Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Sufi Miracles & Criticism
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b][size=4][center][red]In Reply to the Post on 26 June, 2010 by Respected Safimera[/red][/center][/size=4][/b] [b][size=4][right]محترم بھائی جان سیفے میرا صاحب!!![/right][/size=4][/b] [blue][b][right]سب سے پہلے تو بہت معذرت کہ میری تحریر نے آپ کو زبردست طریقے سے غصہ دلایا اور ناراض کردیا۔ اگرچہ آپ دوبارہ میرے الفاظ کو پڑھ کر یہ جان سکتے ہیں کہ میں نے براہِ راست آپ کے بارے میں کوئی ایک بھی برا لفظ یا غلط بات نہیں لکھی ہے بلکہ میں نے بعض غلط اور قابلِ مذمت رویوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کی شناعت و قباحت کو بعض الفاظ اور جملوں میں بیان کیا ہے۔ میں یہ بات آپ کو پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ کسی شخصیت کو برا بھلا کہنا اور کسی رویے کی مذمت کرتے ہوئے بعض سخت الفاظ لکھنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ [/right][/b][/blue] [right][b][green]آپ نے میرے جو الفااظ نقل کیے ہیں وہ خود بول کر بتارہے ہیں کہ میں معاذ اللہ جناب سیفے میرا کو سنگدل، جھوٹا، نمائشی، غیر واقعی الزامات لگانے والا اور فرضی بہتان تراشنے والا نہیں کہہ رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ سیفے میرا اور عاطف رفیع نے نہایت سنجیدگی اور شائستگی سے چلتی ہوئی ایک صحت مند اور علمی بحث کے دوران بلاجواز بحث کے ایک شریک ابوسیٹ کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں کافر نہ قرار دے بیٹھیں یا ان کے خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ صادر کردیں، بحث کو جس انداز و ادا سے ختم کرنے کا اعلان و اشتہار دیا ہے، یہ عمل سنگدلی کا مظاہرہ کرنے، جھوٹی نمائش لگانے، غیر واقعی الزام دھرنے اور فرضی بہتان تراشنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی شخص خطا کرتا ہے تو اسے خطاکار ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوجاتا کہ یہ تو پیدائشی یا ابدی خطاکار ہے۔ جب کوئی کام کرے گا لازما خطا کرے گا۔ ایسے ہی کسی کے کسی فعل و عمل کو جھوٹی نمائش یا فرضی بہتان کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کہنے والا اسے سدا کا جھوٹا اور ہر وقت کا بہتان تراش قرار دے رہا ہے۔ بات کو اس کے سیاق اور لکھنے والے کے اپنے مراد و مفہوم کے تناظر میں پڑھنا چاہیے اور اس میں اپنے من مانے معنی اور مطالب ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اب کہیں اس آخری بات کو لے کر یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ میں نے سیفے میرا کو کلام میں تحریف کرنے والا، عبارت کو من مانے مطالب پہنانے والا اور یہاں تک کہ قرآن وغیرہ کتبِ الہٰیہ میں بھی تحریف و آمیزش کا ارتکاب کرنے والا کہہ ڈالا ہے۔[/green][/b][/right] [b][right][blue]پھر ذرا آپ اپنے اس انداز و تضاد کو بغور ملاحظہ کیجیے کہ اگر کوئی آپ کے کسی نامحمود و ناروا فعل کی شناعت کو سخت الفاظ میں بیان کرے تو اس پر آپ سیخ پا ہوتے ہو اور بجائے اس کہ آپ اس بات کی وضاحت کرو کہ آپ کا یہ فعل ایسا اور ویسا نہیں ہے جس پر یہ سخت الفاظ برسائے گئے ہیں ان الفاظ کو ذاتی و شخصی طور پر لے کر اپنی ناراضی و برہمی کا واویلا اور دہائی دینے لگ جاتے ہو لیکن دوسروں کے بارے میں اس درجہ دلخراش خدشے کا اظہار کرنے سے بھی آپ نہیں جھجکتے اور رکتے کہ وہ بحث و تمحیص کے معاملے میں اتنے کم ظرف و متشدد ہیں کہ بحث کی گرماگرمی میں آپ کو کافر اور خارج از اسلام قرار دینے میں بھی نہیں جھجکیں گے۔ کیا جس طرح آپ دوسروں کے رویوں اور انداز پر اس طرح کے جارحانہ تبصرے فرمانے کا حق رکھتے ہو، دوسرے آپ کے غلط برتاؤ اور فرضی و قیاسی بہتان روائیوں پر کوئی منفی تبصرہ کرنے اور سخت ریمارکس دینے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ اس سلوک و انداز اور یکطرفہ اسلوب و ادا کے ساتھ کسی صحت مند بحث و مکالمے کی فضا قائم ہونے کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح ہم دوسروں کی راے کو دلائل کی بنیاد پر غلط کہنے کا حق رکھتے ہیں اور ان کا بھی یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دلائل کی بنیاد پر ہمارے کسی مؤقف کو نادرست قرار دیں۔ اسی طرح اگر ہم کسی کے رویے اور انداز پر منفی تبصرے کرنے کی ہمت و جرأت کرتے ہیں تو ہمیں دوسروں کو بھی ایسی ہمت و جرأت فرمانے اور ہمارے بعض رویوں اور اقدامات پر انگلی اٹھانے اور منفی ریمارکس دینے کا پوری حوصلہ مندی کے ساتھ حق دینا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے امور میں اعتدال و توازن اور حدود کی پاسداری برقرار رکھنا اور شخصی اسالیب اور ذاتی تبصروں اور ریمارکس سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ بحث افکار کے بجائے شخصی کمیوں اور خامیوں پر ہونے لگتی اور فریقین دلائل دینے کے بجائے ایک دوسرے کو کوسنے، طعنے، الزامات اور گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔[/blue][/right][/b] [right][b][red]باقی آپ نے ابوسیٹ کے حوالے سے یہ بات جو لکھی ہے کہ ان کا فرمانا ہے کہ جو شخص فلاں فلاں چیزوں کو تسلیم نہیں کرتا وہ حلقۂ اسلام سے باہر ہے۔ اور میں چونکہ ان کی ذکر کردہ بعض چیزوں کو تسلیم نہیں کرتا لہٰذا میں ابوسیٹ کے نزدیک خارج از اسلام قرار پایا، یہ نتیجہ جو آپ نے نکالا ہے یہ آپ کا اپنا تراشیدہ ہے ابوسیٹ نے نہ صاف لفظوں میں ایسی کوئی بات کہی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ دیا ہے اور نہ میرے خیال سے وہ آپ کے نکالے ہوئے اس نتیجے سے اتفاق کرسکیں گے۔[/red][/b][/right] [right][b][green]اگر کوئی شخص اصولی طور پر یہ بات بیان کرتا ہے کہ فلاں فلاں باتیں ماننا اس کےنزدیک اسلام کے دائرے میں رہنے کے لیے ضروری ہے اور جو ان باتوں میں سے کسی کا انکار کرے گا وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اگر کوئی شخص ان باتوں میں سے بعض باتوں کا قائل نہیں ہے تو وہ اس اصولی بیان دینے والے شخص کے نزدیک اسلام سے خارج ہوگیا۔ ایک اصولی بیان اور کسی شخص پر اس کے اطلاق میں بہت فرق ہے۔ کیوں کہ انکار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی غلط فہمی یا ذہنی الجھن یا علمی اشکال یا عقلی و معلوماتی اعتراض کی وجہ سے انکار کیا گیا تب بھی یہی نتیجہ برآمد ہوگا۔ بلکہ اس جگہ انکار سے مراد واضح طور پر جانتے بوجھتے انکار ہوتا ہے۔ ورنہ لوگ بہت سی باتوں سے کسی غلط فہمی یا استدلال کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں۔ ایسے مخالفین کے بارے میں کوئی بھی معقول آدمی یہ فیصلہ نہیں دے سکتا کہ وہ بہرحال اپنے انکار کی وجہ سے اسلام کی سرحدوں سے نکل کر کفر کے حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اصولی بیان موجود ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا لیکن اس نے بھی نزولِ قرآن کے وقت موجود تمام مرتکبینِ شرک کو مشرک نہیں قرار دیا بلکہ صرف اہلِ عرب کو 'جو خود اپنے مشرک ہونے اور شرک کے ان کے باقاعدہ دین ہونے کا صاف لفظوں میں اقرار رکرتے تھے ' بس انہیں ہی مشرک قرار دیا اور مشرکون کہہ کر خطاب فرمایا۔ ہمیں بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس وقت جو بہت سے مسلمان بظاہر مشرکانہ اوہام کا اقرار کرتے اور کھلے طور پر مشرکانہ رسوم کا اہتمام فرماتے ہیں، ہم انہیں مشرک قرار دیں، کیوں کہ وہ اپنے ان تصورات و اعمال کو شرک ہی نہیں سمجھتے بلکہ تاویل و استدلال کی غلطیوں کے باعث ان میں ملوث ہیں۔ اس فرق کی وجہ یہی ہے کہ انکار یا ارتکابِِ شرک ضروری نہیں ہے کہ کسی بدنیتی یا فسادِ طبیعت اور سرکشی و ڈھٹائی ہی کا نتیجہ ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کا باعث علم و فہم کی کوئی غلطی یا تاویل و استدلال کی کوئی کوتاہی ہو۔[/green][/b][/right] [right][b][red]جناب ابوسیٹ کے بارے میں آپ کے جو تأثرات و محسوسات ہیں وہ آپ نے بیان کردیے ہیں۔ میری ان کے بارے میں کیا راے ہے اسے آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہو:[/red][/b][/right] [center][blue]http://www.studying-islam.org/forum/topic.aspx?topicid=3784&pg=2&lang=&forumid=31[/blue][/center] [b][right][red]میں بھی ان کے احترام و عزت کے باوجود علمی حوالے سے ان کے بارے میں کوئی بہت اعلیٰ و معیاری راے نہیں رکھتا بلکہ میرا احساس یہ ہے کہ یہ اگرچہ بہت صاحبِِ مطالعہ آدمی ہیں لیکن انہیں استدلال کے فن اور اپنا مؤقف ثابت کرنے کے ہنر سے کچھ خاص واقفیت نہیں ہے۔ ان کا طریقہ بس یہ ہے کہ کسی موضوع پر بہت سارا مواد اور ڈھیر سارے اقتباسات اکٹھے کردو، چاہے ان کا موضوع سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو اور ان سے ان کا مدعا اور دعویٰ ثابت ہورہا ہو یا نہ ہو رہا ہو۔ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو لوگوں پر اپنی علمی ڈھاک اور مطالعاتی وسعت کا رعب جماکر ان سے اپنی بات منوانا اور اپنے مؤقف کی تائید کرانا چاہتے ہیں۔ مجھے کبھی ان کے اس رویے سے اتفاق نہیں ہوسکا۔ تاہم اس جاری ٹاپک پر آپ لوگوں سے بات کرتے ہوئے نہ انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تھی اور نہ آپ لوگوں کے ایمان و کفر کی کوئی بحث چھیڑی تھی بلکہ وہ نہایت معقول انداز میں آپ سے بات کررہے تھے اور آپ لوگوں کے ہر ہر سوال و اعتراض کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کررہے تھے۔ ایسے میں ان کے بارے میں یہ تأثر دینا کہ وہ بحث کی گرمی میں اس حد پر اتر آئے ہیں کہ شاید اب ہمیں کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے بیٹھیں اور دلائل کا جواب دلائل سے دینے کے بجائے اپنے اس فرضی اور یک طرفہ احساس کو بنیاد بناکر بحث کو یکدم سمیٹ دینا اور ختم کردینا میرے خیال سے نری زیادتی تھی۔ اسی لیے میں نے اس پر تنقید کی تھی اور ابوسیٹ کی حمایت کی تھی۔ کیوں کہ میرا مسلک اور طریقہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر کسی سے کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو اس کی عزت کرنا، اسے احترام دینا، اس کی جائز و معقول باتوں کی تائید کرنا اور اس کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کو بھی نادرست کہنا چھوڑ دیا جائے۔ اللہ مجھے اور سب مسلمانوں کو اس کم ظرفی اور تنگ دلی سے مامون رکھے۔ اسی طرح کے رویوں نے اس امت کو پھاڑنے اور اسے مختلف ٹولیوں اور فرقوں میں تتر بتر کرنے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔[/red][/right][/b] [b][right][blue]آگے آپ حیران کن طور پر یہ فرماتے ہیں کہ میں نے بھی آپ کے سوال کا جواب نہیں دیا حالانکہ میں نے بہت تفصیل سے اس ٹاپک پر لکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ کے سبھی سوالوں کا میں نے بہت تفصیلی جواب دیا ہے۔ آپ کا سوال یہی تھا جسے آپ نے بار بار دہرایا تھا کہ اگر اکابرینِ تصوف اور مشائخِ صوفیا ایک متوازی دین کے پیروی کرتے رہے ہیں تو کیا ہم ان پر یہ فتویٰ لگا اور ان کے بارے میں یہ فیصلہ سنا سکتے ہیں کہ وہ اسلام سے خارج ہیں؟ میں نے بہت تفصیل سے اس سوال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس کا واضح جواب دیا تھا کہ:[/blue][/right][/b] [right][b][red]"اس ساری تفصیل اور تصوف و متصوفین کے اسلامی حدود و تعلیمات سے مذکورہ قسم کے سارے علمی و عملی انحرافات کے بعد بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو ان کے ایمان و اسلام کا فیصلہ کرنے اور ان کے حلقۂ اسلام سے باہر یا معاذ اللہ غیر مسلم ہونے کی راے رکھنے اور فیصلہ دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ان غلطیوں اور لغزشوں کا تعلق علمی کوتاہیوں اور تاویل و توجیہہ کی خامیوں سے ہے جن کی بنیاد پر کسی کی راے اور مؤقف کو غلط اور گمراہ کن تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر ایسی کسی راے یا مؤقف کے حامل کے ایمان و کفر اور مسلم و غیر مسلم ہونے کا فیصلہ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ خدا نے انسان کو فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے نوازنے کے بعد آزادیٔ راے اور عمل سے نوازا ہے ۔ اس کے علاوہ انسانوں کے رجحانات اور زاویۂ نظر و فکر میں بھی بہت سے فرق پائے جاتے ہیں ۔ ان وجوہات کی بنا پر مختلف معاملات میں لوگوں کی آرا اور کسی نصاب و تعلیم کے اجزا کو سمجھنے کے حوالے سے ان کے رجحانات و حاصلات بھی مختلف ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس طرح کے اختلافات کی بنیاد پر کسی کو دائرۂ اسلام میں سمجھنے اور کسی کو اس سے باہر نکالنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایسے اختلافات کے باب میں صحیح و معقول رویہ بس ایک ہی ہے کہ ایسے اختلافات پر علمی انداز ، معقول دلائل اور شائستہ و شگفتہ اسلوب میں بات اور بحث کی جائے اور بس۔ کوئی اپنی راے کی غلطی کو تسلیم کر کے آپ کا ہم خیال بن جائے تو اچھی بات ہے یا اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ ہی سے غلطی ہوئی ہے اور آپ اپنا مؤقف بدل لیں تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ، لیکن اگر کسی موقع پر ایسی صورتحال پیدا ہوجائے کہ گفتگو اور بحث کے فریقین میں سے کوئی کسی کے دلائل سے قائل نہ ہو سکے اور دونوں فریق اپنی اپنی راے اور مؤقف پر مصر رہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہمیں سب کو ایک ہی فکر و نظریے کا حامل و علمبردار بنانے کی غیر فطری خواہش کے بہاؤ اور اس کے لیے بے نتیجہ کوششوں کے گرداب سے نکلنا چاہیے اور لوگوں کی فکر و عمل کی آزادیوں کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنی راے پر قائم رہنے اور اپنے طرزِ عمل کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دینا چاہیے ۔ایسے اختلافات کسی زندہ اور جاندار معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں جبکہ افراد ایسے اختلافات کو انگیز کرتے ہوئے باہم مل جل کر پیار و محبت کے ساتھ رہنے کا حوصلہ اور بلند ہمتی دکھا سکیں ۔ ہم بھی صوفیا کے نظریات کو صریحاً غلط اور اسلامی تعلیمات سے واضح طور پر منحرف سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا پورا پورا احترام کرتے اور ان کے ایمان و اسلام کے معاملے کو خدا کے حوالے کرتے ہیں ۔ یہ اُس پرودگار ہی کا کام اور حق ہے کہ وہ لوگوں کے ایمان و اسلام کا فیصلہ فرمائے اور انہیں اپنے انعام یا سزا کا مستحق قرار دے ، کیوں کہ دلوں اور نیتوں کا حال وہی جانتا ہے ۔ اور اسے ہی معلوم ہے کہ کس کے فکر و عمل کی خامیاں نیک نیتی کے ساتھ وجود میں آئیں تھی، لہٰذا وہ معافی اور درگزر کا مستحق ہے اور کس کے نظریات و کردار کی کوتاہیاں بدنیتی اور فسادِ طبیعت و مزاج کا نتیجہ تھیں ، لہٰذا وہ پکڑ اور گرفت کا حقدار ہے ۔"[/red][/b][/right] [right][b][green]میں اپنی بات دوبارہ دہراتے ہوئے یہ گزارش کروں گا کہ خدا نے کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان کے ایمان و کفر کا فیصلہ کرنے اور اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں کوئی اعلان فرمانے کا کوئی حق و اختیار ہرگز نہیں دیا۔ لہٰذا ہم کسی کی غلطی اور اس کی راے اور مؤقف کی کجی و گمراہی تو بیان کرسکتے اور اس راے اور مؤقف کو غلط، نادرست، خلافِ حقیقت، منافیٔ اسلام اور گمراہانہ وغیرہ قرار دے سکتے ہیں لیکن کسی خاص شخص کے دین و ایمان اور خدا کی بارگاہ میں اس کے مقبول و مردود ہونے کا فیصلہ دینے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ ایک نہایت سنگین جسارت اور فعلِ شنیع کا ارتکاب کرتا اور خود کو خدا کی بارگاہ میں مأخوذ ٹھہرائے جانے کے لیے خطرے کی کھائی میں جھونکتا ہے۔ یہ غلطی اُس وقت اور زیادہ سنگین و بدترین ہوجاتی ہے جبکہ کوئی شخص ہمارے زعم و فہم میں کسی علمی و عملی شرک جیسی غلطی میں تو مبتلا ہو لیکن وہ اسے شرک تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ ہو اور اپنے مسلمان ہونے کا باصرار اعلان کررہا ہو۔ ایسی حالت میں کسی کو بددین یا دین سے خارج قرار دینا یقیناً ایک ناقابلِ معافی جرم اور گھناؤنی ترین حرکت ہے۔ متصوفین بھی اپنے اسلام مخالفانہ عقائد و رسوم کے باوجود اسلام ہی سے وابستگی و پیوستگی کا دم بھرتے ہیں اس لیے ان کے علم و عمل کی غلطیوں اور لغزشوں کو واضح کرنے سے آگے بڑھ کر ان کے بارے میں خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ دینا اپنے حدود سے بہت باہر جاکر پیش قدمی کرنا ہے۔ ہم تو کم از کم ایسی کوئی بات کہنے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ [/green][/b][/right] [right][b][blue]آپ نے اس سوال کو دہراتے ہوئے یہ جو کہا ہے کہ کیا صوفیا کے بارے میں یہ بیان دینا صحیح ہوگا کہ وہ ایک متوازی دین کی پیروی کررہے ہیں یا پھر یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ پیروی تو اسلام ہی کی کررہے ہیں لیکن انہوں نے تصوف کے نام پر بہت سی فکری و عملی بدعات اور نہایت خلافِ اسلام علمی و عملی تفصیلات ایجاد کرڈالی ہیں۔ میرے خیال سے بات دوسری ہی صحیح ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب بھی یہ نہیں کہتے کہ فلاں اور فلاں صوفی اسلام کے متوازی ایک دوسرے دین کی پیروی کررہے ہیں بلکہ ان کا کہنا یہی ہے کہ تصوف کے لٹریچر میں جو افکار و خیالات کی ایک پوری الگ قسم کی دنیا اور عملیات و رسومات کی ایک پوری شریعت پائی جاتی ہے وہ اسلام کے بالمقابل ایک متوازی دین ہے۔ میں بھی اسی بیان کو درست سمجھتا ہوں کیوں کہ ہم افکار و اعمال کے بارے میں تو یہ حکم لگاسکتے ہیں کہ فلاں فکر یا فلاں رسم و عمل ایک بدعت، گمراہی، خلافِ اسلام عمل یا اس طرح کی چیزوں کا مجموعہ ایک متوازی دین ہے لیکن تعین کے ساتھ اشخاص کا نام لے کر یا کسی مخصوص طبقے کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ متوازی دین کی پیروی کررہا ہے اور اسلام سے خارج یا کافر ہے، نہایت ناروا جسارت اور اپنے حدود و قیود سے بہت دور نکل جانا اور آخری درجے کی گھناؤنی ترین حرکت ہے۔ میرا نہیں خیال کہ جاوید احمد غامدی صاحب کا رویہ و بیان اس سے کچھ مختلف ہے۔ وہ بلاشبہ تصوف کے افکار و خیالات و معتقدات پر سخت تنقید کرتے اور اسے ایک اپنی موجودہ صورت میں اسلام کے متوازی ایک پورا دین قرار دیتے ہیں لیکن اس سخت و شدید تنقید کے باوصف انہوں نے کبھی کسی صوفی یا شیخ تصوف یا اجتماعی طور پر حلقۂ صوفیا کے لیے یہ الفاظ نہیں استعمال کیے کہ وہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں اور اپنے ایجاد کردہ ایک خودساختہ اور متوازی دین کی پیروی کررہے ہیں۔ [/blue][/b][/right] [right][b][green]آپ کے سوال کے جواب میں اتنی وضاحت کو میں بہت کافی سمجھتا ہوں، تاہم الگ سے یہ ایشو چونکہ بہت اہم، متعلق اور کلیدی ہے کہ کسی شخص یا گروہ کے خلافِ اسلام معتقدات و رسومات کی بنیاد پر کیا اسے اسلام سے خارج قرار دیا جاسکتا اور ان کے بارے میں کفر کا فتویٰ صادر کیا جاسکتا ہے، اور جن لوگوں کے بارے میں ہمارا گمان ہو کہ مثلاً وہ شرکیہ عقائد و اوہام اور مبتدعانہ رسوم و اعمال میں مبتلا ہیں ان کے ساتھ تعلقات کے باب میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے، اس لیے میں یہاں ان پہلوؤں پر عمومی انداز میں بھی بالتفصیل کچھ گزارشات پیش کرنا مفید ہی نہیں بلکہ ضروری بھی سمجھتا ہوں، لیکن اس طرح کے امور پر میں چونکہ پچھلے ہی دنوں مفصل طور پر اظہارِ خیال کرچکا ہوں اس لیے اس مقام کا لنک دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔ میری پوسٹ کا عنوان ہے "مذہبی اختلافات کے باوجود ہم آہنگی کیسے قائم کی جائے اور برقرار رکھی جائے"۔ لنک یہ ہے:[/green][/b][/right] [blue][center]http://www.studying-islam.org/forum/topic.aspx?topicid=3914&pg=3&lang=&forumid=1[/center][/blue] [right][b][green]ریحان احمد یوسفی نے بھی انہی پہلوؤں سے متعلق بعض سوالات کے جواب دیے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے دوستوں کے لیے یہاں نقل کردوں:[/green][/b][/right] [right][b][red]"کفر کے متعلق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کفر یا انکار کسی دعوت کا ہوتا کیا جاتا ہے لیکن کفر کرنے سے پہلے بھی آدمی کسی نہ کسی عقیدے پر ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ شرک، یہودیت یا نصرانیت وغیرہ ہو سکتا ہے ۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت عرب میں پیش کی، تو آپ کے مخاطبین دو طرح کے لوگ تھے ۔ ایک وہ لوگ جنھیں قرآن مشرکین کہتا ہے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے شرک کو اپنا دین بنارکھا تھا۔ اور دوسرا گروہ اہلِ کتاب کا تھا یعنی یہود و نصاریٰ۔ یہ دونوں گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے موجود تھے لیکن اس سے پہلے نہ ان کے سامنے دعوت پیش کی گئی اور نہ انھوں نے اس کا انکار کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کی تو ان دونوں گروہوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے جبکہ باقی لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا یعنی دعوتِ حق کا انکار کر دیا۔