Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Social brutality and islamic scholars
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][size=4][right][b]محترمہ صبا ٹو جی، آداب و احترام۔ جناب سیفے میرا نے سماجی ناہمواری اور معاشرتی ناانصافی کا جوایشو اٹھایا ہے وہ اسے اپنی پوری وسعت میں پیش نظر رکھ کر بات کررہے تھے کہ سماجی زیادتی چاہے اس کا شکار آدمی ہو یا عورت، کمزور و غریب محنت کش ہو یا کوئی طالبعلم اور نوکری پیشہ انسان۔ آپ اس ٹاپک کو اچک کر صرف خواتین تک لے گئیں ہیں اور آپ کی زیادہ تر گفتگو اس معاملے کی وسعت کو سمیٹتے ہوئے محض خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، زیادتیوں اور بدسلوکیوں تک محدود ہوگئی ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ خواتین کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک اور خراب و ناروا برتاؤ بھی گو اپنی جگہ ایک قابلِ بحث و مذاکرہ موضوع ہے اور ہمیں اس کے اسباب اور ان کے تدارک پر بھی بات کرنی چاہیے لیکن اس وقت ہمیں اس مسئلے کو محض خواتین کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے سماج میں پائی جانے والی اس عمومی بے حسی، خود غرضی، ناانصافی، زیادتی اور بدسلوکی کو اپنی توجہ اور غور و فکر کا موضوع بنانا چاہیے جس کی لپیٹ میں مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سبھی آجاتے ہیں اور اس معاملے میں زیادہ افسوسناک و المناک پہلو یہ ہے کہ اس میدان میں اصلاح اور عوامی بہبود کے لیے متحرک ہونے والوں میں مذہبی لوگوں اور مذہبی جماعتوں کا نام نشان اور آثار و خدمات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔[/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]ہمارا موجودہ ڈسکشن ٹاپک صنفی نابرابری، صنفی امتیاز اور صنف و جنس کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی بدسلوکی اور زیادتی نہیں ہے بلکہ اس وقت ہم معاشرے کے اس غلط قسم کے مجموعی رویے پر بات کررہے ہیں کہ سماج میں آئے روز ظلم و ستم، زیادتی، حق تلفی، ناانصافی، قتل و غارتگری، عصمت دری، وراثت سے بے دخلی، دوسروں کی املاک و پڑاپڑتی پر قبضوں جیسے ہزاروں واقعات ہوتے رہتے ہیں، کتنے ہی افرادِ معاشرہ نہایت غربت و کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں، کتنے نوجوان غیر تعلیم یافتہ اور بے روزگار ہیں، کتنے گھرانے بیمار مریضوں اور جوان بیٹیوں کے مسائل سے دوچار ہیں لیکن کتنے دینی ادارے ہیں جو اس طرح کے معاملات میں پبلک کی خدمت کرنے اور لوگوں کو مدد و اعانت فراہم کرنے کے لیے قائم و فعال ہو۔ ہمارے مذہبی گروپس اور دینی خطبا و مقررین ہمارے سامنے بے شمار دینی تقاضے اور مطالبات رکھتے رہتے اور ہمیں بہت سے رخوں پر متحرک و سرگرم ہونے پر اکساتے رہتے ہیں لیکن اس طرح کی عوامی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں سے نہ کسی کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ کوئی اس طرح کے معاملات میں عام آدمی کی مشکلات دور کرنے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔ ایک انسان جسے کھانے پینے، پہننے، بچوں کو پڑھانا لکھانا تو دور رہا ان کے پرورش و علاج کے ذرائع میسر نہ ہوں، آپ اس سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام کو برپا کرنے اور اسلام کے قانون و شریعت کو بالادستی دلانے کی جدوجہد میں آپ کا شریک و رفیق بنے گا اور نعرے لگائے گا اور جلوس و مارچ کی رونق و بھیڑ بڑھائے گا۔ [/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]مسلمانوں کا مسئلہ جو کوئی بھی ہو اس کے ڈانڈے گہرائی میں جاکر قرآن اور سیرتِ رسول سے روگردانی سے جاملتے ہیں۔ خدا انسانوں کو اپنی عیال اور اپنا کنبہ و خاندان قرار دیتا اور ان کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کو اعلیٰ ترین نیکیوں میں شمار کرتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلانے، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کا سہارا بننے اور بے یار و مددگار و محتاج بندگانِ خدا کی دل گیری و داد رسی کرنے کو بہترین نیکیاں اور عمدہ ترین کاروائیاں گردانتا ہے۔ جب وہ اعلی ترین ایمانی خصائص گنواتا ہے تو ان میں اکثر و بیشتر اسی طرح کے سماجی فلاح و بہبود اور انسانی خدمت و رفاہیت کے کاموں کو سرِ فہرست رکھتا اور انہیں نہایت ممتاز ترین افعال خیر ٹھہراتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سماجی تعارف منصبِ نبوت ملنے سے پہلے بھی صادق و امین تھا۔ آپ لوگوں کی خبرگیری کرنے اور ان کے دکھ بانٹنے والے شخص تھے۔ لوگوں کے کام آتے اور ان کی مدد کرتے۔ آپ کی یہ صفات و اخلاقیات و معمولات نبوت کے دور میں اور بھی ترقی کرگئے اور آپ ہمیشہ ہر موقع پر ایک نہایت مہربان رفیق و ساتھی ثابت ہوئے۔ آپ لوگوں کے درد میں شریک ہوتے۔ ان کی مشکلات میں کام آتے۔ ان کی پریشانیوں میں دلاسہ دیتے۔ ان کی تنگیوں میں داد رسی کرتے ۔ آپ ایک انتہائی سخی و فیاض شخص تھے۔ جو مدد کے لیے آتا بامراد ہوکر جاتا۔ جو آس لگاتا دامن بھر کر جاتا۔ جو امید باندھتا نہال ہوجاتا۔ [/b][/right][/size=4] [right][b][size=4]یہ کردار و نمونہ تاریخ میں سفر کرتا ہوا ہمیں کتنے ہی خدا کے بندوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں اور پہلے کے مسلمانوں میں پوری آب و تاب سے نظر آتا ہے۔ مسلم صوفیا کا کردار تو اس حوالے سے اور بھی زیادہ ممتاز و نمایاں ہے کہ ان سے تو بلاتفریق مسلم و غیرمسلم سبھی فیضیاب ہوتے اور ان کی قربت میں آکر اپنے غموں اور دکھوں اور پریشانیوں سے نجات پاتے تھے۔ دوسرے سانحات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے کہ مسلمان اس وقت اس پہلو سے بھی کسی قابلِ قدر مقام پر نہیں ہیں۔ اس کے اسباب میں قرآن سے دوری اور سیرت رسول سے انحراف کے ساتھ ساتھ اس غلط فکر کی پیدا کردہ ترجیحات بھی کارفرما ہیں جو بس سیاسی سطح پر دین کو غالب و رائج کرنے ہی کو اصل الاصول بتاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا پرستی کی وہ عالمی لہر بھی اس کا ایک قوی عامل ہے جس نے انسانوں کو عام طور پر اپنی لپیٹ میں لے کر دنیوی رونقوں اور رنگینیوں کا دیوانہ بنارکھا ہے۔ یہ عوامل انسان کو خود غرض، بے حس، لاپروا اور دوسروں کے خوشی و غم سے بالکل بے گانہ بنادیتے ہیں۔ ایسے انسان پھر غیر مسلم ہوں یا بظاہر مسلمان، ہم ان سے سماجی خدمت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں شرکت کی بالکل توقع نہیں رکھ سکتے۔[/size=4][/b][/right] [size=4][right][b]لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا دارِ امتحان ہے۔ یہاں آزمائش اسی بات کی ہے کہ انسان اس دنیا میں رہ کر اچھے کام کرتا ہے یا برے کام۔ وہ دوسروں کے ساتھ بے حسی و بدسلوکی کا معاملہ کرتا ہے یا حسن سلوک سے پیش آتا اور اخلاقی اقدار کے تحت گزر بسر کرتا ہے۔ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب نہ یہ دنیا باقی رہے گی، نہ یہاں کی رونقیں اور لذتیں ہوں گی اور نہ یہاں انسان کی زندگی کا کوئی نام و نشان ہوگا۔ قیامت کے روزِ حساب میں خدا کی میزان میں اس شخص کے اعمال ہی سب سے زیادہ وزن دار ہوں گے جو انسانی بھلائی کے ساتھ جیا ہوگا۔ جس نے انسانوں کی نفع رسانی اور خیرخواہی کی زندگی گزاری ہوگی۔ جس کے اخلاق و کردار سب سے اچھے ہوں گے۔ جس نے خدا کے کنبے اور اس کی عیال کی خدمت و خبرگیری کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا ہوگا۔ اس وقت یہی وہ کام ہوں گے جو انسان کے کام آئیں گے اور اسے ہر دکھ، پریشانی، تکلیف، بیماری اور رنج و غم سے پاک پر تعیش زندگی کا مستحق ثابت کریں گے۔ جبکہ ان کاموں سے اعراض و غفلت کا نتیجہ محرومی اور حسرت و ندامت کے دوروں کی صورت میں انسان کو اپنے گھیرے میں لے لے گا۔[/b][/right][/size=4][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top