Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
Young Minds
>
Celebrating Prophet Muhammad (pbuh)'s Birthday
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][quote][b]25-05-2010 خدا کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جاننے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کے سامنے بندگی، انسانیت اور اعلیٰ اخلاق و بلند کردار و بہترین سیرت کا آخری آئیڈیل نمونہ پیش کیا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں آپ کی اسی پہلو سے بڑی تحسین فرمائی ہے۔ آپ کے دشمن و مخالف بھی آپ کے برتر و بے مثل اخلاق کریمانہ کے گرویدہ تھے۔ بچوں کے ساتھ، خواتین کے ساتھ، بے زبان جانوروں کے ساتھ، ساتھیوں کے ساتھ، ماتحتوں کے ساتھ، دشمنوں کے ساتھ، زیردستوں کے ساتھ، حکمرانوں کے ساتھ غرض ہر طرح کے انسانی تعلقات و روابط و معاملات میں کون سا اخلاق و سلوک و برتاؤ آئیڈیل ہوسکتا ہے، یہ جاننے کے لیے کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ صحابۂ کرام کی زندگیوں کی کتاب میں اس کا بہترین و اعلیٰ ترین و حسین ترین نمونہ دیکھ سکتا ہے۔ آپ سراپا محبت و شفقت تھے۔ اپنے ہوں یا غیر محمد عربی کا دامن ہر ایک کے لیے وسیع و کشادہ تھا۔ آپ ہر ایک کی دلداری، مہمان داری اور رعایت و پاسداری فرماتے تھے۔ آپ مجسم رأفت و عنایت تھے۔ انتہائی فیاض و سخی تھے۔ دشمنوں کی ایذاؤں اور مخالفتوں پر صبر کیسے کیا جاتا ہے اور دل کو بڑا اور کشادہ کرکے دشمنوں پر قابو پانے کے بعد انہیں سزا دینے اور ان سے بدلہ لینے کے بجائے انہیں معاف کرکے اور ان کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرکے ان کا دل کس طرح جیتا جاتا ہے، اس کا بہترین آئینہ سیرت محمدی ہے۔ خدا کی بندگی و شکرگزاری کسے کہتے ہیں۔ خدا کے ساتھ گہرا عابدانہ و نیازمندانہ تعلق کیا ہوتا ہے۔ اپنے جذبات اور سرفروشیوں کو اپنے معبود و پرودگار کو کس جاں نثاری کے ساتھ ہدیہ و نذر کیا جاتا ہے۔ اور مشکل و آسان زندگی کی ہر ہر گھڑی میں کیسے خدا پر بھروسہ کیا جاتا اور اپنے اعتماد و توکل کو اس پر قائم رکھا جاتا ہے۔ سخت لمحات اور پر ہول و دہشت تجربات میں کیسے ثابت قدم رہا جاتا اور ڈٹا جاتا ہے ایسی ہر بات کے لیے آپ کی زندگی کے مبارک و پاکیزہ اوراق سبق اور مثالوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اور سب سے بڑی سچائی یہ ہے جسے غیر مسلم محقیقن و مؤرخین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ آپ اور آپ کے تربیت یافتہ اصحاب کے مثالی اخلاق و کردار کے بل پر پھیلا اور دنیا کے کونے کونے میں پہنچا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے سب سے اہم بات یہ رہی ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کو اپنی زندگیوں میں اپنانے اور لانے کی کوشش کریں۔ اسلام کے معاملے میں واحد مثالی جماعت جماعت صحابہ نے بھی اسی روش کو اپنایا اور نتیجتاً عروج و ترقی کو پایا تھا۔ آج بھی مسلمانوں کے لیے یہی سب سے بڑی ضرورت اور سعادت کی بات ہے کہ وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش سیرت کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں، آپ کے روشن و پاکیزہ اسوے کو اپنائیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو آپ کی تعلیمات اور آپ کی زندگی کے واقعات کے مطابق منظم کریں۔ (اسفندیار عظمت) Isfi22@gmail.com ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ http://www.al-mawrid.org/pages/dl.php?book_id=69 مذکورہ لنک جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب "مقامات" پی ڈی ایف فارمٹ میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے ہے۔ یہ کتاب ان کے سالوں پر محیط قلمی سفر کے دوران لکھی گئی متفرق تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس میں صفحہ نمبر ۹۲ پر ان کا ایک مضمون "دیدۂ صورت پرست ما ست" میلاد النبی کے حوالے سے ایک لائق مطالعہ آرٹیکل ہے۔ جو اس سلسلے میں کسی مؤقف یا راے قائم کرنے کے سلسلے میں کافی اسی لیے یہ لنک میں نے یہاں ایڈ کیا ہے۔ (اسفندیار عظمت) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ٹاپک پر سب کی بات پڑھنے کے بعد میں براہِ راست طور پر کسی کو مخاطب کیے بغیر چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں: میلاد النبی ایک باقاعدہ رسم و تہوار کی شکل میں بلاشبہ جدید چیز ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس میں مزید جدتیں اور نئی نئی چیزیں شامل ہوتی چلی جارہی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ثابت شدہ بات ہے کہ اسلام کے اولین ادوار اور بعد کی بھی کئی صدیوں میں اس رسم و تہوار کا کوئی خاص تو کیا عام سے عام نشان و پتہ نہیں ملتا۔ پھر موجودہ زمانے میں بھی یہ ملت مسلمہ کی سطح پر رائج کوئی عمومی طریقہ نہیں ہے بلکہ بہت سے اسلامی ممالک اس طرح کی چیزوں سے آج بھی سراسر ناواقف و لاعلم ہیں۔ یہ تفصیل واضح کردیتی ہے کہ یہ ایک نو ایجاد شدہ چیز ہے جسے مسلمانوں کے ایک حصے اور چند گنے چنے ممالک کے مسلمانوں نے اپنی ذاتی حیثیت و پسندیدگی کی بنیاد پر اختیار کررکھا ہے۔ اس کے جواز کے لیے جو علمی و استدلالی گفتگو اور فقہی و استنباطی مواد پیش کیا جاتا ہے اس سے قطع نظر اگر اسے سادہ معنوں میں سیرتِ نبوی کے واقعات اور اسوۂ رسول کے نقوش بیان کرنے کی ایک مجلس کے انداز میں منعقد کیا جائے اور میلاد النبی اور جشن ولادت جیسے ناموں اور اصطلاحوں سے پرہیز کیا جائے تو پھر اس پر اعتراض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ اگرچہ یہ سوال پوری قوت کے ساتھ باقی رہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کی جان اور شان ہے۔ آپ ہماری ایمانی و اسلامی زندگی کے صبح و شام کی روشنی اور آفتاب و ماہ تاب ہیں۔ آپ کا تذکرہ اور آپ کے سیرت و کردار کے نقوش وغیرہ کا بیان اسلامی معاشرے میں ہر لحظہ و آن جاری و ساری رہنا چاہیے۔ تو پھر یہ ایک خاص دن یا مہینے میں اس طرح کی باقاعدہ مجالس و محافل کا انعقاد کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ تاہم اس انداز و اسلوب اور خرافات و بدعات سے پوری طرح پرہیز کے ساتھ اسے بہرحال گوارا کرلیا جاسکتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ میلاد النبی جیسی چیزوں کے انعقاد کا نہیں ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے اور آپ کے کمالات و اختیارات کے حوالے سے بعض مسلمان حلقوں کے جو خیالات و تصورات ہیں وہ اصلاح کے متقاضی ہیں۔ میلاد جیسی چیزیں تو اصل میں علامت اور مختلف نتائج میں سے ایک نتیجہ ہیں۔ اصل اساسات وہ تصورات و نظریات ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے وابستہ کرلیے گئے ہیں اور انہیں ایمان و اسلام اور آپ کے ادب و احترام کی بنیاد و معیار بنالیا گیا ہے۔ اس تحریر میں زیادہ تفصیل میں جانا ممکن و مناسب نہیں ہے۔ اس لیے ان اشارات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ تاہم اصل دیکھنے کی چیز قرآن و سنت و احادیث کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا طریقہ و طرز عمل اور اسلام کا مقصد و نصب العین ہے جن کی روشنی میں اس طرح کی چیزوں کی گنجائش ثابت کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اسلام خدا کی بندگی سکھانے اور انسان کو اس دنیا کی آلائشوں سے بچ کر پاکیزگی اختیار کرنے کی تعلیم دینے آیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ ہم اس طرح کی وقتی و عارضی و نمائشی مجالس منعقد کرکے آپ کی شخصیت و کمالات کا غیر واقعی، خلاف حقیقت، مبالغہ آمیز اور خودساختہ نقشہ کھینچیں اور سمجھیں کہ ہم نے آپ کی محبت و اتباع کا حق ادا کردیا۔ یہ حق آپ کی پیروی میں ایمان و عمل صالح کی مجاہدانہ زندگی اختیار کرنے، دین کی نصرت و دعوت کو اپنی زندگی کا مشن بنانے اور اس راہ میں آنے والی تمام مشکلات، تکالیف اور پریشانیوں کا صبر و ہمت کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے جمے رہنے سے ادا ہوگا۔ اس طرح کی وقتی مجالس اور نمائشی جلوسوں کی دھوم مچانے سے نہیں۔ (اسفندیار عظمت) Isfi22@gmail.com [/b][/quote][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top