Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][blue][right][size=4]تشدد و جارحیت یقیناً ایسی چیزیں ہیں جو فکری معاملات میں بہرصورت قابلِ مذمت اور لائقِ احتراز ہیں۔ لیکن اس کے باوصف کچھ خیالات و رجحانات ایسے ہوسکتے ہیں جن کے حوالے سے کوئی فریق یہ احساس رکھتا ہو کہ یہ سنگین ترین نوعیت کے فکری مغالطے اور انحرافات ہیں، لہٰذا وہ ان کے حوالے سے تنقید و تردید کا نہایت سخت اور تیز و تند لب و لہجہ اختیار کرے۔ عملی جارحیت کے برخلاف فکری و تنقیدی جارحیت بعض اوقات اس لحاظ سے مفید و مؤثر اور شاید کہ ضروری بھی ہوتی ہے کہ وہ زیرِ نقد فکر و نقطۂ نظر اور ہدفِ تردید افکار و خیالات کے حوالے سے ذہنوں کو گہرائی کے ساتھ جھنجوڑسکے اور اپنی غلطی و کوتاہی کا ادراک کراسکے۔ اسی پہلو سے میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں آپ کے بعض احساسات و تأثرات پر جارحانہ و متشددانہ تنقید کی خواہش پیدا ہونے کا ذکر کیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھا کہ اس کا سبب اور ہدف کسی کی ذات و شخصیت نہیں بلکہ وہ چند خیالات و تصورات ہیں جنھیں میں سخت غلطی اور لغزش کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ ورنہ میں اپنی بہت سی پوسٹوں میں اس حقیقت کا اعتراف اور کھلے لفظوں میں تائید و حمایت کرچکا ہوں کہ انسان کے لیے خدا کی طرف سے عطا کی گئی فکر و عمل کی آزادی بہر حال قابلِ احترام ہے۔ کسی بھی عام یا خاص شخص یا طبقے اور ٹولے کو کسی انسانی فرد یا معاشرے کو اس سے محروم کرنے اور فکر و عمل کے انتخاب کے باب میں کسی جبر و اکراہ کا نشانہ بنانے کا کوئی حق و اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا نے ہر ہر انسان کو سوچنے سمجھنے اور اپنے عقل و ضمیر اور فہم و تحقیق کے مطابق درست محسوس ہونے والی رائے اور روش اپنانے کی نہ صرف آزادی اور اختیار دیا ہے بلکہ زندگی کی تخلیق اور کائناتِ انسانی کی تشکیل و تعمیر کے پس منظر میں اُس کی جو اسکیم کارفرما ہے اس کا بھی لازمی فطری تقاضا یہی ہے کہ انتخابِِ فکر و عمل کی اس آزادی کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے۔ اسی لیے اسلام نے ظلم و عدوان کے خلاف استطاعت ہونے اور جہاد کے شرائط و لوازمات پورے ہونے کی صورت میں مسلمانوں پر جنگ کی جو ذمہ داری عائد کی ہے، اس کی سنگین ترین صورت یہی ہے کہ اُس ظالم و جابر انسان یا گروہ کے خلاف ہتھیار اٹھایا جائے جو انسانوں کے کسی طبقے اور گروہ کو جبر و تشدد کے ذریعے ان کی اس فطری و پیدائشی آزادی اور حریتِ فکر و عمل سے محروم کرکے انہیں کوئی خاص دین و مذہب یا رائے اور عمل اختیار کرنے پر مجبور کررہا ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اب ہر ہر انسان کو لامحدود طور پر سوچنے اور عمل کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے اور اس کی اس آزادیٔ فکر و عمل کے لیے کوئی حدود و قیود ہی باقی نہیں بچے ہیں۔ انسان کی یہ آزادی ایک محدود آزادی ہے۔ اسے اپنی ذمہ داری کے حدود ہی کے اندر رہ کر سوچنا اور اِس دائرے میں محدود رہ کر ہی عمل کرنا ہے جس کی سرحدوں سے دوسروں کی آزادی شروع ہوتی ہو اور جن کے حوالے سے غیر محتاط رویہ دوسروں کی آزادی کو مجروح کرنے کا باعث بنتا ہو۔ میں نے لاسٹ پوسٹ میں ایک مثال کے ذریعے سے اپنی بات کی وضاحت پیش کی تھی کہ کسی قاتل کو سزا دینا صاحبانِ اقتدار، ان کی طرف سے مقرر بااختیار محکمے اور قانون و عدالت کے کارپردازان کا کام ہے نہ کہ ہر ہر فردِ سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ قاتل جس عام شہری کے ہتھے چڑھ جائے، وہ قتل کے جرم میں اسے سنگسار کرنے اور پھانسی لٹکانے کا فریضہ ادا کرڈالے۔ جس طرح انسانی عمل کے حدود و قیود ہیں بالکل اسی طرح سوچ اور فہم اور غور و تعقل کے حوالے سے بھی انسان کا ایک دائرہ اور حلقہ ہے جس کے اندر رہ کر ہی اسے سوچنا اور پھر اس سوچ اور غور و فکر کے نتائج کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی حوالے سے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ ایک بڑی بھیانک اور تباہ کن غلطی ہے کہ آپ اُس دائرے اور ذمہ داریوں کے حدود سے باہر جاکر سوچیں اور پریشان و مضطرب ہوں جو آپ سے متعلق نہیں ہے۔ اس عمل کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان مثلاً سماج میں بدی و برائی، ظلم و زیادتی، افلاس و جہالت، خود غرضی و مفاد پرستی، لوٹ مار، منافقت، بے حسی اور دیگر اخلاقی خرابیوں اور بحرانوں کو دیکھ دیکھ کر بہت زیادہ کڑھتا تو رہتا ہے اور یقیناً ہر زندہ اور حساس انسان کو اپنے دائرۂ علم و خبر کی حد تک حالات کی خرابی پر بے چین اور غمگین ہونا بھی چاہیے لیکن ایسا کرنے والے اکثر انسانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرنے اور اپنا اصل میدان و محدود حلقہ چھوڑ کر بڑے ملکی و عالمی پیمانے پر اصلاحی مہم چلانے اور سماج و انسانیت سدھار مشن کھڑا کرنے کے خواب دیکھنا، آرزوئیں پالنا اور کوششیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنی محدودیتوں اور محدود وسائل و ذرائع کے باعث کسی بہت بڑے پیمانے پر تو اصلاح و درستی کا مینارہ کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، لیکن اس کی اپنی ذمہ داری کا جو قریبی اور تعلقاتی دائرہ ہوتا ہے وہ وہاں کے حوالے سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادر کرنے میں ناکام رہتا ہے کیوں کہ اس کی توجہ اور کوششیں دوسرے رخ پر مصروف ہوتی ہیں۔ فکر و عمل کے معاملے میں اپنی حدود سے تجاوز کا یہی وہ رویہ ہے جسے میں نے خود کو آسمانی ٹھیکیدار اور خدائی فوجدار بننے سے تعبیر کیا تھا۔ یعنی ایک ایسا شخص جو یہ سمجھتا ہو کہ اسے بہرحال سماج کو یا ساری دنیا کو سدھار کر ہی دم لینا ہے اور اس پر خالی اس کے ارد گرد کے دائرے اور حلقے کے حوالے ہی سے اصلاحی کام کا بوجھ نہیں ہے بلکہ اسے سماج بھر یا دنیا جہاں کے معاملات کا نگہبان و چوکیدار مقرر کیا گیا ہے۔ قوموں کی سطح پر اصلاح و بگاڑ کے جو معاملات پیش آتے ہیں ان کا تعلق افراد کے اُن مجموعی رویوں اور کردار سے ہوتا ہے جو وہ اپنے اپنے دائرے اور انفرادی حدود میں انجام دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ چند اشخاص یا چند جماعتیں مل کر بدی و بد اخلاقی کا راستہ اختیار کریں اور پورے کے پورے معاشرے کو بگاڑ و فساد زدہ بناکر رکھ دیں۔ معاشرہ جب بگڑتا ہے تو وہ اپنے اجزا و افراد کے کثیر تعداد میں انفرادی بگاڑ و فساد کے نتیجے میں بگڑتا ہے۔ اسی طرح معاشرے کی اصلاح و سنوار کا انحصار بھی اسی بات پر ہے کہ افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد اپنی انفرادی زندگیوں میں اصلاح پذیر ہوجائے اور درست رویوں اور عمدہ اخلاقیات کو اپنالے۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہوگا کہ چند لوگوں یا چند تحریکوں کی خواہشوں اور کوششوں سے سماجی و معاشرتی پیمانے پر سنوار و سدھار کی فضا قائم ہوجائے۔ جس طرح فرد کی اصلاح اس کے قلب کی اصلاح پر موقوف ہے اسی طرح سماج و سوسائٹی کے سنوار و نکھار کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں بسنے والے افراد زیادہ تعداد میں اپنی قلبی اصلاح کے نتیجے میں اپنے معاشرے کو مجموعی حیثیت سے خیر و خوبی کے غلبہ کا معاشرہ بنادیں۔ لیکن اگر افراد کی زیادہ تعداد اپنے انفرادی بگاڑ اور قلبی فساد کو دور نہ کرے تو یقیناً مجموعی حیثیت سے وہ معاشرہ شر و شقاوت کے غلبے کا معاشرہ ہوگا اور چند نیک لوگ یا کوئی ایک دو اصلاحی تنظیمیں اور جمعیتیں اس معاشرے کو خیر و خوبی کی آماجگاہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں گی۔ ایسے میں کرنے کا کام یہ ہے کہ بگاڑ کی صورت میں افراد کو اپنی توجہات اور سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے اور تعلیم و تربیت، ترغیب و نصیحت اور تلقین و فہمائش کے ذریعے افراد کے انفرادی فکر و عمل کو خامیوں اور خرابیوں سے پاک کرکے خوبیوں اور بلندیوں کا حامل بنایا جائے۔ اور یہ کام ہر اصلاح پسند شخص و جماعت اپنے اپنے دائرے اور حدود ہی کے اندر انجام دے گی نہ یہ کہ ہر ہر شخص پورے سماج یا دنیا بھر کے انسانوں کو اپنا میدانِ کار قرار دے کر اپنے قریبی حلقے کو تو نظر انداز کرے اور سوسائٹی کے ہر ہر فرد یا دنیا کے ہر ہر نفس کی انفرادی اصلاح کا بیڑہ اور جھنڈا اٹھا کر کھڑا ہوجائے۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے، ایسے ہی انفرادی اصلاح کے یہ چھوٹے چھوٹے حلقے اور افراد کے محدود تعلقاتی دائرے مل کر اجتماعی و معاشرتی سطح کی اصلاح پذیری کا منظر پیدا کردیتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ میں معاشرے کے بگاڑ و فساد کو دیکھ اور جان کر بے حس بنے رہنے کی تلقین نہیں کررہا بلکہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی حدود پہچاننے اور اُن حدود کے اندر اندر ہی متحرک و فعال بننے کی بات کررہا ہوں تاکہ آپ کی کوششیں نتیجہ خیز ہوسکیں اور آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں، بجائے اس کے کہ آپ سماجی و عالمی پیمانے پر اصلاح برپا کرنے کی نیک خواہشات کا اظہار کریں اور اس کو اپنا ٹارگٹ و نشانہ بناکر ایسی کوششیں اور قربانیاں رقم کریں جو آپ کی محدودیت اور محدود وسائل کے باعث شاید نتیجہ خیز نہ ہوسکیں۔ انسان سے آخرت میں بھی جو سوال ہوگا وہ پورے معاشرے اور ساری دنیا کی اصلاح کے لیے تڑپنے اور محنت و کوشش کرنے کے حوالے سے نہ ہوگا بلکہ اپنے قریبی حلقے اور تعلقاتی دائرے میں خیر کے فروغ اور شر کے خاتمے کے لیے فکرمند و کوشاں رہنے سے متعلق ہوگا۔ لہٰذا میرا کہنا یہ ہے کہ آپ ضرور سماج و دنیا کی بری حالت دیکھ کر کڑھیے مگر جب آپ اصلاح کے میدان میں قدم رکھیے تو خود کو اور اپنی فکرمندیوں اور کوششوں کو اپنے حدود اور اپنی ذمہ داریوں کی سرحدوں تک محدود رکھیے، تاکہ آپ اپنے سماج اور مجموعی انسانیت کو اپنے حصے کا فائدہ اور ثمر دے پائیں۔ یہ نہ ہو کہ آپ سماجی اور عالمی پیمانے پر فساد و بگاڑ کو مٹانے اور صلاح و فلاح کو برپا کرنے کے بس خواب ہی دیکھتے، امیدیں ہی پالتے، خواہشیں ہی رکھتے اور اس کے لیے بس باتیں ہی بناتے رہ جائیں اور عملی سطح پر آپ کا سماج اور دنیا آپ سے کوئی فیض و فائدہ نہ حاصل کرپائے۔ اس حوالے سے یہ تاریخی حقیقت بھی ضرور اپنے پیشِ نظر رکھیے کہ خدا کے آفتاب و ماہ تاب بندے، پیغمبرانِ گرامی قدر بھی اپنی اپنی اقوام ہی کی ہدایت و اصلاح کے لیے تگ و دو کرتے تھے۔ ہم ایسی کسی تاریخی حقیقت و داستان سے واقف نہیں ہیں کہ انہوں نے ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے لیے کوششوں اور قربانیوں کا تہلکہ مچایا ہو۔ پھر ہم تو اُن کی بنسبت بہت ہی زیادہ کمزور اورمحدود لوگ ہیں۔ یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ خدا نے ہم پر پورے معاشرے اور سارے عالم کے انسانوں کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی ہو اور ساری انسانیت ہماری اصلاحی کوششوں کا ہدف و موضوع ہو۔ جن اقدامات اور کوششوں کو آپ بچکانہ قدم فرمارہی ہیں، غور کیجیے تو وہ ایک انسان کے حوالے سے اس کی واقعی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے اور اس لحاظ سے ایک انسان کی طرف سے کوئی بچکانہ قدم نہیں بلکہ ایک مکمل انسانی عمل ہے۔ یہ کسی انسان کی طرف سے کوئی چھوٹا حصہ نہیں بلکہ اس کے ذمہ کا مکمل حصہ ہے۔ یہ ایک انسان کی طرف سے سماج اور انسانیت کی کوئی معمولی اور حقیر خدمت نہیں بلکہ اس کے دائرۂ استطاعت کے پہلو سے مکمل اور پوری پوری خدمت ہے۔ جو قطرے مل کر دریا بناتے ہیں انہیں دوسرے قطروں سے اپنا ملاپ قطرے ہی کی سطح پر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس زعم و ادعا کے ساتھ کہ وہ قطرہ نہیں بلکہ خود اپنی ذات میں ایک دریا ہے۔ اسی طرح انسان کو اپنی ذات، اپنے گھرانے اور اپنے قریبی ماحول اور تعلقات و روابط کے حدود کے اندر اندر ہی اصلاح و درستی لانے کے لیے فکر و عمل کی سطح پر کوششیں سرانجام دینی ہیں۔ اس طرح کسی معاشرے کے جب بہت سے انسانوں یا ساری دنیا کے مختلف گوشوں میں سے افراد کی ایک بڑی تعداد کے اصلاحی قطرے باہم دیگر ملاپ کریں گے تو ہمیں ایک بڑے پیمانے پر اصلاح، راستی، امن، اخوت، ایک دوسرے کا احساس، انسانیت، مروت، شرافت اور بلند اخلاقی جیسے موتیوں سے مالامال سمندر کا سراغ مل سکے گا۔ جس طرح ستارے اپنے اپنے حدود میں سفر کرتے ہیں اور تبھی ہمیں آسمان پر ایک خوش رنگ منظر نظر آتا ہے، ورنہ تو وہ باہم ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں اور آسمان سے ہم پر بربادی اور تباہ کے گولے برسائیں۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنے دائرے ہی میں اصلاح کے لیے سرگرم ہونا ہے، تبھی یہ واقعہ رونما ہوگا کہ سماجی اور عالمی پیمانے پر انسانوں کے معاملات امن و انصاف پر استوار اور ان کے حالات خوشگوار و پرسکون ہوسکیں۔ [/size=4][/right][/blue][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top