Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Social brutality and islamic scholars
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b][right][size=4]سب سے پہلے تو برادرم سیفے میرا صاحب کی خدمت میں سلام و آفرین و ہدیۂ تبریک کہ وہ مردانہ جرأت و جسارت سے کام لے کر اتنے بنیادی اور اساسی موضوعات کو زیرِ بحث لا کر معاشرے اور اس میں پائی جانی والی کھوکھلی اور ظاہری سطح کی دھوم و ہلچل رکھنے والی مذہبیت کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے اور اس کی کمزوری، سطحیت، مردگی، بے اثری، غیر معیاری پن اور حقیت و معنویت و استحکام و روح ہر ہر چیز سے خالی ہونے کی اصل تصویر سے نقاب الٹ ڈالتے ہیں ۔ گو اس کے بعد اپنی اور اپنے معاشرے میں پائے جانے والی دینداری کا بدنما قالب و سراپا ہماری آنکھوں پر عیاں ہوکر اور اور ہمارا وجود و کردار و اخلاق اپنی تمام تر شناعتوں اور پستیوں کے ساتھ منظرِ عام پر آ کر ہمارا اپنا ہی دل جلاتا اور قلب دُکھاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ضروری کام اور حقیقی بہی خواہی ہے کہ ہمیں اپنے کھوکھلے پن، خرابیوں ، بیماریوں اور کمزوریوں سے آگاہ کیا جائے ۔ ہماری خداپرستی اور اسلام دوستی کے کھوکھلے پن اور سطحیت اور اصل معیار و حقیقت سے نامطابقت و دوری کا ہمیں اچھی طرح احساس دلایا جائے ۔ اپنے فرائض و ذمے داریوں سے ہماری غفلت و پہلو تہی اور اصل کاموں اور میدانوں سے ہماری بے تعلقی و بے توجہی کی تفصیل سنائی جائے اور معاشرے کے بگاڑ و فساد اور شر و خرابی میں ہمارا جو کچھ اور جتنا کچھ حصہ اور کردار ہے ، اس سے ہمیں بار بار واقف کرایا جائے ۔ اسی کا نام خوداحتسابی اور ذاتی تعمیر ہے ۔ یہ جہاں فرد کے لیے انفرادی طور پر ضروری ہے ، بالکل اسی طرح ایک قوم و ملت کے لیے اجتماعی ا سکیل پر ایک نہیات لازمی کام ہے ۔ اس کے بغیر فرد اور قوم کا وجود خرابیوں اور کمزوریوں کی دیمک چاٹ چاٹ کر اتنا بودا اور ناتواں بنادیتی ہیں کہ ہوا کا ایک تیز جونکھا بھی اسے تتر بتر کرنے اور فضاے وقت و زمانے میں کسی بے قیمت گرد و غبار کی طرح بکھیر کر رکھ دینے کے لیے کافی ہوجاتا ہے ۔[/size=4][/right][/b] [right][b][size=4]اس میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ موجودہ زمانے میں جتنے فلاحی ادارے اور خدمتی انجمنیں عوامی بہبود کے لیے قائم و سرگرم ہیں ، ان سے مسلمانوں کے علما اور ان کی دینی تحریکوں کا کوئی بہت گہرا اور قریبی رشتہ نہیں ہے بلکہ قریب قریب وہ اس سے بالکل لاتعلق اور کنارہ کش ہیں ۔ برادرم سیفے میرا کی یہ بات بالکل درست ہے کہ مذہبی علما اور دینی ا سکالرز اس معاملے میں محض زبانی مذمت اور لفظی و بیانی تنقید پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے بعد عملی میدان میں کود کر اس سلسلے میں اصلاح و تعمیر کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھاتے ۔ معاشرے میں ظلم و ستم اور جور و جفا اور حق تلفی و زیادتی جس بڑ ے پیمانے پر رائج ہے اور جس طرح روزانہ بے شمار ظلم و ستم کے نہایت دردناک و مکروہ واقعات رونما ہوتے رہتے اور معاشرے کے لاتعداد افراد و گھرانے اس کا شکار بنتے رہتے ہیں ، اس صورتحال کی تبدیلی اور اس طرح کے معاشرتی ظلم و فساد کے انسداد کے لیے علما و ا سکالرز اور دینی تحریکیں اور جماعتیں مذمتی بیانات اور تعزیتی تبصروں سے آگے بڑ ھ کر عملاً کچھ بھی کرتے نہ نظر آتے ہیں اور نہ ان کے پروگراموں ، مقاصد اور منشوروں میں ایسا کوئی ٹارگٹ اور دفعہ مرقوم ہے جو اس طرح کی خراب صورتحال کا تفصیلی ادراک و تجزیہ کرتی اور اس کی پائدار درستی اور واقعی تلافی کے لیے کسی قسم کی کوشش کے ارادے کا اظہار کرتی ہو۔ [/size=4][/b][/right] [size=4][right][b]یہ بات بھی ٹھیک ہی کہی گئی ہے کہ اہلِ علم اور نمائندگانِ مذہب اس طرح کے دردناک واقعات اور ظلم و ستم کی داستانوں کو سن کر تو ذرا نہیں تڑ پتے اور متحرک ہوتے لیکن اگر کہیں کوئی بات دینی خیالات کے خلاف ظاہر ہو یا دینی شعائر و مظاہر کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ رونما ہوجائے یا کوئی آزاد منش دانشور اور سیکولر پسند ا سکالر اسلام کے حوالے سے کوئی قابلِ اعتراض بات کر دے تو یہی مذہبی پیشوا اور دینی قائدین روڈوں پر نکل آتے اور احتجاج و مارچ کے ہنگامے کھڑ ے کر دیتے ہیں ۔ مذمتی بیانات اور تردیدی مضامین کا تانتا بندھ جاتا اور فضا احتجاجی شور و غل اور اشتعال انگیز تقاریر و خطبات سے اٹ جاتی ہے ۔ آخر یہ تضاد کیوں ہے ؟ کیوں علما دینی نزاکت کے اوقات میں تو غیرمعمولی طور پر فعال نظر آتے ہیں لیکن سماج میں ہونے والے بدترین مظالم اور سنگین ترین واقعات انہیں کیوں نہیں تڑ پاتے اور روڈوں پر لاتے ؟ یہ سوال نہایت معقول و وزن دار ہے ۔ لیکن اس کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے ۔ بات اصل میں دینی فکر کے اُس انحراف سے شروع ہوتی ہے جو مسلمانوں نے اپنے مفکرین و قائدین کی قیادت و رہنمائی میں اسلامی تعلیم و طریق کے باب میں اختیار کیا۔ مسلمان جب سیاسی سطح پر مغلوب ہوئے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی طرف متوجہ ہوتے جو ان کے زوال و پچھڑ ے پن کا باعث بنی تھیں وہ غالب اقوام کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات میں بری طرح مبتلا ہوگئے اور انہوں نے ان کے خلاف ناعاقبت اندیشانہ قسم کی مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ ان کا مطالبہ اور نشانہ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ بس سیاسی طور پر اپنا غلبہ چاہتے تھے اور اپنے اپنے معاشروں میں اسلامی حکومت اور اسلامی قانون و نظام کی عملداری کے طالب تھے ۔ اس صورتحال اور جذباتی ہیجان اور رد عمل کی فضا میں ان کے درمیان جو اسلامی لٹریچر اور ادب وجود میں آیا اس میں اسلام کے نام پر بس ایک ہی بات کو مختلف اسالیب و طرق سے بار بار بیان کیا گیا تھا کہ مسلمان کا کام زمین پر خدا کی حکومت قائم کرنا ہے ۔ مسلمان کا نصب العین اسلامی غلبہ ہے ۔ مسلمان کی ڈیوٹی دین کو سیاسی، قانونی، نظامی اور انتظامی سطح پر با اقتدار کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ۔ مسلمان کے لیے نجات اور خدا کی رضا کا حصول اسی بات پر موقوف ہے کہ وہ زمین پر خدائی اور اسلامی نظام و قانون کی بالادستی کے لیے جہاد کرتا اور قربانیاں دیتا رہے ۔ یہ وہ فکری رہنمائی تھی جو گو اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک واضح انحراف تھا لیکن اس نے مسلمانوں کے درمیان ملت کے پیمانے پر عمومی قبولِ عام حاصل کیا اور پچھلی دو تین صدیاں مسلمان اسی فکر کو حرزِ جاں بنا کر جیتے اور اقدامات کرتے رہے ہیں ۔ ان کے علما، عوام اور تحریکیں اور جماعتیں ایک کے بعد ایک اسی سوچ کے تحت اٹھتے ، تگ و دو کرتے اور قربانیوں کی قطار لگاتے رہے ہیں ۔ لیکن اس فکر کے تحت کی گئی عظیم الشان کوششوں اور لاتعداد جانی و مالی قربانیوں نے مسلمانوں کو مثبت طور پر تو کوئی فیض و فائدہ نہیں پہنچایا الٹا مسلمانوں کے تمام موجودہ مصائب و آلام کی جڑ یہی فکری انحراف ہے ۔ اس نے مسلم علما و ا سکالرز کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی تعمیر و نگرانی کے انتہائی اہم کام سے غافل کیا اور اسی نے مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو عوامی اور معاشرتی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکے رکھا۔ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا خود کش بمباری کا ظاہرہ بھی اسی فکری انحراف کی کوکھ سے برآمد ہوا اور دنیا بھر میں اسلامی کی بدنامی کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کے معاشرے میں ایک ناسور بن کر پھیل گیا ہے ۔ اس فکری انحراف کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوئی کہ پچھلی چند صدیوں سے مسلمان عوام ہوں یا علما، سب اسلام کو سیاسی طور پر فتح و غلبہ دلانے اور اس کے مقابلے میں ساری غیر مسلم اقوام کو مغلوب و مفتوح کرنے کی باتوں اور کاروائیوں میں مشغول رہے ہیں اور پھر اسی فکر و عمل کی نسبت سے ان کے اندر اُن تصورات و معمولات نے اسلامی تعلیمات و نمونہ جات کی حیثیت اختیار کی جن میں اس طرح کے فلاحی و رفاہی کاموں کی نہ کوئی خاص اہمیت تھی اور نہ اس فکر و عمل کی لے سے اس کے سروں میں سے کوئی سر میل کھاتا تھا۔ مسلمان اس سارے عرصے میں بس ایک کام کرتے رہے ، غیر مسلموں کے خلاف زبانی اور قلمی چیخ پکار اور عملی و مسلح جدوجہد۔ سیاسی غلبے کے اس بنیادی خیال نے ان کے سارے نظریات و اعمال کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور انہیں اس سانچے اور رخ پر ڈھال دیا جس کے مطابق اس طرح کے معاشرتی فلاح و بہبود اور سماجی ظلم و ستم کے انسداد کے مقاصد بالکل ثانوی یا غیر اہم حیثیت رکھتے تھے ۔ [/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]اسی لے اور رو سے مسلمانوں کے زعما و لیڈران میں ایک ظاہرہ اسلام کی ٹھیکیداری کا بھی پیدا ہوا کہ وہ خود کو اسلام کا ٹھیکیدار و اجارہ دار سمجھنے لگے ۔ اب جو کوئی اسلام پر بات کرتا یا کسی اسلامی تعلیم، قرآنی آیت یا حدیث رسول کے حوالے سے کوئی نئی تحقیق یا پہلے سے موجود تعبیرات سے ہٹ کر کوئی نئی تعبیر و تاویل پیش کرتا، یہ اسے گمراہ، بے دین، اسلام کی جڑ اکھاڑ نے والا، مسلمانوں کا بدخواہ، ان میں انتشار و ضلالت اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والا اور اسلام دشمنوں کا ایجنٹ و زرخرید غلام قرار دینے لگے ۔ یوں ان میں باہمی منافرت، آپسی جھگڑ وں اور ایک دوسرے کے خلاف کفر و ضلالت کے مخالفانہ فتو وں کا نہ ختم ہونے والا ایک بدترین سلسلہ بھی قائم ہو گیا۔ سیاسی مغلوبیت نے ان کے اندر جو مختلف قسم کے رد عمل پیدا کیے تھے بعد میں انہوں نے مختلف دھاروں اور مسلکوں کی شکل بھی اختیار کی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور نت نئی اقوام و معاشرتوں سے سابقے اور تعامل و تبادلے کے نتیجے میں مسلمانوں میں فکر و عمل کی جو بہت سی خرابیاں اور انحرافات جگہ بنا چکے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ ایک پورے مکتبۂ فکر و نقطۂ نظر کی صورت ڈھارتے گئے ۔ یوں اس سیاسی مغلوبیت نے ’جو کہ ایمان و اخلاق کے زوال و پستی اور سیرت و کردار کی کمزوریوں اور خامیوں کا نتیجہ تھی‘ بعد کے دور میں مسلمانوں میں بے تحاشا افراتفری، افتراق، پریشان خیالی، مسلکی و فرقہ وارانہ ذہنیت و رجحانات، غیرمسلم اقوام کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات اور جنگ و جہاد اور اس سے بھی آگے بڑ ھ کر خود کش بمباری کی سوچ و رویہ جیسی چیزوں کو جنم دیا اور رائج کر دیا۔ معاشرتی فلاح و رفاہیت کے کاموں سے مسلمانوں کی عدم دلچسپی بھی اس ساری صورتحال کا ایک جزو و نتیجہ ہے ۔ لیکن اسلام کے ابتدائی ادوار کی تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے ۔