Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][size=4][right][blue]محترم برادرم و محترمہ آپا صاحبہ، آداب، تحیات اور اکرامات۔۔۔۔۔۔ الحمد للہ میں خیریت سے ہوں اور میرے والد بھی آہستہ آہستہ بہتری و صحت مندی کی جانب رواں دواں ہیں۔ آپ لوگ دعا کریں کہ خدائے کریم جلد از جلد انہیں بھلا چنگا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کردے، آمین۔ آپ لوگوں کے جوابات پڑھ کر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں سب سے پہلے آپ کو جتلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ التجا پیش کروں کہ وہ مجھے بھی وہ حاسۂ نگاہ، ذریعۂ کشفِ خفیہ حقائق اور کسی بھی انسان کے اندرون و باطن میں پیدا ہونے والی جذباتی، نفسیاتی اور تأثراتی واردات کو جان لینے کی خداداد صلاحیت و قوت عطا فرماے جو اُس نے آپ لوگوں کو دے رکھی ہے اور جس کے استعمال ہی کی بدولت آپ کو میری ناراضی و برہمی کا علم و احساس ہوا اور آپ نے مجھے یہ تلقین فرمائی کہ میں آپ کے تبصروں پر ناراض و برہم نہ ہوں بلکہ آپ لوگ بہت حد تک مجھ سے متفق و ہم خیال ہیں لیکن بس میرے انقلابی پروگرام کی تاثیر و نتیجہ خیزی کے حوالے سے کچھ تشویش و خدشات کا شکار ہیں کہ موجود الوقت ماحول اور انسانی طبائع و عادات کے ہوتے وہ ثمر بار بھی ہوسکے گا اور اگر ہوسکے گا تو کتنی طویل اور لمبی مدت میں۔ آپ لوگوں کی نصیحتیں اور تھپکیاں فرمارہی ہیں کہ میں ناراض و نالاں ہوں اور میری تحریر میں اس حوالے سے جذباتی برہمی کے مظاہر جھلک رہے ہیں، حالانکہ مجھے اپنے تن من دھن اور وجود کے پھیلاؤ اور سمٹاؤ اور ذہن و جذبات و نفسیات کے طول و عرض میں کوئی گتھی، سلگ اور برہمی نظر نہیں آتی۔ نہ جانے آپ لوگوں کے پاس وہ کون سا روحانی کمال اور کشفِ خفیہ معلومات کا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے آپ میرے حوالے سے اُس پراسرار اور خفیہ بات سے باخبر ہوگئے جس سے میں خود لاعلم و ناواقف ہوں۔ واقعی کمال اور لاجواب کارنامہ ہے، میری طرف سے داد و تحسین قبول کیجیے۔ لگتا ہے کہ آئندہ مجھے بھی اپنی تحریروں میں جا بجا سنجیدگی کو بالائے طاق رکھ کر لطیفے شامل کرنے اور ایک دو زوردار و گرجدار قہقہے لگانے پڑیں گے، تبھی آپ لوگوں کو یہ فیل ہوسکے گا کہ میں ناراض و نالاں نہیں تھا بلکہ محض سنجیدگی سے بحث میں پوری طرح محو و مستغرق تھا۔ اگر آپ لوگ نہیں چاہتے کہ میں بھی اس طرح کی تحریری مسخریاں سرانجام دوں تو براہِ کرم میری سنجیدگی اور بحث کے دوران کی محویت کو خوامخواہ ناراضگی و برہمی جیسی چھوٹی باتوں سے ملاکر مجھے واقعتا برہم مت کیجیے۔ میں کوئی ننھا بچہ تھوڑی ہوں جو آپ کے میرے ٹافی یا لولی پومپ جھپٹ لینے پر میں غصہ اور ناراض ہوجاؤں گا اور رو رو کر آپ کو کوسنا اور کھری کھری سنانا شروع ہوجاؤں گا۔ میں ان کیفیات کی سطح پر اترنے سے زیادہ دلچسپی ڈیبیٹ میں سنجیدہ رہنے اور پوری طرح افہام و تفہیم اور ٹھوس استدلال و تشریح کے دائرے میں کھڑے رہ کر بات کرنے سے لیتا ہوں۔ ہمارے اب تک کے مباحثے سے مجھ پر یہ واضح ہوا ہے کہ انقلاب کے موضوع پر اپنے خیالات میں نے جس خاص پس منظر میں بیان کیے تھے، مجھے اسے باقاعدہ طور پر پوری وضاحت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ میں نے کہیں کہیں اُس پس منظر کا اشاراتی تذکرہ کیا ہے لیکن شاید اس کی پیشکش و وضاحت کا حق ادا نہیں کیا۔ تبھی میری بات اور میرے خیالات کو صحیح تناظر میں سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے اور بہت سے دوسرے موضوعات و عنوانات بار بار درمیان میں چھڑ کر خلطِ مبحث کا منظر پیدا کررہے ہیں۔ لہٰذا میں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے اس موضوع پر جو تحریر لکھی تھی اس کا بیک گراؤنڈ مسلمانوں میں پایا جانے والا وہ عمومی رجحان ہے جو ماضی کے بڑے بڑے اسلامی مفکرین کی تحریروں اور لٹریچر نے مسلمانوں میں بہت گہرے اور پختہ طور پر راسخ و رائج کردیا ہے کہ اسلام اصلاً ایک انقلابی و سیاسی نظریہ ہے اور وہ اصلاً فرد کو مخاطب کرنے اور اس کی اصلاح و تربیت و تزئین کرکے اسے آخرت کی ابدی بادشاہی اور جنت کی اقامت گاہ میں رہائش کا مستحق بنانے کے بجائے ایک خاص قسم کا سوشل سسٹم رونما کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مزاج و سرشت یہ ہے کہ یہ سوسائٹی میں غالب و مقتدر ہوکر رہے اور اس کا قانون و شریعت سماج پر بالادست اور اس کے نظام میں مکمل طور پر جاری و ساری ہو۔ یہ کام تبلیغ و تلقین، منت سماجت، مطالبے اور احتجاج اور تعلیم و تربیت کے بجائے عملی اقدامات اور جنگی و جہادی سرگرمیوں کا متقاضی ہے۔ ٹھنڈے پیٹوں شیطان کے بندے، نفس کے غلام اور سیکولر طبقات ہمیں اسلامی نظام و شریعت کو کسی سوسائٹی میں روبعمل لانے نہیں دیں گے لہٰذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سے لڑکر اور طاقت و قوت کے ذریعے اقتدار کے مناصب اور حکمرانی و فرمانروائی کے اختیارات سلب کرلیں۔ قیادت و سیادت کا کوڑا اپنے ہاتھ میں لے کر بالجبر اسلامی نظام و قانون کو معاشرے میں جاری کردیں۔ یہ سوچ اور اس کے متعین کردہ مقصد و نصب العین کے حصول کی تگ و دو میں مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی ماضی و حال کی بے شمار سرگرمیاں اصل میں میرے ذہن میں خلش و ارتعاش پیدا کررہی تھیں۔ میں اصلاً اس زاویۂ فکر کو غلط دکھانا اور اس کے بالمقابل فکری و قلبی تبدیلی اور تعلیمی و تربیتی کوششوں کے ذریعے اسلامی تبدیلی لانے اور اسلام کا مخاطب فرد کو اس کی انفرادی حیثیت میں بنانے اور فرد فرد کی اصلاح کو اپنا مشن بنانے کے خیالات کو زیادہ درست و نتیجہ خیز ثابت کرنا چاہتا تھا اور میں نے اس باب و تناظر میں انہیں ہی فوقیت دینے اور ان کی صحت و برتری کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں اصلاً اسلامی کے معاشرتی ظہور اور سماجی پیمانے پر روبعمل آنے اور اس کے لیے ممکن و مفید لائحۂ عمل کے عنوان پر اپنے خیالات و حاصلاتِ مطالعہ پیش کررہا تھا، لیکن انہیں شاید اسلام کے ایک شخص کی شخصیت میں انفرادی ظہور سے متعلق سمجھ لیا گیا۔ یعنی یہ سمجھا گیا کہ میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کررہا ہوں کہ اسلام اپنی تعلیمات و خصوصیات کے ذریعے جب اپنے کسی وابستہ فرد کی زندگی اور کردار و سیرت میں ظہور کرتا ہے تو شخصی اسلامی زندگی کا کیا معیار و نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ایک مسلمان فرد کی زندگی میں اسلام فکر و عمل کے کن امتیازات و خصوصیات کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ حالانکہ میں جس ٹاپک سے متعلق گفتگو کررہا تھا وہ یہ تھا کہ کسی سماج و سوسائٹی میں اسلام یا کسی بھی دوسرے نظریۂ زندگی کو برسرِ عمل لانے اور اس کے اجتماعی ماحول و نظام و سماجی ڈھانچے میں غالب و نافذ کرنے سے متعلق کون سا طرزِ فکر و منہجِ عمل معقول و مفید اور ممکن و نتیجہ خیز ہے۔ ایک طرف پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں کے بڑے بڑے اور نہایت مشہور و مقبول مفکرین یہ فکر و منصوبہ پیش کرتے چلے آرہے اور بے شمار و اکثر مسلمان اسے درست و صحیح سمجھ کر اپنی سرگرمیوں، کاروائیوں اور کوششوں کی تشکیل و تنظیم کی اساس بنائے ہوئے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی و جہادی اقدامات کے ذریعے معاشرے اور ریاست کے مقتدر و حکمران طبقات کو مغلوب کرکے اقتدار و طاقت کے سرچشموں پر اپنا قبضہ جماکر اقتدار کی طاقت اور ریاست کے زور و دباؤ کے ذریعے یہ مقصد حاصل اور یہ مدعا متشکل کریں۔ ماضی کی قریبی دو تین صدیاں مسلمانوں کی طرف سے اسی فکر کو اپنانے اور اس کی عملی تفسیر کرتے ہوئے بے شمار جہادی اقدامات و تحاریک برپا کرنے اور جان و مال و اسباب کی بے شمار و ناقابلِ اندازہ قربانیاں دینے کی صدیاں رہی ہیں۔ دو تین سو سال سے مسلمان اسی رخ پر گامزن اور اسی میدان میں اپنی ساری قوت و طاقت کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ نظریاتی طور پر یہ فکر و نظریہ اور تدبیر و طریقِ عمل نادرست و ضرررساں اور بے نتیجہ و لاحاصل ثابت ہوچکا ہے بلکہ لمبی مدت تک کی جانے والی بے شمار عملی کاروائیاں، کوششیں اور قربانیاں بے ثمر و بے برگ و بار رہ کر عملی و واقعاتی طور پر یہ پروف کرچکی ہیں کہ اس سیاسی و جہادی فکر و تعبیر میں کجی و انحراف کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے اور یہ کسی بھی سطح اور سکیل پر اپنے خالق مفکرین کے اندازوں اور امیدوں کے مطابق نتیجہ بار ہونے کی صلاحیت و استعداد سے بالکل عاری ہے۔ اس کے بالمقابل جو دوسرا نظریہ کسی سماج و معاشرے میں اسلام کو غالب و برسرِ اقتدار لانے اور سوسائٹی کی اکثریت کے اس کی تابعداری و پیروکاری اختیار کرنے کی بات کرتا ہے وہ وہی تعلیمی و تبلیغی اور فہمائشی و اصلاحی نقطۂ نظر ہے جسے میں نے اپنی کوتاہ استطاعتی کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں واضح کرنے کی حقیر کوشش کی تھی۔ اسلام اصلاً فرد کو اپنے پیشِ نظر رکھتا اور بنیادی طور پر زندگی کی اس خدائی اسکیم کہ وہ ایک امتحان و آزمائش کا وقتی و عارضی وقفہ ہے اور اصل ٹھکانہ و حیات آخرت میں سامنے آئیں گے، کے مطابق اخروی فوز و فلاح ہی کے ٹارگٹ کو انسان کے سامنے نصب العین بناکر رکھتا ہے۔ دنیا میں سماجی و سیاسی اور معاشرتی و اجتماعی سطح پر کس فکر و نظریے کا جھنڈا اونچا رہتا اور کس کا قانون و نظام اپنا بول بالا کرنے میں کامیابی حاصل کرتاہے، یہ بنیادی و اساسی طور پر اسلام کی توجہ اور تعرض کے مسائل و موضوعات سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب اسلام سے تعلق اور اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر کسی سماج میں مسلمانوں کی اکثریت اور ریاستی پیمانے پر ان کی خود مختاری کا مرحلہ سامنے آجاتا ہے تو پھر اسلام انہیں اپنی اجتماعی زندگی میں دین داری، خدا پرستی اور آخرت کی فلاح کے نصب العین کو تازہ و زندہ رکھنے کے حوالے سے اجتماعی و معاشرتی تعلیمات و احکامات و ہدایات بھی ضرور دیتا ہے لیکن اس کی ترتیب و مزاج یہ نہیں ہے کہ مسلمان ضرور کسی ملک و سماج میں غالب و مقتدر ہی ہوکر رہیں تاکہ وہ اسلام کے انفرادی قوانین و احکام کے ساتھ ساتھ لازماً اس کے اجتماعی قوانین و ضوابط اور شریعت کی پابندی و پیروی کرسکیں۔ اس معاملے میں اسلام کے مزاج و میلان کو سمجھنے کے لیے ہم انفرادی سطح کی ایک مثال کو اپنے سامنے رکھ سکتے ہیں کہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن اور زندگی میں ایک بار ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن استطاعت کی شرط کے ساتھ۔ اگر کوئی مسلمان ساری زندگی غربت و تنگدستی ہی کی حالت میں گزار دیتا اور کبھی اس بات کی استطاعت و توفیق نہیں پاتا کہ وہ حج کے اخراجات و اسباب مہیا کرسکے تو پھر ایسے شخص پر نظری طور پر حج کے فرض ہونے کے باوجود عملاً اس پر قانونی طور پر حج فرض و لازم نہیں ہوتا اور نہ اس کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ لازماً کسی بھی طرح اسبابِ حج اکٹھا کرکے لازماً فریضۂ حج ضرور ادا کرے، اس کے لیے ارادہ ہونا اور اپنی استعداد بھر کوشش کرنا بہرحال ایک مرغوب و ضروری امر ہے لیکن یہ کوئی لازمی ذمہ داری نہیں ہے کہ انسان ضرور ہی کسی نہ کسی طرح اپنے حالات کو بدلے اور اپنی استطاعت کو بڑھائے اور لازما اسبابِ حج فراہم کرکے مرنے سے پہلے حج ادا کرلے۔ اسی طرح جس اجتماعیت و معاشرت میں مسلمان اقلیت میں ہوں ان پر یہ تو بہرحال ضروری ہے کہ وہ اپنی انفرادی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات و قوانین پر عمل پیرا ہوں، اپنے درمیان ان حدود کے اندر اندر ایک تنظیم و اجتماعیت برپا کرنے کی جدوجہد کریں جو انہیں اپنے اوپر غالب و حکمران اجتماعی نظام کے اندر اندر میسر ہوں اور ان حدود میں مل جل کر اسلامی ہدایات ہی پر چلنے کی تگ و دو کریں لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ وہ لازماً لڑ مر کر اپنے مقتدر و بالادست طبقات سے طاقت و اقتدار کے مراکز چھیننے اور انہیں اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کریں تاکہ وہ ریاستی پیمانے پر اپنے نظام میں اسلام کو غالب و جاری کرسکیں اور اس کے شریعت و قانون کو عملاً رائج کرنے کی پوزیشن میں آجائیں۔ یہ وہ اصل پس منظر اور مرکزی دائرہ ہے جس کے اندر میں گفتگو کررہا اور اپنے خیالات رقم کررہا تھا۔ میرا مضبوط احساس ہے کہ شاید میری کوتاہ بیانی اور تحریری بے بضاعتی نے معاملے کو اس کے اصل محمل میں سمجھنے میں دقت و رکاوٹ ڈال دی اور میرے ناقدین اس ساری بات کو دوسرے دوسرے زاویوں سے دیکھنے اور اس پر اپنا تبصرہ فرمانے لگے۔ اب میرا گمان ہے کہ شاید اصل بات اپنے صحیح پس منظر اور حدود کے ساتھ واضح ہوگئی ہوگی اور شاید اب اس پر تبصرہ یا نقد کرنا ایک زیادہ واضح معاملہ بن گیا ہوگا۔ یہاں تک تو میں نے پچھلے تبصروں کے حوالے سے اپنی گزارشات پیش کی ہیں، لیکن اسی دوران محترم سیفے میرا بھائی جان نے کچھ مزید ارشادات رقم فرمائے ہیں، جن کے حوالے سے اپنی ناچیز معروضات ذیل میں رقم کررہا ہوں: سیلاب کے متأثرین سے ہمدردی کرنا اور ان کی امداد کے لیے خود بھی عملاً متحرک و سرگرم ہونا اور اپنے حلقۂ احباب کو بھی اس کاز کے لیے اپنی کوششیں اور معاونت بروئے کار لانے کے لیے اکسانا یقیناً ایسے معاملات ہیں جن پر کسی پاکستانی مسلمان تو کیا کسی بھی انسان کو اشکال و اعتراض نہیں ہوسکتا۔ باقی یہ بات کہ آپ اپنی امداد حکومتی اداروں اور فنڈوں کے حوالے کریں یا یو این تنظیموں کو دیں یا پھر پرائیوٹ این جی اوز یا مختلف افراد و حلقوں کی طرف سے چلائی جانے والی ریلیف کوششوں میں، اس معاملے میں ہر آدمی اپنی معلومات اور نقطۂ نظر کے مطابق ہی عمل کرسکتا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موقع پوری طرح مل جل کر کام کرنے اور بڑھ چڑھ کر ایثار و قربانی دینے کا موقع ہے اور اس موقع کے حوالے سے یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ پاکستانی قوم کے افراد و طبقات، فوج اور سیلیبریٹیز میں قوم کا درد، حب الوطنی اور انسانی مدد و ہمدردی کے کافی گہرے جذبات موجود ہیں جو اس نازک وقت میں بہت نمایاں طور پر جاگ اٹھے ہیں اور پوری تندہی سے اپنے آفت زدہ اور مشکل و پریشانی کا شکار بھائیوں کی غمگساری و اعانت میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر حکومت اور حکومتی افراد و اداروں کا کردار یقیناً بے حد افسوسناک ہے کہ وہ اپنی گھسی پٹی عادت کے مطابق اس نازک و حساس وقت میں بھی بس ہوائی باتیں کرنے، نعرے نما دعوے فرمانے اور سیاسی و شیطانی بیانات و مذاکرات تک محدود ہیں۔ یہ لوگ یقیناً اس قابل ہیں کہ انہیں سماج کے کوڑا خانے کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور آئندہ آنے والے دنوں میں قوم ان کا زبردست احتساب کرکے انہیں ان کی کوتاہیوں اور غیر ذمہ داریوں اور ہوائی و خیالی لفظ و بیان بازیوں پر سخت سے سخت سزا دے اور انہیں بالکل ہی رد کردے۔ اس کے بعد زیرِ بحث ڈیبیٹ کے حوالے سے سب سے پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ اپنی یہ غلط فہمی، اگر وہ آپ کے ذہن میں ہے کہ اسلام سماج و معاشرے میں واقعتا کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، دور کرلیں۔ ایسی کوئی بات حقیقت میں نہیں ہے۔ اسلام اصلاً فرد کو مخاطب بناتا اور اسے ہی اس کے اصل مستقر و زندگی، آخرت میں کامیاب و کامران بنانے کا گائیڈ نامہ ہے۔ دنیا میں تبدیلی لانے، سماج میں عدل و انصاف پر مبنی کوئی ریاستی نظام رائج کرنے اور آسمانی قانون و شریعت کو سوسائٹی کے لیول پر روبعمل لانے اور رواج دینے جیسی چیزوں سے اسلام کو اصلاً کوئی براہِ راست دلچسپی نہیں ہے۔ جب وہ یہ کہتا اور بتاتا ہے کہ یہ دنیا ایک عارضی و فانی دنیا ہے اور انسانوں کو یہاں ملنے والی حیات بھی ایک وقتی و عارضی معاملہ ہے۔ انسان کی اصل دنیا اور حقیقی زندگی تو آخرت میں ہے تو پھر عقلی و استدلالی اور اخلاقی طور پر اسے دلچسپی بھی انسان کی حقیقی زندگی یعنی آخرت کے معاملے ہی سے ہونی چاہیے۔ اگر وہ ایک طرف انسان کو دنیا پرستی اور دنیا کے اسباب سے محبت کے بجائے آخرت پروری اور اموال و اسبابِ دنیا کے باب میں استغنا و بے رغبتی کی تلقین و نصیحت کرے اور دوسری طرف انسانوں کی اجتماعیت کی دنیوی خوشحالی کو اس کا نصب العین و مقصدِ حیات متعین کرے تو پھر اس سارے معاملے اور اسلام کے اپنے منظر نامے میں اندرونی تضاد اور داخلی فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم نے جو گفتگو شروع کی تھی وہ یہ نہیں تھی کہ سماج میں اسلامی انقلاب لانا دینِ اسلام کی تعلیمات کی رو سے مسلمانوں کا کوئی فریضہ اور مذہبی ڈیوٹی ہے بلکہ اس موضوع کو ہمیں اس لیے زیرِ بحث لانا پڑا کہ ایک لمبے عرصے سے مسلمان مفکرین نے انحراف برتتے ہوئے اسلام کو اس مقام پر لاکھڑا کردیا تھا کہ وہ سماجی پیمانے پر ایک عادلانہ اور فلاحی ریاستی نظام برپا کرنے کی اسکیم و آواز ہے۔ اس کا اصل مطلوب و نشانہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کے معاشرے میں غالب و رائج ہوکر رہے اور وہاں کا اجتماعی ماحول و نظام اور ادارات و محکمہ جات سب اسلامی تعلیمات کی اساس پر تشکیل و تعمیر پائیں اور اُس معاشرے میں اسلام ہی کا قانون کارفرما ہو۔ مسلمان ایک لمبے عرصے سے انہی خیالات کے زیرِ اثر جہادی اقدامات اور سیاسی زور آزمائیوں کی وادی میں سرگرداں ہیں۔ میں نے اصلاً اس صورتحال کو ذہن میں رکھ کر یہ بتانا چاہا تھا کہ اسلام اصلاً خدا کا دین اور انسانیت کا ہدایت نامہ ہے۔ وہ طبقات و اجتماعات کے بجائے ہر ہر فردِ انسانی کو مخاطب بناکر اسے یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی منصوبہ یہ ہے کہ اُس نے یہ دنیا ایک عارضی امتحان گاہ کے طور پر بنائی ہے۔ انسان کی اصل زندگی موت کے بعد آنے والی آخرت کی دنیا میں شروع ہوگی۔ اس دنیا میں اسے ایک خداپرست، انسانوں کا ہمدرد اور آخرت پرور انسان بن کر جینا اور اپنے نفس و اخلاق کا تزکیہ کرنا ہے تاکہ وہ کل آنے والی آخرت کی ابدی زندگی میں سرخرو ہوسکے اور وہاں خدا کے انعامات کا حقدار ٹھہرے۔ ان اسلامی تعلیمات کا اگر کسی معاشرے میں یہ نتیجہ نکلے کہ وہاں کی اکثریت ان تعلیمات اور اسلام کے دامن سے وابستہ ہوجائے اور ہوتے ہوتے نیچرل کورس کے ذریعے ان کے درمیان سیاسی خود مختاری کی سطح پیدا ہوجائے تو پھر اسلام انہیں اجتماعی سطح پر بھی اپنا پیرو اور تابع دار دیکھنا چاہتا اور ان کے اجتماعی ماحول و نظام کو بھی پاکیزہ اور آلائشوں اور نجاستوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ انہیں معاشرت و سیاست و معیشت وغیرہ اجتماعی امور و شعبہ جات کے حوالے سے بھی کچھ اصولی و بنیادی ہدایات دیتا ہے تاکہ وہ اپنے اجتماعی وجود میں بھی اسلام ہی کے زیرِ اثر اور خدائی مرضیات کے حدود میں رہیں اور دنیا میں ایک مثالی معاشرے کا منظر پیش کرسکیں۔ مذکورہ انقلابی و سیاسی و جہادی نقطۂ نظر کے بالمقابل میں نے اصلاحی و تعلیمی و تبلیغی طریقے کی حمایت و تائید کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اگر آپ کسی سوسائٹی میں اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے بھی ہیں اور اس کے ریاستی نظام میں اسلام کو بالا و نافذ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ آپ کے نقطۂ نظر کے مطابق زور زبردستی کرنا اور اقتدار کے ذرائع اور سورسز پر قابض ہوکر جبر و طاقت کے ذریعے اسلام کے قانون و شریعت کو رواج دینا ہے جو میرے نزدیک صحیح نہیں ہے بلکہ فکر اسلامی ہو یا کوئی دوسرا نظریۂ زندگی ہو، اگر آپ اسے سماجی سطح پر غالب و روبعمل لانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے درست منہج و نتیجہ خیز انداز افراد کی اس فکر و نظریہ کے مطابق تعلیم و تربیت کا اہتمام اور تدریجی طور پر پیش قدمی کا طریقہ ہے۔ اس پس منظر میں یہ گفتگو شروع ہوئی تھی نہ کہ اس تخیل کی بنیاد پر کہ اسلامی انقلاب دینی حوالے سے کوئی مقصدی نشانہ و ٹارگٹ ہے اور اس کا درست طریقۂ کار کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ میرا انقلابی پروگرام، یعنی اسلام کی اعلیٰ و روشن اور پاکیزہ تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا اور لوگوں کے درمیان پھیلایا جائے، اسلام کے مطابق ان کی ذہن و کردار سازی اور اقدار و اخلاقیات تعمیری کی جائے اور اس طرح ایک تعلیمی و دعوتی تحریک کے ذریعے سماج کی اکثریت کو اسلام سے وابستہ اور اس کا مددگار و پشت پناہ بنایا جائے، اس کے نتیجے میں اسلام فطری طریقے سے سماج میں رواج و غلبہ پائے گا اور وہاں کا اجتماعی نظام و ماحول بھی آہستہ آہستہ اسلام کے زیرِ اثر آتا چلا جائے گا، بالکل درست و مفید ہے مگر اس کا نتیجہ محض اسی صورت میں نکلے گا کہ کچھ اچھے لوگ جو پہلے ہی سے برداشت و تحمل کے اوصاف اور آزادیٔ اظہار جیسی اقدار کے حامل ہوں گے، صحیح اسلامی آشنائی پاکر اس طریقے پر گامزن ہوکر زندگی کے ایام بتائیں گے کہ جس کی بدولت انہیں آخرت میں فلاح و سرفرازی نصیب ہوگی۔ میں عرض کروں گا کہ اصلاً اسلام کا پروگرام بھی یہی ہے کہ ایک فرد جس نے انفرادی طور پر اور شخصی حیثیت ہی میں روزِ آخرت خدا کے روبرو حساب کتاب کےلیے پیش ہونا اور اپنے شخصی و انفرادی اعمال و کارنامۂ زندگی ہی کے مطابق اچھے یا برے ابدی انجام سے دوچار ہونا ہے، اسے صحیح فکر و عمل کی راہ پر استوار و گامزن کیا جائے تاکہ اس کا نتیجہ یہی ہو کہ وہ روزِ آخرت فیروزمند و کامیاب ہو۔ دنیا میں انقلاب برپا کرنا اور کسی سماج میں قانون و نظام کی سطح پر اسلام کو غالب و رائج کرنا جیسے مقاصد اسلام اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھتا ہی نہیں ہے۔ یہ نشانے تو منحرف اسلامی مفکرین مسلمانوں کے سامنے رکھتے ہیں اور میں اسی کی تو تردید و مخالفت کررہا ہوں کہ یہ اسلام کی صحیح تعبیر نہیں ہے کہ اسے دنیا میں ایک اچھا عادلانہ نظام رائج کرنے جیسے معاملے تک محدود کردیا جائے۔ اس کا تعلق اصلاً ایک انسانی فرد اور اس کی اخروی فوز و فلاح سے ہے۔ معاشرے اور ریاست کے پیمانے پر اسلام کا غلبہ و رواج اصلاً تو کوئی اسلامی مطلوب و ٹارگٹ نہیں ہے لیکن اگر اسلام کے ماننے والے کسی ملک و معاشرے کے حدود میں سیاسی خودمختاری کے پیمانے کی اکثریت حاصل کرلیں تو پھر ان کی اسلام وابستگی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی نظم و قانون میں بھی اسلام ہی کو اپنا رہنما اور مقتدا بنائیں۔ یہ ایک مشروط معاملہ ہے نہ کہ ہر ہر فردِ مؤمن کا مطلق فریضہ و نشانہ۔ اگر سیاسی خودمختاری فطری طور پر مسلمانوں کے حصے میں آئے گی تبھی یہ چیز ان پر فرض و لازم ہوگی۔ لیکن اگر وہ اقلیت میں رہتے ہیں تو پھر ریاستی پیمانے پر اسلام کو غالب و نافذ کرنا ان کا مشن و فریضہ نہیں بنتا۔ جس طرح زکوٰۃ صاحبِ نصاب ہونے کی شرط پوری ہونے کے بعد ہی لازم ہوتی ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ باقی برداشت، تحمل، فکری رواداری اور آزادیٔ اظہار وہ خوبیاں ہیں جن سے اسلام ہی نے انسانوں کو وسیع پیمانے پر آشنا و روشناس اور مالا مال و آراستہ کیا ہے۔ جب آپ اسلام کو پھیلائیں گے اور اس کی اصل تعلیمات کو بے آمیز طور پر لوگوں تک پہنچائیں گے تو آپ سے آپ مسلمانوں میں یہ صفات و اقدار پروان چڑھیں گی اور سماج میں اُن لوگوں کو غلبہ و اکثریت حاصل ہوگی جو نقطۂ نظر کے اختلافات کے باوصف باہم مل جل کر جینے کا حوصلہ رکھتے اور دوسروں کو نئی بات کرنے، نئی سوچ پیش کرنے اور نیا خیال بیان کرنے کی پوری آزادی دیتے ہوں اور آزادیٔ اظہار کو ہر ہر انسان کا ایک فطری اور بنیادی حق سمجھ کر اس کا احترام کرتے ہوں۔ آپ کے اندازِ بیان سے یہ تأثر ملتا ہے کہ غالباً اسلام کی تعلیمات صرف اُن لوگوں پر اثر انداز ہوں گی جو پہلے سے ان اوصاف و خصوصیات و اقدار کے حامل ہوں۔ حالانکہ میرا گمانِ غالب اور مضبوط احساس یہ ہے ان چیزوں سے ایک انسان اسلام ہی کی بدولت حقیقی پیمانے پر آشنا و آراستہ ہوتا ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم و تربیت انسان کو بلند نگہی، عالی قلبی، وسعتِ ظرفی، اختلافات کے باب میں رواداری اور آزادیٔ رائے و حق گوئی و سچائی پسندی جیسی صفات سے حقیقی طور پر مزین و بہرہ مند کرتی ہے۔ آپ نے مختصر تاریخی تجزیے کی شکل میں جو یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوت و اقتدار اور سپر پاور ہونے کی حیثیت سے اسی قوم کو نوازا ہے جس کے اندر برداشت، رواداری اور آزادیٔ اظہار جیسی خصوصیات موجود تھیں تو اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ کسی قوم کو توانا بنانے اور عروج و اقتدار و شان و شوکت دلانے کے حوالے سے جس طرح ان خوبیوں اور اقدار کی اپنی حیثیت و قیمت ہے ویسے ہی دیگر بہت سے عوامل بھی اقوام کے عروج و زوال اور اقتدار و محکومی کے باب میں اپنی کلیدی و بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے انفرادی و اجتماعی اخلاقی معاملات اور مادی و ٹکنکل ایڈوانسمنٹ و ترقی وغیرہ۔ اگر آپ بس انہی چند عناصر و صفات کو اس معاملے میں اصل اساس و بنیاد گردان رہے ہیں تو اس معاملے میں بے جا محدودیت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس معاملے میں اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو اقوام کی بالاتری اور پستی میں کردار ادا کرتے اور کسی ملت کو سپر پاور یا محکوم و غلام قوم بناتے ہیں۔ پھر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت قومی و ملکی حدود میں کسی فکر و نظریے اور اس کے قانون و نظام کو غالب لانے کے طریقِ فکر و عمل کے حدود میں بحث کررہے ہیں نہ کہ اقوام کو سپر پاور اور عالمی رعب و طاقت و دبدبہ کی حامل سیاسی قوت بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اور یہ بات بھی ہم اس ذہن کے ساتھ نہیں کررہے کہ اسلام ہمیں یہ تعلیم و تلقین کرتا ہے کہ لازماً اپنی ذمہ داری و ڈیوٹی سمجھتے ہوئے ہم اسے معاشرتی و ریاستی پیمانے پر غالب و نافذ کرنے کی کوشش کریں بلکہ ہماری بحث و ڈیبیٹ کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اسلام کو سوسائٹی میں بالا دست اور مروج اور قانونی و نظامی سطح پر جاری و ساری کرنے کے لیے جس اندازِ فکر و عمل پر رواں دواں ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے بلکہ اگر اسی مقصد کا حصول ہمارے پیشِ نظر ہو تو پھر ہمیں اس انداز کے بجائے تعلیمی و دعوتی اور اصلاحی و تربیتی اسلوب میں اس کے لیے کام اور محنت کرنا ہوگی۔ کم از کم میرا نقطۂ نظر یہی ہے کہ اسلام فرد کے سامنے اصلاً اخروی کامیابی کا نشانہ رکھتا ہے نہ کہ دنیوی بالادستی و اقتدار رسی یا اقوام کے درمیان سپر پاوری کے منصب کے حصول کے لیے رسہ کشی کا۔ میں اگر اپنے بیانات کو سمیٹتے ہوٹے مختصراً بیان کروں تو میرے نزدیک اس وقت عالمِ انسانی اور ملتِ مسلمانی کی جو افسوسناک صورتحال ہے اور جس قسم کے شدید و عمیق اخلاقی بحران و پستی کے مظاہر و نشانات ہم ہر طرف بکھرے دیکھ رہے ہیں، اس کا باعث عالم کے پرودگار سے انسانوں کی لاتعلقی، بے خوفی اور بے پروائی، دنیا اور اس کی رونقوں اور لذتوں سے حد سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی دلچسپی، دردناک و المناک خودغرضی و مفاد پرستی اور اخلاق و روحانیت کے ابواب سے بے بہرہ ہوکر مادیات کے سمندر میں مکمل غرقابی ہے۔ اس صورتحال کا علاج سماج و معاشرے میں کسی قسم کی سیاسی یا فوجی طور پر رونما ہونے والی تبدیلی اور جنگی یا جہادی طریقے سے آنے والا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اس منظر نامے اور صورتحال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو پوری قوت کے ساتھ شعوری طور پر اور معرفت و استدلال کے ساتھ خدا کے ساتھ جوڑا اور متعلق کیا جائے، اس کے حوالے سے ان کے تصورات و معتقدات اور جذبات و احساسات میں زندگی اور ذہنی و قلبی اور روحانی بیداری راسخ کی جائے، انہیں اس کی بندگی، فرمانبرداری اور اس کے اوامر و نواہی کی تابعداری کے راستے پر راستبازانہ طریقے سے گامزن کیا جائے۔ آخرت اور جنت و جہنم کو ان کی نظر میں مسئلہ نمبر ایک اور سب سے بڑا اور سنگین ایشو بناکر ان کے حوالے سے ان میں زبردست فکرمندی پیدا کی جائے اور ان کے اندر انسان دوستی، انسانی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مفادات و منافع کی خاطر ذاتی ایثار و قربانی کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ اپنی شخصیت کی تکمیل، اپنے نفس کے تزکیے و تطہیر اور خدا کی مرضی اور آخرت کی فوز و فلاح کے حصول کو ان کا مشن و مقصدِ حیات بنادیا جائے۔ یہی وہ صفات اور خوبیاں اور روایات ہیں جو موجودہ بگاڑ زدہ معاشروں کو پلٹاکر خیر و خوبی کا منبع بنانے کی لیاقت و صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی استعداد و صلاحیت اور پہنچ و استطاعت کے اندر اندر خود کو اس طرزِ فکر و عمل سے مکمل طور پر بہرہ ور کرنے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنے کے ساتھ اپنے اپنے دائرۂ تعلق و حلقۂ رسائی میں انہی خیالات و روایات کو عام کرنے اور ایک واقعہ کی شکل دینے کی تگ و دو کرے۔ یہ یقیناً سماج کو سنوارنے اور معاشرے کو اصلاح پذیر بنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا اور اپنی اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہوگا۔ مسلمان ایک لمبے عرصے سے اسلام کے نام و عنوان سے جو کوششیں کررہے اور عملی اقدامات اٹھارہے ہیں ان کا رنگ ڈھنگ اور انداز و طریق مذکورہ قسم کا کبھی نہیں رہا۔ وہ یا تو مسائل و فضائل کی غیر ضروری تفصیلات کو اسلامی دعوت کے نام سے لوگوں کے گوش گزار کرتے رہے ہیں یا پھر سیاسی و انقلابی فکر کی مخصوص اسلامی تعبیر کے مطابق دنیا کے غیرمسلموں کو اپنا مدعو سمجھنے اور انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی پیغام رسانی کے ذریعے اسلام کے سائے اور رحمت تلے لانے کے بجائے انہیں اپنا دشمن و حریف خیال کرکے ان سے لڑ نے جھگڑنے اور جبر و تشدد کے راستے سے اسلامی انقلاب و نظام کی عملداری کے لیے سرگرم و کوشاں ہیں۔ لمبے عرصے سے اسلام انہیں اخروی فوز و سرخروئی کا نسخہ نظر آنے کے بجائے دنیا میں عدل و فلاح پر مبنی سیاسی سسٹم برپا کرنے کی ایک اسکیم دکھائی دیا ہے اور یہ ان کے مفکرین کے فکری انحرافات اور اپنے ادوار کے غالب و رائج فلسفوں سے اثر پذیری اور ذہنی شکست و مرعوبیت کا نتیجہ ہے کہ وہ انہیں اسلام کو ایک سیاسی انقلابی نقطۂ نظر اور سوشل نظم کے قیام کا نسخہ و پروگرام باور کراتے رہے ہیں۔ اس فکر اور اس کے زیرِ اثر روبعمل آنے والی مسلم کاروائیوں نے اسلام کے عالمی امیج کو رحمت و امن و انسانیت کے بجائے وحشت و تشدد و بربریت و جنگجوئی و مار ڈھار جیسی علامتی خصوصیات کا حامل بناکر رکھ دیا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ اسلام کو اس کی خدا کی بندگی، آخرت کی فکر مندی، رسولِ کریم کے اخلاقی ماڈل کی پیروی، قلب و نفس و شخصیتِ انسانی کی تطہیر و پاکیزگی اور عالمی انسانی اخوت و یگانگت جیسی خصوصیات و تعلیمات کے ساتھ زبردست قسم کی دعوتی تحریک کے ذریعے قومی و عالمی پیمانے پر ابلاغ کا ہدف بنایا جائے، خود بھی اسلام کی ان تعلیمات اور خوبیوں کو اپنے عمل و کردار کا جزو بنایا جائے، اپنے ماتحتوں، بچوں اور تعلق داروں کو بھی انہیں اپنانے اور اپنی زندگی بنانے کی فہمائش و تلقین بڑے پیمانے پر کی جائے اور انہی کو اسلام کے عالمی و بین الاقوامی تعارف و امیج کی بنیاد بنانے کی سرتوڑ کوشش و سعی کی جائے۔ خدا کرے کہ ہم ایسا کرنے کی اپنی اپنی حدود کے اندر توفیق و ہمت پائیں اور کسی نہ کسی حد تک اسلام کی خدمت اور اس کے حق و قدردانی کی ادائیگی کرپائیں۔ یہ میں نے اپنے ناچیز خیالات و احساسات کا خلاصہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے آئندہ آپ لوگ ان پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے اور میری اصل مراد و مقصد کو سمجھتے ہوئے ہی اپنے تبصرے اور تجزیے سے مستفید فرمائیں گے۔ آپ نے اپنی تحریر کے آخر میں مستقبل میں سپر پاور کے عہدے پر مختلف اقوام کے پہنچ سکنے اور نہ پہنچ سکنے کے بارے میں اپنے جن قیاسات یا محسوسات کا ذکر کیا ہے، میں اُن پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، کیوں کہ یہ باتیں ہماری بحث کے دائرے سے غیر متعلق ہیں اور ان کے باب میں ہر ایک کو قیاس آرائی اور اظہارِ رائے کا بھرپور حق حاصل ہے۔ اس کے بعد آپ نے جو دو تین لطیفے تخلیق فرمائے اور ساتھ ہی اپنی ایک عادت کو بیماری کا شکار بتاکر اس کا باعث میری پیروی اور مجھ سے تأثر و لرننگ کو قرار دیا ہے اس پر بھی میں کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے بس اتنا عرض کروں گا کہ انسان اپنی بات جب تک پوری طرح بیان نہیں کرلیتا، خصوصاً جب تک کسی بحث و ڈیبیٹ میں جب کہ وہ زور و شور سے چل رہی ہو، اس کے الفاظ، مثالیں اور دلائل کمپلیٹ نہیں ہوجاتے، وہ زبان بند کرنے اور قلم کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دینے میں ایک بے چینی اور تشنگی محسوس کرتا ہے جو اسے اپنی بات مکمل بیان کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اگر یہ کوئی خامی یا بری عادت ہے اور آپ کو اس میں میں نے مبتلا کیا ہے تو مجھے اس پر کوئی تأسف و شرمندگی نہیں ہے۔ امید ہے کہ آئندہ آپ بحث کے دائرے میں رہ کر بات کو آگے بڑھانے اور ہمیں اپنی تحقیقات سے فیضیاب ہونے کا موقع عطا فرمانے کو اپنی ترجیح بناتے ہوئے ہی مختصر یا تفصیلی کمنٹری تخلیق فرمائیں گے۔ [/blue][/right][/size=4][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top