Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Sufi Miracles & Criticism
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][size=4][right][red]اس ٹاپک پر ساری بحث کو بغور پڑ ھنے کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا اور بظاہر ایک کلوز شدہ موضوع کو نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے دوبارہ چھیڑ نے پر مجبور ہونا پڑ ا۔ شرکا نے بڑ ی طویل اور قیمتی بحث کی ہے ۔ بڑ ے اچھے نکات اٹھائے اور بڑ ے عمدہ دلائل و امثال پیش کیے ہیں ۔ کافی اچھے سوالات اور پھر ان کے نہایت بڑ ھیا جوابات پڑ ھنے کو ملے ۔ میرا نقطۂ نظر اس باب میں جو کچھ بھی ہے وہ نیچے بیان ہوجائے گا، تاہم ایک بات جو میں نے بڑ ی شدت سے محسوس کی اور مجھے اس پر بڑ ی خوشی اور فرحت ہوئی، وہ میں یہاں ابتدا ہی میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ شرکا نے بہت صحت مند اسلوب اور بڑ ی عمدہ زبان و انداز میں بحث کی ہے اور بحث و گفتگو کے باب میں ایک اچھی مثال اور بہترین نقش قائم کیا ہے ۔ تاہم بیچ بیچ میں شرکا سے کچھ ایسی باتیں بھی سرزد ہوئیں ہیں جو میری توقع کے بالکل خلاف تھیں وہ یہ کہ سیفے میرا اور عاطف رفیع کے سوالات کے بار بار اعادے کے باوجود ان سے اختلاف رکھنے والوں نے ان کے سوالات کا واضح اور تشفی بخش جواب نہیں دیا۔ جیسے سیفے میرا بار بار پوچھتے اور اپنا یہ سوال دہراتے رہے کہ اگر تصوف ایک متوازی دین ہے تو اس کے جو بڑ ے بڑ ے پیروکار رہے ہیں ان کے بارے میں کیا یہ کہا جائے گا کہ وہ چونکہ اسلام کے برخلاف اور اس کے متوازی ایک دوسرے دین کی پیروی کرتے رہے لہٰذا وہ اسلام سے باہر تھے یا غیر مسلم تھے اور کچھ بڑ ے لوگوں کے نام بار بار پیش کر کے انہوں نے بار بار یہ پوچھا کہ کیا ہم انہیں غیر مسلم قرار دیں ۔ شرکا نے اس طرح کے سوالات پر کچھ زیادہ قابلِ قدر مواد نہیں پیش کیا بلکہ بار بار غیر متعلق نکات و پہلوؤں کو بیچ میں لا کر ان سے اعراض اور روگردانی برتی۔ محترم ابوسیٹ صاحب داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ آخر وقت تک بڑ ی استقامت و پامردی اور ہمت و جوانمردی سے ڈٹے رہے اور ہر سوال کا جواب دینے اور ہر اعتراض کو رفع کرنے کے لیے برابر لگے رہے اور کہیں بھی نہ انہوں نے پیٹھ دکھائی اور نہ ہی لاجواب ہونے کی صورت پیدا ہونے دی۔ان پر آفرین ہے کہ وہ اپنے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر اس پورے دورانیے میں مختلف اطراف سے ہونے والی یلغاروں کا تنِ تنہا ڈٹ کر مقابلہ اور سامنا کرتے رہے ۔[/red][/right][/size=4] [size=4][green][right]سیفے میرا اور عاطف رفیع حضرات نے کئی مرتبہ یہ بات بھی دہرائی کہ تصوف کو اسلام کے متوازی ایک دین قراردینا جناب جاوید احمد صاحب کی ایک واضح غلطی ہے لیکن حیرت ہے کہ کوئی بھی جاوید صاحب کی مطلوب حمایت اور ان کی بات کے اثبات کا حق نہیں ادا کرسکا، کوئی اس بات کو مبرہن اور واضح کرنے کی توفیق نہ پا سکا کہ ان کی یہ بات کتنی مضبوط اور کس قدر مدلل اور ناقابلِ رد ہے ۔ اور اسے غلطی قرار دینا ایک غلط قضیے ’تصوف‘ کی غلط حمایت و تائید اور جذباتی پشت پناہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ پھر تصوف کے بہت سے مختلف اور الگ الگ پہلو ہیں جن میں سے بعض جہاں نہایت قابلِ اعتراض ہیں وہیں کچھ دوسرے نہ صرف نہایت عمدہ و مطلوب بلکہ ان کے موجودہ زمانے میں اعادے اور تشکیل و تعمیر نو سے بھی کافی فوائد و منافع کی توقع کی جا سکتی ہے ان کو الگ الگ بیان کر کے تصوف کے مثبت اور منفی حصوں کو الگ الگ نمایاں نہیں کیا گیا۔ اس طرح کے کچھ پہلوؤں نے مجھے اکسایا کہ میں بھی اس بحث میں کود پڑ وں اور اپنی کچھ گزارشات تمام شرکا کی خدمت میں عرض کروں ۔ لہٰذا حاضرِ خدمت ہو گیا ہوں ۔ اس باب میں میرے خیالات و تأثرات بصد ادب و احترام درج ذیل ہیں :[/right][/green][/size=4] [red][size=5][center][b]تصوف: ایک تأثراتی و خاکہ جاتی مطالعہ[/b][/center][/size=5][/red] [b][right][blue]تصوف ایک عالمی ظاہرہ ہے ۔ یہ اسلام سے پہلے بھی پایا جاتا تھا اور آج بھی دنیا کے بے شمار علاقوں اور مذاہب میں گوناگوں شکلوں میں پایا جاتا ہے ۔ اسلامی دنیا میں اس کا ظہور و شیوع تدریجاً ہوا ہے ۔ پہلے یہ اسلامی دنیا کو حاصل ہونے والی فتوحات اور دنیوی اقتدار و دولت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عیاشی اور دنیاداری کے غلو کے ردِ عمل کے طور پر دین کی تعلیمات و اعمال پر زیادہ زور دینے اور دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنے کی دعوت و تلقین کی شکل میں شروع ہوا۔ لوگ جب حبِ مال و جاہ میں مبتلا ہوئے اور دنیوی مفادات و مصروفیات ہی ان کا اوڑ ھنا بچھونا بننے لگیں اور وہ دین کے معاملے میں غفلت و سستی اور بے حسی و لاپرواہی کا شکار ہونے لگے تو ابتدا میں اس طرح کا رجحان و رغبت رکھنے والے لوگ لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے ، آخرت کو یاد رکھنے اور اس کے لیے تیاری کرنے اور دنیا کی بے حیثیتی اور اس سے بے رغبتی جیسے امور کے حوالے سے چوکنا رہنے اور زیادہ سے زیادہ دینی اعمال و اذکار میں مصروف و مشغول رہنے کی تاکید و نصیحت کرنے میں مبالغے سے کام لینے لگے ۔ اس طرح کے رجحان اور دعوت کے متأثرین کا اپنا طرزِ زندگی یہ سامنے آنے لگا کہ وہ بہت سادہ زندگی گزارنے لگے اور دنیوی رونق و شوکت سے مبالغے کی حد تک پرہیز و گریز کرنے لگے ۔ ایسے لوگ ہر وقت ذکر و فکر اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے اور دنیوی مصروفیات اور کاروبارِ حیات کے امور و معاملات سے خود بھی کتراتے اور دامن بچاتے اور عام لوگوں کو بھی دنیوی رونقوں اور رنگینیوں سے دور و بیزار رہنے کی نصیحت و تعلیم دیتے ۔[/blue][/right][/b] [green][right][b]ابتدا میں تو یہ بہرحال ایک حد کے اندر اندر رہے ۔ ان کا معاملہ بس یہاں تک رہا کہ مسلمانوں کے اندر مالی فراوانیوں اور فتوحات کی پے در پے کامرانیوں نے جو دنیوی لگاؤ اور آخرت سے غفلت و بے عملی وغیرہ بگاڑ پیدا کیا تھا، یہ اس پر کڑ ھتے اور صورتحال کے اس انقلاب و تغیر کو ناگوار رکھتے اور اس کے ردِ عمل کے بطور خود بھی غیر معتدل انداز میں دنیا اور اس کے متعلقات سے دور بھاگتے اور لوگوں کو بھی سادگی، زہد اور ترکِ دنیا کی نوعیت کی تعلیم و تلقین کرتے ۔ لیکن معاملہ اس حد کے اندر نہ رہا۔ بعد کے ادوار میں تصوف کے بطن سے نئے نئے نظریات اور عقائد و تصورات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ تعبدی امور تک میں نئی نئی رسومات و اصطلاحات کا رواج ہونے لگا۔ یہ خود تصوف کے دائرے کے اندر دینی بگاڑ و خرابی در آنے جیسا معاملہ تھا۔ تصوف کے اسلامی ماڈل میں یہی وہ اضافے اور پیش رفتیں ہیں جنہوں نے آگے بڑ ھ کر اسے ایک پورا فلسفۂ حیات و کائنات اور نظامِ عمل یا طریقۂ زندگی بنادیا جسے ایک متوازی اور برابر کا دین کہنے میں کوئی مبالغہ اور زیادتی نہیں ہے ۔ دین و مذہب کا مطلب عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ زندگی اور کائنات کے بارے میں انسان کا نظریہ، اس کی مطابقت میں اس کا مقصدِ حیات اور نظام العمل۔ اسلامی دنیا میں پیدا ہونے والا اور درجہ بدرجہ ترقی و تکمیل کی منازل طے کر کے موجودہ شکل و ہیئت میں سامنے آنے والا موجودہ تصوف یہ سارے پہلو اپنے اندر رکھتا اور ان سارے گوشوں کے باب میں اپنا ایک نظریہ، مؤقف اور نصاب و نظام رکھتا ہے ۔اس لیے یہ واقعتا ایک پورا پورا مذہب اور مکمل دین ہے ۔ ایک دوسرے مقام پر اس بات کو اختصار کے ساتھ میں نے اس طرح بیان کیا تھا:[/b][/right][/green] [center][b][red]’’مال و اسباب کی فراوانی اور اموالِ غنیمت کے راستوں سے آنی والی معاشی و مادی خوشحالی نے مسلم دنیا میں دنیا پرستی کو فروغ دینا اور آخرت سے بے توجہی اور غفلت کو عام کرنا شروع کر دیا۔ اس ظاہرے نے کچھ اور نیک دل اور آخرت پسندی کا رجحان رکھنے والوں اور دنیا اور اس کے اموال و اسباب اور رونق و رنگینی سے پرہیز کرنے والوں اور انہیں فتنہ و فساد کی دلدل سمجھنے والوں کو اکسایا۔ انہوں نے لوگوں کو دنیا کی محبت و پرستش سے نکالنے کے لیے دنیا اور اس کی گرویدگی کی مذمت کرنا اور لوگوں کو آخرت پسندی کی طرف مائل کرنے کے لیے وعظ و نصیحت کی محفلیں منعقد کرنا شروع کیں اور اس بات پر زور دیا کہ لوگ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اپنی ترجیح بنائیں اور اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوں ۔ یہ لوگ عملاً بھی دنیا اور اس کی آسائشات و لذات سے کتراتے اور سادہ زندگی اور سادہ رہن سہن پر اصرار کرتے تھے ۔ ابتدائً یہ معاملہ بس یہیں تک تھا۔ لیکن اس نے مزید ترقی کی اور پھر یہ آگے بڑ ھ کر تصوف کے ایک نظریے اور ادارے کی شکل میں نمایاں سے نمایاں اور اسلامی دنیا میں زیادہ سے زیادہ رائج و مقبول ہوتا چلا گیا۔ بعد میں اس نے تدریجاً اسلام کے متوازی ایک مابعد الطبیعیاتی فلسفے اور نظام عمل یا آسان لفظوں میں ایک پورے دین کی شکل و صورت اختیار کر لی۔‘‘[/red][/b][/center] [b][right][blue]تصوف پر اسلامی حلقوں میں جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ یہ فن اپنی ذات ہی میں ایک گمراہی اور برائی ہے یا یہ کہ یہ غیر اسلامی مذاہب کی ایجاد ہے ، لہٰذا اسے قبول کرنا غلط ہے یا یہ کہ اس کا جنم اسلام ہی کے دامن میں ہوا اور اسلام ہر نئی دینی چیز کو بدعت ٹھہراتا اور گمراہی قرار دیتا ہے ، لہٰذا یہ ایک بدعت اور نتیجتاً گمراہی اور ضلالت ہے ۔ بلکہ تصوف پر جو اعتراض و اشکال وارد کیا جاتا ہے وہ اس سے ہٹ کر کچھ اور ہے اور یہ بات کچھ تفصیل و توضیح طلب ہے ۔ تصوف ایک ایسا ظاہرہ ہے جو علم کی دنیا سے بھی متعلق ہے اور عمل کے دائرے سے بھی۔ یہ اپنے ہاں علمیات و عملیات دونوں کی پوری پوری تعلیمات و تفصیلات رکھتا ہے ۔ اس کے عملیات میں بھی گو ایسے امور اور پہلو ہیں جو اسلامی تعلیمات اور شریعت کی تحدیدات کی روشنی میں شدید قابلِ اعتراض ٹھہرتے ہیں لیکن اس کے نظریات و علمیات کی دنیا تو سرتاسر اسلامی عقائد و تصورات کے بالمقابل و متوازی ایک پوری نیاے افکار و نظریات ہے ۔ صوفیا گو اسلامی عقائد و تعلیمات کا انکار یا کھلم کھلا مخالفت و تردید نہیں کرتے بلکہ وہ ڈنکے کی چوٹ اور برسرِ پنڈال اپنے مسلمان ہونے اور قرآن و سنت اور شریعتِ اسلامی کے معتقد و پیرو ہونے کا اعلان و اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوصف اسلام میں توحید، نبوت، رسالت، آخرت اور وحی و الہام وغیرہ موضوعات سے متعلق جو نظریات پائے جاتے ہیں ۔ تصوف انہی موضوعات پر اپنے الگ اور مختلف تصورات رکھتا ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو شریعت دیتا ہے تصوف اس کے ساتھ ساتھ طریقت پر بھی اصرار کرتا ہے ۔ مسلمانوں پر نبی کی اطاعت و پیروی لازم ہے ۔ تصوف صوفیوں پر شیخ کی تقلید و تابعداری کو فرض و لازم گردانتا ہے وغیرہ وغیرہ۔[/blue][/right][/b] [b][right][green]تصوف پر اصل اعتراضات یہی ہیں کہ آخر جب خدا نے صاف اور سیدھے طریقے سے اپنا دین اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو دیا ہے تو وہ کیوں اس سے ہٹ کر اور الگ سے اپنے عقائد و نظریات کا پرچار کرتے ، طریقت کے نام سے ایک نظام العمل ایجاد کر کے اسے اپنے پیروکاروں کا نصابِ زندگی بناتے اور پیغمبر ہی کی طرح اپنے شیوخ کی اطاعت و پیروی کو لازم و ضروری قرار دیتے ہیں ۔ پھر صوفیا کے جو نظریات توحید، نبوت، وحی و الہام اور شریعت جیسے عنوانات کے باب میں ان کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں قرآن و سنت اور احادیث کی روشنی میں انہیں قبول کرنا اور درست قرار دینا بالکل ناممکن ہے ۔ وہ کسی طرح اور کسی زاویے سے اسلامی تعلیمات سے مطابقت و موافقت نہیں رکھتے ۔ بلکہ ایک بالکل مساوی درجے کا دین و مذہب ہے جو انسان کے سامنے آتا ہے جس کے عقائد و تصورات کو ماننا اس کے بغیر ممکن ہی نہیں رہتا کہ انسان مذکورہ امور سے متعلق اسلامی تصورات کو خیرباد کہہ دے ، گو وہ زبان سے اسلام کا انکار نہ کرے اور نہ خود کو دائرۂ اسلام سے خارج بتائے جانے پر راضی ہو۔ جب خدا کی نازل کردہ شریعت موجود ہے تو آخر یہ طریقت کیا چیز ہے جس کو تسلیم کرنے اور زیرِ عمل لانے پر اتنا اصرار کیا جاتا ہے ۔ اگر یہ تصورات اور رسومات بھی کوئی دینی اور ضروری چیزیں ہوتیں جن کو ماننا اور زیرِ عمل لانا مسلمانوں کے لیے ضروری ہوتا تو آخر کیوں نہ خدا نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہوتا اور انہیں واضح انداز میں بیان کر دیا ہوتا۔ جب پیغمبر خدا کے فرستادے کی حیثیت سے واجب الاطاعت ہادی کی حیثیت رکھتے ہیں اور خدا ہی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے اور اب قیامت تک وہی انسانوں کے رہبر و ہادی اور قائد و امام ہیں تو پھر کیوں مشائخِ صوفیا اور پیرانِ تصوف کی اندھا دھند اطاعت و تقلید کو ضروری بتایا جاتا اور اس پر اصرار کیا جاتا ہے ۔[/green][/right][/b] [right][blue][b]صوفیا نے جو تاریخی رول ادا کیا ہے ۔ اور جن عملی خوبیوں اور اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیاد پر ان کی مدح سرائی کی جاتی اور ہر تنقید و اعتراض کے وقت ان کے جو اوصاف و کردار گنوانا شروع کر دیے جاتے ہیں ، وہ یقینا ایک بہت بڑ ا کارنامہ ہے ۔ لیکن وہ الگ سے کسی صوفیانہ تعلیم، رہنمائی اور نصاب کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ اسلام ہی کی اعلیٰ انسانی و اخلاقی تعلیمات پر بہترین معیار و انداز میں عمل کے نمونے ہیں ۔ انسانوں سے پیار و محبت کرنا اور ہمدردی و خیرخواہی برتنا اسلام ہی کی تعلیم ہے ۔ صبر و برداشت اور تحمل و بردباری کے رویے اسلام ہی نے سکھائے ہیں ۔ سادگی، قناعت اور فکرِ آخرت کی تلقین سے اسلامی تعلیمات پُر ہیں ۔ عفو و درگزر، عالی ظرفی، شرافت و مروت اور سب انسانوں سے بہترین معاملت اسلامی تعلیمات ہی کا حصہ ہیں ۔ صوفیا کا اس باب میں جو غیر معمولی کارنامہ ہے وہ یہ کہ انہوں نے ان اعلیٰ تعلیمات کو بہت گہرے ، خوبصورت اور حقیقی اندازمیں ایک تہذیب اور عملی آداب بنا کر اپنی زندگی میں شامل کر لیا۔ اور اسلام کی یہ اعلیٰ و مؤثر اخلاقی تعلیمات اور ان کے زیرِ اثر وجود میں آنے اور پروان چڑ ھنے والے اوصاف و خصوصیات ان کی تعلیم و تلقین کا اصل موضوع اور خاص عنوان بن گئیں ۔ جو ان کے دائرے اور تعلق کے حلقے میں آتا صوفیا کے اس طرزِ زندگی اور ان کی ان تعلیمات اور عملی خوبیوں کی وجہ سے ان کا گرویدہ و مداح بن جاتا۔ ہر ایک ان سے پیار کرتا اور ان کا احترام بجالاتا۔ وہ ہر ایک سے محبت کرتے اور اس کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے اس لیے ہر ایک ان کو اپنا ہمدرد و بہی خواہ محسوس کرتا اور ان سے مانوس و قریب ہوجاتا۔ ان کا خانقاہی و درگاہی ماحول انسانوں کے لیے اپنی تکالیف و مصائب کی چبھن و بے چینی سے نجات حاصل کرنے اور اپنے دل، دماغ اور روح کو تازگی اور سکون سے پر کرنے کے مرکز و منبع کا کام دیتا۔ وہاں کا سادہ، فطری اور روحانیت و للھیت بھرا ماحول انسان کو اندرونی و باطنی امن و چین کی کیفیات سے مالا مال کرنے والے آستانے کی حیثیت رکھتا تھا۔ صوفیا کے مزاج و کردار اور ان کے طرزِ حیات اور ان کے بنائے ہوئے ماحول کی یہی وہ پرکشش خوبیاں اور قیمتی اثرات تھے جو انہیں اور ان کے ماحول کو انسانوں کی بھیڑ کا مرجع و مرکز بنادیتے تھے ۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس ساری تفصیل اور تاریخی داستان میں جو کچھ بھلائی، خوبی، روشنی اور بلندی نظر آتی ہے وہ اسلامی تعلیمات اور رسولِ ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین و معیاری ترین اخلاقی نمونوں ہی کا فیض و کرم تھا۔ اس میں الگ سے تصوف کی نازل کردہ تعلیمات اور دائرۂ تصوف کے انبیاو رسل کے اپنے نقش کردہ اخلاقی نقوش کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ کیوں کہ تصوف اور صوفیا کے پاس جو کچھ کشش اور جاذبیت تھی وہ اسلام ہی کی بخشی ہوئی اور اسلامی تعلیمات ہی کو اپنانے اور زندگی بنانے کا نتیجہ تھی۔لہٰذا اگر تصوف کے ان پہلوؤں کی خوبی کو پیش کر کے اسے اعتراضات و تنقیدات کا ہدف بنانے پر شور و شکایت کی جاتی ہے تو ہم واضح کر دیں کہ تصوف کے ان عملی و اخلاقی پہلوؤں پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرتا بلکہ ہر ایک انہیں قابل قدر مثالوں اور عمدہ و اعلیٰ اخلاقی نمونوں ہی کی حیثیت دیتا اور ان کے دوبارہ زندہ کرنے کی خواہش و ارمان کا اظہار کرتا ہے ۔ تنقید و اعتراض تصوف کے اُن نظریات و افکار پر کیا جاتا ہے جہاں وہ اسلام کی بنیادی اصطلاحات کی تعبیر اپنے طور پر پیش کرتا اور ان کی تفصیل و تشریح کرتے ہوئے اسلام کی بیان کردہ تفصیلات سے بالکل ہی الگ کسی اور ہی عالم کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے ۔[/b][/blue][/right] [b][right][green]باقی رہے خارقِ عادت کمالات اور کرامات وغیرہ موضوعات، تو یہ کوئی دین ایمان کا مسئلہ نہیں ہیں اور نہ ہی تصوف پر ہونے والے اعتراضات کی اصل اساسات اور بنیادی وجوہات ہیں ۔ان کا تعلق انسان کی نفسی قوتوں اور روحانی کمالات سے ہے ۔ اور یہ اپنی ذات میں کوئی مأخذِ دینی و مذہبی ہوہی نہیں سکتے ۔ ان سے نہ کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے اور نہ کوئی نیا حکم و اصول مستنبط، اور نہ ہی یہ کسی شخص کے دینی حیثیت سے بلند و برتر ہونے اور اس کے دینی معاملات میں ناقابلِ ریب و سوال و اعتراض مقتدا و پیشوا ہونے کا کوئی ثبوت ہیں ۔ ان کا معاملہ تو بس یہ ہے کہ جس طرح کوئی انسان باڈی فٹنس کے لیے کچھ ورزشیں اور تینیکز استعمال کر کے اپنے جسم کو غیر معمولی شیپ و ہیئت میں ڈھال لیتا ہے ویسے ہی مختلف لوگ مختلف تدابیر اور عبادت و ریاضت اور چلہ کشی جیسے مراسم کی کثرت کے ذریعے اپنے اندر کوئی غیرمعمولی نفسی قوت اور کوئی امتیازی قسم کا روحانی کمال پیدا کر لیتے ہیں اور بس۔ اس کے بعد بھی وہ رہتے عام انسان ہی ہیں ۔ ان چیزوں کا کوئی تعلق انسان کے مذہبی طور پر برتر و مقدس ہونے یا خدا کے نزدیک بزرگ و مقرب ہونے سے نہیں ہے ۔ یہ کمالات و امتیازات اور اوصاف و خصوصیات تو ایک غیرمسلم بھی اپنے مذہبی مراسم یا دوسرے نفسی و روحانی علو و ارتقا دلانے والے طریقے اپنا کر حاصل کرسکتا اور اپنی شخصیت میں غیر معمولی نفسی و روحانی کمالات بآسانی پیدا کرسکتا ہے ۔ یہ تو ایک طرح کا فن اور تکنیک ہے ۔ اور اس میں ہر طرح سے شیاطین و جنات کی دراندازی کے امکانات باقی رہتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ جو بازار میں بڑ ے بڑ ے القاب سے ملقب اور دعوے باز قسم کے عاملین اور جنات پر قابو یافتہ پہنچے ہوئے لوگ اپنی دکانیں سجا کر بیٹھے ہوتے ہیں کیا یہ کوئی بہت اعلیٰ پائے کے صوفی اور مجتہدین و محققینِ تصوف ہوتے ہیں یا پھر کچھ فنی چیزوں کی تعلیم و مشق سے انہوں نے اپنے اندر کچھ خصوصیات پیدا کر لی ہوتی ہیں جن سے وہ عام طور پر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے اور لوٹتے ہیں ۔ صوفیانہ کرامات و خارقِ عادت واقعات اگر دینی حیثیت سے بزرگ و برتر ہونے کا معیار ہوتے تو صحابۂ کرام کی جماعت کے تمام افراد کی سیرت و سوانح پڑ ھتے ہوئے ہمیں اس طرح کے قصے کہانیوں کے علاوہ اور کچھ پڑ ھنے کو نہیں ملتا مگر افسوس اور بدقسمتی کی بات ہے لیکن ہے ایک پورا اور حقیقی واقعہ کہ ہمیں ان کی تاریخ میں ایمان و اسلام سے ان کے تعلق و وابستگی کے بے مثال نمونے اور اس راہ میں ان کی اٹھائی ہوئی مشقتیں اور پیش کی ہوئی قربانیاں تو پڑ ھنے کو ملتی ہیں لیکن صوفیانہ کرامات کے قسم کی غیر معمولی و حیران کن داستانیں نہیں نظر آتیں ۔ صوفیانہ لٹریچر اور بزرگوں کی داستان و سوانح جات میں اس طرح کے جو ہوش ربا قصے ، کہانیاں اور افسانے نہایت کثرت کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں وہ عام طور پر قصہ گویوں اور افسانہ پسند طبیعتوں کے خانہ زاد ہوتے ہیں ۔[/green][/right][/b] [center][b][red]جناب عاطف رفیع صاحب نے بحث میں شامل ہوکر جن نکات کو اٹھایا اور کافی دیر تک محترم ابوسیٹ کو کافی گرماگرم بحث میں الجھایا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ ان کے تعلق سے بھی چند گزارشات پیش کر دوں :[/red][/b][/center] [b][right][blue]مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ چند اختلافات کی موجودگی سے ہم کسی ازم کو ایک بالکل ہی نیا مذہب اور علیحدہ دین نہیں قرار دے سکتے ، کیوں کہ اختلافات تو صحابۂ کرام میں بھی موجود تھے جیسے ایک صحابی کی سورۂ فلق و ناس کے قرآن کا حصہ نہ ہونے کی رائے بطورِ مثال ذکر کی گئی ہے ۔ ابتدائی زمانے کے حدیث و فقہ سے زبردست اشتغال کے ادوار میں بھی مسلم اہلِ علم میں بہت سے اصولی و فروعی اختلافات موجود تھے حتّی کہ ان کے الگ الگ ا سکول آف تھاٹز وجود میں آ گئے لیکن اس کے باوجود وہ الگ الگ مذاہب و ادیان نہیں بن گئے ۔ بلکہ وہ سارے لوگ مسلمان کے مسلمان ہی رہے اور ان کے اختلافات ایک ہی مذہب کے پیروکاروں کے باہمی علمی و فقہی اختلافات سمجھے اور قرار دیے گئے ۔ اسی طرح اگر صوفیا اور تصوف گو نئی اصطلاحات ہیں لیکن اس سے یہ کوئی غلط اور قابلِ تنقید و اعتراض چیزیں نہیں بن جاتیں ۔ ان میں کچھ فکری و عملی غلطیاں موجود ہیں اس بنیاد پر بھی تصوف کو اسلام کے برخلاف و مقابل ایک متوازی اور پورا دین قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ سب باتیں تسلیم۔ لیکن مجھے اس سوال کا جواب دیا جائے کہ اگر کوئی ازم یا فلسفہ یا فن یا شعبۂ علم و عمل اپنے بنیادی نظریات میں اسلام کے بنیادی نظریات سے متصادم ہوجائے ، اسلام جس چیز کو دن بتائے وہ اسے رات قرار دے ، اسلام نبوت و رسالت کو ایک ختم شدہ باب، نبی و رسول کو خدا کا مستند ترین نمائندہ اور خدا کا معزز ترین فرستادہ قرار دے اور خدا سے براہِ راست القاء و الہام یابی کو ایک قصۂ پارینہ قرار دے لیکن وہ دعویٰ کرے کہ نہیں نبی و رسول تو محض القاب و اسما ہیں اصل کمالات، اعزازات، بلندیاں ، مناصب، خصوصیات اور برتریاں تو ہمارے شیوخ اور اکابر صوفیا ہی کو نصیب ہوئی ہیں اور ان کا حال و مقام یہ ہے کہ یہ اب بھی خدا سے براہِ راست فیض پاتے ، الہام و القاء سے سرفراز ہوتے اور شریعت کے محض براے نام پابند ہوتے ہیں ۔ ورنہ ان کا مرتبہ و درجہ تو یہ ہے کہ حق ان کے پیچھے پیچھے گھومتا اور ان کی زبان حق ترجمان اور یہ خود اپنا نصابِ ہدایت براہِ راست خدا سے پا کر اس پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں ۔ تو کیا ایسی صورت میں بھی اسے اسلام کے مقابل و متوازی ایک مکمل مذہبی نظریہ اور دینی رویہ قرار دینے میں کوئی مبالغہ اور شدت پرستی واقع ہوجائے گی؟[/blue][/right][/b] [b][right][green]اس میں کیا شک ہے کہ صوفیا نے اسلام کو پھیلانے اور اس کے حوالے سے دنیا میں مثبت جذبات و احساسات کو فروغ دینے اور اسلام کے اچھے امیج کو پروان چڑ ھانے میں نہایت غیر معمولی رول ادا کیا ہے ۔ اس سے کس کو انکار ہے ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی صوفیا یا تصوف کا کمال نہیں تھا بلکہ یہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور اس کی تلقین کردہ اعلیٰ اقدار و اخلاقیات کو بھرپور انداز میں اپنانے اور اپنی زندگی کا رنگ ڈھنگ بنانے کا نتیجہ تھا۔ ان ساری چیزوں کا کریڈٹ اسلام کے کھاتے میں جاتا ہے نہ کہ کسی تصوف اور اس کے حلقۂ صوفیا کے شیوخ کو۔ ہم تصوف اور اس کے معتقدین کے عملی رول پر تنقید و اعتراض کربھی نہیں رہے ، اگرچہ بعض جگہ اس میں بھی حد سے بڑ ھنے اور غلو کا شکار ہونے کی صورتحال و کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ہمارا اعتراض تو سر تا سر اکابرِ تصوف کے بنیادی اسلامی عقائد سے متعلق بیان کردہ نئے اور متوازی نظریات و تصورات پر ہے ۔ ان کو اسلامی تعلیمات و تصورات کے مطابق و موافق ثابت کرنا کسی توجیہہ و تاویل سے ممکن نہیں ہے بالکل اسی طرح جس طرح رات اور دن کو ایک جیسا ثابت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تصوف کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات کا تعلق انہی خلافِ اسلام و قرآن نظریات سے ہے ۔ اور کسی کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ اس باب میں یہ اعتراف کرے کہ اس طرح کی چیزوں میں اکابر صوفیا سے واضح غلطی صادر ہوئی اور انہیں صریح مغالطے اور لغزشیں پیش آئی ہیں ۔ قرآن و سنت کو اپنا مقتدا و پیشوا ماننے والوں کو بڑ ے سے بڑ ے آدمی کے خلافِ اسلام عقائد و نظریات اور خیالات و تصورات کو غلط تسلیم کرنے میں کوئی باک اور جھجک نہیں ہونی چاہیے ۔ کیوں کہ قرآن و سنت کا حق و حمیت ہر شخصیت اور ہستی سے بڑ ھ کر ہے ۔ اور آخری بات یہ کہ فقہ، فنِ نحو، علمِ بلاغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم و فنون جو اسلامی معاشرے میں اسلام کے تعلق سے پیدا ہوئے اور پروان چڑ ھے ، ان کا اور تصوف کا معاملہ ایک جیسا نہیں ہے ۔ وہ اسلامی حدود و تعلیمات کے دائرے کی چیزیں ہیں جب کہ تصوف کا معاملہ اس سے سراسر مختلف ہے ۔ وہ بنیادی اسلامی عنوانات و اصطلاحات کے باب میں اپنا ایک پورا علیحدہ نظریہ اور جداگانہ مؤقف رکھتا ہے ۔ وہ انسان کے نصب العین و مقصدِ حیات کے باب میں بھی اپنی ایک انوکھی راے رکھتا ہے ۔ تزکیۂ نفس کے حصول کے لیے اسلام میں قرآن و سنت کی تعلیمات موجود ہیں لیکن تصوف اس کے لیے طریقت و سلوک نامی ایک راہ تجویز کرتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کی یہ نام نہاد طریقت اور سلوک تزکیۂ نفس کے مقصد تک پہنچنے کے لیے زیادہ زود اثر و اکسیر ہے ۔ یہ شارٹ کٹ اور آسان راہ ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی راہ طویل و کٹھن راستہ۔اسلامی نبی و رسول کو اصل پیشوا اور خدا کا نمائندہ و فرستادہ بتاتا اور مسلمانوں پر اس کے اقوال و اعمال کی پابندی و پیروی لازم ٹھہیراتا ہے جبکہ تصوف اپنے فن کے ماہرین و متخصصین مشائخ و صوفیا کو یہ درجہ دیتے اور انہی کی غیر مشروط اطاعت کو لازم قرار دیتے ہیں ۔ ان فروق و امتیازات کے بعد اسلام اور تصوف کو ایک بتانا یا تصوف کو اسلامی تعلیمات ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل یا اسلامی مقاصد و اہداف کے حصول کا ایک قریبی، آسان اور شارٹ کٹ و سہل راستہ بتانا ایک بے بنیاد اور نہایت خلافِ حقیقت بات ہے ۔[/green][/right][/b] [right][b][blue]اس ساری تفصیل اور تصوف و متصوفین کے اسلامی حدود و تعلیمات سے مذکورہ قسم کے سارے علمی و عملی انحرافات کے بعد بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو ان کے ایمان و اسلام کا فیصلہ کرنے اور ان کے حلقۂ اسلام سے باہر یا معاذ اللہ غیر مسلم ہونے کی راے رکھنے اور فیصلہ دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ان غلطیوں اور لغزشوں کا تعلق علمی کوتاہیوں اور تاویل و توجیہہ کی خامیوں سے ہے جن کی بنیاد پر کسی کی راے اور مؤقف کو غلط اور گمراہ کن تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر ایسی کسی راے یا مؤقف کے حامل کے ایمان و کفر اور مسلم و غیر مسلم ہونے کا فیصلہ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ خدا نے انسان کو فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے نوازنے کے بعد آزادیٔ راے اور عمل سے نوازا ہے ۔ اس کے علاوہ انسانوں کے رجحانات اور زاویۂ نظر و فکر میں بھی بہت سے فرق پائے جاتے ہیں ۔ ان وجوہات کی بنا پر مختلف معاملات میں لوگوں کی آرا اور کسی نصاب و تعلیم کے اجزا کو سمجھنے کے حوالے سے ان کے رجحانات و حاصلات بھی مختلف ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس طرح کے اختلافات کی بنیاد پر کسی کو دائرۂ اسلام میں سمجھنے اور کسی کو اس سے باہر نکالنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ایسے اختلافات کے باب میں صحیح و معقول رویہ بس ایک ہی ہے کہ ایسے اختلافات پر علمی انداز ، معقول دلائل اور شائستہ و شگفتہ اسلوب میں بات اور بحث کی جائے اور بس۔ کوئی اپنی راے کی غلطی کو تسلیم کر کے آپ کا ہم خیال بن جائے تو اچھی بات ہے یا اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ ہی سے غلطی ہوئی ہے اور آپ اپنا مؤقف بدل لیں تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ، لیکن اگر کسی موقع پر ایسی صورتحال پیدا ہوجائے کہ گفتگو اور بحث کے فریقین میں سے کوئی کسی کے دلائل سے قائل نہ ہو سکے اور دونوں فریق اپنی اپنی راے اور مؤقف پر مصر رہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہمیں سب کو ایک ہی فکر و نظریے کا حامل و علمبردار بنانے کی غیر فطری خواہش کے بہاؤ اور اس کے لیے بے نتیجہ کوششوں کے گرداب سے نکلنا چاہیے اور لوگوں کی فکر و عمل کی آزادیوں کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنی راے پر قائم رہنے اور اپنے طرزِ عمل کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دینا چاہیے ۔ایسے اختلافات کسی زندہ اور جاندار معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں جبکہ افراد ایسے اختلافات کو انگیز کرتے ہوئے باہم مل جل کر پیار و محبت کے ساتھ رہنے کا حوصلہ اور بلند ہمتی دکھا سکیں ۔ ہم بھی صوفیا کے نظریات کو صریحاً غلط اور اسلامی تعلیمات سے واضح طور پر منحرف سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا پورا پورا احترام کرتے اور ان کے ایمان و اسلام کے معاملے کو خدا کے حوالے کرتے ہیں ۔ یہ اُس پرودگار ہی کا کام اور حق ہے کہ وہ لوگوں کے ایمان و اسلام کا فیصلہ فرمائے اور انہیں اپنے انعام یا سزا کا مستحق قرار دے ، کیوں کہ دلوں اور نیتوں کا حال وہی جانتا ہے ۔ اور اسے ہی معلوم ہے کہ کس کے فکر و عمل کی خامیاں نیک نیتی کے ساتھ وجود میں آئیں تھی، لہٰذا وہ معافی اور درگزر کا مستحق ہے اور کس کے نظریات و کردار کی کوتاہیاں بدنیتی اور فسادِ طبیعت و مزاج کا نتیجہ تھیں ، لہٰذا وہ پکڑ اور گرفت کا حقدار ہے ۔[/blue][/b][/right] [b][right][right][red]آخر میں سیفے میرا اور عاطف رفیع نے جس انداز میں ابوسیٹ کو منہ چڑ ا کر بحث ختم کی ہے ، میرے خیال سے ان دونوں نے ابوسیٹ کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔ ابوسیٹ نے کوئی فتویٰ نہیں داغا تھا بلکہ وہ تو بہت اچھے انداز اور دلائل کے ساتھ بحث کر رہے تھے ۔ ہر سوال کا جواب دینا انھوں نے اپنی ڈیوٹی سمجھ لیا تھا اور بڑ ی محنت سے ان کی ایک ایک بات اور شق کی وضاحت کے سلسلے میں پوری جان توڑ کوشش کر رہے تھے ۔ میرے خیال سے یہ ان دونوں کی بہت زیادتی ہے کہ انھوں نہ ابوسیٹ جیسے شریک کو یہ بات کہہ کر خیر باد کہہ دیا کہ اس وقت علما بس مخالفین پر فتوے ہی داغتے اور یک طرفہ طور پر انہیں خارج از اسلام قرار دیدیتے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ابوسیٹ بھی ان کے بارے میں ایسا کوئی فیصلہ صادر فرمادیں ۔ ابوسیٹ نے ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں کیا تھا بلکہ وہ تو نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور بہت سنجیدہ و قابل قدر انداز میں بحث میں شامل تھے ۔ اس کے باوجود ان سے اس توقع کا اظہار کرتے ہوئے اور مایوسانہ انداز میں بحث کو یکطرفہ طور پر ختم کر دینا اور یہ تأثر دینا کہ سامنے والا معقول انداز میں بات کرنے کے بجائے فتویٰ بازی کی پست سطح پر کھڑ ا کٹ حجتیاں کر رہا ہے ، نہایت سنگدلی اور جھوٹی نمائش ہے اور ساتھ ہی انتہائی غیر واقعی الزام اور فرضی بہتان بھی۔[/red][/right][/right][/b][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top