ قرار دے رہے ہو۔آپ اسی بات کو اپنے تسلیم کردہ ظاہرے ’جادو‘ کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہو کہ جادو جب ہوتا ہے تو اس کے کچھ مظاہر و اثرات ہوتے ہیں ۔ جادو ان کا سبب ہوتا ہے اور بیان کرنے والا اس بات کو اسی طرح بیان کرتا ہے کہ فلاں کو جادو ہوا تھا اور اس کی وجہ سے مثلاً وہ بالکل ضعیف و کمزور ہو گیا، اس کا دماغ ماؤف ہو گیا، اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور اس نے سونا چھوڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھیے کہ اس بیان میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کا کیا پہلو ہے ۔ یقینا کوئی نہیں ۔ اسی بیان کو اگر بدنظری کے حوالے سے بیان کیا جائے تو آپ اسے خوامخواہ بد اعتقادی اور توہم پرستی سمجھنے لگتے ہو۔جس طرح جادو کے باب میں آپ لوگوں سے یہ حسنِ ظن رکھتے ہو کہ مختلف مظاہر کا سبب جادو کو قرار دینے کے باوجود وہ ان تمام چیزوں کو خدا ہی کی طرف سے سمجھتے ہیں ، اسی طرح بدنظری کے باب میں اگر مختلف علامات و واقعات کا سبب نظرِ بد کو قرار دیا جائے تو وہاں بھی آپ دل بڑ ا کر کے یہی حسنِ ظن قائم کر لیا کرو کہ لوگ اس بیان و تشریح کے باوجود ان تمام چیزوں کو خدا ہی کی طرف سے ایک امتحان و آزمائش خیال کرتے ہیں اور اس میں توہم پرستی اور بد عقیدگی کا کوئی شائبہ اور وہم نہیں پایا جاتا۔[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top