Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][teal][right][size=4]اس وقت مسلمان افراد و اقوام کے ساتھ جو مسائل اور صورتحال درپیش ہے، اُس میں جہاں عام فطری و تاریخی عوامل و حقائق کا عمل دخل ہے وہیں اسلام کے حوالے سے مسلمانوں کی فکر اور ان کے عمل میں در آنے والی بہت سی قابلِ اصلاح کجیوں اور غلط فہمیوں اور تعلق و ربط کی سطحیتوں کا بھی گہرا اثر ہے۔ مسلمان افراد کا اس وقت بیش تر معاملہ یہ ہے کہ ان کے اسلام کے دامن وابستہ ہونے اور خود کو مسلمان کہنے بتانے کے پیچھے سوائے نسلی و خاندانی و پیدائشی طور پر مسلم گھرانوں میں متولد ہونے اور مسلم قومیت کی فضاؤں میں پروان چڑھنے کے اور کوئی بنیاد و سبب نہیں ہوتا۔ ان کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ ان میں سے بیش تر افراد اسلام کے علمی و تحقیقی و تجزیاتی و تقابلی مطالعے کے بعد سوچ سمجھ کر اسلام سے جڑے ہوئے ہوں اور اچھی طرح اسلام کی بنیادوں اور جزئیات و علامات و تفصیلات سے براہِ راست شعوری درجے میں واقف و آگاہ ہوں یا پھر اگر قدرت نے انہیں اسلام سے وابستہ گھرانوں ہی میں پیدا کردیا تھا تو بعد میں شعور و فہم کی حدود میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے اسلام سے کوئی گہری واقفیت اور اس کے حوالے سے کوئی واقعی معرفت بہم پہنچائی ہو۔ نہیں بلکہ ان میں سے اکثریت بلکہ شاید تمامتر افراد و اشخاص کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چونکہ مسلم گھرانوں اور اسلام کے نام لیوا خاندانوں میں پیدا ہوئے اس لیے مسلمان ہیں اور پھر اسلام کے حوالے سے ان کے ہاں جن افکار و معتقدات و تصورات و معمولات کا چلن ہے بھی، اس کا سبب و مأخذ بھی بس اسی گھرانے اور خاندان یا زیادہ سے زیادہ اپنے معاشرے اور قوم کے حدود میں پایا جانے والا اسلامی فہم اور اسلام کے نام پر موجود عملی اثاثہ و ڈھانچہ ہے۔ عام طور پر نہ کوئی اس بات کا موقع پاتا ہے کہ اپنی واقفیت کو اسلام کے حوالے سے براہِ راست اس کے اصل مصادر و ریسورسز سے متعلق کرے اور نہ ہی یہ سوچ و رجحان ہمارے ہاں کسی بھی درجے میں مقبول و معمول نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مسلم افراد و گروپس کے اسلام میں بے حد فرق و بعد اور تضاد و اختلاف پایا جاتا ہے اور ان مختلف جگہوں کے اسلام کی سماعت و جھلک یہ منظر پیدا کرتی اور سماں باندھتی ہے کہ یہ گویا ایک ہی دین و مذہب کی تعلیمات و تشریحات کا اختلاف نہیں ہے بلکہ شاید اس اسلام نامی دین و مذہب کے مختلف ایڈیشنز ہیں جو آپس میں جزئی و تفصیلاتی امور میں بے حد و شمار جگہوں پر مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے گہرے اساسی و بنیادی اختلافات بھی اپنے اندر رکھتے اور اس طرح تشریحی و تعبیری اختلاف سے آگے بڑھ کر ایڈیشنی اختلاف کا تأثر دیتے ہیں۔ اسی صورتحال کے یہ نتائج ہیں کہ اس وقت عالمی سطح پر مسلمان جن افکار و نظریات اور جن پرتشدد و جہادی اقدامات کا مظاہرہ کررہے ہیں ان کی تہہ میں اور ان کی بنیاد میں بھی گو اسلام کے نام و حوالے سے بہت سے مفکرین کے افکار و تشریحات کارفرما ہیں لیکن اسلام کی اصل تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں ان کو قبول کرنا اور جواز کے حدود و دائرے میں لانا ممکن ہی نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کے عملی و اخلاقی معاملات میں جو بے پناہ گراوٹیں اور پستیاں اور عمومی شرافت و انسانیت کے معیار سے بھی گری ہوئی خامیاں ایک تسلسل کے ساتھ چلی آرہی اور ان کے سیرت و کردار کا علامتی تعارف اور شناختی لاحقہ بن گئی ہیں، ان کا اسلام کے زاویۂ نگاہ میں معتبر و مقبول قرار پانا بھی بالکل محال ہے۔ اس ابتر صورتحال کا زور و شور سے یہ تقاضا ہے کہ ہم ان موجودہ بڑی تعداد میں پائے جانے والے مسلمانوں کو معیاری درجہ دے کر ان سے اسلامی حوالے سے سماجی و معاشرتی سطح پر کسی تبدیلی، اصلاح اور نتیجے کی توقع کرنے کے بجائے ظاہراً اسلام کے حلقہ بگوشوں اور اسلام سے ظاہری دوری رکھنے والے دونوں طرح کے افراد و طبقات کو اسلام کی اصل اور بنیادی اور آٖفاقی تعلیمات سے شعور و معرفت کی سطح پر آشنا بنانے کی جدوجہد کریں۔ انہیں توحید کی لذت سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ خدا سے ان کے تعلق کو وفاداری و بے قراری و مکمل تابعداری جیسی بلندیوں پر پہنچاکر استوار کرنے اور ان میں دنیا کی رونقوں اور لذتوں کی چسپیدگی سے بڑھ کر آخرت کے حوالے سے فکرمندی اور اخری فوز و فلاح کے لیے اعلیٰ ترین درجے کی بے تابی و بے چینی ابھاریں۔ ان کے اندر بلند انسانیت اور کمال درجے کا اعلیٰ و تابندہ و یکطرفہ اخلاق پروان چڑھانے کی جدوجہد کریں۔ انہیں اپنے پیمبر کی سیرتِ عالیشان اور ان کے اصحاب و پیروکار صالحین کے عمدہ و بے مثل نقوش و امثال کو اپنا آئیڈیل اور نشانہ سمجھنے کی سوچ و رجحان کا حامل بنائیں۔ ہمارے ہاں اس معاملے میں جو غلطی کی جاتی ہے وہ عام طور پر یہی ہوتی ہیں کہ اسلام کا دم بھرنے والے تمام افراد کو امتِ مسلمہ کا معیاری و حقیقی اجزائے ترکیبی فرض کرلیا جاتا اور مسلمان کے نام سے موجود تمام افراد و اشخاص کو اسلامی برادری کا قابلِ اعتماد و مستحکم اثاثہ گمان کرکے انہیں بغیر کسی تفریق و تمییز کے اسلامی کاز کے لیے اور اسلام کو فروغ دینے یا سربلند کرنے یا اسلامی شعائر و روایات کو رائج کرنے کے لیے پکارا جاتا اور دعوت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بھیانک و سنگین غلطی جو اس سلسلے میں ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر واقع ہورہی ہے کہ بہت سے اسلام سے ہمدردی اور محبت رکھنے والے مسلمان افراد و تنظیمات اپنے غیر معیاری و نادرست فہمِ اسلام کے مطابق اسلام کے نام پر مختلف تعلیمات و شیڈولز کو مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر رائج و معمول بنانے کے لیے سر ڈھر کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام و حوالے سے ایسے ایسے افکار و تصورات اور اقدامات و رسومات کے بارے میں سننے دیکھنے میں آتا ہے کہ حیرت کو بھی حیرت ہوجاتی اور تعجب بھی خود ورطۂ تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ اس ساری بھیانک و تباہ کن اور المناک و افسوسناک صورتحال کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلام کو اس کے اصل منابع و مصادر و مأخذ سے اخذ کرنے اور سمجھنے کے بجائے ماحول و خاندان، تنظیم و حلقہ، فرقہ و ٹولہ اور سماج و سوسائٹی میں اسلام کے نام سے معروف و مشہور باتوں کو بنیاد و اساس بناکر اسلام کا کوئی تصور قائم کیا جاتا اور کسی نہ کسی رنگ میں تصور و فہم اختیار کیا جاتا ہے اور پھر اسی سرمایے کو اسلامی تعلیمات اور معمولات کے نام سے ہر جگہ پھیلانے اور رواج دینے کی مخلصانہ مگر اپنے نتائج و اثرات کے اعتبار سے اسلام کے حق میں سنگدلانہ و دشمنانہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس وقت اسلامی فکر و تعبیر کے عنوان سے جو دھارے یا فکری رجحانات مسلمانوں میں بالعموم غلبہ پائے اور ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں وہ یا تو جہادی تگ و دو کے ذریعے اسلام کو غالب و نافذ کرنے سے متعلق ہیں یا پھر صوفیانہ، فقہی جزئیات پسندانہ، مسائل رخانہ اور فضائل و بشارت آمیزانہ رجحانات و نظریات رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد یا تو زور و طاقت کے استعمال اور اسلحہ و ہتھیار کے ذریعے قومی و عالمی پیمانے پر اسلام کے نظام و قانون کو رائج کرنا اور زمین کے اوپر برسرِ اقتدار و رواج دیکھنا چاہتی ہے یا پھر وہ اسلام کو مسائل و جزئیات اور فقہی پابندیوں اور تفصیلات کا ایک گورکھ دھندہ باور کیے ہوئے ہیں اور یا پھر وظائف و اوراد اور جادو اثر اذکار و ادعیہ کا ایک طلسماتی مجموعہ و نسخہ۔ ان دو طرح کی فکری لہروں کے برعکس اسلام خدا سے مخلصانہ و سرفروشانہ و نیازمندانہ تعلق کا عنوان ہے اور اسی اساس سے وہ افکار و اخلاقیات پھوٹتے ہیں جو ایک مؤمن و مسلم سے مطلوب اور اس کی زندگی اور کردار میں مقصود ہیں۔ انسان اس کائنات میں جب پیدا ہوکر آنکھ کھولتا ہے تو وہ اپنی اس ابتدا ہی سے خدا کا بندہ، اس کا دست نگر، اس کی پرورش و نگہداشت کا محتاج، اس کی عنایت و رحمت پر نربھر اور مکمل طور پر اس کے اقتدار و اختیار کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سنِّ شعور کو پہنچنے کے بعد انسان کو اپنے فہم و معرفت کا حصہ بنانا اور اسی کو بنیاد بناکر اپنی زندگی کی عمارت کو استوار و تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ اسی کا نام بندگی، عبدیت اور خداپرستانہ زندگی ہے اور اسی طرزِ زندگی کے حصول یا محرومی پر انسان کے اخروی و ابدی انجام کی اچھائی برائی کا انحصار و مدار ہے۔ خدا سے تعلق اور توحید سے وابستگی اور صرف اور صرف اسی کو اپنی بندگی و دستگیری، اعتماد و توکل، تسلیم و رضا، وفاداری و جاں نثاری جیسے معمولات و جذبات کا واحد مرکز بنانا اور آنے والے انصاف و بدلے کے دن اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا ہی اسلام و ایمان کی بنیاد و کلید ہے۔ اس کا راستہ یہی ہے کہ خدا نے اپنی جو ہدایت نازل کی اور اپنے جو پیغمبر اپنا کلام و پیغام دے کر بھیجے ہیں، ان کا دامن و در تھاما جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ان سے قربت و وابستگی اپنائی جائے اور انہیں اپنا پیشوا و مقتدا بنایا جائے اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات اور چھوڑی ہوئی ہدایات کی دل و جان سے پیروی و تابعداری کی جائے۔ یہی وہ نقشہ ہے جس پر ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا ہے اور پھر یہی وہ فارمولا اور پروگرام ہے جس کے مطابق ہمیں ظاہری تعارف کی سطح کے مسلمانوں اور بظاہر اسلام کے حلقے سے باہر کے غیرمسلموں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کی کوشش اور جستجو کرنی ہے۔ اسلام انسان کا اساسی و حقیقی مقصد آخرت کی کامیابی کو قرار دیتا اور اس کے لیے دنیا میں اپنے نفس کا تزکیہ اور اپنی شخصیت کی صالح بنیادوں پر تعمیر و تشکیل کو قرار دیتا ہے۔ اسی پروگرام و لائحۂ عمل کو ہمیں خود بھی اختیار کرنا اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف آنے اور اس کے مطابق جینے کی دعوت دینی ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ اور واقعی ٹارگٹ ایک انسانی فرد اپنی انفرادی حیثیت ہی میں ہے۔ وہ اسی کو اعلیٰ اخلاقی و روحانی اوصاف و خصوصیات سے آراستہ کرنا اور فکر و عمل اور اخلاق و سیرت کی آلائشوں اور غلاظتوں سے بچانا اور خالی کرنا چاہتا ہے۔ اسلام اصل کامیابی اس کو قرار دیتا اور فوز و فلاح کا حقدار اسے ٹھہراتا ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنے اور اپنی انفرادی شخصیت کو فطری و عقلی و اخلاقی اساسات پر تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کرلے۔ اسلام کا طریقہ فضائل و بشارات کی مبالغہ آمیز روایات سناکر جذباتی طور پر اکسانے اور وقتی جوش و ابال بھڑکانے اور زور و طاقت کے بل بوتے پر سماج و سوسائٹی میں غالب آنے اور نافذ ہونے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، نصیحت و فہمائش، تذکیر و تلقین اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے انسانوں کے ذہن و فکر کو بیدار کرتا، انہیں خدا و آخرت کے حوالے سے چوکس و چوکنا بناتا اور آخرت کے حساب کتاب کے مرحلے کو ان کی نظر میں اتنا سنگین و اہم بنادیتا ہے کہ پھر ایسے انسانوں کے نزدیک ہر مسئلے سے بڑا مسئلہ اور ہر گول سے بڑاگول آخرت کی کامرانی، جنت کی بازیابی اور جہنم سے نجات و خلاصی بن جاتا ہے۔ یہ تصورات انسان کو ایک صالح، پاکیزہ، حدود و ضوابط کی تحدیدات میں بندھی، خدا و خلق کے حقوق و واجبات کی ادائیگی سے عبارت اور انصاف و انسانیت سے معمور زندگی بتانے والا اور نہایت خداترس و انسان دوست شخص بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان اپنے سماج کے لیے سرمایہ، اپنے حلقۂ احباب کے لیے نہایت قیمتی رفیق و مشیر، قابلِ اعتماد مرجع اور بے شبہ لائقِ فخر اثاثہ و سرمایہ ہوتا ہے۔ پھر جب چراغ سے چراغ جلتا اور شمع سے شمع روشن ہوتی ہے تو سماج و سوسائٹی میں ایسے افراد کی تعداد بڑھنا اور خیر کی روشنی بدی کی تاریکیوں پر غالب آنا شروع ہوجاتی ہے۔ معاشرے میں اچھی اقدار و روایات کا چلن عام ہوتا اور برائی و ناانصافی و بدکاری کے معمولات کا زور ٹوٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ آہستہ آہستہ نیکی بدی کے لیے ایسی سوسائٹی میں کھل کھیلنا، پھلنا پھولنا اور زور و اثر کے ساتھ برقرار رہنا مشکل بنادیتی اور سماج میں صالح عنصر اور پاک فکر و کردار کے لوگ چھانا اور اثر و رسوخ پانا شروع ہوجاتے ہیں۔ یوں اسلام، اپنی تعلیمات و روایات و معمولات و خصوصیات کی صورت میں سماجی شعبوں، معاشرتی دائروں اور نظم و قانون کے ایوانوں میں بھی جلوہ گر ہونا اور اپنی تابندگی بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسلام کو اس کی اصل تعلیمات اور اس کے اصل منابع و مصادر کی شکل میں کبھی میدان میں ایک تحریک و مشن بناکر لایا ہی نہیں گیا۔ ہاں اسلام کا نام تو بہت سی تحریکوں اور دعوتوں نے ضرور استعمال کیا مگر انہوں نے جن افکار و خیالات کا پرچار کیا وہ یا تو ان کے ذاتی تراشیدہ تھے یا زمانے اور دور کی پیداوار تھے یا غالب فلسفوں اور نظام کا چربہ و تراشہ تھے یا پھر منحرف و مسخ شدہ اسلامی فکر کے مصداق مسائل کے دفتر یا فضائل و بشارات کی غیر حقیقی باتوں کا پلندہ۔ آج بھی اگر انہی چیزوں کو اسلامی دعوت و تبلیغ اور اسلامی فکر کے نام سے پیش کیا جاتا رہے تو ہم مستقبل میں کسی بہتری اور خوشگوار تبدیلی کی کوئی امید رکھنے میں بالکل بھی حق بجانب نہ ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو خدا پرستی، اخلاق دوستی، انسانیت رسی، آخرت ترسی اور سیرت و اطوارِ پیمبر سے وابستگی اور اس کی کلی اطاعت و پیروی کی شکل میں پیش کیا اور پھیلایا جائے۔ اسلامی انقلاب جیسی منازل سے نظریں پھیر کر ایک ایک فرد کو تزکیۂ نفس کی راہ کا مسافر اور پاکیزہ سوچ و اخلاق و کردار کا حامل بنانے کو اپنی کوششوں اور جدوجہد کا مرکز و نشانہ قرار دیا جائے۔ یہی وہ کام ہے جو کرنے کا اور بڑے سے بڑے پیمانے پر کرنے کا ہے۔ اس وقت اسلام کی پاکیزہ، آفاقی اور انسانیت پرورانہ تعلیمات و ہدایات عالمی طور پر انسانیت کی ضرورت بن چکی ہیں۔ اس وقت جو خودغرضی، مفاد پرستی، یاشیخ اپنی اپنی دیکھ، مقابلہ بازی اور سطحی لذت پسندی و تابڑ توڑ مادہ و تفریح پسندی کا زہریلا دور چل رہا ہے اس نے انسانیت کے گلے کو خونخوار اور درندہ قسم کے جانوروں کے ریوڑ کی شکل دے دی ہے۔ ایسے میں اسلام جیسے آفاقی و عالمی نظریے اور اس کی صالح و روشن اور اخلاق و انسانیت سے بھرپور تعلیمات کو انسانیت کے سامنے پیش کرنا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت اور نفع رسانی ہوگی اور اسی سے اسلام کے مستقبل کی بہتری اور مسلمانوں کے عروج و استحکام و سربلندی کی راہ بھی پوری طرح کھل جائے گی۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ایسے مردانِ کار و صاحبان حوصلہ و قربانی و ایثار کی ہے جو اسلام کے تحقیقی مطالعے کو اپنی جولانگاہ بنائیں۔ اسلامی فکر کو اپنی صحیح اور حقیقی شکل میں جاننے اور عام کرنے کے لیے اپنی زندگی تجنے اور کھپانے کے لیے پوری طرح آمادہ و تیار ہوں۔ اسلام کے نام پر پھیلی ہوئی غلط فکریوں، کجیوں اور خیال و تصور کی بدعتوں کو بے نقاب کرنے اور صحیح افکار و معمولات کی نشاندہی کرنے کو اپنا مشن و مقصدِ زندگی بنائیں اور افراد و معاشرہ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اسلام کو ایک زندہ و واقعاتی نظریہ اور رواج پذیر طریقۂ زندگی بنانے کی راہ میں اپنا تن من دھن لٹانے کے لے بخوشی رضامند ہو۔ ایسے افراد اگر خود اسلامی فکر و عمل کے سانچے میں ڈھل کر اپنے اپنے حلقوں اور دائروں میں متحرک اسلامی مشن شکل میں ڈھل جائیں تو اسلام کی عمومی اشاعت، اس کی خوبیوں اور نفع رسانیوں اور رفعتوں اور انسانیت کے آلام و مصائب دور کرکے اس کی راہ نمائی کی اجارہ دارانہ صلاحیتوں کا بھرپور و شاندار طریقے پر اثبات و اظہار ہوجائے گا اور یہ مثالیں اور نمونے اور تجرباتی واقعات مزید بڑے اور وسیع پیمانے پر اسلام کی اشاعت و فروغ کا سبب بن جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کام کی اہمیت اور قدر نہیں۔ وہ مساجد، مدارس و مکاتب اور دوسرے دوسرے شعبوں میں تو دل کھول کر بھی پیسہ لگانے اور راہِ خدا میں انفاق سمجھ کر خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن اس کام و مقصد کی اہمیت و ضرورت سے ایسے سارے ہی لوگ شاید بالکل بے خبر ہیں کہ وہ ذہین و باصلاحیت نوجوانوں کی ایک تعداد کو اسلامی کے علمی و تحقیقی و تقابلی مطالعے اور اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید اور پھر اس فکر کی تشہری اور اس کی بنیاد پر نئی اسلامی روایات کی ترویج کے مشن کے لیے سہولتیں اور لوازمات بہم پہنچائیں اور مسلم علما و مفکرین کا ایک ایسا دانشور و بیدار مغز دستہ ترتیب دیں جو اسلام کو اس کی اصل بنیادوں کے ساتھ نہ صرف جانتا ہو بلکہ اپنے عمل و کردار میں بھی اپنائے ہوئے ہو اور اسلام کی صحیح و بے آمیز ترجمانی کرنے کی پوری پوری اہلیت و لیاقت رکھتا ہو۔ اگر ہم مسلمان اس مقصد کے لیے متحرک ہوکر اسلامی مفکرین و معلمین کا ایک ایسا فہیم و ذہین دستہ تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ اسلامی انقلاب اور اسلام کے عالمی و آفاقی سطح پر پھیلاؤ اور رچاؤ کی راہ میں ایک بہت بڑا انقلابی قدم و عظیم الشان پیش رفت ہوگی۔ میری دلی تمنا ہے کہ مسلمان اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے کرنے کی توفیق پائیں تاکہ اسلام کے ابلاغ و دعوت کا کام اس کی صحیح اسپرٹ اور بے آمیز شکل میں سرانجام دے کر انسانیت پر حجت تمام کرنے اور اس تک خدا کے دین کا پیغام بے کم و کاست پہنچانے کی راہ بازیاب ہوسکے۔ [b][red][center][اسلام کی بلندی و رفعت، مؤمنانہ خوبیوں اور کمالات، اسلامی تعلیمات کے نافع اثرات اور مسلمانوں کی تربیت و اصلاح کے حوالے سے مجھ ناچیز کے لکھے ہوئے چند مضامین] [/center][/red][/b] [blue][center][b]اسلام کی برکتیں [/b][/center][/blue] آج کا دور بڑ ی خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور ہے ۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان نے آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا مطمحِ نظر اور مقصود بنا لیا ہے ۔ دنیا میں کسی کو کچھ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز آپ کے پاس نہ رہے اور نہ بدلے میں آپ کو کچھ ملے ۔ جب کہ آخرت کی خاطر کسی کو کچھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کے ذخیرے میں کچھ اضافہ کر لیا اور اپنی اخروی جمع پونجی بڑ ھا لی۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو خودغرضی اور مفاد پروری کے بجائے دریادلی، فیاضی، دوسروں کے کام آنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی بہتری کی خاطر غریبوں ، محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور اسی طرح دیگر انسانی بھلائی و خیرخواہی کے کام کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ ایک مسلمان دوسروں سے محبت کرنے والا، ان کے کام آنے والا، ان کے درد دکھ کو اپنا سمجھنے والا اور بڑ ھ چڑ ھ کر دوسروں کی خدمت و بھلائی کے کاموں میں حصہ لینے والا ہوتا ہے ۔ وہ کبھی خودغرض، سخت دل، مفاد پرست، اور دوسروں سے نفرت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت و نرمی برتی اور ہمدردی و خیرخواہی کی جائے ۔ اسی طرح اسلام اپنے حلقہ بگوشوں کو ایمانداری، سچائی، اصول پسندی، بلند اخلاقی، عالی ظرفی، ایفاے عہد، قانون کی پابندی، راستبازی، صفائی و پاکیزگی اور انسانی ہمدردی جیسی اعلیٰ خوبیوں کی تلقین کرتا ہے ۔ کسی سوسائٹی اور معاشرے میں اسلام کے آنے کا مطلب برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہے ۔ اسلام کی تربیت انسانوں کو اپنے معاشرے کے لیے انتہائی کارآمد اور مفید رکن بناتی ہے ۔ وہ امن، انصاف، پیار اور محبت کے علمبردار اور نمائندے بن کر جیتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے دائرے میں خوشیوں ، سکون و اطمینان اور فرحت و سلامتی کی علامت بن جاتے ہیں ۔ لہٰذا آج ہر طرف پھیلی ہوئی خودغرضی اور بے حسی ہو یا دیگر طرح کی برائیاں ، ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اعلیٰ، پاکیزہ اور روشن تعلیمات کو خود اپنائیے ، انھیں نرمی و حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیے اور اپنے بچوں اور احباب کے درمیان اسلام کی برکتوں اور خوبیوں کا چمکتا نمونہ بن کر زندگی گزارئیے ۔ مسلمان ہونے کا آج یہ آپ پر سب سے بڑ ا قرض ہے ۔ [b][center][blue]مؤمن انسان [/blue][/center][/b] انسان کوئی بھی ہو اور اس کا تعلق کسی بھی تہذیب، سماج اور ملک سے ہو، وہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی چیز کو بے انتہا رغبت و دلچسپی اور مطلوبیت و پسندیدگی کا مقام دیے ہوئے ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں خاندان کے بزرگوں کا رجحان اور سوسائٹی کے لوگوں کا چلن بھی اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نئے آنے والے آپ سے آپ اُن چیزوں کو اپنا ٹارگٹ اور محبوب بنالیتے ہیں جو خاندان و معاشرے کے لوگوں کے ہاں پہلے سے یہ مقام پائے ہوئے ہوتی ہیں ۔ مؤمن بھی ایک انسان ہوتا ہے ۔ مگر ایک ایسا انسان جو اپنی زندگی میں خدا، اس کے پیغمبر اور آخرت کے حقائق کو سب سے اونچا مقام دیے ہوئے ہو۔ دوسرے لوگوں کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں مقام و مرتبہ کی طلب نصب العین بنی ہوئی ہے ، کوئی حسن و جمال کا پرستار بنا جی رہا ہے اور کوئی مال ودولت اور آسائش و ثروت کو اپنا منتہاے مقصود قرار دیے ہوئے ہے ۔ مگر اللہ کا مؤمن بندہ اپنے خیالات، احساسات، جذبات، خواہشات اور اپنی تمام تر توجہات کا مرکز اپنے رب اور اس کی رضا کو، اپنے پیغمبر اور ان کے بلند اخلاق کواور جنت کے حصول اور جہنم سے بچاؤ کو بناتا ہے ۔ وہ بھی اگرچہ عام لوگوں کی طرح کھاتا کماتا، شادی بیاہ اور دیگر تعلقات کے بندھنوں میں بندھا ہوتا، والدین، آل اولاد اور خاندان و سوسائٹی کے حقوق ادا کرتا اور زندگی اور دنیا کی ساری سرگرمیوں میں شریک و شامل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے دل و دماغ اور اس کے شعور و جذبات میں اپنے پرودگار کی یادیں ، اسے راضی کر لینے کی امنگیں ، اپنے نبی کے اسوے کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی پرزور تمنائیں ، دنیوی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دینی فرائض بجالانے کی تڑ پ اور جہنم سے بچ کر جنت کی ابدی اور سرمدی بادشاہی کو پالینے کی کوشش و جستجو بسی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسا انسان ایک انسان دوست شخصیت، سب سے پیار کرنے والا، ہر ایک کا خیرخواہ، انصاف پسند، اصول پرست، خوش اخلاق اور روشن و اعلیٰ سیرت کا مالک شخص ہوتا ہے ۔ عہد کا پابند، قول کا سچا، امین، راستباز، قابلِ اعتماد، مخلص، وفاشعار، بہادر اور صاف شفاف شخصیت۔ اور اسی حسین و جمیل پیکر کا نام ہے مؤمن انسان۔ [blue][center][b]خدا اور بندۂ مؤمن [/b]1[/center][/blue] ایک انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا اور میسر آتا ہے ، وہ ایک ہی خداوند کی بخشش و عنایت ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن جن سے کسی مدد، بخشش اور عنایت کی توقع کی جاتی ہے ، وہ تو خود اپنے لیے بھی کچھ کر لینے کی کوئی طاقت نہیں رکھتے ۔ جس خداوند نے یہ آسمان و زمین بنائے ، پہاڑ و دریا تخلیق فرمائے اور انسان کو زندگی اور دوسری ساری نعمتیں عطا کی ہیں ، وہی اکیلا انسان کا پالنہار اور خالق و مالک ہے۔ اور آخری درجہ میں لازمی ہے کہ وہی انسان کی تمام عبادتوں ، تعظیم و تکریم، توجہات، گہرے جذبات اور دعاؤں اور التجاؤں کا مرکز و مرجع ہو۔ ماں کے پیٹ میں ایک ننھی جان کی پرورش و بقا اور افزائش کا انتظام کون کرتا ہے ؟ آسمان سے بارش کون برساتا ہے ؟ زمین سے غلہ و نباتات کون اگاتا ہے ؟ رات اور دن کی یکے بعد دیگرے آمد و برخاست کس کے اشاروں کی رہینِ منت ہے ؟ سورج کس کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا اور تارے کس کی رحمت سے چمکتے ہیں ؟ زمین کو بچھونا اور انسانی تہذیب و تمدن کی تزئین و تحسین کے لیے موافق اسباب کا عظیم الشان گودام کس نے بنایا ہے ؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں ایک خداوندِ کائنات کے علاوہ کس ہستی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ کسی کا بھی نہیں ۔ تو پھر عبادت و استعانت کا حق دار اُس کے علاوہ کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا ہے ۔ زمین و آسمان کی نشانیاں ، خدا کی نازل کردہ کتابیں اور اُس کے اولو العزم پیغمبروں کی تعلیمات اور سیرتیں ایسی کسی بات کے حق میں اپنے اندر کوئی بھی دلیل نہیں رکھتی۔ قافلۂ انسانی کے بہترین اور اعلیٰ ترین لوگ ہمیشہ اپنے آپ کو اُس کا عاجز بندہ کہتے اور اپنی محبتوں ، اندیشوں ، فریادوں اور بہترین جذبوں کا مرکز ہمیشہ اُسے ہی بناتے رہے ہیں ۔ تو ان کے بعد آنے والوں اور ان کے ماننے والوں کو یہ کس طرح زیب دے سکتا ہے کہ وہ کسی اور دربار، بارگاہ اور آستانے پر جائیں اور اپنی منتیں اور حاجتیں مانگیں ۔ خدا پر ایمان رکھنے والے ایک سلیم الفطرت بندۂ مؤمن کا طرزِ زندگی تو بس یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر آن و لمحہ اپنے پرودگار کا شکرگزار، ہمیشہ اُس کا تابعدار، اُس سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا، اُس سے بے انتہا ڈرنے والا، اُس کی رحمت و عنایت کا متمنی، اس کے احکام و ہدایات کا پابند، اس کے بندوں پر شفیق و مہربان، اپنا جان و مال اور اوقات و اسباب اپنے پرودگار اور اس کے دین کی راہ میں بے دریغ لٹانے والا اور دنیا کی ذمہ داریاں اور معاملات نبھانے کے ساتھ ساتھ آخرت میں سرخروئی اور اپنے پرودگار کے رضا و قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔ ایسا شخص اپنی تمام حاجتیں اپنے پرودگار ہی کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اپنے مسائل میں اسی سے مدد طلب کرتا ہے ۔ مشکل اوقات اور سخت لمحات میں اسے ہی یاد کرتا، پکارتا اور اپنا سہارا بناتا ہے ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات، پیغمبروں کی سیرتیں اور انکے اولین پیروکاروں کی روشن زندگیاں ہمیں مؤمنانہ زندگی کی یہی تصویر دکھاتی اور اسی بات کا سبق دیتی ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندے کا خدا سے تعلق ایک زندہ اور شعوری تعلق ہو۔ وہ نفسیاتی اور حسیاتی طور پر اُس سے مربوط ہوجائے ۔ پوری شعوری بیداری اور دل و دماغ کی مکمل حاضری کے ساتھ اُسے یاد کرے ، اُس کا ذکر کرے اور اُس کی عبادت بجالائے ۔ خدا سے اس کا تعلق اور اس تعلق کے اظہار میں انجام دی جانے والی عبادات اور سرگرمیاں محض بے روح رسوم بن کر نہ رہ جائیں ۔ بلکہ بندہ جب اپنے پرودگار کو یاد کرے اور اُس کی عبادت میں مشغول ہو تو اس کے دل میں اپنے پرودگار کے لیے شوق و ذوق، چاہت و الفت، اشتیاق و محبت اور فدائیت و جانثاری کا ولولہ اور طوفان موجزن ہو۔ زندگی کی مختلف کروٹوں میں رہ رہ کر اسے اپنے مالک کی عنایتوں ، مہربانیوں اور رحمتوں کا خیال آتا رہے اور وہ اندر ہی اندر اُس کے لیے شکر و احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہوجائے ۔ وہ اُس قرآنی بیان کی زندہ تصویر بن جائے کہ : خدا کے بندے وہ ہیں جو اس کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے اور اپنے بستر پر لیٹے اور پہلو بدلتے ہوئے اسے یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اُس کی زندگی کا مشن بس یہ ہو کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاکر خدا کی رضا و رحمت کے مقام جنت میں جگہ حاصل کر لے ۔ وہ دنیا میں ایک اعلیٰ اخلاقی شخصیت اور خدا کے دین کا داعی و علمبردار بن کر جیے اور دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی دنیا کا باسی بن جائے ۔ [blue][center][b]مسلمانوں کی بدحالی اور اس کا علاج [/b][/center][/blue] انسان ایک زندہ اور باشعور ہستی ہے ۔ وہ اپنی تمام کاروائیوں میں اس بات کا ثبوت فراہم کرتا اور ہر کام ذہن و قلب کی شمولیت اور رغبت و دلچسپی کے ساتھ کرتا ہے ۔ جس کام میں انسان کا دل و دماغ حاضر نہ ہو اور نہ ہی اس میں اس کی رغبت و دلچسپی برقرار رہے وہ کوئی زندہ عمل نہیں بلکہ محض ایک مردہ کاروائی ہوتا ہے ۔ اور بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی تمام تر دین داریاں اور دینی اعمال و سرگرمیاں اسی انداز پر ڈھل چکے اور اسی پستی میں اتر چکے ہیں ۔ انکی عبادات، دینی رسومات اور تقریباً ساری ہی مذہبی تقریبات اپنے اندر ایک روایتی سطح اور چل چلاؤ کا انداز لیے ہوئے ہوتی ہیں ۔ ان میں کوئی زندگی، شعور، قلبی وابستگی اور جذباتی پیوستگی نظر نہیں آتی۔ خدا سے ان کا تعلق بس ایک قانونی تعلق میں ڈھل چکا ہے جس کا حق وہ اپنی مجالس کے شروع و آخر میں روایتی طور پر اس کی حمد اور کبریائی کے کلمات بول کر اور نماز روزے جیسے اعمال کی بے روح اور کھوکھلی ادائگی و پابندی کر کے ادا کرتے ہیں ۔ وہ اپنے اکابر اور بزرگوں کی عقیدت و احترام سے تو سرشار رہتے ہیں مگر خدا کے لیے گہری محبت و چاہت، اس کے لیے جذبات و احساسات کا تلاطم رکھنے والے اور اس کی نعمتوں اور نشانیوں کو دیکھ اور سوچ کر اس کی یادوں اور عظمتوں میں گم رہنے والے مسلمان کہیں نظر نہیں آتے ۔ انکی عبادات میں بے کیفی اور عدمِ دلچسپی کے مظاہر تو عام نظر آتے ہیں مگر عبدیت و نیاز مندی کی کیفیات اور خدا کے لیے والہانہ پن اور بے تابی کے نشانات ڈھونڈے نہیں نظر آتے ۔ میرا احساس ہے کہ آج جو مسلمان ہر طرف پسے ہوئے اور پچھڑ ے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ان کی دین داریوں اور ان کے اپنے خدا کے ساتھ تعلق میں گہرائی، زندگی اور ایک اندرونی چاہت و فدویت معدوم ہوگئی ہے ۔ ان کی عبادات اور دینی رسومات بے جان اور رسمی ہوگئی ہیں ۔ اس صورتحال میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب مسلمان حقیقی معنوں میں خدا پرست اور سچے مسلمان بنیں گے ۔ یعنی وہ بندے جو اٹھتے ، بیٹھتے اور کروٹیں بدلتے ہوئے بھی اپنے رب کو یاد کریں ، جن کے رکوع اور سجدے عبدیت و نیازمندی اور اپنے پرودگار کے لیے خشوع و خضوع کی سراپا تصویر ہوں ، جن کی زندگیاں اس کی اطاعت و فرماں برداری میں ڈھل چکی ہوں ، جو اپنے رب ہی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے ہوں ، جو خدا کے بندوں کے لیے سراپا شفقت و ہمدردی ہوں ، جن کے لیے آخرت اور جنت و جہنم سب سے بڑ ا مسئلہ ہو، جو خدا کے دین کے داعی بن کر جیئیں اور جن کا مقصود و مطلوبِ حیات خدا کی رضا اور اس کی جنت کو پالینابن گیا ہو۔ [blue][center][b]اسلام امن و سلامتی کا دین [/b][/center][/blue] اسلامی تاریخ کے بڑ ے بڑ ے اور نمایاں واقعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو آپ پورے 13 برس تک پیغمبرِ اسلام کے مکہ میں ہر طرح کی تکلیفوں اور اذیتوں پر صبر کرتے ہوئے پرامن طریقے سے دین کی دعوت دینے کے مناظر دیکھیں گے ، فتحِ مکہ کے موقع پر جانی دشمنوں ، سالوں تک اذیت پہنچانے والوں اور عزیزوں اور محبوبوں کے قاتلوں کو اللہ کے رسول کی طرف سے معافی ملتے دیکھیں گے ، صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ’وقفۂ امن‘ حاصل کرنے کے لیے یک طرفہ شرائط پر صلح نامے پر خدا کے رسول کو دستخط کرتے دیکھیں گے ، بعثت کے بعد 23 برس پر پھیلی پیغمبرِ خدا کی زندگی میں بلند اخلاقی اور کریمانہ برتاؤ کی جابجا جھلکیاں جھلملاتی دیکھیں گے ، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ’سرایا‘ اور ’غزوات‘ (جنگیں ) بھی پیش آئیں ، مگر انسانی تاریخ کی دیگر جنگوں میں ہونے والی جان و مال کی ہلاکت و بربادی کی بنسبت اُن میں جان و مال کا اتنا کم نقصان ہوا کہ اِن جنگوں کی نسبت سے انہیں معمولی جھڑ پیں کہنا غالباً ناموزوں نہ ہو گا۔ یہ حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اسلام، دشمنوں کی ایذا رسانیوں پر صبر و اعراض کرنے ، مخالفوں اور دشمنوں پر قابو پا چکنے کے باوجود اُنہیں معاف کر دینے اور ’امن‘ کے حصول کی خاطر بڑ ی سے بڑ ی قربانی دینے اور دیگر ہر طرح کی مصلحتوں کو نظر انداز کر کے ’امن و آشتی‘ کو اولین ترجیح دینے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ وہ نہ صرف اپنوں کے ساتھ بلکہ غیروں اور پرایوں کے ساتھ بھی بلکہ اس سے بھی آگے بڑ ھ کر بے زبان جانوروں تک کے ساتھ اعلیٰ اور شریفانہ برتاؤ کرنے کی تاکید و تلقین کرتا ہے ۔ اسلام امن و سلامتی، پیار و محبت اور انصاف و انسانیت کا دین ہے ۔ وہ جنگ و قتال اور دنگا و فساد کا دین نہیں ۔ وہ پیار و الفت کا دین ہے وہ نفرت و عداوت کا دین نہیں ۔ پیغمبر اسلام بہترین اخلاق کے مالک تھے ۔ آپ کا اسوہ بہترین اسوہ ہے ۔ آپ عالمین کے لیے رحمت تھے اور آپ کا لایا ہوا دین بھی انسانیت کے لیے رحمت و برکت ہے ۔ وہ انسانوں کو دہشت و خون ریزی اور مصیبت و زحمت کا تحفہ کبھی نہیں دے سکتا۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی پوری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے نہ کہ جنگ و قتال کا دین۔ [center][b][blue]مسلمان ہمارا واحد نام [/blue][/b][/center] آج مسلمانوں کے اتنے ڈھیر سارے نام ہیں کہ جن کا شمار بھی کافی مشکل ہے ۔ مسلمانوں کی ہر تحریک، تنظیم اور ٹولی بالآخر اپنے لیے ایک الگ نام وضع کر لیتی اور مسلمانوں کے ناموں کی فہرست میں ایک اور نام کے اضافے کا کارنامہ انجام دے جاتی ہے ۔ آج ان کے ہاں اس بات کا تصور ہی محال ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور وہ کسی تنظیمی یا مسلکی نام سے منسوب ہونے پر فخر نہ کرتا ہو۔ ملاقات کے موقع پر تعارف حاصل کرنے کی غرض سے آج مسلمان ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ مثلاً آپ دیوبندی ہو یا بریلوی، اہلِ حدیث ہو یا اہلِ سنت، سنی ہو یا شیعہ، حنفی ہو یا مالکی وغیرہ وغیرہ۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروعِ انسانیت سے انسانوں کو جو دین دیا اور جو مذہب پسند کیا ہے اس کا نام اسلام ہے ۔ تمام نبی اور رسول یہی دین لے کر آئے اور زندگی بھر اسی کی منادی کرتے اور دعوت دیتے رہے ۔ قرآن اس دین کے ماننے والوں کو ایک ہی نام دیتا ہے ، ’مسلم‘ جسے اردو میں ہم مسلمان کہتے ہیں ۔ تمام پیغمبر اپنا تعارف ’اللہ کے مسلم‘ کے طور پر کراتے تھے اور اپنی آل اولاد اور پیروکاروں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے کہ وہ خدا کے مسلم بنیں اور اسی حالت میں جییں اور مریں ۔ ’مسلم‘ اسلام سے ہے جس کے معنیٰ سرِ تسلیم خم کر دینے ، خود کو سپرد کر دینے اور خدا کے آگے جھک جانے کے ہیں ۔ دیکھیے کتنا پیارا نام ہے اور کتنا خوبصورت ہے اس کا مطلب۔ ایک مسلمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ خدا کے آگے ہمہ تن جھک جاتا ہے ، اپنے بہترین جذبات اور اپنی ساری توجہات کو اسی سے وابستہ کر لیتا ہے ، شب و روز اسی کی یادوں میں جیتا اور اسی کی عظمت و بڑ ائی کے احساسات میں گم رہتا ہے ، اپنی الفت و چاہت، خوف و خشیت، اعتماد و توکل اور بیم و رجا کو پورے جوش و ولولے سے اسی کے لیے خالص کیے رہتا ہے ، اپنی حاجات اور فریادیں اسی کے سامنے پیش کرتا اور اپنی ساری زندگی اسی کی سپردگی یعنی اس کی تعلیم و ہدایت کی پابندی و پیروی میں گزارتا ہے ۔ مختصراً یہ کہ خدا کے آگے جھک کر اور ڈھ کر اور اپنے آپ کو پوری نیازمندی و وفاداری کے ساتھ اس کے سپرد کر کے جینے کا نام اسلام اور مسلمانی ہے اور ایسے ہی انسان کو مسلم اور مسلمان کہا جاتا ہے ۔ کیا ایک انسان کے لیے اس سے زیادہ پیارا کوئی دوسرا نام ہو سکتا ہے ۔ یقینا نہیں ۔ تو پھر آخر ہم کیوں اس نام پر قناعت نہیں کرتے اور دوسرے دوسرے نام رکھنے اور انہیں اپنی پہچان بنانے پر اصرار کرتے ہیں؟ [/size=4][/right][/teal][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top