Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
What is Shariah?
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][center][b][size=5]شریعت کیا ہے ؟ [/size=5][/b][/center] [right][b][size=3]’’شریعت کیا ہے ؟ اور کیا فقہ اس کا ایک حصہ اور جزو ہے ؟‘‘ اسلم میر کے اس سوال کا جواب بہت سے شرکا نے بہت درست طور پر یہ دیا ہے کہ شریعت خدائی قوانین اور الوہی احکامات کے مجموعے کا نام ہے جبکہ اس کے مقابلے میں فقہ انسانی کام ہے جو علما کی انفرادی و اجتماعی آرا یا ایک باقاعدہ ا سکول آف تھاٹ کے علمی و تحقیقی کام کی شکل میں منظرِ عام پر آتا ہے ۔ یہ کسی بھی درجے میں آسمانی و خدائی شریعت کا ہم پلہ و مساوی نہیں ہے اور نہ اس میں درج ہونے والے علما کے انفرادی و اجتماعی فیصلے ، فتوے ، آرا اور تحقیقات شریعت کا حصہ بن سکتے اور کسی بھی درجے میں مقدس و ناقابلِ ترمیم و تغیر قرار دیے جا سکتے ہیں ۔ [/size=3][/b][/right] [right][b]خدا کی طرف سے انسانوں کو دیا گیا دین بہت مختصر و محدود ہے اور پھر اس میں قوانین کی مقدار تو اور بھی زیادہ کم ہے ۔ لیکن انسانی زندگی ترقی پذیر اور انسان کے حالات ہر دور و زمانے میں متغیر ہوتے رہتے ہیں ۔ اس تناظر میں دینی و اخلاقی پہلوؤں سے بھی نئے نئے سوالات، تقاضے اور معاملات پیدا ہوتے رہتے ہیں ، مادہ توانائی کی مختلف شکلوں میں ڈھلتا اور اس کے نتیجے میں سفر، رابطے ، کاروبار اور دوسرے شعبۂ حیات میں ہونے والی لگاتار تبدیلیوں اور ترقیوں کے نتیجے میں دنیا کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے اور یہ نئے احوال و معاملات اپنے حوالے سے دین کے مأٰخذ میں براہِ راست رہنمائی نہ ہونے کے باعث اہل علم و تحقیق سے اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دینی علم و فہم اور تدین و تقویٰ، اخذ و استنباط اور قیاس و اجتہاد کے ذریعے دینی مأٰخذ کے اپنے مجموعی فہم کی بنیاد پر ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ اور راے دیں ۔ اس طرح فقہ ہر زمانے کے علما و محققین کے نئے پیدا شدہ مسائل کے سلسلے میں اخذ و استنباط اور قیاس و اجتہاد کے ذرائع سے قرآن و سنت کی روشنی میں دیے جانے والے آرا و جوابات کے مجموعے کا نام بن جاتی ہے ۔ [/b][/right] [right][b]نئے پیدا شدہ مسائل و معاملات کی حیثیت دینی و اخلاقی بھی ہو سکتی ہے اور سراسر دنیوی و تدبیری بھی، لہٰذا ان دو طرح کے معاملات میں بھی فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ دینی و اخلاقی نو پیدا شدہ مسائل و معاملات کے سلسلے میں تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دین کے علما و محققین ہی ان کے سلسلے میں کسی رجحان و رواج کو راجح اور مقبول قرار دیں ، لیکن دنیوی و تدبیری امور و معاملات میں لوگ اپنا مؤقف و طرزِ عمل خود بھی متعین کرسکتے ہیں اور ان امور و معاملات کے متعلقہ شعبے کے قابلِ اعتماد ماہرین بھی انفرادی یا اجتماعی سطح پر اس سلسلے میں کوئی لائحۂ عمل یا دستور و رواج وضع کرسکتے ہیں ۔ اس طرح کے امور میں ضروری نہیں ہوتا کہ دینی محققین ہی کی راے اور مؤقف کو اختیار و رائج کرنے پر اصرار کیا جائے ۔ کیوں کہ یہ ایک طرح سے بالکل سیکولر معاملات ہوتے ہیں اور ان کو ایڈریس کرنے کے لیے بھی مکمل سیکولر اپروچ ہی مناسب و مفید ہوتی ہے ۔ اس طرح کے امور کو دینی بحث مباحثے اور فتویٰ کا موضوع بنادینا ایک فتنہ انگیز معاملہ ہوتا ہے اور آج کل جس طرح نا اہل اور ناتجربہ کار اور اپنے حدود اربعہ سے ناآشنا مفتیانِ کرام ہر طرح کے معاملات میں کوئی نہ کوئی فتویٰ صادر فرمانا اور الٹی سیدھی راے دینا اپنی دینی خدائی ڈیوٹی اور اسلامی حق سمجھتے ہیں ، اس نے واقعتا ایک شر اور فتنے کی شکل اختیار کر لی ہے ۔