Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][b][brown]۔۔۔۔۔۔ محترمی و مکرمی محمد شفیع صاحب، سلام و آداب و احترامات۔ آپ حدیث زیرِ بحث کے حوالے سے میری پیش کردہ اس توجیہہ سے متفق نہیں ہیں کہ نجات یافتہ گروہ حدیث میں مذکور تہتر فرقوں میں سے کوئی ایک مخصوص فرقہ نہیں ہوگا بلکہ ان تمام لوگوں پر مشتمل ہوگا جو ان تہتر فرقوں یا پوری امتِ مسلمہ میں سے اپنے اقوال و افعال اور اخلاق و کردار کے زاویے سے رسول و اصحابِ رسول کے طریقے اور اسوے پر ہوں گے۔ میری اس توجیہہ کی بنیاد حدیث میں آگے بیان ہونے والی وہ تشریح ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نجات یافتہ ہونے کی بنیاد رسول و اصحابِ رسول کے طریقے سے مطابقت کا وصف ہوگا نہ کہ کوئی اور دوسری بنیاد۔ میں بہرحال اس حدیث اور دین کی دوسری تعلیمات اور عقل و فطرت اور تاریخ و واقعات کے حقائق کی روشنی میں اس حوالے سے یہی رائے رکھتا ہوں۔ آپ کو اگر اس سے اتفاق نہیں ہے تو یہ آپ کا حق ہے، ضرور اختلاف کیجیے، بھرپور اختلاف کیجیے مگر پھر براہِ راست انداز میں ذرا ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ کیجیے کہ موجودہ مسلم فرقوں میں سے آپ کے نزدیک وہ کون سا فرقہ و جمیعت ہے جو حدیث زیرِ بحث کے مطابق نجات کا حق دار ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں اور ان کے افکار و معتقدات اور کردار و معمولات میں نقوشِ رسول و اصحابِ رسول سے مطابقت کی وہ کون سی بنیادیں ہیں جن کی بنیاد پر آپ اسے واحد مستحقِ نجات فرقہ باور کررہے ہیں۔مزید یہ بھی بتائیے کہ اس کے علاوہ باقی مسلم فرقوں کو کیا آپ دین سے خارج اور خدا کی گرفت و عذاب اور نارِ جہنم کا مستحق سمجھتے ہیں اور اگر واقعتا سمجھتے ہیں تو اس کی بنیاد کیا ہے اور ان فرقوں کے اعمال و نظریات میں وہ کون سے باطل یا کفر و شرک اور ضلالت کے اجزا ہیں جن کی بنیاد پر آپ کا ایہ احساس شریف ہے؟[/brown][/b][/right] [b][right][brown]آپ کی دوسری بات کہ مسلمانوں کو ان حکمرانوں کی اطاعت و پیروی کرنی چاہیے جو درست راستے پر ہوں۔ اگر حکمران ٹیڑھے راستوں اور انحرافات پر استوار ہوجائیں تو مسلمانوں پر ان کی اتباع اور پیروی لازم نہیں رہتی، یہ سراسر ایک غلط بات اور گہری سوءِ فہمی اور مسلمانوں کے حق میں ایک بدترین تجویز ہے۔ علما و فقہا کا اس باب میں جو متفقہ مؤقف ہے اور اس طرح کے فتنہ انگیز ماحول کے حوالے سے جس میں حکمران بگاڑ اور فسق و فساد کا شکار ہوجائیں، احادیث میں جو تلقین و نصائح موجود ہے، آپ کا یہ ارشاد ان سب کے بالکل برخلاف ہے۔آپ اپنی اس تجویز کے ذریعے مسلمانوں کو انارکی اور طوائف الملوکی کی کھائی میں گرانا چاہتے اور انہیں باہم دیگر مخالفت و عناد اور جنگ و جدال کی خندق میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ آپ کی یہ خواہشات ہوں نہ ہوں، تاہم اپنی اس رائے کو پھیلاکر آپ کارنامہ یہی انجام دیں گے۔وہ صورتحال جس میں حکمرانوں کی اطاعت و پیروی لازم نہیں رہتی اور ان کے خلاف بغاوت کرنا اور ہتھیار اٹھانا جیسے امور جائز ہوجاتے ہیں، ایک تفصیل طلب معاملہ ہے، تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا تعلق حکمرانوں کی طرف سے کھلے کفر کے ارتکاب اور شعائرِ اسلامی کے حوالے سے واضح قسم کے منحرفانہ رویے سے ہے نہ کہ محض کسی بھی قسم کے بگاڑ و بدعملی یا اسلامی تعلیمات سے عملی روگردانی سے۔ اگر یہ کسی کو خارج از اسلام یا مباح الدم قرار دینے کی بنیاد ہے تو پھر اس وقت وہ ڈھیر سارے مسلمان جو نام کے علاوہ کسی کام کے مسلمان نہیں ہیں۔ نماز روزہ تک کے اہتمام سے جنہیں سرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن وہ خود کو بڑے ذوق و شوق سے مسلمان ہی بتاتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہوگا![/brown][/right][/b] [b][right][brown]آپ کی تیسری بات کے جواب میں گزارش یہ ہے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ میں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کوئی اپنی من گھڑت نہیں ہے بلکہ ایک حدیث کے حوالے سے کہی ہوئی بات ہے تو اس کے حوالے سے میں گزارش کروں گا کہ حدیث تو آپ نے واقعتا پیش فرمائی ہے مگر اس سے جو مطالب و مفاہیم اور اصول و کلیات اور مسلمانوں کے لیے نقوش و نصائح اخذ کیے ہیں وہ آپ کا اپنا فہم ہے اور معاف فرمائیے گا سوءِ فہم کی ایک بڑی ناپسندیدہ مثال ہے۔ قرآن و حدیث کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہما شما میں سے کوئی بھی بس ایک آیت پڑھے یا حدیث تلاوت کرے، پھر اس کے بعد اس آیت یا حدیث کے حوالے سے جو کچھ اپنی سمجھ میں آئے اور اپنے دماغ میں پیدا ہو، اسے آیت یا حدیث کا مدعا قرار دے کر بیان کرنا شروع کردے۔ اور جب اعتراض کیا جائے تو یہ خطبہ پڑھنا شروع کردے کہ میں کوئی اپنے پیٹ کا درد تھوڑی نشر کررہا ہوں بلکہ آیتِ قرآنی اور حدیثِ نبوی کا پیغام پہنچارہا ہوں۔ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بہت سے قواعد و کلیات ہیں جو علما و محققین نے بیان کیے ہیں آیات و احادیث کو ان کی روشنی ہی میں سمجھنا چاہیے ورنہ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان بظاہر تو کسی آیت یا حدیث کے حوالے سے بات کررہا ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ اس کا اپنا پسندیدہ حلقہ و ٹولہ تو جنت کی نعمتوں کا مستحق نظر آئے اور باقی لاکھوں کروڑں افرادِ امت جہنم کا ایندھن قرار پائیں۔ کسی صاحبِ ہوش و خرد کا اس دعوے اور نتیجے سے اتفاق کرنا بالکل محال ہے۔[/brown][/right][/b] [b][right][brown]باقی آپ نے اپنے کسی ایک ہی فرقے کے نجات یافتہ ہونے کے فہم کو بنیاد بناکر مجھے جو نصیحت کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس نجات یافتہ گروہ کو تلاش کرکے اس سے وابستہ ہوجانا چاہیے تو میں گزارش کروں گا کہ یہ قرآن کی تعلیمات اور احادیث کے مجموعی فہم کے سراسر خلاف و متضاد بات ہے۔ دین کی مجموعی تعلیم تو فرقہ بندی سے آخری حد تک گریز کرنے، گروہوں اور احزاب سے الگ رہنے اور اس طرح کے فتنوں کے بہت بڑے پیمانے پر پھیل جانے کے موقع پر کونوں او ویرانوں میں ڈیرا ڈال لینے کی تعلیم دیتی ہے۔ مسلمانوں کو قرآن نے قرآن کو تھامنے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چون و چرا اطاعت و فرمانبرداری کرنے، اپنے حکمرانوں سے معاونت و توافق اور اطاعت کا رویہ رکھنے اور اختلافات کی صورت میں کسی فرقے اور ٹولے اور اس کے اکابرین کی تصنیفات و تحقیقات یا ان کے فرامین و فتاویٰ جات کی طرف رجوع کرنے کی نہیں بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر اپنے نزاعات و اختلافات کا تصفیہ کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ آپ اس حوالے سے جو کچھ فرمارہے ہیں اس آئینے میں وہ سراسر ان تعلیمات کے خلاف باتیں ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے ان فرامین و ملفوظات کو اپنے پاس رکھیے۔ ہمیں بہرحال ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[/brown][/right][/b] [b][right][brown]مسلمانوں کے غلط اور انحراف پر مبنی رویے بلاشبہ اس قابل ہیں کہ ان پر تنقید کرکے ان کی غلطی و نادرستی عالم آشکار کی جائے، مسلمانوں کو انہیں ترک کرنے اور درست راہ و روش پر گامزن ہونے کی نصیحت کی جائے اور ان میں سے اپنے اپنے حلقے اور جماعت کے حوالے سے متعصبانہ رویوں کو ختم کرکے حق پسندی اور دلائل کی بنیاد پر بات کو قبول یا رد کرنے کی عادت پیدا کی جائے۔ لیکن انہیں یہ بتانا کہ دیکھو ایک ہی فرقہ نجات کا حق دار ہوسکے گا، اس کے علاوہ باقی تہتر فرقے ہوں یا تہتر ہزار، سب کے سب جہنم میں جائیں گے اور سزا پائیں گے، صرف اور صرف یہی نتیجہ پیدا کرے گا کہ مسلمانوں میں فرقہ پرستی اور جماعتی و گروہی تعصبات مزید پختہ ہوجائیں اور وہ اور زیادہ شدت و حدت کے ساتھ اس غلط اصول پر عمل کرنے لگیں کہ بس جس ٹولے کی ہم نشینی اپنالی ہے، اپنائے رہو۔ جب تک وہ یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کہ نجات و فلاح کا جو اصلی معیار ہے یعنی رسول و اصحابِ رسول کے طریقے سے مطابقت و موافقت، اس کی بنیاد پر ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسری جماعت، تنظیم یا فرقہ زیادہ اعلیٰ معیار کا حامل ہو، وہ اپنے اپنے حلقوں سے چمٹے رہنے ہی کو ترجیح دیتے رہیں گے اور جب تک ان میں یہ وسعتِ نظری نہیں پیدا ہوتی کہ نجات کا جو اصلی و حقیقی معیار ہے یعنی اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب و رفقا کی زندگیاں، اس کی بنیاد پر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ افرادِ امت بھی کل قیامت میں نجات و سرخروئی کے سزاوار ٹھہریں جو دوسرے حلقوں اور جمیعتوں سے وابستہ ہیں، ان میں باہمی محبت و احترام اور اخوت و اتحاد کی فضا کبھی قائم نہیں ہوسکتی، چاہے اس کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے سربرآوردہ لوگ اور نمائندے اور علما و پیشوا کتنا ہی وعظ و نصیحت فرمالیں اور اپنے اپنے متعلقین و معتقدین کو اس کے لیے کتنا ہی سمجھاتے اور تربیت دیتے رہیں اور مختلف سیاسی یا غیر سیاسی مفادات و مشترکات کو بنیاد بناکر بار بار اتحادی گروپس تشکیل دیتے رہیں۔ ایسی تمام کوششیں اور نصیحتیں رائیگاں ہی جائیں گی اور بڑے عرصے سے یہی کچھ ہوبھی رہا ہے۔[/brown][/right][/b] [brown][right][b]آپ کا اس حدیث کے حوالے سے فہم و استدلال مسلمانوں میں فرقہ بندی کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔ وہ انہیں یہی باور کراتا ہے کہ انہیں بہرحال فرقہ فرقہ ہونا چاہیے اور ہر ایک کو یہی سمجھنا اور دعوی کرنا چاہیے کہ بس اسی کا فرقہ و جماعت ہدایت یافتہ ہے اور آخرت کی سرفرازی بس اسی کا مقدر ہے۔ جبکہ حدیث میں اگر وہ سند و درایت کے ہر ہر پہلو سے مضبوط و لائقِ اعتماد ہو بھی تو مطلب یہ نہیں ہے کہ ضرور مسلمانوں کو فرقوں اور گروہوں میں بٹ جانا چاہیے۔ بلکہ اس میں تو آئندہ زمانے میں پیش آنے والے ایک ناگوار و ناپسندیدہ واقعے اور صورتحال کو بیان کیا جارہا اور ایسی تاریک و فتنہ انگیز فضا میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے، اس حوالے سے انہیں یہ سوچ فراہم کی جارہی ہے کہ انہیں اپنے اپنے اکابرین، تعصبات اور اپنے اپنے فرقے اور تنظیم کے علما و فقہا کے فتاویٰ اور فیصلوں اور اقوال و ملفوظات کو بنیاد بنانے کے بجائے اپنے اقول و اعمال اور نظریات و معمولات کو رسول و اصحابِ رسول کے اسوے کے مطابق بنانے کی فکر و کوشش کرنی چاہیے۔ کیوں کہ نجات کی بنیاد جس طرح کسی کا قرآن کے مطابق محض مسلمانوں کے گروپ میں شامل ہوجانا نہیں ہے اسی طرح آئندہ زمانے میں مسلمانوں کی بدقسمتی کے باعث ان کے درمیان ابھرنے والے فرقوں اور ان کے مزعومات بھی اس کی بنیاد نہیں ہوں گے بلکہ رسول و اصحابِ رسول کے طریقے اور اسوے کی پیروی اس کا معیار و پیمانہ ہوگی۔[/b][/right][/brown] [brown][right][b]باقی دیوبندی حیاتی گروپ کیا دعویٰ کرتا اور آپ اس کے اس دعوے کو درست یا نادرست سمجھتے ہیں، اس بات کو ذکر کرنے سے آپ کی کیا مراد و خواہش ہے، یہ بات واضح نہیں ہوسکی۔ میں تو اس طرح کے تمام دعاوی کو باطل اور خوش فہمی سمجھتا اور اپنے ماسوا مسلمانوں کے دوسرے گروپوں او جمیعتوں کو برسرِ باطل ٹھہرانے اور انہیں عذاب و جہنم کا مستحق بتانے کو ایک کبیرہ گناہ اور نہایت سنگین جسارت محسوس کرتا ہوں۔ کون واقعتا صاحبِ ایمان و اسلام ہے اور کون نہیں اور کون جنت کا مستحق ہے یا جہنم میں ڈالے جانے کا سزاوار، یہ فیصلے خدا کے کرنے کے ہیں۔ ہمیں انہیں اسی پر چھوڑ دینا چاہیے اور سب سے زیادہ فکر اس بات کی کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگی اور اس کے تمام مظاہر و ابواب کو خدا و رسول کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے نمونۂ حیات کے مطابق و موافق بنانے کی تگ و دو کریں نہ یہ کہ غلط طور پر کسی واحد اور اکلوتے نجات یافتہ فرقے کو تلاش کرنے اور اس کی رکنیت حاصل کرنے کو اپنی جستجوؤں اور کاوشوں کو محور بنانے کی حماقت کریں۔[/b][/right][/brown] [b][right][brown]آپ کی دوسری ای میل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپ کو اپنے خیالات کی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور آپ اس بحث کو یہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں بھی اس طرح کی ابحاث میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تاہم ان کے حوالے سے موجود پیچ در پیچ غلط فہمیاں اور مسلمانوں کے باہمی طور پر متشددانہ جذبات مجبور کرتے ہیں کہ ان کے حوالے سے کچھ نہ کچھ توضیح و تصحیح کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے ان کے باب میں کچھ نہ کچھ عرض کرنا پڑجاتا ہے۔ میں بھی آپ سے اتفاق کرتے ہوئے آپ کے بعض سوالات کے جواب جو کہ میرے خیال سے ضروری تھے، عرض کرکے یہی چاہتا ہوں کہ اس بحث کو مزید طول نہ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔[/brown][/right][/b][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top