Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][size=4][purple]محترم آنٹی صاحبہ، آپ کے تبصرے کو میں نے بغور پڑھا۔۔۔۔۔ میں ذیل میں چند نکات و گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ پچھلی پوسٹوں کی طرح اُن پر بھی تدبر فرمائیں گی، توقع ہے کہ آپ کو جو کنفیوژن اور خدشات لاحق ہیں اُن کا کسی حد تک ازالہ ہوسکے گا۔ ایک بنیادی بات جو میں بار بار واضح اور صاف کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہا ہوں وہ یہ کہ انسان جس طرح اکیلا اور انفرادی حیثیت میں پیدا ہوتا ہے بالکل اسی طرح انسانی زندگی کے سب سے بڑے اور سنگین مرحلے یعنی خدا کے روبرو پیشی کے وقت بھی وہ اپنی انفرادی و شخصی حیثیت ہی میں مسئول و جوابدہ ٹھہرے گا۔ دوسروں نے کیا کیا اور بنایا اور کیا بگاڑا اور سنوارا اور دنیا کے معاملات و حالات کیا رہے اور وہاں کیا کچھ ہوتا رہا اور کون ظالم و جابر بن کر جیا اور کون مظلومیت و ستم زدگی کی زندگی بتاتا رہا، اس طرح کی ساری باتیں اُس وقت ہر شخص کے لیے بالکل غیر متعلق ہوں گی اور نہ خدا ہی ان کے باب میں کسی سے بازپرس اور مؤاخذہ فرمائے گا۔ انسان کو صرف اور صرف اپنے ہی اعمال و اخلاق و کردار اور کارناموں اور کاروائیوں کا حساب دینا ہوگا۔ اس کی نیتیں کیا کیا رہیں، اس نے کون کون سے مقاصد اپنائے، کیا کیا الفاظ و خیالات اپنی زبان سے نکالے، کس کس محرک کے تحت کون کون سا فعل سرانجام دیا، انسانوں کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات و روابط کے حوالے سے اس کا سلوک و معاملہ اور طریقہ و رویہ کیا رہا اور خدا کی دی ہوئی طاقتوں، صلاحیتوں اور مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اس نے کیا کیا کاروائیاں کیں اور اعمال و کارنامے رقم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا نازل کردہ اور اس کے پیغمبروں کا لایا ہوا دین انسان کو اس کی انفرادی حیثیت ہی میں اپنا مخاطب بناتا اور اس کے سامنے اس دنیا میں تزکیۂ نفس یا تعمیر و تکمیلِ شخصیت ہی کا نصب العین اور اس کے نتیجے کے طور پر خدا کی خوشنودی اور آخرت کی فلاح و سرفرازی کا ٹارگٹ رکھتا ہے۔ انسان پر جو ذمہ داری اور بار ڈالا گیا ہے اس کا اصل اور حقیقی حصہ اس کی اپنی ذات ہی سے متعلق ہے اسے اپنی انفرادی ہیئت ہی میں خدا کی بندگی بجالانی اور پاکیزگی سے معمور زندگی بتانی ہے۔ صالح کاموں میں دلچسپی اور مشغولیت اختیار کرنی اور بدی و برائی کی کاروائیوں سے اپنی حفاظت کرنی ہے۔ وہ چاہے اپنی انفرادی زندگی جی رہا اور اپنی ذات ہی کی حدود میں کسی قول و فعل کا ارتکاب کررہا ہو یا خاندان و سماج کے حدود اور دوسروں سے تعلقات و روابط کے ذیل میں کوئی خیال و عمل انجام دے رہا ہو، اسے ہمیشہ یہ پیشِ نظر رکھنا ہے کہ اس کے کسی بول و حرکت سے غلط اور خلافِ حق و سچائی کوئی بات صادر نہ ہو۔ کوئی بدی واقع اور کوئی ظلم و زیادتی و حق تلفی وجود میں نہ آئے۔ اس کی نیت ہمیشہ سیدھی اور راست رو رہے اور اس کے خیالات و اقدامات میں کوئی کجی، ٹیڑھ، ناراستی، پستی، گراوٹ، اخلاقی رذالت اور لغزش و گمراہی در آنے نہ پائے۔ دوسرے کیا سوچتے، بولتے اور کرتے ہیں، ان حوالوں سے اُس پر کوئی ذمہ داری اور بار اس پہلو سے نہیں ہے کہ وہ براہِ راست ان کے اقوال و افعال کا نگران و ذمہ دار ہو اور ان کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر قدم و عمل کا اسے بھی حساب کتاب دینا اور جوابدہی کرنی پڑے۔ انسانوں سے تعلق و وابستگی اور کسی قوم و سماج و ملت کا حصہ ہونے کے حوالے سے جو ذمہ داریاں، حقوق اور فرائض و واجبات کسی انسان پر عائد ہوتے ہیں وہ یہ نہیں ہیں کہ وہ انہیں بھی ہر حال میں صحیح و درست اور حق پر کاربند رکھے اور انہیں بہرحال کسی لغزش و خرابی اور خامی و کوتاہی میں مبتلا نہ ہونے دے، بلکہ اس زاویے اور جہت سے اس کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ان دائروں میں بھی اپنی طرف سے کسی خرابی و بدی کو رونما نہ کرے، اپنی جانب سے کسی غلطی اور خطا کا صدور نہ ہونے دے، لین دین اور حقوق کی ادائیگی کے باب میں کسی زیادتی اور حق تلفی کا مرتکب نہ ہو اور یہ بھی کہ وہ اپنے احباب و متعلقین کے حوالے سے تذکیر و نصیحت اور تلقین و فہمائش کے دائرے میں رہتے ہوئے اس بات کی بھرپور کوشش و جستجو کرے کہ اس دائرے اور اس کے احباب و متعلقین کے حلقے میں بھی خدا کی بندگی کی روح جاری و ساری رہے، بھلائیاں اور اچھائیاں فروغ پائیں اور بدیاں اور برائیاں دبیں اور ختم ہوں۔ اسلامی حکم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مسلمانوں کے اسی باہمی اصلاحی کام کا عنوان ہے کہ وہ اپنے درمیان اور اپنے معاشرے میں بھلائیوں اور معروفات کی ترغیب دینے اور بدیوں اور منکرات سے دور و مجتنب رہنے کی تلقین کرنے والے ہوتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ترتیب الاقرب فالاقرب کی ہے یعنی جو جتنا نزدیکی ہے وہ اتنا ہی پہلے ہماری اس خیرخواہی اور پیغامِ اصلاح و پارسائی کا مستحق و حقدار ہے یعنی پہلے اپنا گھرانا اور خاندان اور پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ اپنے ملنے جلنے والے، دوست احباب، کاروباری یا معاشی یا تعلیمی یا دوسرے رفقاء و شرکاء اور تعلق و ربط میں آنے والے لوگ۔ نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی تلقین کرنا تو بہرحال ہر مسلمان کی اپنے اپنے دائرۂ احباب و متعلقین کی حد تک ایک بنیادی ذمہ داری ہے مگر اپنے ارد گرد کے تمام لوگوں یا اپنی قوم کے تمام افراد یا دنیا جہاں کے تمام انسانوں کو حق و ہدایت کے راستے پر گامزن کردینا اور انہیں نیکی کرنے اور بدی کو ترک کرنے والا بنادینا کسی بھی انسان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے جو مسلمانوں میں اب بعض کم علم اور جوشیلے مبلغین کی پرجوش تقریروں کے ذریعے فروغ پانے لگا ہے کہ مجھے ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح و درستی کی فکر اور کوشش کرنی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے حلقۂ تعلق و ربط ہی میں رہ کر خیر کا داعی اور منکرات کا منذر بننا چاہیے۔ خدا اور دین نے اس پر اتنی ہی ذمہ داری ڈالی ہے۔ دین کے ایک جید عالم و فاضل پر بھی دین نے بس اپنی قوم کی حد تک یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ اس بڑے دائرے میں ایک خبردار کرنے اور جگانے والے کا کردار ادا کرے۔ ساری دنیا کو سنوارنے اور تمام انسانوں کو سدھارنے اور راہِ راست پر لانے کی فکر اور کوشش کرنے کی ذمہ داری تو دین نے کسی بھی عام یا خاص فرد پر نہیں ڈالی۔ اس ساری طول بیانی کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے اپنی نجات و فلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے اسے اپنا ہی تزکیہ کرنا، اپنے ہی نفس کو آلائشوں اور خباثتوں سے پاک بنانا اور اپنے ہی فکر و عمل کو ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے خالی کرنا ہے۔ دوسروں کے حوالے سے بھی اس پر عموماً جو ذمہ داریاں دینی لحاظ سے عائد ہوتی ہیں وہ بھی اسی لیے ہیں کہ اس کا دامن، اس کا ذہن اور اس کا عمل کسی گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہوجائے اور یہ انسانوں کا بدخواہ نہیں بلکہ خیرخواہ بن کر زندگی گزارے۔ دوسروں کے حوالے سے انسان پر اسلام جو اصلاحی ذمہ داری عائد کرتا ہے وہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس کا کام اور فرض یہ ہے کہ وہ لازماً دوسروں کو نیک و پارسا بناکر ہی چھوڑے اور چاہے کچھ ہو وہ ان سے اسلامی قانون و شریعت کی پیروی و پابندی بہرحال کرائے۔ یہ ذمہ داری تو خدا نے کسی پیغمبر پر بھی نہیں ڈالی کہ وہ ضرور ہی اپنی قوم کے ہر ہر فرد کو سدھار و سنوار کر ہی دم لیں اور اسے اپنا ایک خدائی فریضہ اور دینی ذمہ داری سمجھیں۔ اس کے برعکس خدا نے بار بار اپنے پیغمبروں کو یہی توجہ دلائی اور تلقین فرمائی ہے کہ وہ ناصح ہیں، خبردار کرنے والے ہیں، ہدایت و اصلاح کی طرف بلانے والے ہیں، کوئی آسمانی داروغہ اور خدائی فوجدار نہیں کہ ضرور ہی اپنے مخاطبین کو درست کرکے اور سیدھا کرکے چھوڑیں۔ پیغمبر کے ماننے والوں پر بھی ازروئے دین یہی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرے کے لوگوں کو دین کی پاسداری اور خدا کی بندگی کی طرف بلائیں، انہیں نیکیوں اور بھلائیوں کی تلقین کریں اور ظلم و ناانصافی، خیانت و بدعہدی، سرکشی و نافرمانی، جھوٹ و ملاوٹ اور دوسری تمام فکری ضلالتوں اور عملی برائیوں اور اخلاقی پستیوں کو چھوڑنے کی ترغیب دیں۔ اسلام زور زبردستی کرنے اور گولی اور بم اور تلوار اور ہتھیار کے ذریعے لوگوں کو مسلمان یا نیکوکار بنانے کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا۔ جو لوگ اسلام کے حوالے سے اس طرح کی بات کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے وہ لاریب نہ اسلام سے واقف ہیں، نہ قرآن و سنت کا کوئی علم و فہم رکھتے ہیں اور نہ ہی تاریخ کے حقیقی واقعات پر انہیں کوئی دسترس و آگاہی ہے۔ اسلام امن و خیرخواہی اور تعلیم و تبلیغ کا دین ہے۔ وہ طاقت و قوت اور جبر و اکراہ سے نہیں بلکہ پیار و محبت، بلند اخلاقی، روشن کردار، عمدہ سیرت، بہترین رویوں اور تلقین و ترغیب و فہمائش کے ذرائع سے فروغ و پھیلاؤ پاتا اور لوگوں کے دلوں اور زندگیوں میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس غلط فہمی کو بالکل دور کرلینا چاہیے کہ دوسروں کو سدھار دینا اور انہیں حق و راستی کی راہ پر لازماً استوار کردینا ہماری کوئی دینی و مذہبی ڈیوٹی ہے۔ ہمارا کام اور ذمہ داری بس اتنی ہی ہے کہ ہم دوسروں کو حق و ہدایت کے راستے کی طرف پوری خیرخواہی، حکمت و نصیحت اور دردمندی و دلسوزی کے ساتھ پکارتے رہیں، نیکی اور بھلائی کی تلقین کرتے اور بدی و برائی کو چھوڑنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ دوسرے ہماری اس دعوت و تبلیغ کا کیا اثر لیتے اور کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں، یہ اُن کا اپنا اختیار اور معاملہ ہے۔ اس حوالے سے ہم پر کوئی ذمہ داری لاگو نہیں ہوتی۔ خدا نے انسان کو پیدائشی طور پر بھی خیر و شر کا الہام فرمایا ہوا ہے اور انسان اپنی فطرت ہی کے بل پر بدی اور بھلائی دونوں سے واقف ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ خدا ہی نے اسے اچھا یا برا کوئی سا بھی راستہ اختیار کرنے اور نیکی یا بدی کوئی سی بھی راہ چلنے کی آزادی بخشی ہے لہٰذا ہمارا کام بھی بس یہی ہے کہ ہم لوگوں کو تذکیر و یاددہانی کرتے، اچھے کاموں کی ترغیب دیتے اور برے اور خراب کاموں سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کسی کے ساتھ زور زبردستی کرنا اور طاقت و قوت سے کام لے کر کسی کو کوئی سا خاص نظریہ اپنانے اور عمل کرنے کے لیے مجبور کرنا نہ صرف یہ کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ الٹا یہ خود ایک سرکشی کی حد کو پہنچا ہوا جرم اور انسانیت کے خلاف نہایت سنگین درجے کی زیادتی اور خدا اور اس کے دین سے کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔ لوگوں کو اس حوالے سے عام طور پر جو الجھن درپیش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ عام طور پر انسانوں کی اکثریت خدا سے غافل اور آخرت سے بے پرواہ ہوکر اور بدی و برائی کی بظاہر پرفریب و پر لذت زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں راہِ راست پر چلنے سے زیادہ مزہ شیطانی پگڈنڈیوں میں سرگردانی میں آتا ہے۔ انصاف سے زیادہ بے انصافی، دیانت سے زیادہ خیانت، خلوص سے زیادہ منافقت، سچ سے زیادہ جھوٹ اور اخلاق و انسانیت سے زیادہ خودغرضی، وحشت و درندگی اور بربریت و بہیمیت عالمی سطح پر غالب و جاری نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید سارے ہی لوگوں نے خدا کے خلاف علمِ بغاوت و سرکشی بلند کردیا اور کھلے طور پر جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ پھر میڈیا کے اس دور میں تو یہ معاملہ اور بھی زیادہ سنگین و دلخراش ہوگیا ہے۔ کیوں کہ میڈیا جہاں ہر انسان کو دنیا جہاں کی خبروں اور واقعات سے باخبر کرتا ہے وہیں اپنی پالیسی اور اپنے کارپردازان کی فطرت کی کجی کی بناء پر چن چن کر بری خبریں اور افسوسناک واقعات و سانحات ہی رپورٹ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں سماں اور زیادہ بھیانک اور صورتحال مزید ڈراؤنی اور بدنما ترین ہوجاتی ہے۔ سننے دیکھنے اور سوچنے سمجھنے والے کو ہر ایک انسان بداخلاقی اور شیطنت و شقاوت کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔ ایک سادہ دل، نیک طبیعت انسان جب اس صورتحال کو دیکھتا ہے تو فطری طور پر اسے شدید رنج و صدمہ ہوتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش یہ سارے لوگ درست ہوجائیں۔ خدا کی بندگی اور اس کے دین کی پیروی کے راستے پر آجائیں۔ برے کاموں کو چھوڑ کر نیکی اور بھلائی کے خوگر بن جائیں۔ بد اخلاقیوں کی تاریکیوں سے نکل کر اخلاق و شرافت کے اجالے میں آجائیں۔ یہ سارے معاملات بالکل فطری ہیں لیکن یہ نیک دل، سادہ طبیعت انسان جب اس بات کو نظر انداز کردیتا ہے کہ اس کا اس ابتر و بدحال صورتحال پر کڑھنا اور بے چین ہونا تو گو بالکل فطری ہے لیکن خدا نے ساری دنیا جہاں کا ٹھیکہ اسے نہیں دیا اور تمام لوگوں کو ظلم و ناانصافی سے باز رکھنا اور مظلوموں اور بے بسوں کی مظلومیت و بے بسی کو ختم کردینا اس کی ڈیوٹی اور ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری تو بس اپنے آپ کو حق و انصاف کے راستے پر استوار رکھنا اور اپنے دائرے میں خیر کا مبلغ اور شر و برائی کا مخالف بن کر جینا ہے۔ اس کی ذمہ داری کا دائرہ ایک محدود دائرہ ہے۔ دنیا جہاں کے معاملات سے سروکار رکھنا اور تمام لوگوں کی فکر کرنا اور ان کے لیے پریشان ہونا اس کا اپنے حدود سے باہر قدم رکھنا ہے۔ اپنی اصل ذمہ داریوں کو چھوڑ کر اپنے سے غیر متعلق معاملات میں دخل دینا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عام طور پر اچھی طبیعت، نیک روح اور خیرپسند مزاج رکھنے والے لوگ مغالطہ کھا جاتے اور اعتدال و توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر غیر معتدل اور غیر متوازن سوچ و عمل کی وادی میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ انسان کو جاننا چاہیے کہ خدا نے اسے محدود صلاحیتوں، قوتوں اور وسائل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس پر اس حوالے سے محدود ذمہ داری ہی ڈالی ہے۔ اسے اپنے علم و اطلاع یا میڈیا کی آگاہی سے متأثر ہوکر ساری دنیا کے بارے میں بے چین ہونے اور سب لوگوں کو درست کرلینے کی خواہش و آرزو میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے اس محدود دائرۂ ذمہ داری میں اپنے فرائض و واجبات سے عہدہ برآ ہونے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔ برائی کی کثرت اور پھیلاؤ سے مرعوب و مبھوت ہوکر دل نہیں چھوڑ بیٹھنا چاہیے اور نہ ہی خود کو درست رکھنے اور اپنے محدود دائرۂ تعلقات میں خیر کی تلقین اور شر سے پرہیز کی تبلیغ کو موقوف کرنا چاہیے۔ انسان اصلاً یہی غلطی کرتا ہے کہ وہ عالمی اسکیل پر اصلاح کے خواب دیکھتا اور امیدیں پالتا ہے پھر جب اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی پیمانے پر تو بہت دور رہا کسی اس سے نچلے درجے کے بڑے پیمانے پر بھی کوئی خوشگوار تبدیلی لانے اور سارے لوگ نہ سہی کم از کم چند افراد و اشخاص تک کو سدھار لینے کی طاقت و سکت نہیں رکھتا تو وہ بد دل و مایوس ہوجاتا ہے اور بجائے اس کے کہ دنیا جہاں کے معاملات کا اپنے آپ کو ٹھیکیدار سمجھنے اور تمام لوگوں کی اصلاح کو اپنی ڈیوٹی باور کرنے کی غلطی کرنے کے بجائے اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو سنوارنے کی کوشش میں لگا اور جتا رہے، وہ بے حوصلہ، پست ہمت اور مایوس ہوجاتا ہے۔ اس پر دل شکنی اور یاس کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ یہی وہ جگہ اور غلطی ہے جس سے ہمیں بچتے ہوئے خدا کے ٹھہرائے ہوئے تزکیۂ نفس کے مشن اور اپنے اردگرد اور حلقۂ تعلق کے ماحول کو روشن و تابناک بنانے کی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ انسان کی کامیابی اس بات میں پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو کہ اُس نے دنیا میں اپنے نفس کا بھی کامل تزکیہ کرلیا ہو اور دنیا جہاں کے تمام لوگوں کے حوالے سے وہ اصلاح و درستی کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن کھپا کر آیا ہو بلکہ انسان کی فوز و فلاح اور اخروی نجات کا راز یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پاک کرنے، اپنی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے اور اپنے اردگرد اور قریبی ماحول میں خیر و بھلائی کے فروغ اور شر و برائی کے استیصال کے لیے سرگرم رہا ہو۔ اور یہ سرگرمی جبر و تشدد اور داروغہ و فوجدار کے انداز کی نہیں بلکہ ایک ناصح و خیرخواہ کے انداز کی رہی ہو۔ انسان کو اپنی اور دوسروں کی ہدایت و اصلاح کی کوشش ہی کرنی ہے اس جدوجہد کے نتائج و ثمرات کیا نکلتے ہیں یہ بات خدا کی حکمت و مرضی پر موقوف ہے۔ انسان پر اپنے اس کام کا کوئی مثبت نتیجہ مرتب کرلینا ہرگز لازم نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا درست تعین کریں اور پھر اس دائرے کے اندر اندر اپنی حدِ استطاعت کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور نہ ہی کوئی کمی و کوتاہی ہونے دیں۔ اس کے بعد دنیا بدلے نہ بدلے، لوگ سنوریں نہ سنوریں ہمارا مستقبل اور ہماری آخرت قوی امید ہے کہ ضرور بدل اور سنور جائے گی اور ہم خدا کی رضا و خوشنودی اور جنت کے انعامات اور بادشاہی کے مستحق ضرور ٹھہریں گے۔ جہاں تک انقلاب کے حوالے سے میرے خیالات اور نقطۂ نظر کا تعلق ہے، میں کافی وضاحت کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک اسلامی حوالے سے انقلاب برپا کرلینا کوئی دینی یا اسلامی مشن ہے ہی نہیں۔ میں نے ایک خاص فکری تناظر میں یعنی اس وقت مسلمانوں میں جو انقلابی و سیاسی و جہادی فکر غالب و رائج ہے کے تناظر میں اپنے خیالات اس عنوان کے تحت پیش کیے تھے۔ ورنہ میں بہت وضاحت سے عرض کرچکا ہوں کہ اسلام کا مخاطب اصلاً فرد اپنی انفرادی و شخصی حیثیت ہی میں ہے اور اسلام اس کے سامنے کسی انقلاب اور سماجی تبدیلی کے بجائے شخصی طور پر تزکیۂ نفس ہی کا نشانہ رکھتا ہے۔ میں نے تو بس موجودہ غالب سیاسی و انقلابی فکر کے تناظر میں سماجی تبدیلی لانے اور کسی معاشرے اور سوسائٹی میں اسلام کو غالب اور قانون و نظام کی سطح پر جلوہ گر کرنے کے حوالے سے مفید و درست لائحۂ عمل کے حوالے سے اپنے محسوسات بیان کیے تھے۔ اس سے میرا مدعا یہ ہرگز نہیں تھا جس کی میں بار بار تفصیلی طور پر وضاحت کرچکا ہوں کہ سماجی انقلاب ہی اسلام کا نشانہ اور اہلِ ایمان کا مقصدِ زندگی ہے اور اس کا درست لائحۂ عمل یہ اور یہ ہے۔ براہِ مہربانی میری گزارشات کو میرے وضاحت کردہ تناظر میں دیکھیے اور پھر ان کے حوالے سے کوئی تبصرہ فرمائیے اور خدشہ و اشکال بتائیے۔ باقی پہلے اور اب میں نے اسلام کے حوالے سے ایک فرد کے معاملے کو بیان کرنے کی جو کوشش کی ہے اس سے آپ کے کنفیوژن اور اشکالات میں کوئی کمی یا تشفی کا سامان ہوا ہو تو ضرور آگاہ کیجیے اور اگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہو اور آپ کےا شکالات اور الجھنیں اور سوالات ابھی تک اپنی جگہ برقرار ہوں تو براہِ مہربانی انہیں نکتہ وار طریقے سے واضح اسلوب میں بیان کردیجیے تاکہ ان کو سمجھنا اور ان کے حوالے سے مزید گزارشات پیش کرنا آسان ہوسکے۔۔۔والسلام مع الحب و الاحترام [/purple][/size=4][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top