Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b][right][size=4][green]۔۔۔۔۔۔محترم محمد شفیع صاحب، سلام و آداب، آپ نے امتِ مسلمہ کے ایک حدیث کے مطابق بہت سے فرقوں میں بٹ جانے کی جس الجھن کا تذکرہ کیا ہے، اس کا کوئی واضح حل اور سلجھن بتانے کے بجائے آپ نے بس ایک عمومی تبصرہ کرتے ہوئے ہی اپنی بات ختم کردی۔ کاش آپ اس حوالے سے جنت کے طلبگاروں کو کوئی نشانِ راہ بتاجاتے اور اُس فرقۂ ناجیہ مہدیہ کہ کچھ آثار و علامات بتادیتے جو آپ کے نزدیک واقعتا اکلوتا ہدایت یافتہ اور اخروی نجات و فلاح کا حقدار ٹولہ ہے اور اس لائق ہے کہ تمام مسلمان جو آخرت کی فلاح و بہبود چاہتے اور خدا کے عذاب و عتاب سے دڑتے ہیں، اس سے وابستہ ہوجائیں۔[/green][/size=4][/right][/b] [green][right][b][size=4]میرے خیال سے آپ کو بھائی عبد العزیز کی توضیح کو بڑے غور سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے کہ تہتر یا کسی بھی اور تعداد میں آئندہ پیدا ہونے والے فرقوں میں سے کوئی ایک مخصوص فرقہ و ٹولہ ہی مستحقِ نجات نہیں ہوگا بلکہ وہ تمام افراد اور لوگ جو مسلمان ہوں گے اور طریقۂ رسول و اصحابِ رسول ہی کو اپنی زندگی کا مرکزی نقطہ اور اور اپنے اتصال و انقطاع کی اساسی بنیاد بنائیں گے، وہی اس کا استحقاق پائیں گے کہ انہیں کل روزِ قیامت فلاح و نجات و سرخروئی نصیب ہو۔ یہ لوگ کسی مخصوص جماعت و فرقے کے ممبران نہیں ہوں گے بلکہ اس پھیلی ہوئی اور کروڑوں کی تعداد پر مشتمل امتِ مسلمہ کے وہ تمام افراد، چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے، ملک، معاشرے اور تنظیم و جمیعت کے ساتھ ہو، اس زمرے میں شامل ہوں گے جو واقعتا اسلام کے مخلص پیرو اور رسول و اصحابِ رسول کے نقوش و آثار و امثال کی سچی جستجو اور اتباع کرنے والے ہوں گے۔ دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی امتِ مسلمہ کے درجنوں ممالک میں سے کسی ایک ملک و سماج کی متعدد و بے شمار جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت و تحریک و تنظیم کو اس حدیث میں بشارت یافتہ فرقۂ ناجیہ کا مصداق ٹھہراناکم فہمی، ناسمجھی اور کور ذوقی کی ایک شاہکار و عجوبہ مثال کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ذرا حدیث کے آخری توضیحٰ حصے پر بھی تدبر فرمالیجیے کہ جب سائل پوچھتا ہے کہ وہ فرقہ ناجیہ کون ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ نہیں دیا جاتا کہ وہ اس نام یا نشان کا طبقہ ہوگا بلکہ فرمایا جاتا ہے کہ اس کی خصوصیت، صفت اور روش یہ ہوگی کہ وہ میرے اور میرے ہدایت یافتہ اصحاب کے طریقے پر چلے گا۔ آپ کے الفاظ میں فرقہ ناجیہ وہ ہوگا جس کے افعال و اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوں گے۔ آپ کی یہ تشریح بھی یہی بتارہی ہے کہ حدیث کسی ایک طبقے، ٹولے اور مخصوص فرقے کے نجات یافتہ ہونے کی بات نہیں کررہی ہے بلکہ وہ اس خصوصیت، صفت اور طرزِ عمل کو واضح کررہی ہے جس کے باعث کوئی طبقہ نجات یافتہ ٹھہرے گا۔ رسول و اصحابِ رسول کے طریقے سے مطابقت ہی وہ وصف ہوگا جو مسلمانوں کے ان افراد و طبقات کو ایک جماعت "فرقۂ ناجیہ" کا مصداق بنائے گا جن میں یہ وصف و خصوصیت موجود ہوگا اور جنہوں نے اسے اپنا کر زندگی گزاری ہوگی۔ [/size=4][/b][/right][/green] [green][right][b][size=4]آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ حدیث میں ایک فرقے کے ہدایت و نجات یافتہ ہونے کی بات کی گئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی فرقے میں شمولیت اختیار کرکے اس کے رفیق و ممبر بنیں۔ اچھا جناب تو پھر ذرا یہ بھی بتادیتے کہ آں جناب کی نظر میں اس وقت وہ فرقہ کون سا ہے، کس ملک میں پایا جاتا ہے جس سے مسلمانوں کو اپنا تعلق استوار کرکے اپنی نجات کا سامان کرنا اور اپنی آخرت کے مستقبل کو محفوظ بنالینا چاہیے اور یہ کہ کیا آں جناب اس کے رفیق و ممبر بن چکے اور ہدایت و نجات یافتگی کا سرٹیفیکیٹ حاصل فرماچکے ہیں یا نہیں۔ آپ کی یہ تجویز اور مشورہ جو نتیجہ پیدا کرے گا وہ یہ کہ مسلمانوں میں فرقہ پرستی کا مرض کچھ اور بڑھ جائے اور ان میں فرقہ بندی کا رجحان کچھ مزید ترقی کرجائے، جب کہ حدیث کا صحیح مطالعہ مسلمانوں میں یہ ذہن بنائے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رسول و اصحابِ رسول کے طریقے کے مطابق ہونے اور اپنے اپنے حلقوں اور جماعتوں میں بھی اسی رنگ کو پیدا کرنے اور گہرا بنانے کی تگ و دو کریں۔ اس طرح کے امور پر ایک فورم پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے ایک تحریر لکھی تھی، وہ آپ کے لیے پیش ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ اس معاملے کو اچھی طرح سمجھنے میں شاید آپ کو مدد دے سکے۔[/size=4][/b][/right][/green] [purple][b][size=5][center]الجماعہ سے مراد[/center][/size=5][/b][/purple] [black][b][right][size=4]الجماعہ اسلامی لٹریچر اور احادیث میں اپنے لغوی مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے اور ایک خاص اصطلاحی مفہوم میں بھی۔ جس حدیث میں اہلِ حق فرقے کو جماعت بتا کر اس کا وصف اتباعِ ما انا علیہ و اصحابی بتایا گیا ہے وہاں یہ اپنے لغوی مفہوم، جماعت، گروہ اور ٹولہ کے مفہوم میں ہے اور جن احادیث میں مسلمانوں کو ’الجماعہ‘ سے وابستہ رہنے کی تاکید و تلقین کی گئی اور اس سے علیحدگی اور بغاوت کو جرم اور گمراہی بتایا گیا وہاں یہ اپنے خاص اصلطلاحی مفہوم ’(مسلمانوں کے) سیاسی اقتدار‘ کے معنیٰ میں ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس باب کی دوسری روایات میں الجماعہ کی جگہ السلطان کا لفظ موجود ہے جو صراحتاً نظمِ اقتدار کی طاقت اور سیاسی قوت کے مفہوم میں ہے اور واضح ثبوت ہے کہ الجماعہ سے مراد بھی کسی اسلامی معاشرے میں برسرِ اقتدار گروہ اور نظمِ حکومت کے سربراہ کار ہیں ۔ مسلمانوں کو انارکی، طوائف الملوکی اور سیاسی و اجتماعی خلفشار سے بچانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے زمانے میں فتنوں کے سر اٹھانے ، اسلامی نظمِ اقتدار کے معیاری حالت میں برقرار نہ رہنے اور اس میں خرابیوں اور خامیوں اور حکمرانوں کے اخلاق و کردار میں گراوٹوں کے در آنے کے باوجود انہیں باہم متحد رہنے اور انتشار و خلفشار سے محفوظ رہنے کے لیے یہ تلقین و نصیحت فرمائی ہے کہ وہ ہر حال میں مسلمانوں کی اجتماعی مرضی سے وجود میں آنے والے نظام اور اس کے امراء سے اطاعت و معاونت کا رویہ اپنائے رکھیں اور ہر گز خروج و بغاوت کا راستہ اختیار نہ کریں ۔ اس الجماعہ کا کوئی تعلق مسلمانوں کی کسی اصلاحی و انقلابی جماعت اور اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت اور اس کی کلی و غیر مشروط اطاعت و تقلید سے نہیں ہے ۔ بلکہ یہ سر تا سر مسلمانوں کے اجتماعی سیاسی اقتدار اور اس کے سربراہ کاروں سے متعلق ہے ۔ [/size=4][/right][/b][/black] [right][size=4][b]باقی آج مختلف مسلمان اور ان کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں خود کو معیاری جماعت اور حق یافتہ گروہ ثابت کرنے کے لیے جس طرح ایک حدیث پیش کر کے اور اس میں سے من مانا مفہوم نکال کر ایڑ ی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔اور یہ گمان کرتے ہیں کہ بس وہی حق پر ہیں اور باقی ہر مسلم گروہ و جماعت اور تحریک و تنظیم گمراہ و بے دین اور اللہ معاف کرے جہنمی اور دوزخی ہے ، اس حوالے سے اسٹڈنگ اسلام ہی کے جنرل ٹاپکز کے سب سیکشن ینگ مائنڈز کے ٹاپک ’سلفی‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے جو کچھ عرض کیا تھا، اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں ۔