Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][size=4][blue]محترم آپا/آنٹی جان، آداب۔۔۔۔ بڑی نوازش و کرم نوازی کہ آپ نے یہ فرمایا کہ آپ کو بہرحال کسی حد تک مجھ بے مایہ طالبعلم سے اتفاق و اتحاد ہے، گو کہ موجودہ ابتر و دگرگوں حالات کے پیشِ نظر میرے فارمولے اور نظریے کے مطابق انقلاب و تبدیلی آپ کو بہت دور دکھائی دیتی اور میرے تجویز کردہ لائحۂ عمل پر چلنے کی صورت میں کہیں پچاس یا سو سال میں رونما ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ میں عرض کروں گا کہ فارمولا بہرحال درست و کارآمد ہونا چاہیے، چاہے اس کو اپنانے اور زیرِ عمل لانے کے نتیجے میں ایک طویل عرصے تک آپ کو محنت و مشقت اٹھانی اور انتظار کی زحمت جھیلنی پڑے، کیوں کہ نادرست و غیر مفیدِ مطلب طریقہ اپنانے کی صورت میں آپ نہ صرف اپنی محنت و کوشش و قربانی اور وقت و وسائل کا بے تحاشا قیمتی ذخیرہ صَرف و برباد کرتے ہیں بلکہ نادرست و ناموزوں لائحۂ عمل آپ کو آپ کی منزل تک بھی کبھی نہیں پہنچاتا، نہ پچاس سال میں اور نہ سو سال میں۔ بلکہ وہ الٹا آپ کو مایوسی اور ذہنی و نفسیاتی انتشار اور نتیجتاً بیزاری، تشدد، عدمِ رواداری اور جبر و زبردستی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں جب آپ اپنے مطلوب تک نہیں پہنچ پاتے اور بار بار جدوجہد فرمانے کے باوجود ناکام و نامراد ہی رہتے ہیں تو آپ کی قوتیں اور صلاحتیں مفلوج ہونا اور آپ کے ذہن و اعصاب پر یاس و غم کی کیفیات بسیرا کرنا شروع کردیتی ہیں۔ آپ کی روح بجھ جاتی اور جذبات اشتعال و انتشار کا شکار بن جاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ صرف اور صرف غیر متوازن ذہنی کیفیت اور پرتشدد و نامعقول کاروائیوں ہی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ میرے زاویۂ نظر اور تجویز کردہ لائحۂ عمل میں گو منزل بہت دور جاکر حاصل ہوتی محسوس ہوتی ہے تاہم وہ ان خرابیوں اور مفاسد سے بہرحال پاک و محفوظ راہ ہے، کیوں کہ اس راہ پر چلنے انسان کو بہرکیف یہ اطمینان رہتا ہے کہ وہ درست سمت میں پیش قدمی کررہا اور جانبِِ منزل قدم دو قدم ہی سہی، تاہم مستقلاً بڑھ رہا ہے۔ مزید یہ کہ تبدیلی، تغیر اور انقلاب وہی دیرپا، کارآمد، مفید نتائج و ثمرات کا حامل اور صدیوں تک آنے والی نسلوں کو فیضیاب کرنے والا ہوتا ہے جو تدریجاً آئے اور آہستہ آہستہ ظہور کرے۔ اچانک اور یکبارگی آنے والی تبدیلیاں اور انقلابات ایک تو اپنے رونما ہونے کے دورانیے میں بے شمار فتنے اور فسادات سمیٹے ہوتے ہیں۔ دوسرے ان میں استحکام و پائداری مفقود ہوتی ہے اور وہ اپنی حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے محض وقتی تماشے اور عارضی ڈرامے ہوتے ہیں۔ ان پہلوؤں کے پیشِ نظر کسی معقول و صاحبِ بصیرت انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی سماج و معاشرے میں انقلاب و تبدیلی لانے کے لیے فکری و ذہنی بیداری لانے اور مزاج و عادات کو بدلنے کے کٹھن و طویل راستے کو چھوڑ کر جبر و تشدد اور مسلح جنگ و جہاد کے پر خطر و موجبِ بگاڑ و فساد بظاہر فوری طور پر نتیجہ خیز راستے کو اختیار کرنے کی غلطی کرنے پر کسی بھی حال میں راضی ہوگا۔ جو مظاہر و حالات آپ لوگوں کو زیرِ بحث نقطۂ نظر و لائحۂ عمل کے بارے میں شکوک و شبہات یا الجھنیں اور خدشات لاحق کیے ہوئے ہیں وہ موجودہ حالات ہیں۔ مسلمانوں میں غلبہ پائے ہوئے افکار و نظریات اور مقبول و مروج طریقے اور طرزِ ہائے عمل اور پھر ان سارے عوامل کی مل جل کر پیداکردہ موجود الوقت حالت و کیفیت ہے۔ آپ اسی منظر نامے میں کھڑے ہوکر جب جائزہ لیتے اور غور فرماتے ہیں تو وہ ساری باتیں اور اندیشے آپ کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں جن کی طرف آپ جیسے لوگ بار بار اشارہ فرماتے اور انہیں بنیاد بناکر ایک درست فارمولے اور صحیح راہِ عمل سے کتراتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ ماضی میں ابتدائے دورِ محمدی کی جانب نظرِ التفات نہیں فرماتے۔ اس وقت بھی شرک اور مشرکانہ روایات اور مشرکین کا ہر ہر شعبۂ زندگی پر غلبہ و تسلط جیسے مسائل اور رکاوٹیں موجود تھے۔ شاید ہم سے بہت ہی زیادہ خراب و خستہ حالات تھے، لیکن اس سب کے باوجود جب اذہان کو خدا کی بندگی، انسانیت دوستی و ہمدردی اور آخرت ترسی کے خیالات سے مفتوح و مغلوب اور دلوں کو صلاح و سنوار و پاکیزگی کی جانب مائل و منعطف کیا گیا تو تھوڑے ہی عرصے میں سماجی و معاشرتی پیمانے پر اس کے نہایت مفید و مؤثر نتائج و اثرات مرتب ہوئے اور حضور اور آپ کے اصحاب کی کوششوں سے جو تبدیلی اور انقلاب آیا اس کے اثرات کئی صدیوں تک اس امت کو مالامال و نہال کیے رہے اور ہزار سال تک یہ امت ایک شاندار تہذیب و اقتدار اور نہایت غیرمعمولی شان و شوکت اور عظمت و رفعت کی حامل و مالک بنی رہی۔ ہمارے حال کے منظر نامے میں گو مسلمانوں کے مسخ شدہ دینی و مذہبی افکار اور ان کے پیدا کردہ سیاسی و انقلابی و جہادی فکر و نظریے کے غلبے اور ان کی اپنے ان پرتشدد و اقتدار پسندانہ نظریات کے حصول میں وضع کی گئی سرگرمیوں اور کاروائیوں کے بنائے ہوئے ماحول و حالات میں مذکورہ پرامن و صابرانہ اپروچ کو اپنانے اور فکری و قلبی تبدیلی لانے کے طویل و پر انتظار طریقے پر چلنے میں بہت سی رکاوٹیں، مشکلات اور آزمائشیں موجود ہیں، تاہم جب ہم عقلی و ذہنی طور پر اس بات پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ درست راستہ، مفید طریقہ اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے موزوں و مناسب لائحۂ عمل یہی ہے تو پھر ہمیں پرانی لکیروں کو پیٹنےکا طریقہ ترک کرنا ہوگا، اپنے بھائی بندوں کے طعنوں اور نشتروں کا ہدف بننے کے لیے تیار ہونا ہوگا اور لمبی اور طویل صبر و انتظار آزما مشقت و جدوجہد کے قربانیوں بھرے راستے ہی کو دل و جان سے اپنانا ہوگا۔ آپ نے درست فرمایا کہ غربت و جہالت نے ہمارے عام آدمی کو اس وقت استحصال پسند افراد و طبقات کے ہاتھوں میں کھلونا بنا چھوڑا ہے، چاہے یہ استحصال پسند لوگ جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوں یا مذہب کے علم بردار و خدمت گار کا روپ ڈھارے ہوئے ہوں۔ یہ صورتحال بھی اسی بات کی متقاضی ہے کہ ہم عام لوگوں کو بھی دین و دنیا کے حوالے سے بیدار و متنبہ کریں۔ ان کے فکر و ذہن کو علم و تربیت اور رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے اندر بھی عالی دماغی، بلند سوچ، تنقید و تجزیہ کی صلاحیت اور مسائل و معاملات پر غور و فکر کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی کوئی راے وٖضع کرنے جیسی روایات پروان چڑھائیں۔ کامن مین کو بھی خود احتسابی اور اخلاقی اقدار کی بحالی کے حوالے سے حساس و متحرک بنائیں۔ اسے اختلاف کرنے اور اختلاف کو برداشت کرکے جینے کا حوصلہ فراہم کریں۔ اسے تحقیق اور مطالعے کا خوگر بنائیں۔ اس میں برداشت، بلند نگہی اور امن پسندی جیسی خوبیاں راسخ کرنے کی کوشش کریں۔ دین و مذہب سے تعلق جو ایک بے روح و بے جان و بے اثر و بے فیض رابطے کی شکل میں ڈھل گیا ہے، اسے شعوری اور مستحکم دینداری میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دینی معتقدات اوہام سے اٹھ کر روزمرہ کی زندہ حقیقتیں اور انسانی فکر و مزاج کی تشکیل کے بنیادی عوامل اور انسان کے حرکت و عمل کے اصل محرکات بن جائیں۔ خدا سے ربط و رشتہ زندہ و جاندار وابستگی اور اس سے زندگی کی ہر ہر کروٹ میں فریاد و استفادے کی سطح تک بلند ہوجائے۔ دین و مذہب کے حوالے سے مذکورہ خرابیاں اور تقلید و اندھی پیروی جیسے رویے بھی اسی بات کا شدت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو دینی حوالے سے تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیا جائے۔ انہیں براہِ راست دینی مأخذ سے ربط میں لایا جائے اور دین کے صحیح تصورات و افکار سے انہیں شناسا اور واقف بنایا جائے۔ دین و دنیا کے حوالے سے علمی و ذہنی بیدار ہی ان کے حوالے سے غلط رویوں اور بگاڑ زدہ طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں کہ جس طرح دوسرے فریب کاری، روحانی تقدس، مذہبی پیشوائی یا خاندانی و برادری کی سیادت و اقتدار جیسے ہتھکنڈوں سے پبلک کو اپنے پیچھے چلاتے اور انہیں گمراہیوں اور انحرافات کی دلدل میں پھنسائے رکھتے ہیں، آپ بھی اسی طرح کے ذرائع سے انہیں درست راستے اور صحیح شاہراہ پر لے آئیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اس معاملے میں راست و مؤثر ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو بیدار و باخبر کیجیے۔ انہیں صحیح باتوں سے آگاہ کیجیے اور جو خرابیاں ان کے علم و عمل اور کردار و سیرت کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ان کی غلطی و خامی ان پر واشگاف و واضح کیجیے۔ یہی ذہنی بیداری و باخبری لوگوں میں اصلاح و تبدیلی کا احساس جگائے گی اور یہ احساس جتنا مضبوط و مستحکم ہوتا جائے گا، انقلاب و تبدیلی اتنی ہی ان کے دل و دماغ، اخلاق و کردار اور ماحول و معاشرے میں نفوذ کرتی چلی جائے گی۔ انسان نے آخرت میں انفرادی طور پر ہی خدا کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ اس کی بہترین خیرخواہی یہ ہے کہ اسے انفرادی اصلاح و درستی کی راہ پر گامزن کردیا جائے۔ اس کی ذہنیت، نفسیات اور اخلاق و کردار کو مثبت و صالح بنیادوں پر استوار کردیا جائے۔ جب آپ اس سوچ و نشانے کے ساتھ معاشرے میں اصلاحی تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو لوگ فرداً فرداً سنورنا اور اصلاح پذیر ہونا شروع ہوتے ہیں اور جیسے جیسے اس ذہن و کردار اور معیار و مزاج کے لوگ معاشرے میں غالب اکثریت حاصل کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ معاشرہ بھی سدھرنا، سنورنا اور جنتی فضاؤں کی آماجگاہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔ آپ خود صالح اور با اخلاق و کردار بنیے اور دوسروں کو بھی صالح بننے کا درس و پیغام ساری زندگی دیتے رہنا اپنا مشن بنالیجیے، اس سے آپ کی آخرت بھی سنورے گی، خدا بھی آپ سے راضی ہوگا، آپ اپنے خالق، پیغمبر اور دین کے حقوق ادا کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے اور آپ کا اردگرد، خاندان، معاشرہ، قوم اور اجتماعی و اداراتی ڈھانچہ و سسٹم بھی امن و سکون اور چین و آشتی اور صالحیت و اخلاقِ محمودہ کے سائے میں آتا چلا جائے گا۔ یہ راہ و طریق گو طویل المیعاد اور بہت انتظار آزما سہی، تاہم تبدیلی لانے اور کسی سماج کو فلاح یافتہ اور اصلاح پذیر بنانے کے لیے واحد صحیح لائحۂ عمل ہے۔ [/blue][/size=4][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top