Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Evil eye (nazar)
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]محترمی و مکرمی سیفے میرا صاحب والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ!!! سب سے پہلے آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنی تحریر میں بہت زیادہ تکرار کی ہے ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں ایسا کرتا ہوں ۔ لیکن اتنی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میری عادت یہ ہے کہ بات کو بالکل واضح اور صاف کرو تاکہ پڑ ھنے والے کو کسی ابہام اور تشنگی کا کوئی احساس نہ ہو۔ اس لیے ایسا ہوتا ہے کہ میں اس کوشش میں تکرار کرجاتا ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض اوقات تکرار کا گمان محض ایک گمان ہی ہوتا ہے اصل میں ایک چیز کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور ان مختلف پہلوؤں کی وضاحت کے لیے اس چیز کا بار بار اعادہ ضروری ہوتا ہے جسے ایک قاری تکرار سے تعبیر کرجاتا ہے ۔ تاہم آپ کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ لکھنے والے کو ٹو دا پوائنٹ رہ کر اور مختصراً بات کرنی چاہیے ۔ لیکن ساتھ ہی میں معذرت خواہ ہوں کہ میرا اسلوب و انداز ڈفرنٹ ہے اور میں جب تک اپنے مافی الضمیر کے بیان کے حوالے سے مطمئن نہیں ہوجاتا اور کسی موضوع کے حوالے سے ایک وقت میں جو کچھ عرض کرسکتا ہوں ، عرض نہیں کر لیتا، قلم رکھنا پسند نہیں کرتا۔اسے آپ پلیز میری معذوری سمجھتے ہوئے انگیز کیجیے !! ثانیاً میں حیران ہوں کہ کیا کسی رویے کو غیر عقلی رویہ قرار دینا اور کسی روش کو ناعاقلانہ و بے بصیرت مندانہ روش بتانا بھی ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس طرح کی باتوں کے سلسلے میں میں پہلے بھی یہ وضاحت پیش کر چکا ہوں کہ ان کا رُخ اور نشانہ کسی کی شخصیت و ہستی اور فریقِ مخاطب کی ذات نہیں ہوتی بلکہ وہ رویہ و روش ہوتے ہیں جو زیرِ بحث آتے ہیں ۔ اور جن کے بارے میں ہر کسی کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ انہیں عاقلانہ اسلوب، دانشمندانہ اسٹائل یا نادانی کی کاروائیاں اور بے تکی قلابازیاں وغیرہ قرار دے ۔ آپ کسی ایسے جملے کی نشاندہی کیجیے جس میں میں نے آپ کو براہِ راست مطعون کیا ہو یا آپ کی جناب و شان میں کوئی گرا ہوا یا تہذیب کے معیار سے اترا ہوا لفظ و انداز اختیار کیا ہو۔ میرا نہیں خیال کہ کہیں ایسا ہوا ہو گا۔ تاہم آپ نے میرے عمومی انداز کے تبصروں کو ذاتی حیثیت سے لے کر برا محسوس کیا ہے تو میں اس کے لیے بھی شرمندہ ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی بہت ساری پوسٹوں کو پڑ ھنے اور آپ سے پچھلی بحثوں کے نتیجے میں میرے دل میں آپ کی بڑ ی عزت ہے ۔ بالخصوص جب سے میں نے حجاب و پردے کی بحث میں آپ کی بیٹی کے بارے میں جانا ہے ۔ اس سے مجھ پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ آپ مجھ سے عمر میں کافی بڑ ے ہیں (گو کہ میں بھی سوا سال پہلے دولہا بن چکا اور ایک پانچ ماہ کی بیٹی کا باپ ہوں )۔ پھر میں نے آپ کو ایک سنجیدہ و مخلص اور اچھے جذبات والا انسان محسوس کیا ہے ۔ لہٰذا آپ اطمینان رکھیے میں آپ کو براہِ راست طور پر برا بھلا کہنا تو دور رہا دل میں بھی آپ کے بارے میں ایسے کسی گمان کو جگہ دینے سے پرہیز کرتا ہوں ۔ ہاں ڈیبیٹ کی ٹیبل پر ڈسکشن کی حد تک چھوٹے بڑ ے کا سوال میرے نزدیک ختم ہوجاتا ہے اور ہر شریک کو کسی راے اور رویے پر مثبت یا منفی تبصرہ کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ صفائی اور توضیح کافی ہوگئی، میرے خیال سے اب اصل بحث پر بات کر لی جائے ۔ میں شروع ہی میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جادو کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا تعلق قرآن و حدیث کی تصدیق و تردید کے ساتھ جوڑ نے والوں کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ جادو تو ایک ایسی چیز ہے جس کا ثبوت اور وجود قرآن و حدیث کے منظرِ عام پر آنے سے پہلے بھی پایا جاتا ہے ۔ اُس وقت اسے تسلیم کرنے والے یقینا قرآن و حدیث کی بنیاد پر تو اسے نہ مانتے ہوں گے بلکہ یقینا اس کے ایک محسوس و تجرباتی حقیقت ہونے ہی کی بنا پر اسے ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوں گے ۔ اسی بنیاد پر یعنی ایک محسوس و تجرباتی حقیقت اور انسانوں کو عام طور پر پیش آنے والا واقعہ ہونے کی بنیاد پر اگر بدنظری کو ایک واقعہ اور حقیقت تسلیم کر لیا جائے تو اس میں استعجاب و حیرانگی کی کیا بات ہے ؟ پھر جادو کا ذکر قرآن و حدیث میں اس حیثیت سے آیا ہی نہیں ہے کہ اسے مانا جائے یا نہ مانا جائے بلکہ اتفاقاً ایک تاریخی اور مذہبی قوم میں اس کے بڑ ے پیمانے پر رواج پاجانے اور پھر اس قوم کے اسے خدا کے ایک جلیل القدر پیغمبر کی طرف منسوب کر دینے کی تردید کے پس منظر میں آیا ہے ۔اس سے اگرچہ اس کے حقیقت ہونے پر اس طرح سے استدلال کرنا درست ہے کہ قرآن میں اس کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسے ایک حقیقت اور شر تسلیم کر کے ہی اس کی برائی اور حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ مگر اسے یہ تعبیر دینا کہ قرآن باقاعدہ اس کا اثبات کر رہا اور اسے ایک حقیقی ظاہرہ قرار دے رہا ہے ، یقینا درست نہیں ہے ۔ایسی بے شمار حقیقتیں اور شخصیات اور تفصیلات ہیں جن کا ذکر نفیا یا اثباتاً قرآن و حدیث میں کہیں موجود نہیں ہے لیکن ہم اس عدمِ ذکر کے باوجود انہیں تسلیم کرتے اور حقیقتیں قرار دیتے ہیں ۔ دنیا میں کتنی بے شمار چیزیں ہیں جنہیں انسان اپنے مشاہدے اور تجربے کے زور پر جانتا اور مانتا ہے ، مذہبی صحائف میں نفیاً یا اثباتاً ان کا کوئی تذکرہ نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا انہیں محض اس بنیاد پر رد کرنا اور کہنا کہ چونکہ ان کا ذکر ان مذہبی ذخیروں میں موجود نہیں ہے محض انسانی تجربے کی کسوٹی پر ان کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے ، اس لیے میں تو انہیں ہرگز نہیں تسلیم کروں گا۔ اس رویے کو آپ ہی بتائیے کہ کیا نام دیا جائے ۔ ہم کوئی نام دینے کی جسارت و گستاخی کریں گے تو آسمان کا رنگ بدل جائے گا اور زمین کا سینہ شق شق سا ہونے لگے گا!! آپ نے نفسیات پڑ ھی اور اس سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ آپ کے بقول نفسیات میں ٹیلی پیٹھی اور ہپناٹزم کو مانا جاتا ہے اور جادو ہو، ٹیلی پیٹھی ہو یا ہپناٹزم ان میں سے ہر ایک کا استعمال اچھی خاصی ٹریننگ، اساتذہ کی رہنمائی، مہارت اور تجربہ چاہتا ہے ۔ بجا فرمایا۔ لیکن اس بات سے اس کے علاوہ اور کیا ثابت ہوا کہ بدنظری جادو، ٹیلی پیٹھی اور ہپناٹزم کے ٹائپ کی کوئی چیز نہیں ہے کہ جسے باقاعدہ سیکھنے کی ضرورت ہو بلکہ یہ ان سے الگ اور ڈفرنٹ ایک ظاہرہ ہے جیسا کہ آپ نے واضح طور پر اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اُن کے لیے تو ٹریننگ اور تجربہ وغیرہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے ایسی کسی ضرورت کا پورا کرنا لازمی نہیں ہے ۔ جادو کرنے والا ہمیشہ برے ارادے کا حامل ہوتا ہے جبکہ بدنظری کے حوالے سے یہ مانا جاتا ہے کہ یہ کسی خیرخواہ اور اپنے کی نظر لگ جانے سے بھی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح یہ کہ جادو تو کوئی کوئی ہی سیکھ سکتا اور کرسکتا ہے جبکہ بدنظری کا معاملہ یہ ہے کہ ہر انسان کے ذریعے اس کے وقوع کا امکان تسلیم کیا جاتا ہے وغیرہ۔ ان دو طرح کی چیزوں کے درمیان یہ سارے فرق موجود ہونے کی بنیاد پر آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تو بڑ ی ہی عجیب بات ہے اور کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے کہ جادو وغیرہ فنون سے تو انسان لمبی چوڑ ی محنت و تربیت کے بعد واقف ہو اور انہیں استعمال میں لانے اور ان کے ذریعے دوسروں پر اثر انداز ہونے کی اہلیت حاصل کرپائے ، ضروری ہے کہ اس کی نیت بری ہو اور وہ ایک باقاعدہ فنی طور پر ماہر جادوگر ہو لیکن بدنظری کے لیے کسی محنت، ٹریننگ اور تربیت و تجربے کی شرط نہیں ہے ، نہ بری نیت اور ارادے ہی کی شرط ہے ۔ اور نہ کسی خاص فنی لیاقت و مہارت کا تقاضا ہے ۔ جس کا جی چاہے منہ اٹھائے اور بدنظری کے کرشمے دکھلا جائے !!! میں سمجھ نہیں سکا کہ اس میں اعتراض کرنے اور چونکنے کا آخر کیا تک ہے !! کیا دنیا میں ایسے بہت سے کام نہیں ہوتے جن کے کرنے کے لیے انسان کو کسی خاص مشقت و مشق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جبکہ بہت سے کاموں کے لیے اسے جدوجہد کرنی پڑ تی، اساتذہ کے سامنے مؤدبانہ بیٹھنا پڑ تا اور طویل مشق و تربیت کے مراحل سے گزرنا پڑ تا ہے ۔ کیا دیکھنے کے لیے انسان کو کسی مشاہداتی ٹریننگ کے ادارے میں داخلہ لینا پڑ تا ہے ۔ کیا بولنے ، چلنے ، ہاتھ پاؤں مارنے اور ایسے ہی کتنے کاموں کے لیے انسان کو کافی کافی عرصہ پاپڑ بیلنے پڑ تے اور اساتذہ سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ نہیں اور بالکل نہیں ۔ لیکن ڈاکٹر بننے ، انجینئر بننے ، کاروبار کرنے اور اسی طرح کے دوسرے بہت سے کاموں کے سلسلے میں انسان پڑ ھائی لکھائی اور ٹریننگ و رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے ۔ اسی طرح کیا کسی سے حسد کرنے ، جلنے یا اس پر رشک وغیرہ کرنے کے لیے انسان کو کچھ سیکھنا اور کہیں جا کر باقاعدہ تربیت لینی ہوتی ہے ۔ محبت اور غصے کے فنون وہ کس درسگاہ میں جا کر حاصل کرتا ہے اور کیا زندگی میں ان سے کام لینے یا ان کا مظاہرہ کرنے کے لیے بھی اسے کوئی خاص لیاقت و مہارت درکار ہوتی ہے ۔ پھر کیا بہت سی غلطیاں انسان سے ایسی سرزد نہیں ہوتیں جس میں اس کی بری نیت اور غلط اردے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا وغیرہ۔ ایسے ہی بدنظری ایک ایسا تجرباتی طور پر ثابت شدہ انسانی ظاہرہ ہے جو کوئی فن اور باقاعدہ قسم کا ٹکنکل شعبہ نہیں ہے کہ انسان مجبور ہو کہ کہیں جا کر ہی اس کی تحصیل کرے اور اسے سیکھے ، اس کی نیت میں فتور و برائی پیدا ہو اور پھر اس کے بعد ہی وہ اس قابل و لائق بنے کہ اسے استعمال کر کے کسی پر اس کا اثر ڈال سکے ۔ دو چیزوں کے فرق اور ان کی مختلف طرح کی خصوصیات کو بیان کر کے اس بات کے علاوہ اور کچھ نہیں ثابت کیا جا سکتا کہ یہ دو الگ الگ قسم کی چیزیں ہیں اور انہیں ایک ہی کیٹگری میں رکھ کر اور ایک ہی انداز میں ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سی چیزوں کو ایک ہی پیراگراف میں بیان کرنے یا بہت سی چیزوں کا ایک ہی سانس میں نام گنوانے یا بہت سی چیزوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینے سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ وہ ایک ہی زمرے اور کیٹگری کی چیزیں ہیں ۔ توحید اور شرک کو ملا کر لکھ دینے یا ایک خدا پر ایمان اور ایک کرور دیوتاؤں پر اعتقاد کے الفاظ آگے پیچھے بول دینے سے یہ ایک ہی شاخ کے برگ و بار اور ایک ہی کیٹگری کے ذیلی افراد نہیں بن جاتے ۔ ایسے ہی کالی بلی کے راستہ کاٹ جانے اور نمبر 13 کے خوف وغیرہ کو بدنظری کے ساتھ بریکٹ کر دینے سے ان کا آپسی خاندانی رشتہ وجود میں نہیں آ جاتا اور نہ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ ایک ہی ماں باپ کی نسل اور ایک ہی کارخانے کی پروڈکٹ ہیں ۔ دو چیزوں کو مماثل و مشابہا ور ایک ہی کیٹگری سے متعلق ثابت کرنے کے لیے ان کی معنوی و وصفی قربتوں اور مشابہتوں کو واضح کرنا ضروری ہے ۔ اور میں پہلے بھی گزارش کر چکا ہوں کہ بدنظری ایک تصور نہیں بلکہ ایک عملی واقعہ اور محسوس و مشاہد اثر کو دیا گیا ایک نام ہے ۔ یہ واقعات کی کوئی غیر خدائی توجیہہ نہیں ہے اور نہ ہی انسانی مشکلات و آفات کی کوئی مشرکانہ و خدا باغیانہ سببی تشریح ہے ۔ بلکہ یہ واقعات میں سے ایک واقعہ، اثرات میں سے ایک اثر اور انسانوں کو پیش آنے والے مختلف شرور میں سے ایک شر ہے اور بس۔ کالی بلی کے راستہ کاٹ جانے کو منحوس و خطرناک سمجھنے اور ایک واقعہ کو بدنظری ہوجانے سے تعبیر کرنے میں کیا معنوی ربط و مشابہت ہے ؟ ایک عقیدہ و توہم کی کیٹگری کے ذیل کی چیز ہے جبکہ دوسرا محض ایک خاص واقعہ و اثر کا ایک نام۔ پھر جب آپ جادو، ٹیلی پیٹھی اور ہپناٹزم جیسی چیزوں کے ذریعے ایک انسان کے بغیر کسی ظاہری سبب کے دوسرے انسان کو متأثر کر لینے کے واقعہ کو تسلیم کرتے ہیں تو اسی طرح ایک انسان کے گہرے انداز میں دیکھنے کے باعث ’چاہے وہ خیرخواہ ہو یا بدخواہ اور اس کا ارادہ و اندازِ مشاہدہ نیک ہو یا بد وغیرہ‘ دوسرے انسان کے بدنظری کے زیرِ اثر آجانے کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ نظر آتی ہے اور آپ اسے کیوں کالی بلی کے راستہ کاٹ جانے جیسی توہماتی چیزوں کے ساتھ جوڑ نے کی زحمت گوارا کرتے ہیں ۔ یہ کوئی عقیدے کے زمرے کی چیز تو ہے نہیں بلکہ ایک واقعہ ہے جو عام طور پر انسانوں کو پیش آتا اور اسی تجربے کی بنا پر انہوں نے اس کا نام بدنظری رکھ لیا ہے ۔ کسی کا علاج کرنے کے لیے تو بلاشبہ پڑ ھائی، ٹریننگ، مہارت اور تجربے کی ضرورت ہے مگر کیا کسی کو چوٹ پہنچانے یا زخم لگانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ مارشل آرٹ یا باکسنگ وغیرہ فنون میں چیمپئن اور ایوارڈ ہولڈر ہو۔ یقینا نہیں ۔ یہی آپ کی اس بات کا جواب ہے کہ جادو وغیرہ کے لیے تو استاد، رہنمائی، پریکٹس اور محنت و مشق ضروری ہے لیکن بدنظری کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کا باعث دو چیزوں کا فرق ہے اور کچھ نہیں ۔ جب دو چیزیں الگ الگ ہیں اور ان کا تعلق الگ الگ کیٹگریز سے ہے تو اُن کے معتلقات میں یکسانی و ہم وزنی کا مطالبہ کس عقلی کسوٹی پر کھرا اترنے والا مطالبہ ہے !! بدنظری کا کوئی یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور نہ ہی افعال و اثرات اس کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں بلکہ انسانوں کو جن شرور و آفات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے وہ سب بدنظری نامی کسی دیوی یا دیوتا کی کارستانی و مہربانی ہے ۔ بدنظری تو سادہ طور پر انسان کو عام طور پر پیش آنے والے ایک واقعے اور ایک عمومی انسانی تجربے کا نام ہے ۔ جیسے بخار ایک انسانی مرض کا نام ہے ، نزلہ زکام ایک نام ہے ، کھانسی ایک تعبیر ہے ، ٹائیفائد ہے ، پیلیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا کسی چیز کو ایک نام دینا اور ایک عقیدہ و تصور رکھنا ایک ہی طرح کے واقعات ہوتے ہیں !! میں آپ کی سطح پر اتر کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ چلو آپ کے نزدیک بدنظری انسانی واقعات میں سے کوئی واقعہ نہیں ہے ۔ مان لیا، مگر اس سے ثابت کیا ہوا، یہی نا کہ ایسا کوئی واقعہ انسانی دنیا میں رونما نہیں ہوتا۔ لیکن آپ جو اسے توہم پرستی قرار دیتے ہو، اس کی کیا بنیاد ہے ۔ توہمات تو خلافِ حقیقت تصورات کا نام ہے جن کی عقل و فطرت، مذہبی تعلیم و حکمت اور انسانی تجربے کے جہاں میں کوئی بنیاد نہ ہو۔ کائناتی حقائق و واقعات اس کی تردید میں متفق ہوں وغیرہ۔ لیکن کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ نے انہیں بس یونہی فرض کر لیا ہو اور دنیا میں پیش آنے والے گوناگوں واقعات کی توجیہہ قرار دے کر انہیں اپنے عقائد و نظریات کا جزو بنالیا ہو۔ بدنظری میں ان میں سے کون سی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تصور ہے ہی نہیں ایک واقعے کا نام ہے ۔ یہ کوئی توجیہہ نہیں بلکہ ایک عملی چیز ہے ۔ تو ایک عمل کی دنیا سے تعلق رکھنے والی چیز توہمات کے قسم کی کوئی تصوراتی چیز کیوں کر قرار دی جا سکتی ہے !!! باقی درمیان میں آپ نے جو پوائنٹ ایڈ کیے ہیں کہ لاکھوں اور کروروں لوگ جادو اور جن جیسے حقائق پر مقدس صحیفوں کی بنا پر یقین رکھتے ہیں ۔ تو اس کے سلسلے میں میں گزارش کروں گا کہ مقدس کتب میں ان کا ذکر ہونے سے ان کا ثبوت ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ اپنی جگہ پہلے سے موجود حقائق ہیں ۔ ہاں اگر کسی کو ان کے حوالے سے شکوک لاحق ہوجاتے ہیں تو ان مقدس کتب میں ان کے تذکرے کا حوالہ دے کر اس کو ثابت کرنا ایک معقول مگر مختلف چیز ہے ۔ مگر جب ان کتب کا دنیا میں کوئی وجود نہیں تھا لوگ تب بھی ان چیزوں کو حقیقت مانتے تھے ۔ مذہبی کتب اور مقدس صحیفوں میں ان کا ذکر اگر اس انداز میں ہوتا کہ لوگ ان چیزوں کو حقیقت مانتے ہیں جبکہ یہ غیر حقیقی اور توہماتی چیزیں ہیں تب تو یہ یہاں کرنے کی کوئی بات ہوتی۔ لیکن محض اس بنیاد پر چیزوں کو ماننا اور اس ماننے کو درست قرار دینا کہ مذہبی کتابوں میں ان چیزوں کو بطورِ واقعہ و حقیقت ذکر کیا گیا ہے اور بعض چیزوں کو ماننے سے انکار کر دینا محض اس بنیاد پر کہ مذہبی صحائف ان کے تذکرے سے خالی ہیں ، یقینا ایک بے جا روش اور بے بنیاد انکار ہے ۔ جادو وغیرہ کے حوالے سے آپ کا یہ کہنا کہ ہم محض قرآن و حدیث کی بنیاد پر ان چیزوں کو مانتے ہیں ورنہ تو ان کا تجربہ محض ایک دو فی صد لوگوں کو ہی ہوتا ہے ۔ اس پر میں گزارش کروں گا کہ آپ کے اس بیان کا پہلا حصہ تو میرے نزدیک غلط ہے ۔ ایسی کسی واقعاتی و تجرباتی چیز کو ماننے کے لیے قرآن و حدیث میں مذکور ہونے کو تاکیدی طور پر پیش کرنا تو درست و روا ہو سکتا ہے مگر اس کو ایسی چیزوں کے ماننے نہ ماننے کی اساس بنانا ایک غلط طرزِ عمل ہے ۔ اس بیان کا دوسرا حصہ تو خود آپ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بھائی بدنظری کو ایک حقیقی واقعہ اور عملی انسانی ظاہرہ مانو، کیوں کہ اس کا تجربہ بے شمار لوگوں کو عام طور پر ہوتا رہتا ہے ۔ آپ تو جادو جیسی چیز کو مانتے ہو جس کا تجربہ خود آپ کے بقول ایک دو فی صد لوگوں ہی کو ہوتا ہے تو پھر بدنظری جیسے ظاہرے کو جس کا تجربہ بہت سارے لوگ کرتے ہیں ، ماننے میں آپ کو کیا پریشانی اور الجھن و تشویش لاحق ہوجاتی ہے !!! ’’جس حدیث پر آپ کو اشکال ہے اگر ثابت ہوجائے کہ وہ صحیح ہے تو آپ بدنظری کے ظاہرے کو بھی جادو کی طرح ایک حقیقت تسلیم کر لو گے ۔‘‘ اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ اگر قرآن و حدیث میں کسی ایسی چیز کو ایک حقیقت قرار دیا گیا ہو جو آپ کی عقل و فہم کے مطابق لایعنی، توہم پرستانہ اور نامعقول و ناقابلِ قبول ہے تو آپ بس اس کے وہاں مذکور ہوجانے کی بنیاد پر اس کو حقیقت تسلیم کر لو گے ۔ اس بیان پر میں کیا تبصرہ کروں ، سمجھ نہیں پا رہا۔ پہلے تو یہ روش ہی ٹھیک نہیں ہے کہ تجرباتی و واقعاتی چیزوں کے ثبوت کی بحث میں قرآن و حدیث کو بیچ میں لایا جائے ۔ یہ ان کا موضوع و دائرہ ہی نہیں ہے ۔ ایسی چیزیں وہاں ضمناً اور مثالاً ہی مذکور ہوتی ہیں ۔ اس لیے یہ تو اپروچ ہی غلط ہے کہ ایسی چیزوں کے اقرار و انکار کا مدار وہاں ان کے مذکور ہونے یا نہ ہونے پر رکھا جائے ۔ پھر اس بات کے لیے ذہناً تیار و آمادہ رہنا کہ عقل و فطرت اور انسانی علم و تحقیق کی کسوٹی پر توہم قرار پانے والی چیز کو محض قرآن و حدیث میں ذکر ہوجانے کی بنا پر آپ حقیقت تسلیم کر لو گے ، معلوم نہیں کس صدی اور کیٹگری کا عجوبہ ہے ۔ اس پر ہنسا جائے ، رویا جائے ، سر پیٹا جائے ، ماتم کیا جائے یا کیا کیا جائے ۔ کسی کو اپنے تجربات اور فہم سے سامنے آنے والی اعتراف شدہ باتوں کو دوسروں پر ٹھونسنا نہیں چاہیے ۔ بالکل صحیح لیکن یہ بات اُس وقت صحیح ہے جب ایسی چیزیں انفرادی تجربات و محسوسات کے ذیل کی چیزیں ہوں ، عمومی انسانی تجربات و محسوسات کے حوالے سے لوگوں کو تسلیم و اعتراف کی روش اپنانے کی تلقین کرنا نہ کہ ٹھونسنا ہوگز کوئی ناروا کاروائی نہیں ہے ۔ سامنے کے واقعات اور ثابت شدہ حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش کو بھی اگر نادانی کہنا کوئی نازیبا حرکت ہے تو پھر معلوم نہیں نادانی کیا چیز ہوتی ہے !!! کتنی ہی تجرباتی، عقلی، سائنسی اور واقعاتی چیزیں ، ظاہرے اور تفصیلات ہیں ، جن کا کوئی ذکر و اشارہ قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے لیکن آج ہم انہیں تسلیم کرتے اور حقیقت قرار دیتے ہیں ۔ پھر اگر بد نظری بھی ایک ایسا عمومی انسانی تجربہ ہو جو جادو اور ٹیلی پیٹھی وغیرہ سے الگ اور مختلف ہو، قرآن و حدیث میں غیر مذکور ہو تو اسے مان لینے میں کیا قباحت، توہمات کی پیروی اور بد مذہبی وغیرہ واقع ہوجاتی ہے !!! آخر میں آپ نے یہ بات جو کی ہے کہ اگر بدنظری کوئی حقیقت ہوتی تو پھر تو میں ہر وقت اپنے والدین اور عزیزوں کو یہی کہتا رہتا کہ براہِ مہربانی مجھے مت دیکھو یا میرے بچوں کو مت دیکھو اور نہ ہی ہمیں سرا ہو، ورنہ بدنظری ہوجائے گی اور ہمیں کوئی برائی پیش آجائے گی۔ اس پر میں آپ کو بس ایک دوسری تصویر بنا کر دکھا دیتا ہوں ۔ اگر ایک انسان کو دوسرے انسان سے تکلیف و اذیت پیش آنے کا امکان کوئی حقیقت ہوتا تو پھر تو ہر شخص دوسروں کو یہ کہتا پھرتا کہ بھائی میرے پاس نہ آؤ اور میرے قریب مت ہو، ورنہ ہو سکتا ہے کہ مجھے تمہاری طرف سے کوئی نقصان یا اذیت پہنچ جائے ، کوئی زخم لگ جائے یا کوئی جھگڑ ا وغیرہ اٹھ کھڑ ا ہو۔ جس طرح یہ چیزیں کبھی کبھی پیش آتی ہیں نہ کہ ہمیشہ، اسی طرح بدنظری بھی کبھی کبھی پیش آنے والا واقعہ ہے نہ یہ کہ جیسے ہی کسی نے دیکھا آپ بدنظری کے جہنم میں داخل ہوگئے !!! اور آخری بات یہ کہ یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں ہے کہ جس کے ماننے نہ ماننے سے کوئی ایمان و کفر کی بحث چھڑ جاتی ہو۔ بلکہ یہ تو ایک عمومی فہم و دانش اور اعترافِ حقیقت و انکارِ حقیقت کا معاملہ ہے ۔ انسانی تجربات کے نتائج کو تسلیم کرنے یا جھٹلانے کا رویہ ہے ۔ لہٰذا اس پر ہو چکی بحث بہت کافی ہے ۔ ہاں کوئی مزید پہلو اور اشکال اگر ایسا ہو جو تشنہ رہ گیا ہو تو اسے ضرور سامنے لانا چاہیے ، ورنہ اس باب کو شاید یہیں یا محترم سیفے میرا کے جوابی افادات کے بعد ختم کر دینا مناسب ہو گا۔[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top