[/b][/size=4][/right] [right][b][blue]سلفی یا اہل سنت و الجماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر چلنے والے لوگوں کو کہتے ہیں۔ جو قرآن اور سنت کو اپنی بنیاد بناتے ہیں مگر اس زمانے میں جو لوگ دراصل ایک ٹولہ، جماعت یا فرقہ بن چکے ہیں۔ اپنے آپ کو برسرِ حق گردانتے اور دوسروں کو باطل کا علمبردار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے اپنے آپ کو سلفی یا اہل سنت والجماعت قرار دے لینے سے ان کا تعلق اس اصل سلفی و اہل سنت والجماعت طبقے سے نہیں جڑ جاتا۔ کیوں کہ اصلاً یہ ایک صفاتی نام ہے نہ کہ گروہی اور جماعتی۔ مطلب یہ کہ کون سلفی ہے یا اہل سنت والجماعت ہے اس کا فیصلہ اس کا اپنا نام سلفی وغیرہ رکھ لینا یا سلفی اور اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعویٰ کرنا جیسی بنیادوں پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اس عمل و طریقے کی اساس پر ہوگا کہ وہ واقعتا قرآن و سنت کو اپنی بنیاد بناتا اور اپنے دینی فکر و اثاثے کی انہیں حقیقی سورس بناتا ہے کہ نہیں۔ [/blue][/b][/right] [blue][right][b]اس وقت مسلمانوں کی کتنی ہی جماعتیں اور فرقے اس بات کے دعویدار ہیں کہ تنہا وہی سلف صالحین کے طریقے اور اہل سنت و الجماعت کے راستے پر گامزن ہیں اور دوسرے تمام فرقے اور جماعتیں گمراہ و بے راہ ہیں۔ کیا ان میں سے ہر ایک کے دعوے کو درست تسلیم کرلیا جائے اور کیا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان سب کو اہل حق اور سلفی اور اہل سنت والجماعت تسلیم کرلیا جائے۔ یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے۔ [/b][/right][/blue] [blue][right][b]اصل بات یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین قرآن و سنت و احادیث کی شکل میں چھوڑا ہے۔ صحابہ کرام کی طرح اسے مضبوطی سے پکڑا جائے، اس پر پوری وفاداری و استواری سے عمل کیا جائے اور اپنے حق اور دوسروں کے باطل ہونے کے دعوے اور اعلانات کرنے کے بجائے علمی و فکری اختلافات کے حوالے سے وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے تمام مسلمانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ تسلیم کیا جائے کہ نجات کا دار و مدار ہمارے یا کسی دوسرے فرقے اور جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کون اس طریقے کے مطابق چلا اور کس نے اپنے عقل و ضمیر کے مطابق جس بات کو حق سمجھا اس پر ہر طرح کے حرص و تخویف اور تعصب و ہٹ دھرمی جیسے محرکات سے بالا تر ہوکر ثابت قدمی اختیار کی۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے امام شافعی کا یہ بیان اس باب میں مثالی نمونے کا مقام رکھتا ہے کہ ہم اپنی راے کو درست سمجھتے ہیں لیکن اس میں خطا کا امکان تسلیم کرتے ہیں اور ہم دوسروں کی راے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس میں درستی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔[/b][/right][/blue] [blue][right][b]حق پسند مسلمانوں کو یہی رویہ زیب دیتا ہے ۔ کیوں کہ ان میں سے کسی پر بھی وحی و الہام نہیں ہوتا کہ وہ یہ گمان کرنے لگے کہ بس اسی کی راے اور روش درست اور مطابق حق ہے اور دوسروں کا تمام کا تمام سرمایہ باطل و خرافات ہے۔ اسی راستے سے مسلمانوں کے اندر رواداری، علمی و فکری آداب، شائستہ و معقول اختلاف کی روایت اور سنجیدگی و استدلال کے دائرے میں رہتے ہوئے تبادلۂ خیالات کا ماحول عام ہوگا۔ آج امت مسلمہ کے افراد میں اتحاد و اخوت پیدا کرنے کے لیے اسی رویے کو سب سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔"۔۔۔۔۔۔[/b][/right][/blue][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top