[/red][/b][/right] [right][b][red]آپ کو شاید یہ بات سمجھنے میں اس لیے دقت پیش آ رہی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں بالعموم غیرمسلموں کے لیے کافروں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ، لیکن یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر دعوتِ حق کے انکار کو کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ دعوتِ حق کا انکار کرنے والا کوئی نہ کوئی مذہبی وابستگی رکھتا ہو گا۔ یہ وابستگی دینِ شرک سے بھی ہو سکتی ہے اور یہودیت یا نصرانیت سے بھی۔ آج کے غیرمسلموں کا معاملہ یہ ہے کہ ان تک بالعموم دعوتِ حق نہیں پہنچتی۔ جب ان تک دعوتِ حق پہنچتی ہی نہیں تو ان کے کفر کا کوئی سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان کو ان کی غیرمسلم شناخت ہی سے ذکر کرنا چاہیے ۔"[/red][/b][/right] [right][b][green]"ہمں جناب ابوطالب کے کفر و ایمان کی بحث میں پڑ ے بغیر ایک اصولی بات آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علمِ کامل سے نہ کسی کی کوئی نیت پوشیدہ رہ سکتی ہے اور نہ کوئی عمل۔ وہی اپنے بندوں پر سب سے زیادہ مہربان اور کرم کرنے والا ہے ۔ اہلِ ایمان کو سب سے زیادہ سچی محبت قرآن کے مطابق اسی سے رکھنی چاہیے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :[/green][/b][/right] [b][center][red]’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریکِ (خدا) بناتے ہیں اور اُن سے خدا کی سی محبت کرتے ہیں ۔ لیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو خدا ہی کے سب سے زیادہ دوست دار ہیں اور اے کاش ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کو ہے اور یہ کہ خدا سخت عذاب کرنے والا ہے ۔ اُس دن (کفر کے ) پیشوا اپنے پیرو وں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور (دونوں ) عذابِ (الہٰی) دیکھ لیں گے اور اُن کے آپس کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے ۔‘‘، (بقرہ165-66:2)[/red][/center][/b] [right][b][blue]ان آیات میں جو بات کہی جا رہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہر صاحبِ ایمان کو اسے گرہ سے باندھ لینا چاہیے کہ محبت کی حق دار سب سے بڑ ھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ جو شخص اس پر ایمان لاتا اور شرک سے بچتا ہے ، قرآنِ مجید اس کے بارے میں اس یقین دہانی سے بھرا ہوا ہے کہ وہ آخرت میں اپنا اجر پالے گا۔ لیکن اگر کسی نے اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنارکھا ہے تو یہ آیات ایسے شخص کے بارے میں واضح ہیں کہ قیامت کے روز اسے ذلت اور عذاب کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ ابوطالب ہوں یا کوئی اور جس نے خدا کے ساتھ وفا کی اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاری، وہی قیامت کے دن فلاح پائے گا، چاہے دنیا میں اس کے بارے میں کیسی ہی راے قائم کر لی گئی ہو۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا تو دنیا میں ملنے والی تائید و حمایت کسی شخص کے کچھ بھی کام نہ آ سکے گی۔ باقی جہاں تک خاص اس مسئلے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں ہم قرآن کے دو مقامات میں اپنے لیے بڑ ی رہنمائی پاتے ہیں ۔ آیات یہ ہیں : [/blue][/b][/right] [b][center][red]’’یہ جماعت گزر چکی ان کو ان کے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال (کا) اور جو عمل وہ کرتے تھے اُن کی پرسش تم سے نہیں ہو گی۔