Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Sufi Miracles & Criticism
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][blue][size=4]یہ کسی بڑے المیے اور شدید سانحے سے کم نہیں ہے کہ ہماری دینی و مذہبی جماعتوں نے عام آدمی کی معاشی فلاح و بہبود کے کاموں اور شعبوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی اور نہ کوئی اہم کارکردگی دکھائی ہے۔ حالانکہ آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جس انسان کے گھر میں چولہا جلانے کے لیے لمبی چوڑی جاں گسل مشقتیں درکار ہوتی ہوں۔ پانی، بجلی، صحت اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی ضروریات کی باسہولت فراہمی تو بہت دور کا معاملہ رہا کم از کم مکمل فراہمی ایک دور کا سہانا خواب بنا ہوا ہو، اُس سے آپ کیا یہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ خدا و آخرت اور دین و مذہب جیسے حقائق کے معاملے میں کسی سنجیدہ و گہرے غور و فکر اور تگ و دو کے لیے متحرک و حساس ہوسکے۔ سوسائٹی میں ریفارم لانے والی کسی تحریک و مشن کا حصہ بن کر تگ و دو کرسکے۔ یقیناً نہیں۔ زندگی کی بنیادی ضروریات و سہولیات کی فراہمی کتنا زیادہ ضروری اور لازمی معاملہ ہے ہر حساس اور حقیقی انسان نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور جس کے گھر میں بچے بھوکے ہوں، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، بجلی گھنٹوں کے لیے روٹھ جاتی ہو، کوئی مریض اسباب نہ ہونے کے باعث درد و الم کی تصویر بنا پڑا ہو، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ناممکن معاملہ بن گئی ہو، ایسے شخص کی ذہنی منتشر و پریشاں خیالی کا کیسا گھناؤنا عالم ہوگا اور اس کی مذہبی و روحانی و اخلاقی کیفیت کس درجہ نحیف و بے جان ہوگی، اس کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لوگوں کی مادی و معاشی فلاح و بہبود کے کاموں اور مشنوں کی اس وقت ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ قوم کی قوم افلاس، کسمپرسی، جہالت، محرومی اور مظلومیت و بے سہارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کیا بھوکوں کو کھانا کھلانا، مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا، غریبوں، بے سہاروں اور ناداروں کی دستگیری اور مدد کرنا جیسے کام دینی تعلیم و ترغیب کا حصہ نہیں ہے اور کیا یہ وہ کام نہیں ہیں جن کی اہمیت و فضیلت ہمارے دین میں بیان کی گئی ہو۔ اس وقت بہت ضرورت ہے کہ ہماری منظم و فعال دینی و مذہبی تنظیمیں ان شعبوں میں بھی متحرک و سرگرم ہوں اور لوگوں کے دکھوں اور غموں کو بانٹنے اور ان کی تکلیفوں اور مشکلات کا کسی حد تک مداوا کرنے کی بھرپور اجتماعی کوششیں کریں۔[/size=4][/blue][/right] [green][size=4][right]اس صورتحال کی وجہ دینی تعبیر کی کجیاں اور غلطیاں ہی ہیں۔ لوگ دین کے نام پر بس ایک کام جانتے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنے اور مذہبی لوگوں کو اقتدار و طاقت کے مراکز پر قابض بنانے کی سرتوڑ کوشش کرو۔ حالانکہ معاشرے اور سماج کے پیمانے پر دین کا غلبہ عوامی پذیرائی کے نتیجے میں ظاہر و رونما ہوتا ہے۔ دین اپنے فکر کے پھیلاؤ اور اپنی تعلیمات کی برتری اور اپنی ہدایات کی نافعیت و برکات سے سوسائٹی کے اذہان کو مفتوح و مغلوب کرتا اور سماج کے طبقات میں اپنی جگہ بناتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں اس کے حق و حمایت میں سماج میں لوگوں کی اتنی اکثریت و قوت وجود میں آجاتی ہے جو آپ اپنی آزاد و با اختیار مرضی سے اپنے اجتماعی نظام اور اجتماعی شعبوں میں دینی احکام و ہدایات کی پاسداری کو رواج دیتی اور نافذ کرتی ہے۔ دینی نظام یا دینی غلبہ نعروں اور مطالبوں اور احتجاجوں اور دھرنوں سے کبھی وجود میں نہیں آتا بلکہ سماجی فلاح و بہبود اور اپنے فکر و نظریات کی قوت و طاقت کے بل بوتے پر وجود میں آتا ہے۔ یہ فکر کی بہت بڑی ٹیرھ ہے کہ آپ الیکشن کی جنگوں اور نعروں اور دعووں کی سیاست کے سورما بن کر ان راستوں سے دین کو سماج میں غالب کرنے کے خواب دیکھیں۔ ایسے خواب پچھلی چھ دہائیوں سے بار بار چکنا چور ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ملیا میٹ ہی ہوتے رہیں گے۔ اس عرصے میں اگر قوم کو تعلیم یافتہ بنانے اور اس کی زندگی کو پرراحت و آرامدہ بنانے کے میدانوں میں کام اور کوششیں سر انجام دی گئی ہوتیں تو اس کے آج کے حالات سے بہت کچھ بہتر و مفید نتائج برآمد ہوچے ہوتے۔ خیر جو ہوچکا سو ہوچکا۔ لیکن اگر اب بھی ہم انہی چٹانوں سے سر ٹکرا کر انہی تخیلات و رومانوی تصورات میں جیتے رہے تو پھر حالات کے بدلنے اور صورتحال میں کسی بہتری کے آنے کی کوئی توقع نری خام خیالی ہوگی۔[/right][/size=4][/green][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top