Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][size=4][right][red]محترمہ منتظم صاحبہ۔۔۔۔۔۔ آج آپ کی پوسٹ پڑھ کر مجھے کچھ تھوڑا سا طیش آیا اور دل چاہا کہ بہت ہی جارحانہ اور سخت اور تند و تیز انداز میں آپ کو جواب دوں لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں مجھے نارمل انداز ہی میں بات کرنی اور وضاحت دینی چاہیے۔ یقیناً آپ جاننا چاہیں گی کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مجھے آپ کے الفاظ اور جملوں پر یہ کیفیات لاحق ہوئیں۔ میں عرض کروں گا کہ اس کی وجہ خدانخواستہ آپ کی ذات سے کوئی شکایت و رنجش نہیں بلکہ وہ خیالات، تصورات اور رجحانات ہیں جو آپ کے اس مختصر بیان میں بہت گہرے طور پر رچے بسے ہوئے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ ذیل میں انہیں ایک ایک کرکے آپ کے سامنے لاؤں کیوں کہ عموماً اس طرح کے خیالات انسان کو غلطی لگنے کی بناء پر غیر شعوری طور پر اپنی گرفت میں لیتے اور اس کے دل، دماغ، سوچ، جذبات اور احساسات کا احاطہ کرلیتے ہیں۔امید ہے کہ آپ ان پر پوری سنجیدگی اور ہمدردی کے ساتھ غور فرمائیں گی اور شاید کہ میری بات سمجھنے اور اپنے دل و ضمیر کے اسے تائید دینے کے بعد اپنی تصحیح بھی فرمالیں گی۔ آپ فرماتی ہیں کہ آپ کو میری ساری باتیں سمجھ آگئی ہیں، آپ اُن سے اتفاق بھی کرتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوسائٹی میں بگاڑ بہت بڑے پیمانے پر آچکا ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو ان صحیح باتوں پر عمل پیرا اور صحیح روش و رویے پر قائم ہیں۔ اگر ایسے نازک وقت میں بھی ہم نے اپنی انہی بظاہر صحیح باتوں ہی پر اصرار کیا اور کسی دوسرے انداز کی فوری نتیجہ خیزی کی حامل پالیسی اور اقدام کی طرف توجہ نہ دی تو حالات کا بگاڑ قابو سے باہر ہوجائیگا اور پھر اسے سنبھالنا ہمارے لیے ممکن نہ رہے گا۔ مجھے آپ کی بات سے اس حد تک اتفاق ہے کہ واقعتا ہمارے حالات مذہبی و اخلاقی حوالے سے تو دگرگوں ہیں ہی، دنیوی اور معاشی و معاشرتی پہلو سے بھی نہایت گھمبیر و افسوسناک ہیں۔ حالات کا بگاڑ و فساد بے انتہا ہے لیکن جب آپ یہ مانتی ہیں کہ بات وہی ٹھیک اور اس بگاڑ و فساد کا علاج وہی درست ہے جو میں نے تجویز کیا اور بہت تفصیل سے بار بار بیان کیا ہے تو پھر یا تو آپ یہ کہیے کہ نہیں آپ کو اس سے اختلاف ہے، آپ اس کو درست نہیں سمجھتی اور موجودہ حالات کے تناظر میں کوئی دوسری تجویز اور پالیسی اور لائحۂ عمل آپ کے خیال میں زیادہ کارگر اور موزوں ہے، لیکن اگر آپ کو مجھ سے اتفاق ہے اور میرا بیان کردہ طریقۂ کار ہی آپ کے فہم و عقل کے مطابق بھی واحد مفید و درست طریقہ ہے تو پھر ایک درست و ٹھیک طرز و طریقے کو چھوڑ کر آپ کوئی دوسرا مفیدِ مطلب طریقہ و پالیسی کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گی۔ یا تو میرے بیان سے اختلاف کرکے کوئی دوسرا زیادہ مناسب و نتیجہ خیز طریقہ بیان کیجیے اور پھر اس کو زیرِ عمل لانے کی بات کریے، ورنہ پھر جو ہوتا ہے اسے ہونے دیجیے اور جس طریقے کو آپ کا فہم، ضمیر، عقل اور ذہن قبول کررہا اور واحد درست راستہ محسوس کررہا ہے، اس پر چلتے رہیے۔ آپ کو دنیا کا ٹھیکیدار یا خدا کی زمینی بادشاہی یا اس زمینی سلطنت کے مسلم حصے کا پاسبان و نگہبان اس معنی میں نہیں بنایا گیا کہ ضرور ہی اسے تباہی و بربادی کی طرف جانے سے روک لینا آپ کی ذمہ داری ہو۔ آپ کی ذمہ داری اپنے فرائض و واجبات بجالانا اور اپنے علم و فہم کی حد تک اصلاح کے درست نسخے کو زیرِ عمل لاتے رہنا ہے۔ اس سے کوئی فائدہ ہوتا ہے ہو، نہیں ہوتا نہ ہو۔ تبدیلی آتی ہے آئے، نہیں آتی نہ آئے، مسلم ملت کا فساد و بگاڑ رکتا ہے رکے، نہیں رکتا نہ رکے، آپ کا کام نتائج مرتب کرلینا اور اپنے حسین تخیلات اور خوابوں کو زمینی حقیقت کا مرتبہ دلوالینا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کرتے رہنا ہے۔ اس کے بعد جو ہوتا ہے ہوتا رہے اس کی ذمہ داری اور بوجھ آپ پر نہیں ہے۔ بہت کم لوگوں کے صحیح اندازِ فکر و عمل کے حامل ہونے اور صحیح راہ و روش پر استوار ہونے کی جہاں تک بات ہے تو میں جاننا چاہوں گا کہ آخر آپ کے پاس وہ کیا فارمولا اور پروگرام یا جادو ٹونہ اور منتر جنتر قسم کا طلسماتی نسخہ ہے جس کے ذریعے آپ افراد کی بڑی تعداد کو سیدھا کرسکتیں اور بگاڑ و فساد کے بجائے نیکی و پارسائی کے راستے کا مسافر بناسکتی ہیں۔ کیا آپ ان کے ساتھ زور زبردستی کریں گی۔ اگر نہیں تو پھر اس کے علاوہ اور کیا چارہ اور طریقہ رہ جاتا ہے کہ آپ تعلیم و تربیت، تبلیغ و تلقین، نصیحت و فہمائش اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے ہی ان کی اصلاح کرنے اور ان کے مزاج و طبیعت کو فساد پسندی کا طریقہ چھوڑ کر صلاح پسندی کا وطیرہ اپنانے کی جانب مائل کرسکیں۔ ہاں اگر آپ کے پاس کوئی خارقِ عادت قسم کا نفسی یا روحانی کمال و ہنر موجود ہے یا آپ نے باقاعدہ جادو اور عملیات کے فنون کی اس درجہ مہارت و تربیت پائی ہے کہ جس سے کام لے کر آپ بغیر کسی جبر و تشدد کے لوگوں کی بڑی تعداد کو ٹیڑھے راستوں اور رویوں سے ہٹاکر سیدھی راہ و روش کا خوگر بناسکتی ہیں تو پھر الگ بات ہے ورنہ یہ بات بہت اچھی طرح جان اور سمجھ لیجیے کہ خدا نے آپ کو ہرگز کسی کے ساتھ زور زبردستی کرنے اور اپنی بات کسی پر ٹھونسنے اور لادنے کا اختیار نہیں دیا بلکہ جبر و تشدد سے کام لے کر کسی کو کوئی خاص فکر و عمل یا مذہب و رائے اختیار کرنے پر مجبور کرنا وہ بدترین جرم ہے جس کے خلاف خدا نے اپنے پیغمبر کو جنگ و جدال اور جہاد و قتال کا حکم دیا تھا۔ قیامت تک ظلم کے خلاف جنگ و جہاد کے باقی رہنے کا جو معاملہ ہے اس کا سب سے زیادہ اطلاق اسی صورت پر ہوتا ہے کہ انسانوں کو ان کی مرضی کے خلاف کوئی فکر و رائے اپنانے کا پابند بنایا جائے او اس کے لیے زور و تشدد سے کام لے کر انہیں مجبور کیا جائے۔ لہٰذا یہ تو وہ دروازہ ہے جو خدا نے اپنے پیغمبروں کے لیے بھی کبھی نہیں کھولا، میرے اور آپ کے لیے اس کے کھلنے کا کیا سوال۔ اس کے بعد میں بڑے شوق اور تجسس کے ساتھ جاننا چاہوں گا کہ آخر آپ کے پاس وہ کون سا الٰہ دین کا چراغ یا طلسماتی وظیفہ و منتر ہے جس سے آپ یہ انہونی کرشمہ رونما کریں گی کہ انسانوں کی بڑی تعداد بغیر کسی جبر و اکراہ کے بے دینی اور بد اخلاقی کے مشغلے ختم کرکے پاکباز و باکردار بن جائے۔ دنیا میں یا ہمارے معاشروں میں غربت و جہالت بے حد زیادہ ہے اور روز بروز دگنی چوگنی ہورہی ہے اور ہم بہت تیزی کے ساتھ مزید تباہی، بربادی اور بگاڑ و ابتری کی جانب رواں دواں ہیں۔ یہ باتیں کرکے آخر آپ کیا تأثر دینا چاہتی ہیں۔ کیا یہ کہ خدا نے یہ معاملات آپ کو سونپ دیے ہیں اور آپ اس لیے بے چین ہیں کہ اگر آپ نے اس سلسلے کو بند نہ کرایا اور دنیا کو یا مسلم معاشروں کو بگاڑ و تباہی کے راستے سے ہٹاکر فلاح و خوشحالی کے راستے پر نہ ڈالا تو آپ خدا کی بارگاہ میں مجرم و قابلِ گرفت ٹھہریں گی۔ یقیناً آپ کے وہم و گمان میں بھی اس طرح کا کوئی خیال موجود نہ ہوگا۔ لیکن یقین کیجیے کہ آپ کی باتوں کے انداز و مزاج سے جو تأثر مجھ پر وارد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ باتیں کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جس کے دل و دماغ میں اس طرح کی کوئی غلط فہمی موجود ہو کہ خدا نے اسے ان معاملات کا ٹھیکیدار و چوکیدار بنادیا ہے۔ اپنے ملک و قوم اور سماج کے بگاڑ و اختلال پر کڑھنا اور افرادِ سماج کے مزاج و طبیعت کے فساد اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوں پر تشویش محسوس کرنا یقیناً ایک فرد پر اپنی قوم و سوسائٹی کا حق ہے۔ جو شخص اس احساس سے خالی ہو وہ ایک مردہ شخص ہے۔ ہر زندہ فردِ معاشرہ کو اس معاملے کی اصلاح کے لیے فکرمند اور سرگرم ہونا چاہیے۔ لیکن اس معاملے میں ایک فرد انفرادی طور پر کیا کرے گا؟ کیا وہ حالات کے بڑے پیمانے کے بگاڑ و فساد کو دیکھ کر یہ کرے گا کہ خدائی فوجدار اور آسمانی صاحبِِ اقتدار بن کر لوگوں پر چڑھ دوڑے اور طاقت و قوت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے انہیں آئندہ برائی کرنے اور بداخلاقیوں کا مرتکب ہونے سے روک دے اور انہیں مجبور کرے کہ آگے سے وہ سراپا نیکی و خوبی بن کر جییں اور کسی بدی و برائی کا ارتکاب تو دور رہا، اس کا سوچیں بھی نہیں۔ دین کی روشنی میں میں آپ کو تفصیل سے بتاچکا ہوں اور آپ نے اس سے اتفاق بھی کیا ہے کہ ایک فرد کے لیے طاقت و قوت کا استعمال تو بہرحال کسی صورت روا نہیں ، اسے جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنے گھرانے کو درست کرے۔ اپنے علم و عمل اور اخلاق و کردار کو کجیوں اور بگاڑوں سے پاک کرے اور پھر اپنے حلقۂ احباب و تعلق میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا بنکر کھڑا ہوجائے۔ یعنی وہ اپنے ملنے جلنے والوں کو خیر کے کاموں کی تلقین کرے اور خراب کاموں کو چھوڑنے کی دعوت دے۔ لوگوں کو اچھی باتوں کی رغبت دلائے اور بری باتوں سے متنفر کرنے کی کوشش کرے۔ وہ پوری ہمدردی و دلسوزی کے ساتھ لوگوں کو اپنے معاملات کو درست کرنے، اخلاقی رذائل کو چھوڑنے اور سیرت و کردار کی خوبیوں اور کمالات کو اپنانے کی نصیحت کرے۔ دیکھ لیجیے کہ ہر ہر پہلو سے وہی بات صحیح ٹھہر رہی اور ہر ہر کسوٹی پر وہی تجویز درست ثابت ہورہی ہے کہ ایک انسان کو بہر حال تعلیم و تبلیغ اور نصیحت و ترغیب کے حدود میں محدود رہ کر ہی افرادِ سماج کے افکار و خیالات اور عادات و اطوار اور اخلاق و معاملات کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا نے ہر ہر فردِ نسلِ انسانی کو خیر و شر میں سے کسی بھی راہ کو اپنانے کی آزادی اور اختیار دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں انسان کے نفس کو برائی بڑی پرلذت معلوم ہوتی اور بھلائی اس کی بنسبت اس کو اپنی جانب کم ہی راغب کرپاتی ہے۔ لوگ سامنے کے مفادات اور اپنی جائز و ناجائز اغراض کی خاطر ہر طرح کی بداخلاقی کرگزرنے اور ہر حد و قانون کو روند ڈالنے کے لیے آسانی سے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ تو ایسے ماحول میں خیر و نیکی اور اصلاح و راستی کی دعوت کے ساتھ صرف آج ہی یہ نہیں ہورہا کہ اس کا اثر کم لوگ قبول کریں اور اس راستے پر بہت تھوڑے لوگ چلیں بلکہ یہ تو اس دنیا کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ یہاں ہمیشہ خیر کے مقابلے میں شر غالب رہا اور زیادہ تعداد میں لوگ بھلائی کو چھوڑ کر برائی کو اپنائے اور اختیار کیے رہے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ خوامخواہ برائی کی کثرت اور اس کی طرف مائل ہونے والوں کی تعداد کی زیادتی کو دیکھ کر مایوس و بددل ہوا جائے یا پھر جوش میں آکر درست طریقے کو چھوڑ کر زور زبردستی سے کام لینے اور لوگوں کو مجبور کرنے کے غلط اور ناجائز راستے کو اپنانے کی بات کی جائے۔ بلکہ معقولیت اور دینی تعلیم و تربیت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں اور اصلاح کے باب میں جو درست لائحۂ عمل ہے اس پر پوری پختگی اور استقامت کے ساتھ عمل پیرا رہیں۔ اس کے بعد آپ کی محنت و قربانی کیا رنگ لاتی اور کیا ثمرات دکھاتی ہے، یہ معاملات خدا کی مرضی و مشیت پر منحصر ہیں۔ آپ کو ان حوالوں سے زیادہ فکرمند و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ تو اپنا کام کرتے رہیے اور اپنی ساری توجہات اس بات پر مرتکز رکھیے کہ اپنے کام، فرض اور ذمہ داری کی ادائیگی میں کہیں آپ سے کوئی کوتاہی اور کمی نہ ہوجائے۔ ہمیں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ یہاں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے اس کی مرضی و اجازت ہی سے واقع ہوتا ہے۔ ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ کوئی ذرہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور کوئی پتہ زمین پر نہیں گرتا مگر خدائے علیم و خبیر کے علم و حکم اور مرضی و مشیت ہی کے تحت یہ سارے معاملات ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ دنیا پر کس قوم و ملت کو اقتدار و غلبہ ملے یا کسی ملک و ملت اور قوم و سماج کے حالات صلاح پذیر رہیں یا بگاڑ آلود ہوجائیں، یہ واقعات بغیر خدا کی مرضی کے یونہی رونما ہوجاتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان معاملات کو اپنے تخیلات اور خوابوں اور خواہشوں کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ ایسا سوچنا اور گمان کرنا یقیناً نہایت فاش اور سنگین غلطی اور خدا کی ذات و صفات کی معرفت و شناسائی سے آخری درجے کی محرومی ہے۔ لہٰذا جس طرح وہ مسلمان بالکل واضح طور پر غلطی پر ہیں جو بڑی تعداد میں اپنے سیاسی و انقلابی مفکرین کے لٹریچر سے متأثر ہوکر دنیا میں جہاد و قتال اور جبر و تشدد کے ذریعے اسلامی انقلاب لانے اور اسلام کو نظام و قانون کی سطح پر غلبہ دلانے کے لیے کوشاں ہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی درستیٔ فکر سے محروم ہیں جو گو مذکورہ انقلابی و سیاسی و جہادی نقطۂ نظر کو درست نہیں سمجھتے لیکن اس کے بعد جو واحد تعلیمی و تربیتی اور تبلیغی و فہمائشی طریقۂ اصلاح بچتا ہے اسے بھی بہت زیادہ وقت طلب اور نہایت سست رفتاری سے نتائج و اثرات مرتب کرنے والا کہہ کر کسی درمیان کی راہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایک مثال سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ جس طرح کسی قاتل کو سزا دینا صاحبانِ اقتدار اور قانون و عدالت کا اختیار ہے۔ کسی عام شہری کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی قاتل کو خود ہی سزا دے ڈالے، کیوں کہ یہ اس کے اختیار اور ذمہ داری کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ بالکل اسی طرح ایک عام مسلمان کا کام اپنی، اپنے گھرانے اور اپنے رابطہ و تعلق کے حدود میں آنے والے لوگوں کی اصلاح و درستی کی کوشش کرنا ہے۔ ان حدود سے باہر نکل کر سارے معاشرے یا پھر ساری دنیا کے بارے میں فکرمند و مبتلائے تشویش ہونا اور سوسائٹی یا دنیا کے بگاڑ و فساد کو اپنا بخار و دردِ سر بنانا ایک حماقت و نادانی کا معاملہ ہے نہ کہ کوئی قابلِ تعریف و پذیرائی کاروائی۔ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر وہ اپنی، اپنے گھر کی اور اپنے ماحول کی اصلاح میں کامیاب ہوگئے اور اسی طرح دوسرے بہت سے لوگ بھی اگر اس ٹارگٹ کو سر کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس طرح یہ چھوٹے چھوٹے اصلاح پذیر دائرے مل کر سماجی پیمانے پر کتنی بڑی اصلاح یافتگی کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لوگ ان حقائق اور پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے اور اپنی ذمہ داری کے اس میدان میں سرگرمِ عمل ہونے کے بجائے اپنے تخیلات و تصورات اور غیر ضروری جوش سے مغلوب ہوکر سارے سماج اور ساری دنیا کو سدھارنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح اور تو کچھ نہیں ہوتا، نہ سماج سدھرتا ہے اور نہ ہی دنیا سنورتی ہے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ اپنی ذمہ داری کے اس اصلی و حقیقی دائرے میں توجہ نہ دینے اور دوسرے دوسرے دائروں میں سرگرم و مصروف رہنے کے باعث اپنے اس قریبی و واقعی دائرے تک میں سدھار و نکھار لانے میں ناکام رہتے ہیں اور اس طرح جو فوائد سماج و دنیا کو ان سے مل سکتے تھے اور ملنے چاہیے تھے، یہ لوگ وہ ممکن فوائد و ثمرات بھی سوسائٹی اور دنیا کو نہیں دے پاتے۔ میرے محترم ریحان احمد یوسفی کا اس حوالے سے ایک خوبصورت آرٹیکل ذیل کے لنک کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش ہے: [center][blue]http://ishraqdawah.org/CurrentIshraqArticleDetail.aspx?Id=806&Ser=1 [/red][/right][/size=4][/blue][/center][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top