Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][teal][right][size=4]ڈیئر آنٹی جان صاحبہ، سلام و آداب اور بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ خیراً کہ آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر مجھ پر اپنی ایک غلطی یا بے اعتدالی واضح ہوگئی۔ وہ یہ کہ اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ایک کامن مین اور بالکل عام آدمی کا فریضہ اور دائرہ یہی ہے کہ وہ اپنے قریبی حلقے اور نزدیکی ماحول میں اصلاح و درستی اور خیر و بھلائی کے فروغ اور شر و برائی کے خاتمے یا کمی کے لیے کوشاں ہو، لیکن جس طرح ایک عالم کو قومی پیمانے پر دینی حوالے سے بیداری پیدا کرنے اور دین کے حوالے سے متنبہ و خبردار کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے، ایسے ہی سوسائٹی کے وہ لوگ جو گو عرفی طور پر دینی عالم و اسکالر کی حیثیت نہیں رکھتے لیکن عاقل و فہیم اور دانشور لوگ ہیں، سماج و سوسائٹی کے مسائل پر غور و فکر کرتے اور سماجی و معاشرتی مسائل اور قومی اضطراب و ابتری کے حوالے سے درد مندی اور جذبۂ بہتری رکھتے ہیں، انہیں بھی سماج و قوم کی عام دینی و سیکولر شعبوں کے حوالے سے تعمیر و ترقی کے باب میں رائے دینے اور سرگرمِ عمل ہونے کا قومی پیمانے ہی پر حق دار ہونا چاہیے۔ انہیں بھی ہم پابند نہیں کرسکتے کہ وہ بس اپنی قریبی ماحول ہی میں اپنے فکر و عمل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور سماجی یا قومی اسکیل پر بڑے پیمانے پر بہتری لانے یا کسی مفید و کارآمد منصوبے اور پروگرام کو چلانے کی طرف مائل نہ ہوں۔ میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ گو میں اس حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں لیکن پچھلی پوسٹوں میں میں اس پہلو کو نظر انداز بہرحال کرتا رہا ہوں اور میری اس بے اعتدالی کا ایک سبب ہے جو غور کرنے پر مجھ پر واضح ہوا۔ وہ انسان کی یہ محدودیت ہے کہ وہ اپنے علم و فہم، طبیعت و مزاج اور معلومات و تجربات ہی کے دائرے میں رہ کر سوچ پاتا اور اپنے آراء و افکار بناتا ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں دین و مذہب کی طرف بہت گہرا لگاؤ رکھتا ہوں اور پھر دینی و مذہبی حوالے سے ہمارے عام لوگوں، ظاہری دینداروں اور قوم و ملت کی جو نہایت ابتر و افسوسناک اور خراب و تشویشناک حالت و صورت ہے، اس کے حوالے سے اپنے دل و دماغ میں بے حد کڑھن، بے چینی اور درد و اذیت محسوس کرتا ہوں۔ پھر مذہبی حوالے سے اس وقت مسلمانوں کی جو فکر اور رویے ہیں، انہیں میں چونکہ اپنے دینی علم و فہم اور مطالعے و واقفیت کی بنیاد پر بہت حد تک انحراف و لغزش پر مبنی سمجھتا ہوں اس لیے ان کے حوالے سے میرے اندر سخت نکیر و تردید پائی جاتی ہے۔ لہٰذا جب کبھی اس موجودہ انحراف زدہ مذہبی سرمائے میں سے کوئی فکر یا رویہ میرے سامنے آتا ہے تو میں اس پر شدید تنقید کرنے لگتا ہوں اور میری خواہش یہ ہوتی ہےکہ میں اس کی غلطی و نادرستی بالکل آخری درجے میں واشگاف کرکے ہی دم لوں۔ زیرِ بحث ڈیبیٹ میں میں نے جو افراد کے اپنی قریبی ماحول ہی کی اصلاح کے لیے فکرمند و سرگرمِ عمل ہونے پر جو بہت زیادہ زور دیا، یہاں تک کہ میں اس معاملے میں بے اعتدالی کا شکار ہوگیا اور میں نے اس بات کو بھی یا تو نظر انداز کردیا یا پھر غلط ٹھہرادیا کہ سماج کے دانشور اور سمجھدار طبقے کے افراد بہر حال اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے محدود قریبی حلقوں اور ارد گرد کے نزدیکی دائروں سے باہر نکل کر سماجی پیمانے پر قومی خرابیوں اور امراض کے ازالے کی کوشش کریں، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس وقت کی ہماری مذہبیت کی اس باب میں جو فکر اور تبلیغ و تعلیم ہے وہ یہ ہے کہ عام سے عام مسلمان پر اس کی قوم بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ساری دنیا کے انسانوں کی اصلاح کے لیے فکرمند و سرگرمِ عمل ہونے کی ذمہ داری ہے۔ اب یہ خیال و تصور میرے نزدیک چونکہ سخت قابلِ اعتراض اور بالکل ہی غلط ہے لہٰذا اپنے مذکورہ پس منظر اور انسانی محدودیت کے باعث میں نے یہی چاہا کہ میں اس خیال کی خامی و نادرستی کو بالکل مبرہن کروں اور اس پر سخت سے سخت اور جارحانہ سے جارحانہ تنقید کرکے اس کی غلطی و کجی بالکل آخری درجے میں نمایاں کروں۔ اپنے اسی رجحان و کوشش میں میں اس بے اعتدالی کا غیر شعوری طور پر ارتکاب کرگیا۔ یا یوں کہہ لیجیےکہ انسانی محدودیت کا شکار ہوکر ایک پہلو کی طرف زیادہ مائل ہوگیا، اس حد تک کہ دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کرگیا یا پھر انجانے میں غلط کہہ گیا۔ آپ کی تازہ پوسٹ سے مجھے اس بارے میں تنبہ ہوگیا ہے لیکن اتفاق کی بات ہے کہ تھوڑی ہی دیر پہلے آپ کے جواب کو پڑھنے سے قبل میں اسی نکتے کے حوالے سے یہ سوچ رہا تھا کہ سماجی اصلاح کے حوالے سے دانشور طبقے کا رول سماجی اسکیل اور قومی پیمانے تک وسیع ہوتا ہے، اُن کے لیے ہم اپنے قریبی ماحول ہی کو اصل دائرۂ کار و میدانِ عمل نہیں قرار دے سکتے۔ یہ پوائنٹ تو میں چاہ رہا تھا کہ آج واضح کرنے کی کوشش کروں گا لیکن اس معاملے میں اپنی مذکورہ غلطی کا مجھے ادراک نہ تھا۔ خیر آپ کی پوسٹ نے وہ بھی کرادیا، جس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ مجھے اس معاملے میں کوئی اشکال یا تردد نہیں ہے کہ معاشرے کا اہلِ دانش اور صاحبِِ فہم و فراست و بصیرت طبقہ قومی مسائل اور خرابیوں کو دور کرنے اور قوم کی ترقی، فلاح و بہبود اور استحکام و عروج کے لیے قومی سطح پر سوچے اور اقدام کرے۔ ایک دینی عالم کا دینی فہم اگر اسے قومی اسکیل پر دینی حوالے سے ذمہ دار بناتا اور اصلاحی کوشش کا حقدار ٹھہراتا ہے تو دانشور طبقے کا دنیوی علوم و فنون سے واقف ہونا، جدید حالات اور تقاضوں کو سمجھنا اور نئی ٹیکنالوجی سے روشناس ہونا جیسی خوبیاں یقیناً انہیں یہ حق دیتیں اور ان کے لیے اس بات کو سراسر جائز و مطلوب قرار دیتی ہیں کہ وہ اپنے محدود حلقوں اور قریبی دائروں سے آگے بڑھ کر قومی و سماجی پیمانے پر قوم کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے تگ و دو کریں۔ اصل چیز جو قابلِ اعتراض ہے وہ یہ کہ جس طرح دینی بصیرت سے محروم عام آدمی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے قریبی ماحول میں بھی مسلَّم بھلائیوں اور ہر ایک کے نزدیک ثابت شدہ برائیوں کے حوالے سے تنبہ کی فضا قائم رکھنے کی کوشش تو کرے، لیکن دینی مسائل و مقاصد کے حوالے سے لیڈر و رہنما اور تبصرہ و تجزیہ کار بن کر کھڑا نہ ہو، اس عام آدمی کا قومی سطح پر دینی رہنمائی کا ٹھیکیدار بن کر اٹھ کھڑا ہونا تو اس سے بھی آگے درجے کی برائی اور جرم ہے۔ بالکل اسی طرح سماج و معاشرے کے عام لوگوں کو دنیوی حوالے سے بھی اپنے متعلقین ہی کی اصلاح اور درستیٔ اخلاق تک محدود رہنا چاہیے، ان کا قومی پیمانے پر اصلاح لانے اور سماج سدھارنے کی بات کرنا اور اس کے لیے تنظیمیں یا تحریکیں قائم کرنا ان کے زیادہ سمجھدار و اہل نہ ہونے کے باعث مفید ہونے کے بجائے الٹا سخت مضر اور نقصان دہ ہوگا۔لیکن جس طرح ایک دینی عالم دینی حوالے سے قومی پیمانے پر ایک نمائندہ شخصیت ہوتا ہے ایسے ہی دنیوی حوالے سے دانش و فراست اور مہارت و دستگاہ رکھنے والا معاشرے کا اشرافیہ اور صاحبِ علم و فہم طبقہ دنیوی حوالے سے قومی پیمانے ہی پر نمائندگی اور رہنمائی کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اس کے لیے نہ صرف جائز و روا بلکہ مطلوب و مرغوب ہے کہ وہ سوسائٹی کی اصلاح اور اس کے بگاڑ و فساد کو ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر سوچے اور لائحۂ عمل بنائے، اس مقصد کے لیے تحریکیں اور انجمنیں تشکیل دے اور بڑے پیمانے پر پروگرام اور منصوبے زیرِ عمل لائے۔ یہاں تک تو بات بالکل صحیح اور معقول ہے لیکن جلد یا فوری طور پر من پسند نتائج کے حصول کی امید پر، طاقت و ہتھیار اور جبر و تشدد کے زور پر تبدیلی لانے کے مدعی کسی طبقے اور ٹولے کا ساتھ دینا ہرگز کوئی صحیح کام نہیں ہے، نہ کسی عام آدمی کے لیے اور نہ ہی کسی دینی عالم یا دنیوی پہلو سے کسی دانشور شخص کے لیے۔ تبدیلی لانے کا ایک ہی درست اور نتیجہ خیز راستہ ہے اور وہ انسانوں اور افراد کے ذہن و فہم اور اخلاق و کردار کی تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذرائع سے اصلاح و تعمیر کی جدوجہد ہے، ان کے اندر صحیح افکار، درست رویوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اشاعت و ترویج ہے۔ اسلحہ اور طاقت صرف انتشار و انارکی اور خانہ جنگی ہی کی فصل اگاتے ہیں۔ ان کے ذریعے اگر بظاہر کوئی تبدیلی آبھی جائے تو وہ نہایت وقتی ہوتی ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے پیچھے پہلے سے بھی زیادہ بڑے مسائل اور مصیبتوں کے انبار چھوڑ کر رخصت ہوجاتی ہے۔ لہٰذا عام آدمی سے لے کر دینی عالم اور دانشور طبقات تک سب کو قوم و سماج کی اصلاح، فلاح و بہبود اور عروج و استحکام کے حوالے سے اپنے اپنے دائرے اور صلاحیت و استطاعت کی حد تک سوچنا اور تگ و دو کرنا چاہیے لیکن جبر و اکرہ کی سوچ رکھنے والے کسی ٹولے اور اسلحہ اٹھانے والے کسی غیر حکومتی گروہ یا خونی انقلاب کے مدعی کسی طبقے کا ساتھ دینا یا اس راستے سے کسی بہتری اور پائدار ترقی کی توقع رکھنا نہایت سنگین غلطیاں ہیں۔ قومی تعمیر بہر حال ایک نازک اور طویل وقتی جدوجہد ہے۔ اس میں بہرحال لمبی مدت اور بے پناہ کوشش و قربانی کی سوغات خرچ ہوتی ہے۔ یہی اس کی فطرت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر سے جلد بازی اور فوری طور پر نتائج اور تبدیلی مرتب ہوجانے کی جذباتی خواہشات نکال کر اس عمل کی حقیقت و فطرت کو سمجھیں، اس کے تقاضوں اور شرائط کو جانیں اور پھر پورے دل سے اس راہ کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے، اس راستے کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اور ہر قیمت اور قربانی چکاتے ہوئے اس سفر کو جاری رکھیں اور ہمیشہ اس بات کو پیشِ نظر رکھیں کہ پائدار تبدیلی اور حقیقی انقلاب تدریجی طور پر آہستہ آہستہ ہی ابھرا کرتے ہیں۔ فوری تبدیلی اور یکایک انقلاب الفاظ کی حد تک تو درست اصطلاحات ہیں لیکن حقیقی دنیا میں ان کی ذرہ برابر بھی کوئی حقیقت و معنویت نہیں۔ آپ ایک انسانی شخصیت کی مثال ہی کی روشنی میں اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شخص جب اپنے اندر تبدیلی لانے اور اصلاح کو قبول کرنے کا اردہ کرتا ہے تو اس کے اندر اچانک تبدیلی نہیں آجاتی بلکہ پہلے وہ قائل ہوتا ہے، پھر اس کے اندر عزم و ارادہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ ایک لمبی جدوجہد اور طویل مشقت اور بے شمار قربانیوں کے بعد ہی اپنی پرانی سوچ اور عادات کو چھوڑنے اور نئے تصورات و اقدار و معیارات کو اپنانے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔ جب ایک انسان کا یہ معاملہ ہے کہ اس کی شخصیت کی حد تک اصلاحی عمل اور انقلابی پروسس کافی ٹائم لیتا ہے تو افراد کے مجموعے کسی بگڑے ہوئے سماج اور قوم کے معاملے میں اصلاحی عملی اور انقلابی پروسس کتنے وقت، کتنے عزم و ارادے، کتنی مشقت، کتنی قربانی اور کتنی لگن اور جدوجہد کا متقاضی ہوگا، یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں فوری نتیجہ دیکھ لینے کی سطحی جذباتیت سے باہر آکر پائدار تبدیلی اور انقلاب لانے کے لیے فرد فرد کی ذہنیت، سوچ اور کردار و اخلاق میں تبدیلی لانے ہی کے مشن سے جڑنا اور اسی کٹھن اور طویل مدتی راستے ہی پر گامزن ہونا چاہیے۔ [/size=4][/right][/teal][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top