Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][b][size=4][green]ایک مرتبہ پھر سلام و آداب۔۔۔۔۔۔۔ ہم اصل میں جس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں اس کے لیے انقلاب کا عنوان تو ایک خاص وقتی و زمانی و واقعاتی پس منظر کی وجہ سے معین ہوگیا ہے، ورنہ اس کے لیے ہم آسانی کی غرض سے ایک دوسرا واضح تر عنوان اسلامی دعوت اور اسلام کے حوالے اور اس کے فروغ و اشاعت کے لیے ایک مسلمان کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ بھی اپنے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ یہ موضوع و عنوان اپنے اندر بڑی جامعیت و وسعت اور پھیلاؤ اور ہمہ جہتی رکھتا ہے۔ اس کا تعلق پورے اسلام اور ایک مسلمان کی پوری زندگی سے ہے۔ ایسے پھیلے اور بے شمار پہلوؤں کے حامل عنوان کے لیے یہ آسان اور شاید کہ موزوں بھی نہیں ہے کہ ہم اسے کسی دس پندرہ نکاتی پروگرام اور لائحۂ عمل میں سمیٹ کر سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ اس بات کا عنوان ہے کہ ایک مسلمان پر اسلام سے تعلق کے بعد یہ لازمی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو ہر ہر پہلو اور ہر ہر زاویے سے اسلام کے مطابق ڈھالے۔ اس کے خیالات، اقدامات، جذبات، احساسات، معاملات، تہذیب کے اجزا و تفصیلات، تمدن کے علامات و نشانات، تعلقات، کاروبار، تفریحات، تنظیمات اور سیرت و سلوک و کردار وغیرہ ہر ہر چیز اسلامی تعلیمات و ہدایات یا اشارات کے ذیل و رہنمائی میں تشکیل پائے اور جاری و ساری ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حیثیت و استظاعت و لیاقت کے مطابق اپنے ماحول و سماج میں اسلام کی روشنی پھیلانے اور اپنے ربط و تعلق کے حدود میں موجود انسانوں کو بھی اسلامی رنگ میں رنگنے اور خدا کی بندگی و جاں سپاری کے راستے پر لانے اور گامزن کرنے کی کوشش و جستجو کرے۔ یہ ایک زندگی بھر کے جہاد اور حیات کے آخری لمحات تک جاری اور گرم رہنے والی جدوجہد اور تگ و دو کا نام ہے۔ اسے ہم چند نکات و اشارات میں کسی بھی طرح سمو کر بیان نہیں کرسکتے۔ اسے ایک دوسرے رخ سے یوں سمجھیے کہ آپ جب کسی کو خدا کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں تو گویا کہ اسے یہ تلقین کرتے ہیں کہ تم خدا کے بندے اور فرماں بردار بن کر رہو، اپنی زندگی اس کے احکام و ہدایات کے تابع اور پیرو بن کر گزارو، اپنے اخلاق و معاملات اور سلوک و برتاؤ اور تمام اقدامات اور رویوں میں اس کی مرضیات و مطلوبات کی پاسداری کرو۔ اب اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ ذرا براہِ مہربانی زندگی بھر خدا کی بندگی کے اس نسخے کو میری سہولت کے لیے چند نکات و اشارات میں سمو اور پرو دیجیے، تو یقیناً آپ کا جواب یہ ہوگا کہ یہ ایک ایسی اصولی ہدایت ہے جس کی تفسیر آپ کو اپنی پوری عملی زندگی کے ذریعے دینی ہے۔ آپ نماز پڑھیے، روزہ رکھیے، حج ادا کیجیے، زکوٰۃ پابندی سے دیتے رہیے، سچ بولیے، امانت و دیانت سے کام لیجیے، فواحش و منکرات اور زیادتی و حق تلفی کے کاموں سے بچتے رہیے، اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیجیے، حلال روزی کمائیے، صدقہ و خیرات کیجیے، لوگوں کے ساتھ بھلے طریقے سے معاملہ کیجیے اور تعلقات نبھائیے، ماں باپ کا ادب کیجیے، چھوٹوں پر شفقت کیجیے، ہر ایک کا حق ادا کیجیے، دینی تعلیم کے حصول کے لیے جستجو میں لگے رہیے، اپنے اخلاق و کردار کا محاسبہ و تصحیح کرتے رہیے اور ہر وہ کام کیجیے جو خدا کو پسند اور اس کی ہدایت کے مطابق مطلوب و مرغوب ہے اور ہر اس کام و اقدام سے دور رہیے اور پرہیز کیجیے جو خدا کو ناپسند اور اس کی تعلیم و تلقین کی روشنی میں برا اور گناہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ آپ بس مجھے چند جملوں میں خدا کی بندگی اور خدا پرستانہ زندگی کا سارا نقشہ اختصار کے ساتھ کھینچ کر دے دیجیے، تو بلاشبہ آپ معذرت کرتے ہوئے اس کی خدمت میں یہی گزارش کریں گے کہ اسلام پر چلنا اور خدا کی بندگی کی زندگی گزارنا کوئی ایسا پروگرام و کام نہیں ہے کہ جس کی تفصیلات اور شقیں میں آپ کو مختصر سی چند سطروں میں بتا اور سمجھا دوں۔ یہ تو ایک ایسی اصولی ہدایت ہے جس کی تفصیل کے لیے آپ کی زندگی بھر کے واقعات و معاملات کا احاطہ کرکے ان کے حوالے سے خدا کی مرضی و چاہت کو سامنے لانا پڑے گا۔ اور یہ کام کوئی ضروری نہیں ہے۔ آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ اپنا مقصود خدا کی بندگی کو بنالیجیے اور اپنے علم و فہم کے مطابق اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کرنے والے کام کیجیے اور نہ کرنے والے کاموں سے بچیے۔ یہ اصولی تلقین و ہدایت آپ کے لیے بہت کافی ہے۔ تفصیلی نقشہ آپ زندگی بھر اس پر عمل پیرا ہوکر ترتیب دیتے رہیے گا۔ اسلام کے حوالے سے ایک فرد کا عمل اور دعوت کے باب میں کیا کردار ہونا چاہیے، اسے ہم دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ خدا کی بندگی جو ایک مومن و مسلم سے اصلاً مطلوب ہے وہ کیا ہے اور اسے انجام دینے کا طریقہ کیا ہے۔ اوپر مثال کے ذریعے میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح آپ خدا کی بندگی کرنے کے حوالے سے کسی انسان کو یہ تلقین تو کرسکتے ہیں کہ اسے اپنی پوری زندگی خدا کا عابد و فرماں بردار بن کر رہنا چاہیے لیکن اس کا تفصیلی نقشہ کیا ہوگا، اس حوالے سے ہر ہر انسان کا معاملہ اور حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کے لیے اس کا تفصیلی نقشۂ کار اس لحاظ سے الگ الگ ہی ہوگا اور ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم کوئی ایسا تفصیلی خاکہ بناکر سامنے رکھ سکیں جس میں دیکھ کر مختلف احوال و پس منظر اور معاملات و ماحول رکھنے والے مختلف لوگ خدا کی بندگی کے حوالے سے اپنا اپنا تفصیلی لائحۂ عمل متعین کرسکیں۔ اس سلسلے میں جو چیز قابلِ عمل ہے وہ یہی کہ لوگوں کو بس بار بار اس بات کی تلقین کی جائے کہ وہ خدا کی مکمل بندگی اور اسلام کی مخلصانہ پیروی کی راہ پر استوار رہیں اور اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں اور جتنا جتنا ان کا اسلامی علم و فہم ترقی کرتا جائے وہ خدا کی بندگی کے حوالے سے اپنی زندگیوں میں تبدیلی اور تغیرات لاتے اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلام کے ماتحت و مطابق بناتے رہیں۔ کرنے کا اصل کام کیا ہے؟ اس کا اگر براہِ راست جواب دینے کی کوئی کوشش کی بھی جائے تو وہ یہی ہوگی کہ انسان بنیاد سے لے کر اسلامی زندگی کی عمارت کی آخری بلندی تک پہنچنے اور اور اسے اپنی زندگی اور معمولات میں معیاری حد تک اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ اسلام کی ہر تعلیم پر اس کا عمل ہو، اسلام کی ہر ہدایت کی وہ تعمیل کرے، اسلام کی ہر چاہت اس کے دل کا قرار اور اسلام کی ہر ناپسندیدہ چیز اس کے لیے باعثِ بیزاری و بخار بن جائے۔ اس کی فکر، نظر، سوچ، ذہنیت، پلانز، خواہشات، تمناؤں، امنگوں، خوابوں، امیدوں، اعمال و افعال اور رویوں اور سرگرمیوں میں ہر طرف اسلام رچا اور بسا ہوا ہو۔ یہی اس کی آنکھوں کا نور، اس کے دل کا سرور اور اس کی منزلِ مراد اور اس کا ٹارگٹی منشور ہو۔ پھر اس کا مقصد و مدعا خالی اپنی انفرادی حیثیت ہی میں اسلام کو غالب و بالا اور رائج و نافذ کرلینا ہی نہ ہو بلکہ وہ یہ ارمان بھی رکھے اور اس بات کے لیے بھی پورے جوش و جذبے سے سرگرم ہو کہ اس کے ارد گرد کے ماحول کا ہر ہر فرد بھی اسی اسلامی اور خداپرستانہ رنگ میں رنگ جائے، خدا کا مخلص و جاں نثار بندہ، عمدہ و برتر اخلاقیات سے آراستہ اور آخرت کو اپنی منزل و مراد بنانے کا خوگر بن جائے۔ آپ نے اس حوالے سے میرے جو الفاظ نقل کیے ہیں، ان کا تعلق گو ایک عام مسلمان فرد کی ذمہ داری بتانے سے ہے کہ: [center][red]ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی استعداد و صلاحیت اور پہنچ و استطاعت کے اندر اندر خود کو اس طرزِ فکر و عمل سے مکمل طور پر بہرہ ور کرنے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنے کے ساتھ اپنے اپنے دائرۂ تعلق و حلقۂ رسائی میں انہی خیالات و روایات کو عام کرنے اور ایک واقعہ کی شکل دینے کی تگ و دو کرے۔ یہ یقیناً سماج کو سنوارنے اور معاشرے کو اصلاح پذیر بنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا اور اپنی اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہوگا۔ [/red][/center] ایک عالم و واقفِ دین شخص سے بھی یہی مطلوب ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ عام آدمی کا حلقۂ دعوت و اصلاح اس کا اپنا دائرۂ تعلق و ربط ہوتا ہے جبکہ اس حوالے سے عالم کے کام کا دائرہ اس کی پوری قوم تک وسیع ہوجاتا ہے اور اسے پوری قوم کے سامنے دین کا نمائندہ، اخلاق و اقدار کا مبلغ و محتسب اور آخرت کے انذار و چیتاؤنی کا پیامبر بننا ہوتا ہے۔ عام آدمی اور ایک عالمِ دین شخص کی اس حوالے سے جو ذمہ داری بنتی اور فریضہ ٹھہرتا ہے، میں نے اپنے فہم کی حد تک مختصراً یہاں اس کی وضاحت کردی ہے۔ اس حوالے سے بات کو آگے بڑھانے کے لیے یہ سوال یا اعتراض تو ہوسکتا ہے کہ میرا فہم درست ہے یا نادرست یا اس بیان کے فلاں فلاں حصے میں مجھ سے لغزش و کوتاہی ہوگئی ہے یا یہ کہ میں نے فلاں فلاں پہلوؤں کو نظر انداز کردیا ہے وغیرہ، لیکن یہ سوال کہ میں اس سارے بیان و پروگرام کو چند مختصر پوائنٹز کی شکل میں ایک مختصر و قابلِ عمل لائحۂ عمل بناکر پیش کردوں، میرے خیال سے درست مطالبہ نہیں ہے۔ اگر محض سمجھنے اور آسانی کے لیے ایسا کوئی داعیہ واقعتا موجود ہے تو جو پیراگراف آپ نے نقل کیا ہے، اس حوالے سے اس میں کافی اختصار اور روشنی موجود ہے۔ اس کو پڑھ اور سمجھ کر اسے اپنی ذات و شخصیت کی حد تک ایک پروگرام کی شکل دینا کوئی ایسا کٹھن و دشوار کام نہیں ہے جو آپ سے نہ ہوسکتا ہو۔ لہٰذا مجھے کوئی اسائنمنٹ دینے کے بجائے آپ اس حوالے سے تھوڑی سی زحمت و مشقت برداشت کیجیے۔ [/green][/size=4][/b][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top