Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Sufi Miracles & Criticism
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][blue][size=4]محترم آنٹی جان، سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت ہی اہم، کلیدی اور نازک و حساس ترین موضوع ہے جو آپ نے چھیڑ دیا اور مجھے ہلادیا ہے۔ اس حوالے سے میں تو جب سوچتا یا کسی عمل و واقعے کو دیکھتا ہوں، سچی بات ہے کہ دل جل کر اور روح لرز کر رہ جاتی ہے۔ انسان غور نہیں کرتا کہ وہ ہے کیا، کہاں سے اس کی ابتدا ہوتی اور پھر کس طرح درجہ بدرجہ وہ ارتقا کے عمل سے گزر کر کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ بیج سے ایک پورا باغ وجود میں آجاتا اور رائی کا بے حیثیت ذرہ ایک شاندار و باعظمت پہاڑ کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک ناتواں اور لاچار و بے بس وجود کس طرح کچھ ہی عرصے میں قابلیت و لیاقت، کمال و مہارت، خوبصورتی و دلکشی، عظمت و رفعت اور حیرت انگیز طاقت و قوت کا مالک بن کر قدرت کے ایک شاہکار نمونے کا روپ ڈھار لیتا ہے۔ انسان نہیں سوچتا کہ اس سارے عمل میں سواے خدا کے کسی اور کا ہاتھ اور فضل و کرم اس کے شاملِ حال نہیں ہوتا۔ یہ خدا ہی کی ہستی ہے جو اسے وجود بخشتی اور پھر اس کی تمام ضروریات اور اس کی نگہداشت و پرورش کا آسمان و زمین اور اس کائنات میں ہر طرف پھیلے لائف سپورٹ سسٹم کے ذریعے سامان کرتے ہوئے اسے ایک باکمال و توانا و شاندار حیثیت و مقام کے حامل مکمل انسان کے درجے پر فائز کردیتی ہے۔ اس سارے وقفے میں اور پھر اس کے بعد زندگی کے آخری لمحے تک انسان کو جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ ایک خداے ذوالجلا کے علاوہ کوئی دوسرا اسے نہیں دیتا بلکہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے خدا ہی کی عنایت و رحمت سے ملتا ہے۔ وہ کھانا اور پانی بھی اسی سے پاتا ہے، ہوا اور بارش بھی وہی دیتا ہے اور اس کے علاوہ جو آسمانی یا زمینی یا کائناتی ضرورت انسان کو لاحق ہوتی ہے وہ خدا ہی کے نظامِ قدرت کے تحت اسے ملتی اور اس کی تکمیل و تسکین کا سبب بنتی ہے۔ ایک خدا کے علاوہ اس دنیا میں نہ کسی کو کوئی اختیار و اقتدار حاصل ہے اور نہ کسی کے پاس کچھ ہے جو وہ کسی کو دے سکے۔ ماں کے پیٹ کی اندھیری کوٹھری میں جس طرح وہی پرودگار انسان کا پالنہار اور محافظ و نگہبان ہوتا ہے ایسے ہی اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد بھی آخری سانس تک وہی اس کی ربوبیت و پرورش کا ذمہ دار و بندوبست کار ہوتا ہے۔ یہ اتنے واضح اور روشن حقائق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کے حوالے سے قرآن گواہی دیتا ہے کہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ اور کون آسمان سے پانی برساتا اور زمین سے غلہ اگاتا ہے تو وہ برملا یک زبان ہوکر جواب دیں گے کہ اللہ ہے جو یہ سب کرتا ہے۔ یہ سب اسی کی قدرت و رحمت کا کرشمہ ہے۔ [/size=4][/blue][/right] [size=4][right][green]ہم مسلمان نماز میں سورۂ فاتحہ میں اسی حقیقت کا اعتراف الحمد للہ رب العٰلیمن کے کلمے سے کرتے ہیں کہ سارے عالموں کا رب اور پرورش کنندہ وہی ہے، ساری حمد و تعریف، شکر و سپاس، بڑائی و بزرگی اور ممنونیت و احسان مندی اسی کے لیے ہے۔ وہی آسمان و زمین کے تمام خزانوں اور طاقتوں کا مالک ہے اور روزِ جزا بھی سارے اختیارات اسی کے پاس ہوں گے۔ لہٰذا ہم نہ عبادت کسی اور کی کرسکتے ہیں اور نہ اس کے علاوہ کسی سے کوئی مدد مانگی جاسکتی، امید باندھی جاسکتی، توقع لگائی جاسکتی، فریاد کی جاسکتی اور نہ مشکل و پریشانی میں اس کے سوا کسی دوسرے کو پکارا جاسکتا ہے۔ اس کائنات میں اس کے علاوہ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو ان اوصاف و خصوصیات کی حامل ہو اور اس سے کسی طرح کی مدد اور حاجت روائی کی توقع کی جاسکے۔ انسانی زندگی میں خدا نے جو نظامِ اسباب قائم کیا ہے اس کے باہر کسی سے کسی قسم کی مدد کی امید رکھنا، فریاد کرنا، کسی نعمت و خوشی و مشکل کشائی و حاجت روائی کو کسی دوسرے سے منسوب کرنا اور کسی جاندار و بے جان یا زندہ وو مردہ یا پیغمبر و فرشتہ ہستی سے کسی قسم کی امید رکھنا اور فریاد و گزارش کرنا کھلا کھلا شرک اور خدا کی توحید پر ایک ناجائز و ناروا حملہ ہے۔ سچے ایمان کے ساتھ ایسے کسی عقیدے اور عمل کا جمع ہونا سراسر ناممکن ہے۔ [/green][/right][/size=4] [size=4][right][blue]اگر ایمان کے دعوے اور اسلام سے وابستگی کے اعلان کے باوجود کسی کے ہاں اس طرح کا کوئی عقیدہ و عمل موجود ہے تو یہ اس بات کی آخری درجے میں کھلی شہادت ہے کہ اسے کوئی غلطی لگی ہے اور کسی کوتاہی نے اسے اس نجاست میں ملوث کردیا ہے۔ ایک حقیقی مؤمن سے کسی بھی درجے میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو مشکل وقت میں پکارے، کسی پریشانی میں کسی پیر فقیر یا شیخ و صوفی کی دہائی دے، اس سے مدد مانگے، فریاد کرے اور اسے اسباب سے ماورا اس کی فریاد رسی و حاجت روائی کی قدرت و طاقت کا حامل جانے۔ سارا قرآن اس طرح کے اوہام و رسومات کی تردید و بطلان سے بھرا ہوا ہے۔ تمام پیغمبر جس مشترک مشن کو لے کر انسانیت کے پاس آئے وہ یہی تھا کہ ایک اللہ واحد کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی مت کرو۔ وہی تنہا تمہارا پرودگار و کارساز ہے اسی سے لو لگاؤ، امید باندھو اور اپنی توقعات وابستہ کرو۔ اسے سے محبت کرو اور اسی سے ڈرو۔ اپنے تمام اندیشے اور آرزوئیں اسے سے وابستہ کرو۔ توحید پر یہی ایمان و عمل ان کی دعوت کی اساس و بنیاد اور مرکز و محور ہے۔ ان کی ساری زندگی اور ان کے پیروکاروں کی بھی ساری زندگیاں اسی سبقِ توحید کا عملی درس و نمونہ ہیں کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا نہ پوجنے لائق ہے اور نہ مدد طلبی و فریاد گزاری لائق۔ انسان کی ساری تعظیم و تقدیس، تسبیح و تحمید، تکبیر و تمجید، نذر و نیاز، وفاداری و بے قراری، خشوع و خضوع، لپک و چاہت، محبت و خشیت اور نیازمندی و جاں سپاری اپنے پرودگار ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کی روح کے سارے ولولے اور جذبات کی سارے ارتعاش اور احساسات کی ساری بے تابیاں اور جوش و جذبے کے تمام ذخیروں کا مرکز و محور اس کے رب کی ذات ہونی چاہیے۔[/blue][/right][/size=4] [right][size=4][green]اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ابتداے انسانیت سے جب انسانوں کو یہ درسِ توحید پوری وضاحت و شان کے ساتھ دیا جاتا اور پھر بار بار اس کی تجدید کی جاتی رہی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ انسان پچھلی تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی یہی کرتا رہا ہے اور اس دورِ حاضر میں بھی نہایت کثرت کے ساتھ غیر خدائی آستانوں اور غیر خدائی ہستیوں سے لو لگاتا، منتیں مانگتا اور اپنی امیدیں وابستہ کرتا ہے۔آخر یہ شرک اور مشرکانہ اوہام و عقائد اور رسومات و معمولات کیوں اس درجہ قوت کے ساتھ حیاتِ انسانی کا لازمہ و حصہ بنے رہے ہیں۔ اس بات پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ انسان کی محسوس پرستی کا نتیجہ ہے۔ انسان ہمیشہ سے خدا کو ڈیفائن کرنے اور اپنی سوچ و تصور کی گرفت میں لانے کا خوگر رہا ہے۔ اس کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ اس پر مہربان و کریم ہستی کا کوئی ظاہری بت یا علامت ہو جس سے وہ اپنے جذبات کی تسکین کرسکے۔ جس سے لپٹ کر وہ رو سکے، اپنا دکھڑا سنا سکے، اپنی فریاد پیش کرسکے اور اپنے جذباتِ عقیدت و محبت نچھاور کرسکے۔ اس نے ہمیشہ خدا کو اپنے اوپر قیاس کرنے اور اپنی ہی طرح کے تصورات و قیاسات اس سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی اس کی وہ غلطی ہے جس سے تمام مشرکانہ اوہام و عقائد اور رسوم و روایات جنم لیتے رہے ہیں۔ ساری تاریخِ شرک کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے آپ کو اس کی تہہ میں یہی نادانی پر مبنی خواہشِ انسانی اور اس کے کرتوت و کارستانیاں کرفرما نظر آئیں گے۔ سورۂ اخلاص میں توحید کا جو بیان اور خدا کی جن صفات کا تذکرہ ہے وہ کیا ہیں انہی تصورات کی تردید اور ان کے بالمقابل خدا کے باب میں درست خیالات کا اظہار۔ وہ تنہا ہے یعنی کوئی اس کا ساتھی، شریک و رفیق، مددگار و اسٹٹنٹ یا ہیلپر و معاون نہیں ہے۔ وہ تنہا و اکیلا ہے۔ وہ بے نیاز و ستودہ صفات ہے۔ یعنی وہ کسی کا محتاج و حاجت مند نہیں ہے لیکن اس کائنات میں سب کا سہار وہی ہے اور کوئی نہیں جو اس کی بارگاہ میں محتاج و نیاز مند نہ ہو۔ اس کی رحمت و شفقت کا ضرورت مند نہ ہو۔ وہی سب کا پالنہار، پرودگار اور آسرا و جاے پناہ ہے۔ وہ نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے۔ یعنی وہ نسل و خاندان کے عارضے سے بلند و بالا ہے۔ کوئی اس کے خاندان و قوم کا فرد نہیں ہے، کوئی اس کا سگا اور رشتہ دار نہیں ہے۔ کوئی اس کی پارٹی اور قبیلے کا باسی نہیں ہے۔ اور کوئی اس جیسا نہیں ہے، نہ ذات میں نہ صفات میں اور نہ حقوق و کمالات میں۔ وہ سب سے الگ، سب سے بلند اور سب سے جدا و منفرد ہستی اور مقام و حیثیت کی حامل ہستی ہے۔ وہی اکیلا معبود اور تنہا مالک و خالقِ کائنات ہے۔ ساری مخلوقات اسی کی پیدا کردہ اور اسی کی نظرِ کرم کی محتاج ہیں۔ وہی ہر ایک کا رب اور ولی و کارساز ہے۔ نہ اس کے علاوہ عبادت کسی دوسرے کی ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی دوسرے سے کسی قسم کی کوئی مدد مانگی جاسکتی اور فریاد گزرانی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کوئی زور و اختیار اور طاقت و قدرت حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کی آئی مشکل ٹال دے، بلا دور کردے اور اسے آفت و پریشانی سے نجات و خلاصی دلادے۔ وہی حاجت روا، مشکل کشا، غریب و بندہ نواز اور داتا و گنج و مراد بخش ہے۔ وہی عالم الغیب اور وہی دافع الامراض ہے۔ [/green][/size=4][/right] [blue][right][size=4]انسانوں کا شروع سے یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ خدا کو انسانی بڑوں پر قیاس کرکے اس کے ساتھ ایسی باتیں، خیالات، عقائد اور تصورات منسوب و متعلق کرتا رہا ہے جو انسانی بڑوں کے لیے تو موزوں ہوسکتے ہیں لیکن خدا کی ذات و صفات سے بالکل میل نہیں کھاتے اور اس کی ہستی سے بالکل ہی فروتر و غیر متعلق ہیں۔ جس طرح انسانوں کے یہاں سفارشی اور مقربین ہوتے ہیں اسی طرح انسان خدا کے ہاں سفارشی اور اس کی بارگاہ میں مقبول و معزز ہستیوں کا تصور تراشتا اور پھر اپنے بزرگوں اور قومی اکابرین یہاں تک کہ فرشتوں اور پیغمبروں تک کو اس زمرے میں شامل کرکے انہیں خدا کا ساجھی، مقرب، مقبول اور اس کی بارگاہ میں شافع و مددگار بنالیتا ہے۔ اسی زمرے میں وہ ان بزرگوں، صوفیوں اور پیروں کو بھی کھڑا کردیتا ہے جن کی عبادت گزاری اور بلند اخلاقی، زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی اور خلقِ خدا کی خدمت کے کام وغیرہ کارنامے اس کے دل میں ان کا تقدس اور عظمت قائم کردیتے ہیں۔ وہ انہیں بھی خود سے الگ اور بالا ہستیاں اور خدا کی بارگاہ میں مقبول و سفارشی اور اثر و رسوخ کی حامل ہستیاں قرار دے لیتا اور پھر ہوتے ہوتے ان سے مدد مانگنے، انہیں وسیلہ بنانے اور ان سے اپنی حاجات طلب کرنے اور دعائیں اور فریادیں کرنے تک کے معمولات وابستہ کرلیتا ہے۔ اس طرح ان کی نسبت سے وہ تمام خیالات و تصورات اور معمولات و رسومات ایجاد ہوتے چلے جاتے ہیں جو ایک خدا ہی کا حق اور حصہ ہیں۔ انسان انہیں اپنے بزرگوں اور صوفیوں میں بانٹتا پھرتا اور خدائی تعلق کے سارے مظاہر ان سے منسوب و متعلق کرچھوڑتا ہے۔ پھر ان صوفیوں اور پیروں کے آستانے خلقِ خدا کے ہجوم و اژدحام کا مرکز اور ان سے دعا و فریاد و استمداد شیوۂ مسلمانی بن جاتا ہے۔ [/size=4][/right][/blue] [size=4][right][red]قرآن اور پیغمبروں کی دعوت اور ان کی ساری زندگیاں انہی گمراہیوں کے رد اور ان کے حوالے سے انسانوں کو بیدار و متنبہہ کرنے سے معمور ہے لیکن انسان کی کوتاہ بینی، دناءت، محسوس پرستی اور ظاہر بینی اور پھر اس کے کھلے دشمن شیطان کی وسوسہ اندازیاں اور فریب کاریاں اسے بار بار حق کی راہ سے ہٹادیتی اور پھسلاڈالتی ہیں۔ وہ شیطان کی سجھائی تاویلات اور اس کی ملمع کاریوں کا شکار بن جاتا اور حق کے نام پر باطل اور توحید کے نام پر شرک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بچھالیتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان نے انسان کے بارے میں جو مہلت طلب کی اور اپنے جس عزم و جزم کا اظہار کیا تھا کہ میں اسے سیدھی راہ سے ہٹاکر چھوڑوں گا، وہ راہ کوئی اور راہ نہیں توحید ہی کی راہ ہے۔ شیطان انسان کو ہزاروں فریبوں، فلسفوں اور تاویلوں کے ذریعے گمراہ کرتا اور توحید کے راستے سے ہٹاکر شرک و گمراہی کی پگڈنڈیوں میں برگشتہ و سرگرداں کردیتا ہے۔ پھر انسان خواہی نا خواہی آخرت میں نجات پانا چاہتا ہے۔ وہ آخرت کی رسوائی، ذلت اور عذاب سے بچنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جو شرائط پوری کرنا لازم اور زندگی کو جن حدود اور پابندیوں کا لحاظ کرکے گزارنا ضروری ہے، وہ اس کے لیے تیار نہیں، لہٰذا اس راستے سے بھی انسان یہ ضرورت محسوس کرتا اور شیطان اس کے اس خیال کو مہمیز لگاتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب تراشے اور انہیں اپنا سفارشی اور پناہ دہند باور کرے۔ وہ یہ خیال کرکے اطمینان سے اپنی مرضی پر چلے اور زندگی بھر من مانی کرے کہ خدا کے ان ان مقرب و مقبول بندوں کا دامن تھام اور ہاتھ پکڑ کے میں نے اپنی نجات و بخشش کا بڑا مضبوط و یقینی سامان کرلیا ہے، لہٰذا اب کسی فکر اور اندیشے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کہیں پکڑ ہوبھی گئی تو یہ ولی اور صوفی اور فقیر و شیوخ، جن کی عقیدت کا ہم دم بھرتے، جن کے نام کی نیازیں چڑھاتے اور جن کے مزارات اور آستانوں پر سراپا عاجزی و عقیدت بن کر ہم حاضریاں اور چڑھاوے دیتے ہیں، یہ ہمیں بچا اور چھڑالیں گے اور ان سے نسبت کی بدولت ہمیں کسی پریشانی اور شرمندگی اور عذاب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ [/red][/right][/size=4] [size=4][right][green]ایسے ہی دوسرے بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں جو انسانوں کو شرک اور طرح طرح کی اعتقادی گمراہیوں میں مبتلا کرتے اور شاہراہِ توحید سے ہٹادیتے ہیں۔ حالانکہ توحید وہ قیمتی اور اہم ترین عہد ہے اور خدا کا ایسا واضح حق ہے کہ جس کی خاطر پیغمبروں نے اپنے مخالفین کی طرف سے بے تحاشا اذیتیں برداشت کیں، اپنے سر قلم کروائے، گھر بار چھوڑا، قوم و قبیلے کی دشمنیاں مول لیں، جان و مال اور عزت و خاندان کو خطروں کا نشانہ بنوایا، ہر طرح کا ظلم و جبر اور جور و ستم برداشت کیا، پیاروں اور عزیزوں کی قربانیاں دیں اور ہر طرح کی تکلیف و پریشانی کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا اور مقابلہ کیا۔ اپنوں کی جان دینے کا وقت آیا یا توحید سے بغاوت کے باعث جان لینے کا مرحلہ، وابستگان توحید کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑائے اور ان کے عزم و ارادے میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ خدا کے وفادار بندوں کی تمام تر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ خدا ہی کے پرستار و فرماں بردار رہے، انہوں نے اپنے سر اور پیشانیاں ہمیشہ اسی کے روبرو جھکائیں، ان کے ہاتھ اور جھولیاں صرف اسی کے سامنے پھیلیں، انہوں نے ہمیشہ مشکل و پریشانی میں اسی کا دامن تھاما اور اسی کی چوکھٹ پر دستک دی۔ خدا کے علاوہ ان کے دل میں کسی اور کی عظمت و تقدس کا نقش کبھی قائم نہیں ہوا۔ ان کا مرنا اور جینا اور نماز اور قربانی سب کچھ خدا ہی کے لیے ہوتا تھا۔ ہم بھی اگر خدا کے انعام یافتہ بندوں کی صف میں شامل ہونا اور ابرار و صالحین کے زمرے میں قیامت کے دن اٹھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی توحید سے سچی وابستگی اور اس کے منافی ہر عقیدے، تصور، عمل اور رسم سے براءت و قطع تعلقی اختیار کرنا پڑے گی۔توحید اور اس سے وابستگی اور اس کی خاطر جینے مرنے سے زیادہ محبوب و مرغوب شے ایک مؤمن کے لیے اس دنیا میں کوئی دوسری نہیں۔[/green][/right][/size=4] [right][size=4][blue]آج جو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے اور مسلمان کہلانے والے آستانوں اور مزارات پر ہجوم کرتے اور وہاں جاجا کے منتیں مانگتے اور نذریں چڑھاتے اور فریادیں اور دعائیں کرتے ہیں تو یہ کوئی اسلامی تعلیمات پر عمل اور سیرتِ رسول کا اعادہ نہیں ہے بلکہ کھلے اور واضح طور پر گمراہی کا ایک سیلاب ہے جس نے ان مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ انہیں خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جارہا ہے۔کیسے کیسے عبرت ناک مناظر اور شرم ناک افعال ہیں جو وہاں نہایت بے دردی سے انجام دیے جاتے اور دیکھے جاتے ہیں۔ ایک خداوند جو انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب، سراسر رحمت و شفقت ہے۔ پکارنے والے کی پکار سنتا اور اس کی فریاد کو پہنچتا ہے، اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے، اس کو چھوڑ کر انسان اپنی پیشانیاں اور سر کس کس در پر جھکا رہے اور مردہ و بے زور و طاقت ہستیوں سے اپنی مشکل کشائی و حاجت روائی کی امیدیں جوڑ رہے ہیں۔ وہ جنھوں نے ایک تنکا اور مکھی کو بھی پیدا نہیں کیا وہ کیا انسان کی مدد کرسکتے اور اس کی پریشانی دور کرسکتے ہیں۔ وہ تو اپنے اوپر بیٹھنے والی ایک حقیر و معمولی مکھی کو بھی ہٹانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ بھلا انسانوں کی کیا فریاد رسی کریں گے۔ یہ سب ان کے اوہام اور خام خیالیاں ہیں اور یہ سب مشرکانہ مظاہر ہیں۔ مسلمانوں کے ان کا ارتکاب کرنے سے وہ کوئی دین ایمان اور اسلام کا حصہ نہیں بن جاتے۔ اسلام ان ساری چیزوں سے بری اور بیزار ہے۔ ایسا انسان اتنی موٹی سی عقل کی بات نہیں سمجھتا کہ ایک معمولی اور نہایت حقیر ابتدا سے اسے ایک مکمل اور توانا و تندرست انسان بنانے والا اور اس دورانیے میں اس کی تمام حوائج و ضروریات پوری کرنے والا ایک خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا تو پھر اب اس کی بگڑی بنانے اور آخرت سنوارنے والا کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے۔ قرآن کا واضح اور دوٹوک اعلان ہے کہ قیامت کے روز نجات کسی کی سفارش اور تعلق و نسبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عملِ صالح کے خدائی معیار پر ہوگی۔ کوئی کسی کو اس کی بداعمالیوں کی سزا سے بچا نہ سکے گا اور نہ کوئی کسی کی سفارش کرکے اس کے گناہوں کی معافی دلواسکے گا۔ محض خدا کی رحمت ہوگی جو کسی کا سہارا اور پناہ بنے گی اور وہ اسی کے حصے میں آئے گی جو توحید سے وابستہ رہا ہوگا اور نیک اعمال کرتا رہا ہوگا۔ باقی رہے جو اپنے پیروں، صوفیوں اور سفارشیوں کے اعتماد و بھروسے پر من مانیاں اور بدکاریاں کرتے اور شر و فساد و طغیان کے طوفان مچاتے رہیں ہوں گے وہ وہاں برباد و ہلاک ہوکر رہ جائیں گے اور کوئی ان کی مدد اور سفارش کرنے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کے چھپے اور کھلے شرک سے محفوط رکھے اور توحید سے وابستگی کے ساتھ حیات و ممات عطا فرماے۔[/blue][/size=4][/right] [center][size=4][red]اس سلسلے میں مولنا امین احسن اصلاحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب حقیقتِ شرک و توحید کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ ہمارے میگزین اشراق دعوہ کا ایک آرٹیکل بھی اس سلسلے میں مطالعے لائق ہے جسے ذیل میں آپ کے لیے نقل کررہا ہوں:[/red][/size=4][/center] [brown][size=5][center]"توحید اور مراسمِ عبودیت[/center][/size=5][/brown] [purple][size=4][right]توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کی تعمیر ہوتی ہے ۔ اور یہی وہ اساسی تصور ہے جس کے دل میں راسخ و پیوست ہونے کے بعد کسی شخص کی زندگی اسلامی زندگی میں اور اس کی شخصیت مؤمنانہ شخصیت میں ڈھلنا شروع ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں اہم ترین اور بنیادی اہمیت رکھنے والے اسلامی اخلاق و اعمال کی تلقین کرتے ہوئے ، ان ہدایات کی ابتدا بھی توحید کی تعلیم سے کی گئی ہے اور اسے ختم بھی توحید سے وابستہ رہنے کی تاکید پر کیا گیا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ توحید اسلامی اجزا کے لیے بمنزلہ اُس لڑ ی کے ہے جس میں دانے پروئے جاتے ہیں ۔ جس طرح لڑ ی کے نہ ہونے یا ٹوٹ جانے سے دانے منتشر ہوکر اور بکھر کر رہ جاتے ہیں اسی طرح توحید کے بغیر یا اس میں شرک کی آمیزش کر کے انسان اپنی زندگی میں اسلامی آداب و اخلاقیات اور ایمانی اعمال و ارکان کو محفوظ و برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے توحید ہی وہ اصل کسوٹی اور معیار ہے جس پر پرکھ کر لوگوں کی جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔[/right][/size=4][/purple] [size=4][right][purple]توحید کے باب میں ایک گمراہی تو یہ پیدا ہوتی ہے کہ آدمی سرے سے اس بات کا انکار کر دے کہ اس کا اور اس پھیلی ہوئی کائنات کا کوئی خالق و مالک اور منتظم و مدبر ہے ۔ وہ کائنات کو ایک خودکار کارخانہ اور اپنے آپ کو ایک شترِ بے مہار فرض کر لے ۔ اسی طرح ایک دوسرا رویہ یہ ہے کہ آدمی خدا کو ماننے کے ساتھ ساتھ دوسرے خداؤں کو بھی مانے اور خدا کی خدائی میں ان کا بھی حق اور حصہ تسلیم کرے ۔ اس رویے میں بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان خدا تو ایک ہی ہستی کو مانتا ہے مگر اس کے مقربین اور محبوبین کے نام پر فرشتوں ، جنوں اور اپنے بزرگوں کو بھی بہت سے خدائی حقوق اور اختیارات کا حامل قرار دے لیتا ہے ۔ پھر وہ نذر و نیاز اور چڑ ھاو وں کے نام پر ان کی نسبت سے بہت سے اعمال، مراسم اور طریقے ایجاد کرتا اور ان کی پیروی کرتا ہے ۔ یہ، مقربین اور مقبولانِ بارگاہ کی نسبت سے ایجاد کردہ رسمیں آہستہ آہستہ اگلی نسلوں میں مقدس مذہبی روایت بنتی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر مذہب کے نام سے ان کے درمیان جو چیزیں رہ جاتی ہیں وہ انہی رسموں کے نام کی دھوم دھام ہوتی ہے ۔ اصل مذہب اور اس کی تعلیمات و عبادات پس پشت چلی جاتی اور ہوتے ہوتے بالکل ہی نظر انداز ہوجاتی ہیں ۔[/purple][/right][/size=4] [size=4][right][purple]جس طرح دوسرے مذاہب کے ماننے والے اپنے ان جھوٹے معبودوں کو خوش کرنے اور ان کی عبادت و بندگی بجالانے کے لیے آداب و مراسم مقرر کرتے ہیں ۔ آج اسی طرح مسلمانوں نے اپنے بزرگوں کی نسبت سے رسوم و آداب کی ایک پوری شریعت بنارکھی ہے ۔ بزرگوں کے مزارات، ان پر جانے کے آداب، نذر و نیاز کے ایام اور طریقے ، ان کے تذکروں کی محافل اور ان سے استمداد و توسل کے طریقے ۔ گویا کہ ایک پورے کا پورا دین اور شریعت ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے نام پر ایجاد کر لی گئی ہے ۔ پھر بزرگوں اور اولیا کی نسبت سے عجیب و غریب تصورات اور کرامات بیان کی جاتی ہیں ۔ ان سے فریادیں کی جاتی اور دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔ حالانکہ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے زمرے میں آتا ہے ۔ اور خدا کے دین میں ایسی باتوں کی کہیں کوئی تعلیم نہیں دی گئی۔ لیکن مسلمانوں کی جسارت ہے کہ آج وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور دین کے نام پر اور توحید سے وابستگی کے دعو وں کے باوجود کر رہے ہیں ۔ [/purple][/right][/size=4] [size=4][right][purple]توحید اور اسلام سے سچی وابستگی کا تقاضا اور خدا کی ابدی بادشاہی خدا کی جنت کو پانے کی لازمی شرط یہ ہے کہ ان تمام شرکیہ اوہام و اعمال سے بچا جائے ۔ صرف اور صرف خدا ہی کو اپنا کارساز و مشکل کشا مانا جائے ۔ اسی کے در پہ سر جھکایا اور پیشانی ٹیکی جائے ۔ اپنی حاجات اسی سے مانگی جائیں اور ہر مشکل میں اسے ہی پکارا جائے ۔ وہی اکیلا سارے اختیارات کا حامل اور تمام خزانوں کا مالک ہے ۔ ماں کے پیٹ سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک وہی ہے جو انسان کو پالتا اور اس کی تمام ضروریات میسر کرتا ہے ۔ لہٰذا انسان کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بس اُسی سے لو لگائے ۔ اُسی سے دڑ ے اور دل و جان سے محبت کرے ۔ اپنی عبدیت اور نیاز مندی کے تمام جذبات اور سرفروشیاں اُسی کی بارگاہ میں پیش کرے ۔ اور اپنی ساری زندگی اُسی کا نیازمند و تابع فرمان بن کر رہے ۔"[/purple][/right][/size=4][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top