[/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]آپ اگر دورِ نبوت کی تاریخ اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی داستان پڑ ھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوتی ہے اور آپ اس نئے اور انوکھے تجربے سے گھبرا کر گھر آتے اور چادر میں لپٹ جاتے ہیں تو آپ کی اہلیہ محترمہ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتی ہیں کہ حوصلہ اور اعتماد رکھیے آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ خدا آپ کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہیں کرے گا۔ آپ تو لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ، کمزوروں کے کام آتے اور بے یار و مددگار لوگوں کا آسرا بنتے ہیں ۔ لوگوں کی خدمت و نفع رسانی آپ کی مستقل عادت ہے ۔ حلف الفضول کا مشہور واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے جس میں عرب کے بعض بزرگ رؤسا ایک کمیٹی بنا کر جماعتی طور پر یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ کسی ظالم کو کسی پر ظلم نہ کرنے دیں گے ، کسی طاقتور کو کسی کمزور کا حق نہ مارنے دیں گے ، کسی کو زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ رسول اللہ اس معاہدے اور کمیٹی میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔ پھر دورِ رسالت و نبوت میں جب اسلام کمزور حالت میں ہوتا ہے جو غلام اور غریب اور کمزور لوگ اسلام قبول کرتے ، وہ اپنے اپنے مالکوں اور خاندانوں کی طرف سے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتے ۔ ایسے موقع پر مالدار صحابہ اپنا مال خرچ کر کے غلاموں کا آزاد کراتے اور اپنے کمزور اور دبے ہوئے بھائیوں کی امداد کر کے انہیں آرام و راحت دلاتے تھے ۔ اسلام قبول کرنے والوں کی کسی معاشرتی ضرورت کے لیے مال خرچ کرنے کا کوئی موقع آتا تو اس موقع پر مالدار اور رئیس صحابہ پیش پیش ہوتے ۔ اسلامی خلافت کے احوال پڑ ھیے کہ خلفا کس کس طرح معاشرے میں خود گھوم گھوم کر ضرورت مندوں کا پتہ لگاتے اور ان کی مدد و دستگیری کرتے تھے ۔ انصاف لوگوں کے دروازوں تک پہنچتا تھا اور کوئی سائل و ضرورت مند بے آسرا اور بے یار و مددگار نہیں رہتا تھا۔ کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اپنے اثر و اقتدار اور اپنی کرسی و عہدہ کی بنا پر کسی کو زیادتی کا نشانہ بنائے اور کسی کمزور پر ظلم کرے ۔ ظالم اور مجرم چاہے کوئی شخص کیوں نہ ہو اور کتنے ہی اونچے گھرانے سے متعلق اور کتنے ہی بڑ ے عہدے پر فائز ہو، عدالت کے کٹہرے میں کھڑ ا کیا جاتا اور جرم ثابت ہونے پر اسے قرار واقعی سزا نہ صرف سنائی جاتی تھی بلکہ مجمعِ عام کے سامنے اعلانیہ دی بھی جاتی تھی۔ غرض پچھلی اسلامی تاریخ کی تفصیل کا مطالعہ کیجیے تو مسلمانوں نے سماجی فلاح و بہبود اور معاشرتی خدمت و نفع رسانی کے میدانوں اور شعبوں میں غیر معمولی طور پر نمایاں خدمات انجام دیں اور لافانی روایات اور مثالیں قائم کیں ہیں ۔ موجودہ سائنسی ترقیاں اور نیا اور ماڈرن زمانہ جو آج اپنی رونق و رنگینی اور راحت و آسائش سے ہماری آنکھیں چندھیا رہا اور ہوش گما رہا ہے اس کی بنیاد رکھنے والے اور اس نئی شاہراہ کو دریافت کرنے اور اس کی ابتدائی مشکل مسافتوں کو طے کرنے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان اہلِ علم و دانش ہی تھے ۔ پچھلی چند صدیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی ان ابواب میں تاریخ و روایات نہایت عظیم الشان و رفیع المقام رہی ہیں ۔ کسی بھی میدان میں کوئی ان کا ثانی ہونا تو کیا معنی، حقیقتاً ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا تھا۔ آج بھی ہم علم و فن، تہذیب و تمدن اور انسانی فلاح و بہبود کے مختلف میدانوں اور دائروں میں جو کچھ ترقیاں اور بلندیاں دیکھ رہے ہیں وہ اپنے ماضی کے تسلسل میں انہی مسلمانوں اور اسلامی تاریخ سے جاملتی ہیں ۔ علم و ہنر ہو، سائنسی ایجادات و تحقیقات ہوں ، آداب و اسالیب ہوں ، تہذیب و تمدن ہو یا سماج کی خدمت و بہبود کا میدان مسلمان اپنے عروج کے زمانے میں ان سب شعبوں میں یکتا اور بلامقابلہ ممتاز و فائق رہے ہیں ۔ [/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]صورتحال کے تجزیے اور زیرِ بحث خرابی کے اصل سرے کا سراغ لگانے کے بعد اگر ہم اس کے حل کی بات کریں تو وہ نہ صرف اس حوالے سے بلکہ مسلمانوں کو مجموعی طور پر اٹھانے اور موجودہ ذلت و زوال کی پستیوں سے نکالنے کے لیے یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے انہیں اسلام کے اصل فکر سے آشنا بنایا جائے ۔ جو غلط فکر و رجحانات ان میں در آئے اور مقبول و مشہور ہوکر ان کے معمولات کا حصہ بن گئے ہیں ، ان کی غلطی و کوتاہی کو مدلل تنقید و تجزیے کے ساتھ ان کے سامنے بیان کیا جائے ۔ ان میں بلند اخلاقی اور اعلیٰ انسانی اقدار کی اہمیت کا شعور و احساس اجاگر کیا جائے ۔ انہیں نسلی و خاندانی و پیدائشی اسلامیت کی سطح سے اٹھا کر سچی خدا پرستی اور حقیقی انسانیت دوستی کے مقام پر لانے کی سعی کی جائے ۔ یہ کام مسلمانوں کی جہالت و بے شعوری دور کرنے لیے ہیں ۔ ان کاموں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ان میں پائی جانی والی غربت، باہمی چپقلشوں ، خاندانی جھگڑ وں ، لسانی و علاقائی تعصبات اور باہمی زیادتیوں اور نا انصافیوں کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوں اور فعال کردار ادا کریں ۔ جہالت و غربت کے خلاف یہ جنگ و جہاد موجودہ وقت میں مسلمانوں کی بقا، اصلاح، عروج اور ترقی کے لیے اشد طور پر ناگزیر ہے ۔ جن لوگوں میں اس کا احساس ہے وہ اس میں حصہ لیں اور ساتھ ساتھ اس احساس سے عاری مسلمان افراد و طبقات تک اس احساس و شعور کو منتقل کرنا اپنا مشن بنالیں ۔ [/b][/right][/size=4] [right][size=4][b]قوموں کی تقدیر خواہشات، تجزیوں ، تبصروں اور مشوروں سے نہیں بدلا کرتی بلکہ اس کے لیے ہمیشہ ان سرفروش و جاں باز افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم و ملت کی تقدیر جگانے اور مستقبل چمکانے کی خاطر اپنی صلاحتیں ، توانائیاں ، امنگیں اور زندگیاں قربان کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ عموماً یہ کام نوجوان کیا کرتے ہیں ۔ سو ہمیں بھی یا تو وہ نوجوان بننا چاہیے جو اپنی قوم و ملت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لیے تن من دھن سے اٹھ کھڑ ا ہو یا ہمیں اپنے نوجوانوں تک یہ پیغام پہنچانے اور انہیں اس بڑ ے مقصد کے لیے آمادہ کرنے کی سعی کرنی چاہیے ۔ ایک مزید بات یہ کہ کوئی کام بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کی استطاعت اور دائرہ محدود ہوتا ہے ۔ اسے اپنی حدود ہی میں رہ کر جو کچھ وہ کرسکتا ہے کرنا چاہیے ۔ اپنی حد و قامت سے اونچے بڑ ے بڑ ے کام اور عظیم الشان منصوبوں کے بارے میں سوچنے والے عموماً اپنی حدود میں بھی کچھ نہیں کرپاتے ۔ لہٰذا ہمیں خواب پسند اور حسین تخیلات میں سرگرداں رہنے کے بجائے اپنی اپنی صلاحیت و طاقت اور توانائی و استطاعت کے مطابق عملاً مسلم قوم و ملت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارا انسانی، اخلاقی، اسلامی اور قومی و ملی فریضہ ہے ۔[/b][/size=4][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top