‘‘، (بقرہ134:2)[/red][/center][/b] [center][b][red]’’کہا تو پہلی جماعتوں کا کیا حال؟ کہا کہ اُن کا علم میرے پرودگار کو ہے (جو) کتاب میں (لکھا ہوا ہے )۔ میرا پرودگار نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے ۔‘‘، (طٰہٰ51-52:20)[/red][/b][/center] [right][b][blue]پہلی آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کو اپنے عمل کی فکر کرنی چاہیے ۔ دوسروں نے جو کچھ بھی کیا، خواہ اچھا یا برا، اس کا بدلہ انہی کو ملے گا۔ ہم سے اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ دوسری دو آیات حضرت موسیٰ اور فرعون کے مابین ہونے والے مکالمے کا ایک حصہ ہے ۔ فرعون نے اپنے آبا و اجداد کے متعلق حضرت موسیٰ سے سوال کیا کہ ان کا کیا معاملہ ہے ؟ حضرت موسیٰ نے اس سوال کا جو جواب دیا ہے وہی ابوطالب کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے لیے ہمارا جواب ہے کہ ہمارا پرودگار نہ چوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے ۔ وہ ہر شخص کے ساتھ عدلِ کامل کا معاملہ فرماے گا۔ کسی کے معاملے میں اگر نرمی اور رعایت کی کوئی گنجائش ہوئی تو میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جتنی محبت کرتا اور ان پر جتنا مہربان ہے کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس معاملے کو اللہ ہی پر چھوڑ دیجیے اور اپنی تمام تر محبت و عقیدت کا رخ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف موڑ دیجیے ۔ اس کے بعد آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔"[/blue][/b][/right] [red][b][right][size=4]آخر میں میں یہ عرض کردوں کہ کسی شخص کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ جب پیغمبروں کا سلسلہ قائم تھا اُس وقت وہ بھی خدا ہی کے بتانے سے اپنے مخاطبین اور قوم کے کفر کا اعلان کرکے اس سے اپنی براء ت و بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔سلسلۂ نبوت کے اختتام کے بعد اب قیامت تک کسی فرد، کسی عالم یہاں تک کہ کسی ریاست کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کے خلافِ اسلام عقائد و رسومات کو بنیاد بناکر اس کے کفر کا فتویٰ اور فیصلہ دے۔ عام آدمی اور عالم تو محض یہ بات اصولی طور پر بیان کرسکتے ہیں کہ فلاں خیال و تصور یا فلاں رسم و عمل بدعت، گمراہی، شرک، کفر یا خلافِ اسلام ہے۔ جبکہ ریاست یہ کرسکتی ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر اس طرح کے عقائد و معمولات کی بنا پر مقدمہ چلاکر اسے غیر مسلم قرار دے دے اور بس۔ کسی کو کافر قرار دینا اس کے بھی اختیار میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کے کفر و ایمان سے دلچسپی رکھنے کے بجائے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اپنی آخرت کی فکر کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔ انسانوں کا حساب کتاب ان کا خدا خود کرلے گا۔ ہمیں کسی کے معاملے میں داروغہ یا حاکم و فیصلہ کنندہ بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ اپنے دل میں تمام انسانوں سے محبت و خیرخواہی رکھتے ہوئے انہیں صحیح فکر و نظریے اور درست راہِ عمل و طریقۂ حیات کی طرف سنجیدگی و دلسوزی سے بلاتے رہنا چاہیے۔اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں دنیا میں ہدایت اور آخرت میں نجات سے سرفراز فرماے۔[/size=4][/right][/b][/red][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top