Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][brown][right][size=4] ایک میل میں جیو چینل کو یہودی ایجنٹ قرار دیا گیا اور پھر دوسرے بہت سے لوگوں نے بھی اسی بات کی تائید کی۔ اس میں ہوسکتا ہے کہ کچھ صداقت ہو بھی یا یہ کہ جیو چینل جس انداز اور ماڈرن اطوار اور جدید کلچر کو اپنائے ہوئے ہے اس کو بنیاد بناکر یہ مفروضہ قائم کرلیا گیا ہو۔ تاہم یہ چونکہ ہمارے ہاں ایک عام رویہ بن چکا ہے کہ ہمارے علما اور دانشور اور ہمدردانِ قوم و ملت اس طرح کے نئے نئے انکشافات فرماتے اور قوم کو ان کے خلاف ہونے والی سازشوں اور مکر و فریب پر مبنی مخالفانہ منصوبوں سے آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ اس عمومی رویے نے قوم کو بے حد نقصان پہنچایا ہے، وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دیکھنے اور دور کرنے کے بجائے ہر نازک وقت اور مشکل و پریشانی کا سبب کسی سازش اور چال کو بتاکر فارغ ہوجاتے ہیں۔ پھر اس طرح کی روز روز کی خبروں کی بھرمار نے ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو بالکل مفلوج و ناکارہ بنادیا ہے کیوں کہ اس طرح کی خبریں دینے والے قوم کو کوئی تعمیری رہنمائی نہیں دیتے بلکہ بس اس طرح کے انکشافات اور نقاب کشائیوں ہی پر اکتفا فرماتے رہتے ہیں جس سے قوم پر یہ اثر ہوتا ہے کہ ہمارا تو جینا ہی مشکل ہے، ہم تو سروائیو ہی نہیں کرسکتے، جب ہمارے خلاف اتنے بڑےء پیمانے اور اتنے زوردار طریقے سے سازشیں رچی جارہی ہیں تو پھر تو ہمارا باقی رہنا ہی محال ہے۔ اس طرح قوم میں مسلسل بے ہمتی، مایوسی اور بے حوصلگی بڑھتی جارہی ہے۔ مگر ہمارے یہ نادان دوست ہیں کہ اپنے انہی ڈھنڈوں اور مشغلوں میں مگن ہیں۔ اسی طرح کی یہ ایک ای میل تھی جس پر میں نے درج ذیل تبصرہ کیا:[/size=4][/right][/brown] [b][teal][right][size=3]ہمارے معاشرے کے لوگوں کا یہ عمومی مزاج بن گیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں اور بدخواہوں کا سراغ لگاتے رہتے اور ایسے اداروں اور تنظیموں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں جو ان کے خیال میں اسلام، مسلمانوں یا پاکستان کے لیے برے اور خطرناک جذبات رکھتے اور پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشوں اور چالوں میں مصروف ہیں۔ یہ مزاج اس سے زیادہ بھیانک و سنگین صورت میں ہمارے علما کا ہے کہ وہ کسی بھی نمایاں ہونے والے دانش ور اور مذہبی اسکالر کے خیالات میں اپنی دانست میں کوئی نہ کوئی شوشہ یا قابلِ اعتراض بات ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پھر یہ شور اور تشہیر شروع کردیتے ہیں کہ فلاں اسکالر یا ادارہ ہندوؤں یا امریکیوں کا ایجنٹ ہے اور دینی لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں اور پاکستانیوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ اس کا اصل مقصد اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانا اور شروع سے متفقہ طور پر مقبول چلی آتی اسلامی روایات میں اختلاف کی دڑاڑیں کھڑی کرنا ہے۔ [/size=3][/right][/teal][/b] [b][teal][right]بات اصل میں یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلے اور چیلنج کی دنیا ہے۔ یہاں جس طرح افراد باہم مسابقت کرتے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ممتاز و فائق مرتبہ حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اسی طرح مختلف گروہ اور جماعتیں اور ادارے اور اقوام بھی باہم دوڑ لگاتے اور ایک دوسرے کو مات دے کر آگے نکل جانا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے جہاں ایک فرد کو دوسرے افراد کی طرف سے مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی طرح اقوام اور گروہوں کو بھی ایک دوسرے کی طرف سے رکاوٹیں، سازشیں، چالیں اور مخالفانہ منصوبے پیش آتے ہیں۔ یہ ایک فطری چیز ہے۔ اس کا علاج و حل یہ نہیں ہے کہ ہم اس صورتحال پر چین بجبیں ہوں، واویلا مچائیں، شور و ہنگامہ کریں، مخالفیں کے خلاف اور ان کی سازشوں اور منصوبوں کے بارے میں لفظی بمباری اور بیانی گولہ بارودی کی مہم چلائیں۔ بلکہ اس کا صحیح توڑ اپنی تعمیر اور خود کو اتنا مضبوط و توانا بنانا ہے کہ ہر طرح کی مخالفانہ سرگرمیاں آپ کو نقصان پہنچانے سے عاجز ہوجائیں۔ آپ خود کو اتنا اونچا اٹھائیں اور اتنی بلندی پر لے جائیں کہ ہر طرح کی سازشوں اور چالوں کی زد سے باہر ہوجائیں۔ جو لوگ قوم کو پریشانیوں، مشکلات اور چیلنجز کے بارے میں تو فراوانی کے ساتھ اطلاعات دیتے رہتے اور حالات کی تاریکیوں ہی کے رخ دکھاتے رہتے ہیں اور قوم کو یہ سبق نہیں پڑھاتے کہ وہ خود کو توانا اور مضبوط بنائے۔ ان حالات سے گھبرانے اور بے حوصلہ ہونے کے بجائے اپنی تعمیر و استحکام کی کوششوں میں لگی رہے، وہ دراصل قوم میں مایوسی اور بزدلی اور بے ہمتی پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگ بزعمِ خود قوم کے خیرخواہ اور ہمدرد ہوتے ہیں لیکن وہ جو خدمت انجام دیتے ہیں وہ نادان دوست کے محاورے کے مصداق قوم کے حق میں الٹا نتیجہ پیدا کرنے والی ثابت ہوتی ہے۔ وہ ان خبروں اور انکشافات کے ذریعے قوم کو بیدار کرنا اور چوکنا بنانا چاہتے ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ قوم ان بری خبروں اور تابڑ توڑ سازشوں کے احوال سن سن کر مایوس و بے حوصلہ ہوجاتی ہے۔ [/right][/teal][/b] [teal][right][b]اصل کام مخالفانہ منصوبوں کا سراغ لگانا اور ان سے قوم کو آگاہ کرنا نہیں ہے بلکہ اصل اور حقیقی کام یہ ہے کہ آپ قوم کو اپنی تعمیر کے لیے بیدار کریں۔ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے پکاریں اور جگائیں۔ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق و کردار اور مضبوط و ناقابلِ شکست ڈسپلن پیدا کرنے کے لیے ابھاریں۔ فرد فرد کا علم و آگہی اور سوجھ بوجھ اور فہم و بصیرت سے آراستہ کریں۔ اور دشمنوں اور سازشوں کے خلاف لفظی چیخ پکار کرنے کے بجائے ٹھوس تعمیری انداز میں اور صبر و ثابت قدمی کے ساتھ خود کو اتنا مضبوط و جاندار بنانے کی سعی کریں کہ مخالفین کی تمام چالیں اور سازشیں بے اثر ہوکر رہ جائیں۔ مسلمان جب سے سیاسی طور پر مغلوب ہوئے ہیں وہ اپنے مخالفین کے خلاف صدیوں سے شور و شکایت کرنے اور قلمی و لسانی احتجاج میں مشغول ہیں۔ ان کے چھوٹے بڑے نمائندگان روز نئی نئی سازشوں اور مخالفانہ منصوبوں کی نقاب کشائی کے کارنامے انجام دے رہے ہیں لیکن اس ساری تگ و دو سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے اگر کچھ عرصہ بھی اپنی تعمیر و استحکام کے لیے خرچ کیا ہوتا اور اپنے افراد کو علم و شعور اور اخلاق و کردار کے حوالے سے بلند و ممتاز بنانے کی جدوجہد کی ہوتی تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ مسلمان دوسری ترقی یافتہ اور مستحکم قوموں کی