Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][green][size=4][b]۔۔۔۔۔۔ڈیئر ذیشان الحق بھائی صاحب، سلام و آداب۔ اللہ کرے کہ آپ بمع احباب عافیت و راحت کے ساتھ ہوں۔ آپ سے کافی بات ہوگئی لیکن شاید ہم کسی اتفاقی منزل و نتیجے تک نہیں پہنچ پائے۔ میری خواہش ہے کہ بات کو کچھ مزید واضح کرتے ہوئے کسی اتفاقی بنیاد تک پہنچنے کی کوشش زیادہ مفید ہوگی۔ لہٰذا میں آپ سے براہِ راست چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے بتائیے کہ آخر وہ کون سی اساسات یا بنیادی اسلامی اعتقادات ہیں جن کو ماننا ایک مسلمان پر لازم ہے اور جس کی بنیاد پر اس کے ایمان و کفر کا مدار ہوتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان خدا کی توحید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت، قرآن کے آخری الہامی و آسمانی محفوظ و بے آمیز ہدایت اور قیامت کے حقیقت و بر حق ہونے جیسے اساسی اسلامی تصورات پر اعتقاد و اطمینان رکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ ٹولوں اور طبقوں کے غلط خیالات اور گمراہی پر مبنی تصورات کو بنیاد بناکر ان کے خارج از اسلام ہونے یا بہت ہی سخت و شدید الفاظ میں کافر ہونے کا ضرور یقین رکھے۔ افراد اور جماعتوں کے کفر و ایمان کا فیصلہ کرنا خدا کا معاملہ ہے یا اس کے بندوں کو بھی اس میں کچھ عمل دخل ہے۔ کسی شخص یا جماعت کے غلط اور انحراف پر مبنی خیالات و اعلانات کن محرکات و احوال پر مبنی ہیں، اس کے جاننے کا کیا ذریعہ انسانوں کے پاس میسر ہے۔ کیا خدا نے اپنے دین میں علما و مفتیانِ کرام کو یہ حق و منصب دیا ہے کہ وہ لوگوں کے بظاہر کفریہ عقائد یا مشرکانہ معمولات کو بنیاد بناکر ان کے کفر اور خارج از اسلام ہونے کے فتوے نشر فرمائیں۔ براہِ مہربانی مجھے ان سوالوں کے بالدلائل جوابات دے دیجیے، اس کے بعد اس موضوع پر مزید بات کرلیں گے۔ [/b][/size=4][/green][/right] [size=4][green][right][b]باقی جہاں تک میری رائے ہے اسے میں اپنے ایک دوسری جگہ لکھے ہوئے الفاظ کی صورت میں آپ کے سامنے بیان کردیتا ہوں۔[/b][/right][/green][/size=4] [red][right][size=4][b] خدا نے کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان کے ایمان و کفر کا فیصلہ کرنے اور اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں کوئی اعلان فرمانے کا کوئی حق و اختیار ہرگز نہیں دیا۔ لہٰذا ہم کسی کی غلطی اور اس کی راے اور مؤقف کی کجی و گمراہی تو بیان کرسکتے اور اس راے اور مؤقف کو غلط، نادرست، خلافِ حقیقت، منافیٔ اسلام اور گمراہانہ وغیرہ قرار دے سکتے ہیں لیکن کسی خاص شخص کے دین و ایمان اور خدا کی بارگاہ میں اس کے مقبول و مردود ہونے کا فیصلہ دینے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ ایک نہایت سنگین جسارت اور فعلِ شنیع کا ارتکاب کرتا اور خود کو خدا کی بارگاہ میں مأخوذ ٹھہرائے جانے کے لیے خطرے کی کھائی میں جھونکتا ہے۔ یہ غلطی اُس وقت اور زیادہ سنگین و بدترین ہوجاتی ہے جبکہ کوئی شخص ہمارے زعم و فہم میں کسی علمی و عملی شرک جیسی غلطی میں تو مبتلا ہو لیکن وہ اسے شرک تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ ہو اور اپنے مسلمان ہونے کا باصرار اعلان کررہا ہو۔ ایسی حالت میں کسی کو بددین یا دین سے خارج قرار دینا یقیناً ایک ناقابلِ معافی جرم اور گھناؤنی ترین حرکت ہے۔[/b][/size=4][/right][/red] [size=4][right][b][green]میں سمجھتا ہوں کہ ایک حساس، شریف، درد مند اور خدا سے دڑنے والے مسلمان کو سب سے زیادہ فکر اپنی آخرت کی ہونی چاہیے نہ کہ کسی فرد یا جماعت و گروپ کو اہلِ ایمان یا ایمان و اسلام کے دائرے سے خارج قرار دینے کی۔ میرا نہیں خیال کہ کل روزِ قیامت ہمارا خداوند ہم سے دوسرے افراد اور جماعتوں کے اعمال و افعال اور افکار و نظریات کی بابت سوال و مؤاخذہ فرمائے گا اور ان کی غلطیوں اور گمراہیوں کے حوالے سے ہمیں بھی کسی حد تک ذمہ دار ٹھہرائے گا۔ ہمیں فکر و عمل کے باب میں پائی جانے والی چھوٹی بڑی غلطیوں سے لوگوں اور سوسائٹی کو آگاہ و خبردار تو بہرحال ضرور کرنا چاہیے لیکن ان کو بنیاد بناکر ہم اگر لوگوں اور گروپوں کے ایمان و کفر کے فیصلے دینے لگ جائیں، تو یقیناً یہ اپنے حدود سے تجاوز اور خدائی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہوگا۔ کفر کا مطلب دعوتِ حق کا واضح انکار ہوتا ہے نہ یہ کہ میں اور آپ اپنے طور پر کسی کے خیالات میں کوئی گمراہی اور کسی کے افعال میں کوئی شرک و کفر محسوس کرلیں۔ اگر ہمیں ایسا کوئی احساس ہو بھی تب بھی ہمیں اس عقیدے اور عمل ہی کی غلطی اور شناعت کی وضاحت تک محدود رہنا چاہیے نہ یہ کہ ہم اس کو بنیاد بناکر اس کے حامل کسی فرد اور جماعت کو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کی جسارت فرمانے لگیں۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ کسی مسلمان کو براہِ راست کسی فرد یا طبقے کے بارے میں یہ احساس اور رائے رکھنی چاہیے کہ وہ دینِ اسلام سے خارج اور اہلِ کفر میں سے ہے۔ یہ میرے نزدیک اتنی زیادہ بھاری ذمہ داری اپنے سر مول لینا ہے جس کا تحمل کل قیامت کے دن خدا کے روبرو مؤاخذے کے وقت کوئی بھی مسلمان ہرگز نہ کرسکے گا۔[/green][/b][/right][/size=4] [right][b][size=4][green]باقی آپ جو اچھے علما اور ان کی کتابوں کی کچھ تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق و رجحان ہوتا ہے۔ آپ ہر اچھے مسلم عالم کو سنیے اور پڑھیے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت اور تنظیم سے ہو۔ میں نے آپ کو اپنے نزدیک ایک اچھے عالم و اسکالر کا کیا معیار ہے وہ ان الفاظ میں پہلے ہی بتادیا ہے[/green][/size=4][/b][/right] [right][b][size=4][red]میرے نزدیک ہر وہ عالم و اسکالر قابلِ احترام و لائقِ پیروی ہے جو قرآن و سنت کا گہرا علم رکھتا، مسلم محققین و مصنفین کے پیدا کردہ علمی ذخیرے کا وسیع مطالعہ رکھتا ہے اور اچھے اور ممتاز اخلاق و کردار کے ساتھ معاشرے میں زندگی گزارتا ہے۔ اختلافی معاملات میں ہمیں اُس عالم و اسکالر کی رائے قبول کرنی چاہیے جس کے دلائل زیادہ قوی و معقول ہوں اور جس پر ہم اپنے علم و تجربہ کی بنیاد پر زیادہ اعتماد رکھتے ہوں۔[/red][/size=4][/b][/right] [size=4][right][green][b]آخر میں آپ سے دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں، والسلام مع الحب والاکرام۔۔۔۔۔۔۔[/b][/green][/right][/size=4] Edited by: isfi22 on Monday, October 25, 2010 5:28 AM[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top