Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
Young Minds
>
Salafi?
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]مسلمان ہمارا واحد نام آج مسلمانوں کے اتنے ڈھیر سارے نام ہیں کہ جن کا شمار بھی کافی مشکل ہے ۔ مسلمانوں کی ہر تحریک، تنظیم اور ٹولی بالآخر اپنے لیے ایک الگ نام وضع کر لیتی اور مسلمانوں کے ناموں کی فہرست میں ایک اور نام کے اضافے کا کارنامہ انجام دے جاتی ہے ۔ آج ان کے ہاں اس بات کا تصور ہی محال ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور وہ کسی تنظیمی یا مسلکی نام سے منسوب ہونے پر فخر نہ کرتا ہو۔ ملاقات کے موقع پر تعارف حاصل کرنے کی غرض سے آج مسلمان ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ مثلاً آپ دیوبندی ہو یا بریلوی، اہلِ حدیث ہو یا اہلِ سنت، سنی ہو یا شیعہ، حنفی ہو یا مالکی وغیرہ وغیرہ۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروعِ انسانیت سے انسانوں کو جو دین دیا اور جو مذہب پسند کیا ہے اس کا نام اسلام ہے ۔ تمام نبی اور رسول یہی دین لے کر آئے اور زندگی بھر اسی کی منادی کرتے اور دعوت دیتے رہے ۔ قرآن اس دین کے ماننے والوں کو ایک ہی نام دیتا ہے ، ’مسلم‘ جسے اردو میں ہم مسلمان کہتے ہیں ۔ تمام پیغمبر اپنا تعارف ’اللہ کے مسلم‘ کے طور پر کراتے تھے اور اپنی آل اولاد اور پیروکاروں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے کہ وہ خدا کے مسلم بنیں اور اسی حالت میں جییں اور مریں ۔ ’مسلم‘ اسلام سے ہے جس کے معنیٰ سرِ تسلیم خم کر دینے ، خود کو سپرد کر دینے اور خدا کے آگے جھک جانے کے ہیں ۔ دیکھیے کتنا پیارا نام ہے اور کتنا خوبصورت ہے اس کا مطلب۔ ایک مسلمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ خدا کے آگے ہمہ تن جھک جاتا ہے ، اپنے بہترین جذبات اور اپنی ساری توجہات کو اسی سے وابستہ کر لیتا ہے ، شب و روز اسی کی یادوں میں جیتا اور اسی کی عظمت و بڑ ائی کے احساسات میں گم رہتا ہے ، اپنی الفت و چاہت، خوف و خشیت، اعتماد و توکل اور بیم و رجا کو پورے جوش و ولولے سے اسی کے لیے خالص کیے رہتا ہے ، اپنی حاجات اور فریادیں اسی کے سامنے پیش کرتا اور اپنی ساری زندگی اسی کی سپردگی یعنی اس کی تعلیم و ہدایت کی پابندی و پیروی میں گزارتا ہے ۔ مختصراً یہ کہ خدا کے آگے جھک کر اور ڈھ کر اور اپنے آپ کو پوری نیازمندی و وفاداری کے ساتھ اس کے سپرد کر کے جینے کا نام اسلام اور مسلمانی ہے اور ایسے ہی انسان کو مسلم اور مسلمان کہا جاتا ہے ۔ کیا ایک انسان کے لیے اس سے زیادہ پیارا کوئی دوسرا نام ہو سکتا ہے ۔ یقینا نہیں ۔ تو پھر آخر ہم کیوں اس نام پر قناعت نہیں کرتے اور دوسرے دوسرے نام رکھنے اور انہیں اپنی پہچان بنانے پر اصرار کرتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Sam 10نے اچھا سوال اٹھایا اور Zahar68 نے اس کا کافی اچھا تفصیلی جواب دیا ہے۔ لیکن اس میں تھوڑی سی مزید وضاحت اور تصحیح کرلینی چاہیے کہ اصولی طور پر یہ جواب بلاشبہ بہت معقول و صحیح ہے کہ سلفی یا اہل سنت و الجماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر چلنے والے لوگوں کو کہتے ہیں۔ جو قرآن اور سنت کو اپنی بنیاد بناتے ہیں مگر اس زمانے میں جو لوگ دراصل ایک ٹولہ، جماعت یا فرقہ بن چکے ہیں۔ اپنے آپ کو برسرِ حق گردانتے اور دوسروں کو باطل کا علمبردار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے اپنے آپ کو سلفی یا اہل سنت والجماعت قرار دے لینے سے ان کا تعلق اس اصل سلفی و اہل سنت والجماعت طبقے سے نہیں جڑ جاتا۔ کیوں کہ اصلاً یہ ایک صفاتی نام ہے نہ کہ گروہی اور جماعتی۔ مطلب یہ کہ کون سلفی ہے یا اہل سنت والجماعت ہے اس کا فیصلہ اس کا اپنا نام سلفی وغیرہ رکھ لینا یا سلفی اور اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعویٰ کرنا جیسی بنیادوں پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اس عمل و طریقے کی اساس پر ہوگا کہ وہ واقعتا قرآن و سنت کو اپنی بنیاد بناتا اور اپنے دینی فکر و اثاثے کی انہیں حقیقی سورس بناتا ہے کہ نہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی کتنی ہی جماعتیں اور فرقے اس بات کے دعویدار ہیں کہ تنہا وہی سلف صالحین کے طریقے اور اہل سنت و الجماعت کے راستے پر گامزن ہیں اور دوسرے تمام فرقے اور جماعتیں گمراہ و بے راہ ہیں۔ کیا ان میں سے ہر ایک کے دعوے کو درست تسلیم کرلیا جائے اور کیا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان سب کو اہل حق اور سلفی اور اہل سنت والجماعت تسلیم کرلیا جائے۔ یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین قرآن و سنت و احادیث کی شکل میں چھوڑا ہے۔ صحابہ کرام کی طرح اسے مضبوطی سے پکڑا جائے، اس پر پوری وفادار و استواری سے عمل کیا جائے اور اپنے حق اور دوسروں کے باطل ہونے کے دعوے اور اعلانات کرنے کے بجائے علمی و فکری اختلافات کے حوالے سے وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے تمام مسلمانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ تسلیم کیا جائے کہ نجات کا دار و مدار ہمارے یا کسی دوسرے فرقے اور جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کون اس طریقے کے مطابق چلا اور کس نے اپنے عقل و ضمیر کے مطابق جس بات کو حق سمجھا اس پر ہر طرح کے حرص و تخویف اور تعصب و ہٹ دھرمی جیسے محرکات سے بالا تر ہوکر ثابت قدمی اختیار کی۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے امام شافعی کا یہ بیان اس باب میں مثالی نمونے کا مقام رکھتا ہے کہ ہم اپنی راے کو درست سمجھتے ہیں لیکن اس میں خطا کا امکان تسلیم کرتے ہیں اور ہم دوسروں کی راے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس میں درستی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔ حق پسند مسلمانوں کو یہی رویہ زیب دیتا ہے ۔ کیوں کہ ان میں سے کسی پر بھی وحی و الہام نہیں ہوتا کہ وہ یہ گمان کرنے لگے کہ بس اسی کی راے اور روش درست اور مطابق حق ہے اور دوسروں کا تمام کا تمام سرمایہ باطل و خرافات ہے۔ اسی راستے سے مسلمانوں کے اندر رواداری، علمی و فکری آداب، شائستہ و معقول اختلاف کی روایت اور سنجیدگی و استدلال کے دائرے میں رہتے ہوئے تبادلۂ خیالات کا ماحول عام ہوگا۔ آج امت مسلمہ کے افراد میں اتحاد و اخوت پیدا کرنے کے لیے اسی رویے کو سب سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔[/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top