صف میں جگہ پائے ہوئے ہوتے اور ان کے دشمن اور مخالف ان کے خلاف اپنے کسی منصوبے اور سازش کو کارگر بنانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ دیکھیے مسلمانوں کے خداوند نے اپنی آخری ہدایت میں کیا ارشاد فرمایا ہے کہ[/b][/right][/teal] [center][b][size=4][red]"اور اگر تم صبر و تقویٰ کی روش پر قائم رہو گے تو ان کی چال تمہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔"، (آلِ عمران: 120)[/red][/size=4][/b][/center] [teal][right][b][size=3]اس فرمان کے مطابق ہمارا دھیان چالوں اور سازشوں اور ان کی نقاب کشائی کی طرف ہونے کے بجائے اپنی داخلی کمزوریوں کو دور کرنے اور خود کو مضبوط و توانا بنانے کی طرف ہونا چاہیے۔ اپنے اندر صبر (ثابت قدمی اور مشکلات کے مقابلے میں ڈٹ جانے) اور تقویٰ (خدا خوفی اور برائیوں سے پرہیز) کی صفات پیدا کیجیے۔ اپنی تعمیر کیجیے۔ اپنا احتساب کیجیے۔ اپنے اخلاق و کردار کو نبوی ماڈل و نمونے کے مطابق بنائیے۔ پھر انشاء اللہ آپ کے اندر وہ استحکام و قوت اور اندرونی جماؤ اور ثبات پیدا ہوگا کہ کسی کی مخالفانہ کاروائیاں اور برے ارادے آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ یہی کرنے کا کام ہے۔ اور یہی ہمیں اور ہمارے سبھی ہمدردوں کو کرنا چاہیے۔ افراد اور اداروں کے بارے میں یہ خبریں دینا کہ وہ دشمنوں کے ایجنٹ اور بدخواہوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں اور مسلمانوں اور پاکستانیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں، قوم کو مایوسی اور بے ہمتی کی طرف دھکیلنے کی نادان دوست کی سی حرکت ہے۔ اس سے ہر ایک کو پرہیز کرنا چاہیے۔[/size=3][/b][/right][/teal] [right][b][teal]جس چینل پر یہاں گفتگو ہورہی ہے۔ مان لیا کہ وہ کسی کے ایجنڈے پر کام کررہا اور کسی کے اشاروں کو جامۂ عمل پہنارہا ہے تو اس بات کو بار بار نشر کرنے اور اس پر زبانی احتجاج و ہنگامہ کرنے سے آخر کیا حاصل ہوگا۔ یہ تو محض دل کی بھڑاس نکالنے والی بات ہے جو معاف کیجیے گا، کمزوروں اور پست ارادہ و ہمت لوگوں کا کام ہے۔ شیر دل اور فتوت و مردانگی سے بھرپور نوجوانوں کا کام ان باتوں میں الجھنا نہیں بلکہ اصل تعمیری میدانوں اور استحکام کے حصول کی سرگرمیوں میں لگ جانا ہے۔ ہماری قوم کا معاملہ تو اتنا نازک اور افسوسناک ہے کہ وہ جب کسی بات پر بپھرتی اور احتجاج و سوگ کے اظہار کے لیے سڑکوں پر آتی ہے تو چاہے ان کا دل کسی امریکہ یا برطانیہ یا ڈنمارک کے شہری نے دکھایا ہو، وہ اپنے ہی ملک و شہر کے باسیوں کے جان و مال کے درپے ہوجاتی اور اپنی ہی قومی املاک کو برباد کرنے پر تل جاتی ہے۔ ذرا قوم کی ذہنیت اور کردار کی اس طرح کی خامیوں پر بھی دھیان دیجیے۔ قوم کے شعور کو بلند کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوم کو اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور بلند نظری و خیالی کے میدان میں آگے بڑھائیے۔ اس کے عمل و کردار کی ایسی خامیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے کی کوشش کیجیے۔ اس کے بعد آپ کو کسی انکشافِ سازش اور کسی مخالفانہ چال کی پردہ کشائی کی ضرورت نہیں ہوگی، قوم کی باشعوری اور بلند کرداری خود ہی اس طرح کے تمام چیلنجز و مشکلات کے مقابلے میں ناقابلِ شکست طاقت بن جائے گی۔[/teal][/b][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top