Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][red][size=4]آپ لوگ میرے والد کے لیے فکرمند و دعا گو ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے لیے آپ کو بے پناہ اجر و ثواب عطا فرمائے اور آپ کی پرخلوص دعاؤں کو میرے والد اور دیگر مصیبت و پریشانی کا شکار پاکستانی بھائی بہنوں کے حق میں قبول فرمائے، آمین۔ والد صاحب ماشاء اللہ آہستہ آہستہ بہتر ہورہے ہیں لیکن ایک شخص اچانک چلتے پھرتے جب بستر کی حدود تک محدود ہوجائے اور یہ وقفہ لمبا ہوتا چلا جائے اور علاج اسے جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے لٹکاتا اور بار بار آس دلاکر توڑتا چلا جائے تو اس شخص کی ذہنی کوفت و بیزاری کس قدر شدید ہوسکتی ہے، وہی میرے والد کی حالت ہے۔ وہ اس کنڈیشن سے ایڈجسٹ نہیں کرپارہے کہ میں بھلا چنگا تھا، ہر جگہ جاتا اور گھر کا سارا سامان خود لاتا تھا اور بالکل ٹھیک ٹھاک چلتا پھرتا تھا، یہ اچانک مجھے کیا ہوگیا کہ میرا پاؤں وزن نہیں لے رہا اور میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے بالکل لاچار ہوگیا ہوں اور اب بس میرے مقدر میں نہ جانے کب تک یہ کیفیت ہے کہ میں بستر پر پڑا کڑھتا رہوں اور بس صحت و تندرستی کی خیالی امیدوں میں جیوں، کیوں کہ علاج و دوا بظاہر بڑے ہی سست رفتار ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ گویا کچھ ہوہی نہیں رہا اور مجھے بس بستر پر بے یار و مددگار معاذ اللہ ختم ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم فرمائے اور ہم سب گھر والوں کو صبر و ہمت کے ساتھ ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے پاکستانی بہن بھائیوں کی حالتِ زار کو بھی حالتِ طرب بنادے اور ان کی مشکلات اور پریشانیاں جلد از جلد دور فرمائے، آمین۔ انقلاب کے موضوع پر میں نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، ان پر آپ کا تبصرہ پڑھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ جو لوگ اس فورم پر آتے جاتے اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے حلقے کے دیگر اسکالرز کو پڑھتے اور سراہتے رہتے ہیں، انہیں کیسے میرے خیالات محض ذہنی اڑان اور خیالی و فکری پرواز محسوس ہوئے۔ گویا کہ میں نے جو کچھ عرض کیا تھا اس کا حقیقت کی دنیا سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے اور میں بس خیالات کے سمندر میں رومانوی ڈبکیاں لگارہا اور افسانوی غوطے کھارہا ہوں۔ میں نے جو باتیں اختصار کے ساتھ لکھی تھیں، تاریخِ انسانی کی ساری داستان اسی کی عملی و واقعاتی تفسیر ہے۔ تاریخ میں جب کبھی کوئی بڑا تغیر اور انقلاب واقع ہوا ہے اس کا ڈھنگ اور اس کی ترتیب یہی رہی ہے کہ پہلے کسی معاشرے اور قوم اور قبیلے یا گروہ کے فکر و مزاج میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد بیرونی مظاہر و تفصیلاتِ زندگی اپنا قبلہ اور رنگ ڈھنگ تبدیل کرتے ہیں۔ عام زندگی میں اس کی نہایت قریبی اور نمایاں مثال یہ ہے کہ جو بچہ پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لیتا اور اسکول جاکر علم و تربیت سے بہرہ مند ہوتا ہے وہ آنے والے دنوں میں عزت و مرتبہ پاتا اور سوسائٹی میں احترام و وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے ہی سوسائٹی میں مقام، حیثیت، استحکام اور عروج و ترقی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو بچہ پڑھنے لکھنے کے بجائے کھیل کود میں اپنا وقت و محنت صرف کرتا اور آوارہ گردی جیسی مصروفیات میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے زندگی کے اگلے دور میں وہ ایک محروم و پس ماندہ شخص کی حیثیت میں پہنچ جاتا اور سوسائٹی کے ایک ناکام اور زوال یافتہ اور قابلِ مذمت فرد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اسی مثال کے آئینے میں میری بات کو رکھ کر دیکھیے کہ انسانی زندگی میں اصل چیز فکر و مزاج اور دلچسپی و مشغولیات جیسی چیزیں ہیں۔ ان ہی کے موافق انسان کے حالات بنتے اور اسے مقام و حیثیت حاصل ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی انسان کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن کو بگاڑ دیجیے، اس کے مزاج کو مسخ کردیجیے، اسے غلط اور مذموم دلچسپیوں اور کاروائیوں میں لگادیجیے، اس کے بعد اس کی تباہی اور زوال و ناکامی کے لیے آپ کو کچھ اور کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، وہ خود اس راستے پر چل کر اپنی بربادی کی داستان رقم کرتا اور اس داستان کو مزید طول در طول دیتا چلاجائے گا۔ کیا یہی وہ باتیں ہیں، جنہیں آپ لوگ خیالی پرواز اور مجھے ان کی بنا پر آئڈیل پسند اور غیرحقیقی خواب دیکھنے والا شخص قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ باتیں ایسی ہی ہیں تو براہِ مہربانی محض اپنے منفی تبصرے نشر فرمانے کے بجائے ان کی خامی و غلطی کی تشریح کیجیے اور جس فکر و نقطۂ نظر کو اس معاملے میں آپ درست سمجھتے ہیں، اسے شرح و تفصیل کے ساتھ بیان کیجیے تاکہ ہم بھی تو دیکھ اور سمجھ سکیں کہ آخر ان باتوں میں وہ کیا غلطی ہے جس کی بنا پر یہ آپ کو کاغذی فلسفے اور نقلی و مصنوعی پھول نظر آرہے ہیں اور وہ کون سے قیمتی آراء و افکار ہیں جو ان کے برخلاف کسی معاشرے کو صالحیت و خوبی اور عروج و ترقی کی طرف لے جانے کے لیے زیادہ کارآمد و نافع اور سریع الرفتار ہیں۔ محض آپ کے منفی ریمارکس آپ کے ذاتی تأثر کا اظہار تو ہیں لیکن ان سے میرے خیالات کی لغزش و خامی اور اس کے برخلاف کسی نقطۂ نظر کی راستی و افادیت مبرہن نہیں ہوتی۔ میں نے اپنے خیالات کی تائید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا نقشہ بھی بایں الفاظ کھینچا تھا کہ " سب سے پہلے اسلام کی بنیادی دعوت اور توحید و رسالت و آخرت کا پیغام ہے جو اس وقت لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ بار بار کیا گیا۔ ہر ہر زاویے اور پہلو سے کیا گیا۔ اس کے حوالے سے لوگوں کے شکوک و شبہات اور مخالفین کے پیدا کردہ اعتراضات و شوشہ جات کا اطمینان بخش جواب دیا گیا۔ اس اولین مرحلے میں ہر طرح کا ظلم و ستم ہوا۔ قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ وحشت و بربریت کا شکار کیا گیا، لیکن خدا کے پیغمبر اور آپ کے اصحاب سراپا صبر و عزیمت اور امن و آشتی بنے رہے ۔ پھر جب اسلام کی دعوت وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی اور سوسائٹی کی ایک بڑ ی تعداد اس کی حامی و پشت پناہ بن گئی تو بالکل فطری نتیجے کے طور پر اس سماج میں اسلامی حکومت ابھرتی چلی گئی تاآنکہ مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست خدا کے رسول کی سربراہی میں قائم ہوگئی۔ اس کے علاوہ کفار سے جو جنگیں اور غزوات پیش آئے اور وہ جس طرح ذلیل و مغلوب کیے گئے ، اُس میں جہاں امتِ پیغمبر کے لیے بہت کچھ ہدایت و نمونہ موجود ہیں وہیں اس کا ایک بہت بڑ ا حصہ رسول اللہ کی حیثیتِ رسالت کے ساتھ مخصوص اور آپ کا اور آپ کے براہِ راست مخاطبین و مومنین صحابۂ کرام کا استثنائی معاملہ ہے ۔ آپ خدا کے رسول تھے ۔ رسالت کے قانون کے مطابق آپ کے مخاطبین کو حق کے آخری درجے میں واضح ہوجانے کے بعد بطورِ عذاب و سزا مغلوب و مفتوح کیا گیا اور صحابۂ کرام کو وقت کی سلطنت و فرمانروائی کے بڑ ے بڑ ے تخت و تاج کا مالک بنایا گیا۔"، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے یہ نقشہ بھی ذاتی اپج کی کاریگری سے من مانے انداز میں وضع کیا ہے اور دراصل حقیقت کچھ اور ہے تو براہِ عنایت بتائیے کہ پھر اُس زمانے میں اور کیا ہوا تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے وہ اصل نقوش کیا ہے، جنہوں نے انسانی اور عالمی تاریخ کا رخ موڑ دیا اور اسلام کو ایک ایسی شاندار و غالب و برتر و مؤثر تہذیب بنادیا کہ اس کے جلو میں دوسری کئی اقوام اور تہذیبیں بہہ گئیں اور اپنی پرانی شناخت و امتیازات بھول کر اس کے رنگ میں رنگ گئیں۔ قوموں کی زبان بدل گئی، ان کا رہن سہن اور انداز و ادا سب تبدیل ہوگئے اور یہ سب کسی جبر و اکراہ اور سیاسی بالادستی ہی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس میں سب سے زیادہ دخل اسلام کی تعلیمات و خصوصیات اور خدا کے آخری آسمانی کلام کی الہامی تجلیات کو تھا۔ یعنی فکری و مزاجی تبدیلی نے ان کی معاش و معاشرت اور تہذیب و سیاست ہر چیز کو بدل کر اور ایک نئے سانچے میں ڈھال کر رکھ دیا۔ خود اگر ہم اپنے آباء و اجداد اور اپنی قومی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارے پرانے لوگ بھی جس چیز سے مغلوب ہوکر اسلام کے دامن وابستہ بنے وہ محض کوئی فوجی و سیاسی یلغار نہ تھی کہ جس کے باعث ہم اپنی روایات اور تہذیب سب کچھ کو بھول گئے، بلکہ یہ اسلام کے فکر و نظریے کی برتری تھی جس نے ہمارے بڑوں اور اجداد کے اذہان کو مفتوح کرکے انہیں اپنے ماضی سے کاٹ کر اسلام کی روایات کا اس درجہ امین بنادیا کہ آج ہم ان کی اگلی نسلیں اپنے ان اجداد کے ماضی اور ان کی تہذیب کے بجائے اسلام سے اپنی نسبت پر فخر اور اصرار کرتے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں کتنے ہی لوگ اپنا مذہب اور لائف اسٹائل جو بدلتے ہیں تو وہ کسی زور زبردستی اور تشدد و جبر کے بجائے کسی مذہبی و روحانی فکر سے ان کے تأثر و مغلوبیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ سارے انسانی واقعات و مظاہر اسی بات کی تائید کررہے ہیں کہ اگر آپ کسی سوسائٹی اور معاشرے کو تبدیل کرنا اور اس میں کسی خاص فکر و نظریے پر مبنی اجتماعی ماحول و نظام لانا چاہتے ہیں تو پہلے معاشرے کے افراد کے اذہان کو اس فکر و نظریے کی فوقیت و برتری کا قائل بنائیے، اس کے حوالے سے ان کے شکوک و شبہات، خدشات و اعتراضات وغیرہ دور کرنے کا تشفی بخش سامان کیجیے۔ انہیں دل و جان اور دل و دماغ اور روح و مزاج سے اس کا ہمنوا و معتقد بنائیے اور اس کے ساتھ ان کی وابستگی اور گرویدگی کو اتنا پروان چڑھائیے کہ وہ اس کی خاطر جینے اور مرنے کے لیے گہرائی کے ساتھ آمادہ و تیار ہوجائیں۔ اس کے بعد آپ سے آپ بالکل فطری نتیجے کے طور پر وہ فکر و نظریہ اس سماج کا غالب نقطۂ نظر بن کر ابھرے گا اور اس کی تعلیمات کے موافق اجتماعی ماحول و نظام ہی اس سوسائٹی میں چل سکیں گے۔ کیوں کہ یہ ایک بڑی انسانی حقیقت ہے کہ کسی سماج میں وہی نظام و قانون رائج رہ سکتا ہے جس کی پشت پر عوامی قوت و تائید موجود ہو، عوام اگر کسی فکر و نظام کے مخالف و دشمن بن جائیں تو ایسی سوسائٹی میں اس فکر و نظام کا جاری رہنا محال و ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ انسانی حقیقت آج تو اور بھی زیادہ ثابت شدہ بن چکی ہے اور اس وقت تو ماضی میں آنے والے مختلف فکری و نظامی انقلابات کی بدولت اس درجہ راسخ ہوچکی ہے کہ اب عوام کی اکثریت کی رائے اور مانگ کے خلاف جانا بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کے لیے بھی ممکن نہیں رہا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اگر کوئی فکر و دعوت بڑے پیمانے پر کسی قوم و معاشرے کے افراد کو مفتوح کرنے اور اپنی تائید و حمایت میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائے، اس کے باوجود کچھ دوسری قوتیں اسے سماج میں بروئے کار نہ آنے دیں اور اجتماعی ماحول و نظام کو اس کے خلاف سمت میں چلاتے رہنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اسلام کے ماننے والوں نے اسلام کو اس کی اصل تعلیمات کی شکل میں کبھی ایک عمومی دعوت بنایا ہی نہیں ہے۔ یا تو اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کہیں کام ہی نہیں ہوا یا پھر اسے سیاسی انقلاب یا جزئی مسائل اور فرضی و مبالغہ آمیز فضائل جیسی شکلوں میں عمومی دعوت و تبلیغ کا عنوان بنایا گیا ہے۔ اسلام کو خدا وابستگی، توحید پسندی، آخرت پروری، انسان دوستی، تحقیق و ترقی طلبی اور صالحیت خواہی جیسی اساسی اسلامی بنیادوں پر کبھی عمومی دعوت و تبلیغ کے میدان میں لایا ہی نہیں گیا۔ آج آپ لوگوں اور آپ کی طرح سوچنے والوں کو جو یہ بات دور کی کوڑی اور فرضی تخیل پسندی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کو فکری دعوت کے میدان میں سرگرم کیا جائے اور جب تک کسی معاشرے کے افراد کی اکثریت اس فکر کو قبول نہ کرلے اُس وقت تک امن و صبر اور انتظار سے کام لیا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے اولین غلبے اور بعد کے پھیلاؤ کے نتیجے میں اسلام نے جو ایک سپر پاور اور نہایت غالب و برتر تہذیب کی حیثیت اختیار کی اور جس کی مدت ہزار سال رہی، اس واقعے نے مسلمانوں کے ذہن و فکر پر نہایت گہرے اثرات ڈالے اور اس سے ان کے خیالات و تصورات میں حاکمیت اور برتری جیسے جذبات بڑی شدت سے راسخ ہوگئے۔ اس چیز نے ان کی مذہبی فکر پر بھی اثر کیا اور بعد میں اسلامی دعوت خدا پرستی، آخرت پروری اور صالحیت پسندی کے بجائے سیاسی انقلاب اور تمدنی تعمیر و اصلاح کی شکل میں ابھری اور بالکل ہی ایک دنیوی اصلاح و سیاسی تبدیلی کی دعوت کی شکل میں ڈھل گئی۔ اسی کے ساتھ ساتھ دنیا کی تاریخ میں چند پچھلی صدیوں میں جو فلسفے منظر عام پر آئے اور ذہنوں پر راج کرنے لگے اور ان کی مقبولیت کے نتیجے میں جو بڑے بڑے انقلابات و واقعات عالمی پیمانے پر رونما ہوئے، ان سارے عوامل نے مل کر ساری دنیا کے انسانوں خصوصا مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی کہ تبدیلی و تغیر اور انقلاب کا راستہ پر امن فکری جدوجہد نہیں بلکہ تشدد اور جبر و اکراہ کا راستہ ہے۔ یہ مطالبات کے ذریعے واقع نہیں ہوتا بلکہ اسلحہ لے کر اٹھ کھڑے ہونے اور اپنے اپنے طور پر جہاد و قتال کے میدان میں کود پڑنے سے یہ منزل قریب آتی ہے۔ اسی فکر کا نتیجہ آج ہم اس صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ نہ جانے کتنی بے شمار مسلم تنظیمیں اور گروپس مسلح جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں اور ہر ایک اسلام کو غالب و سربلند کرنے کا نعرہ لگا رہا ہے۔ ان تنظیموں اور گروپس نے اسلام کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اسلام کا امیج یہ بنایا ہے کہ اسلام ایک خونخوار و تشدد پسند مذہب ہے۔ امن پسندی اور رواداری نام کی کوئی چیز اسلام میں پائی ہی نہیں جاتی۔ یہ وحشت و بربریت اور جنگ و جدال کا دین ہے۔ اور مسلمانوں کا ذہن یہ بن چکا ہے کہ وہ تو پیدا ہی حکومت کرنے اور دنیا کی امامت و قیادت فرمانے کے لیے ہوئے ہیں۔ یہ ان کا خدائی حق ہے اور اسلام اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ اسلام کا نام لے کر حکومت و اقتدار کی کرسیوں اور طاقت و غلبہ کے منابع پر قابض ہونے کی مسلح اور پرتشدد کوششیں کی جائیں۔ اس سارے منظر نامے میں اسلام کی اصل تعلیمات کہ وہ ایک بندے کو اس کے خدا سے جوڑتا، اس کے حوالے سے اس کے تصورات کی تصحیح کرتا، اسے اس کی بندگی و فرمانبرداری و وفاداری کی دعوت دیتا، اسے آخرت کے حوالے سے حساس و فکرمند بناکر نیک کام کرنے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، اسے انسانوں کے ساتھ رحمت و شفقت اور ہمدردی و خیرخواہی کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا کے سارے مسائل و مشکلات سے اس کی نظریں ہٹاکر جنت اور جہنم کے مسئلے کو سب سے زیادہ سنگین و بھیانک بناکر اس کے سامنے رکھتا ہے، یہ ساری تعلیمات بالکل اوجھل و پوشیدہ ہوگئیں ہیں۔ آج اسلام کے نام پر چھپنے والی کتابوں اور نشر ہونے والی تقریروں اور خطبوں میں ان تعلیمات و خیالات کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہوتا بلکہ محض سیاست و اقتدار اور جنگ و جدال اور کشت و خون کی باتیں ہوتی ہیں۔ کیا یہ اسلامی حوالے سے کوئی اطمینان بخش اور نارمل صورتحال ہے۔ یقیناً نہیں۔ بلکہ یہ سراسر اسلام اور خدا کے دین سے انحراف و دوری کی علامت ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سوچنے اور غور کرنے والے انہی کے زیرِ اثر تفکر فرماتے اور پھر یہ خیالات نشر فرماتے ہیں کہ فکری دعوت اور مزاجی تبدیلی کی باتیں تو فرضی تخیلات ہیں، ان سے کوئی معاشرہ اور قوم تبدیل تھوڑی ہوتے ہیں اور یہ راستہ تو ایک ایسا راستہ ہے کہ جس پر چل کر ہم اگلے پچاس یا سو سال تک بھی کسی تبدیلی اور انقلاب کی امید نہیں کرسکتے۔ اصل راستہ تو یہ ہے کہ ہم نکل کھڑے ہوں اور ایک عمومی یلغار کردیں اور جبر و تشدد اور زور زبردستی کے طریقے سے اپنے دین و مذہب کو انسانوں پر تھوپنے اور ٹھونسنے کی جدوجہد کریں اور طاقت و اسلحے کے بل بوتے پر اسلامی نظام اور شرعی قانون سماج میں جاری و نافذ کردیں۔ مجھے یقینی طور پر نہیں معلوم کہ آپ لوگوں کے خیالات یہی ہیں یا آپ کی سوچ کچھ الگ ہے، کیوں کہ میں آپ کے صرف منفی ریمارکس پر ہی مطلع ہوپایا ہوں۔ اپنا تفصیلی نقطۂ نظر آپ لوگوں نے چونکہ بیان نہیں کیا لہٰذا میں نے اُس فکر و نقطۂ نظر کو اشاراتی طور پر بیان کردیا اور اس پر اپنی تنقید بھی اختصار کے ساتھ پیش کردی ہے جو اس باب میں عموماً پیش کیا جاتا اور پر امن دعوتی جدوجہد کے بجائے پرتشدد جنگی و جہادی کاروائیوں کے سہارے اسلام کے غلبے کی بات کرتا ہے۔ ہمیں یہ پر امن دعوتی جدوجہد والی بات بڑی اوپری اوپری اور بہت صدیوں میں جاکر نتیجہ خیز ہوتی جو معلوم ہوتی ہے اس کی وجہ وہی ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی ہے کہ بہت عرصے سے اسلام کی اصل تعلیات کو پہلی ترجیح بناکر اسلام کو ایک عمومی دعوتی تحریک کے روپ میں چلایا ہی نہیں گیا بلکہ یا تو سیاسی انقلاب کی فکر کو اسلام کے نام پر پیش کیا جاتا رہا ہے یا پھر کچھ تنظیمیں عرصے سے ضعیف و موضوع فضائل اور جزئی و فروعی مسائل کی دھوم مچاکر اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کریڈٹ لیتی رہی ہیں۔ توحید و رسالت و آخرت اور صالح اعمال و اخلاق و انسانیت جیسی اساسات کو اولین ترجیح بناکر اسلامی دعوت کی کوئی عمومی تحریک بڑی عرصے سے منظرِ عام پر چونکہ آئی ہی نہیں، لہٰذا لوگ وقت کی عمومی فضا اور ماضی قریب کے غالب فلسفوں اور انقلابوں کے زیرِ اثر یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے عمومی فروغ و پھیلاؤ کی بات کرنا اور اس راستے سے معاشرے میں تبدیلی کا خواب دیکھنا ایک رومانوی افسانہ ہے۔ مسلمان اگر اسلامی تعلیمات کی عظمت و بلندی اور نافعیت و تاثیر کو حقیقی طور پر جان لیں اور اس عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں کہ انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات اور قرآن کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے اور ہر ہر فرد تک اس کی زبان و اسلوب و معیار میں پہنچانا ہے تو آج بھی بغیر کسی دعوت و تبلیغ کے ہم جو سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات مختلف اطراف سے روزانہ سنتے رہتے ہیں، مسلمانوں کی شعوری کوشش و محنت کے بعد ان واقعات کی مقدار و کیفیت ہر چیز میں بے اندازہ اضافہ متوقع ہے اور پھر اس کے بعد اسلام کو غالب آنے اور انسانیت کے اجتماعی ماحول و نظام میں اپنی جگہ بنانے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ تعلیم و تبلیغ اور فکری و مزاجی تبدیلی لانے کی جدوجہد ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے کسی سماج کے افراد کو بدلا جاسکتا اور اس کے اجتماعی نظام میں تغیر لایا جاسکتا ہے۔ یہ بات اسلام اور ہر دوسرے فکر و نقطۂ نظر کے لیے یکساں درست اور واحد مفیدِ مطلب راستہ ہے۔ [/size=4][/red][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top