[/b][/right] [right][b]تاہم اصولی طور پر یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ شریعت خدائی چیز ہے ، مستند و لازم العمل ہے اور اس میں کسی کو بھی کسی طرح کے رد و قبول، تبدیلی اور ترمیم و تغیر کرنے کا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ حق اور اختیار حاصل نہیں ۔ جبکہ فقہ انسانی کام ہے ، زمانی چیز ہے ، اس میں رد و قبول اور ترمیم و تبدیلی ہر چیز کی گنجائش موجود ہوتی ہے ۔ جیسا کہ عام معلوم بات ہے کہ اہلِ فقہ کے مختلف دائروں میں ایک ہی معاملے میں مختلف آرا و رجحانات اور فتاویٰ کی موجودگی ایک معمولی سی بات ہے ۔ اور پھر جب فقہ زمانی تقاضوں اور نئے پیدا شدہ معاملوں اور قضیوں ہی کے باعث اور انہی کے ریلیشن و تناظر میں ظہور پذیر ہوتی ہے تو نہایت قابلِ فہم بات ہے کہ زمانے کے آگے بڑ ھنے اور صورتحال اور احوال و ظروف کے تبدیل ہوجانے کی صورت میں اس میں بھی تبدیلی اور تغیر لایا جائے ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ فقہ کی سطح پر بنائے جانے والے تمام اصول و کلیات کو نئے زمانے میں الوداع کہہ کر از سرِ نو نئے اصول و کلیات وضع کرنا ضروری ہے بلکہ اس کا سیدھا اور سادہ مطلب یہ ہے کہ فقہ کے باب میں اصول و فروع میں تبدیلی کا امکان بہرحال پایا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ نیا تقاضا پرانے اصول میں ترمیم کی ضرورت لاحق کر دے یا نیا مسئلہ و معاملہ کسی فقہی جزئی کی نامطابقت و ناموزونیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے ۔ بغیر ضرورت اور بلا سبب فقہی اصول و فروع میں تبدیلی و ترمیم کا تقاضا کرنا بھی ایک خوامخواہ کی تک بندی اور لایعنی حرکت ہے ۔ [/b][/right] [right][b]اسی تفصیل سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ بہت ضروری چیز ہے کہ اسلام کا مطالعہ کرنے والے خدائی اور آسمانی و الہامی شریعت کو فقہ کی تفصیلات سے الگ اور متعین طور پر بخوبی جانتے ہوں ۔ اس شریعت کے کسی جزء کے فہم و تفہیم کے بارے میں تو اہلِ علم میں اختلافِ آرا اور رجحان و تشریح کا فرق پیش آ سکتا ہے لیکن اس کے کسی حصے کو رد یا وقتی طور پر معطل کر دینے کا کسی کو کوئی حق و اختیار کسی بھی درجے میں نہیں دیا گیا۔ شریعت کے انفرادی احکام و قوانین ہر فردِ مسلم پر اس کی ذاتی و انفرادی حیثیت میں لاگو ہوتے اور اپنی شرائط و اساسات کے پائے جانے کی بنیاد پر اپنی تکمیل کا لازمی فریضہ عائد کرتے ہیں ۔ جبکہ شریعت کے اجتماعی احکام و قوانین کا تعلق مسلم معاشرے کی اجتماعی حیثیت یا ان کے نظمِ سیاسی کے مقتدر و سربراہ کاروں سے ہے ۔ یہ انہی پر عائد ہوتے اور انہیں کے ذریعے روبعمل آتے ہیں ۔ جیسے سزاؤں کا نفاذ، زکوٰۃ کی جمع و تقسیم کا نظام وغیرہ۔ [/b][/right] [right][b]خدا نے انسانوں کو ابتدا سے ایک ہی دین ’دینِ اسلام‘ دیا ہے ۔ یہی وہ واحد دین ہے جو اس کے نزدیک مقبول و پسندیدہ ہے اور وہ اپنے بندوں سے اس کے علاوہ کوئی دوسرا دین ہرگز قبول نہ فرمائے گا۔ اس نے اپنے تمام پیغمبروں کو یہی دین دیا ہے ۔ مختلف پیغمبروں کو جو دین دیا گیا اس میں ایک حصہ تو ایمانیات و اخلاقیات کا ہے جس میں کبھی کوئی رد و بدل واقع نہیں ہوتا۔ البتہ اس کا ایک حصہ جو شریعت اور قانون کہلاتا ہے اس کے باب میں مختلف پیغمبروں کے زمانے کے حالات وغیرہ کی بنیاد پر کافی کچھ فرق رہا ہے مگر اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس میں بھی کسی قسم کی تبدیلی، تغیر اور ترمیم کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا۔ اب قیامت تک یہی انسانوں کے لیے خدا کا نازل کردہ قانون ہے اور ان پر اپنی ہدایت، نجات اور سرخروئی کے لیے اس کی پیروی لازمی ہے ۔فقہ اس سے بالکل علیحدہ اور الگ چیز ہے ۔ شریعت کی جو خصوصیات اور مرتبہ ہے فقہ کو اس میں سے کوئی ایک چیز بھی حاصل نہیں ہے ۔ نہ وہ مقدس ہے ۔ نہ ناقابلِ ترمیم ہے ۔ نہ الہامی و آسمانی ہے اور نہ اس پر عمل کرنا کوئی ایسا لازمی تقاضا ہے کہ جس کے بغیر انسان کی نجات ہی نہ ہو سکے ۔ تاہم فقہ مختلف امور و معاملات میں دین کے رجحان اور مجموعی تعلیمات سے پیدا ہونے والے تقاضوں کو سامنے لاتی اور مختلف قضیوں میں ایک مسلم کے طرزِ عمل کو متعین کرتی ہے ۔ کسی فقہی راے کو اس کے دلائل کی بنیاد ہی پر پرکھا جانا اور رد یا قبول یا راجح و مرجوح وغیرہ قرار یا جانا چاہیے ۔ مسلمانوں کے موجودہ چار فقہی مکاتبِ فکر اپنے بانیوں کی جلالتِ علمی، تقویٰ و تدین اور بے نظیر و مثال علو و مرتبت کے باعث زیادہ تر مسلم علاقوں میں رائج ہیں ۔ ان کے حوالے سے ایک مختلف فیہ مسئلہ تقلید و عدمِ تقلید کا ہے ۔ اس باب میں سب سے متوازن اور معقول راے یہی ہے کہ کسی عالم و محقق پر تقلیدکو لازم نہیں کیا جا سکتا اور کسی عامی کو اس سے مفر کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ لیکن اس میں مزید تفصیل یہ ہے کہ اس معاملے کو ایک قانونی یا فنی شکل دینے سے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ اسے فطری شکل و انداز پر باقی رکھا جائے ۔ یعنی ایک عام آدمی جس طرح اپنے قریب کے کسی قابلِ اعتماد دینی عالم سے دینی مسائل میں رہنمائی لیتا رہتا ہے ۔ فقہی مسائل میں بھی اسے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ کسی متقی، قابلِ اعتماد اور صاحبِ علم شخص سے اپنے سوالات پوچھے اور اس کے جواب کے مطابق عمل کرے ۔ اسے فقہِ حنفی یا مالکی وغیرہ ہی کے دائرے میں بند ہوکر نہیں رہ جانا چاہیے کہ ضرور وہ کسی حنفی یا مالکی یا شافعی عالم و محقق و مفتی کو تلاش کرتا پھرے ، پھر اس سے راے لے اور پھر کوئی عمل کرے ۔[/b][/right] [right][b]جس طرح حالات بدلتے رہتے اور تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں ۔ زندگی کے معاملات کی نوعیت و ماہیت بدلتی چلی جاتی ہے ۔ ایسے ہی انسانی کاموں اور معاملات کی بھی نئی نئی شکلیں سامنے آتی چلی جاتی ہیں ۔ ایک مسلمان کو اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہر وقت اپنی بندگی اور خدا کے دین کے پیرو ہونے کی حیثیت کو نبھانا ہوتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے تمام امور و معاملات دین کے حدود میں رہیں اور اس کا کوئی کام بھی ایسا نہ ہو جو دینی تعلیمات کی روشنی میں حق و انصاف اور راستی سے ہٹا ہوا ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ دین کی تعلیمات کی از سرِ نو جدید حالات کے حوالے سے تشریح اور اطلاق کیا جائے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق دینی الفاظ کو نئے معانی پہنائے جائیں بلکہ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دین کے احکام و تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی جدید شکلوں اور زمینی حقائق اور موجود الوقت احوال کے اندر اندر کی صورتوں کو سامنے لایا اور نمایاں کیا جائے ۔اس مقصد کے لیے مسلمان علما و محققین کو اجتہاد و قیاس اور استدلال و استنباط کے شعبوں میں خوب دادِ تحقیق و تدقیق دینا پڑ تی ہے اور انہی کی کوششوں اور جانفشانیوں کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلم معاشرہ اپنی اجتماعی و معاملاتی ہیئت میں اسلامی تعلیمات پر متوازن طریقے سے گامزن رہتا اور اس کا اجتماعی وجود بھی اسلام ہی کا فرمانبردار و تابعدار رہتا ہے ۔لہٰذا ان پہلوؤں سے فقہ کی بھی اپنی جگہ بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کو نظر انداز کرنا بھی کسی طرح معقول و درست رویہ نہیں ہے ۔[/b][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top