Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b][right][teal]۔۔۔۔۔۔ محترم بھائی عبد العزیز صاحب، آپ کو اور دوسرے تمام محترم ممبران کو سلام و آداب ۔ بعدہٗ گزارش ہے کہ محترم شفیع صاحب کی ای میل پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے جو آیت ذکر کی ہے، جس میں قرآن کے تذکیر و نصیحت اور عبرت و موعظت کے لیے موزوں ترین اور سہل ترین ہونے کی بات پانچ مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ اس کی بنیاد پر آپ نے اس توقع کا جو اظہار کیا ہے کہ اگر ہم سب اس آیت کی نصیحت کے موافق قرآن کو اپنے مطالعے اور نصیحت آموزی کی بنیاد بنائیں تو ان شاء اللہ ہمارے درمیان اختلافات باقی نہیں رہ جائیں گے۔ اس حوالے سے آپ کے جذبۂ صادقہ اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کے حوالے سے آپ کی نیک خواہشات کا مکمل احترام ملحوظ رکھتے ہوئے بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے بھائی یہ مطلوب ہی نہیں ہے اور بالکل خلافِ فطرت و تاریخ ہے کہ انسانوں کے درمیان اختلافات اور فروق پیدا نہ ہوں۔ آپ خواہ کتنے ہی مخلص، نیک نیت اور شریف النفس انسان ہوں، جب کسی مواد و تحریر یا تعلیم و ہدایت یا اصول و قانون کا مطالعہ کرنے جاتے ہیں تو خدا نے انسانوں کے درمیان فہم و ذہانت، ماحول و تجربات اور پس منظر و رجحان وغیرہ کے جو اختلافات و تنوعات رکھے ہیں، وہ لازماً اثر انداز و دخیل ہوکر آپ کے فہم و سمجھ اور حاصلِ مطالعہ کو دوسروں سے مختلف کردیتے ہیں۔ ائمہ اربعہ اور چار فقہی مسالک کے اختلافات ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیسی کیسی اعلیٰ علم اور اونچے تقویٰ و تدین کی حامل شخصیات کی موجودگی کے باوجود سینکڑوں اور ہزاروں اختلافات بہرحال موجود ہیں۔ اور اوپر جائیے تو صحابہ کرام جیسی ناقابلِ اعتراض و ریب ہستیوں کے درمیان اختلافات کی موجودگی بھی آپ کو نظر آہی جاتی ہے۔ پھر اُن احادیث کو بھی ملاحظہ کیجیے جن میں خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اختلافات کے پیدا ہوجانے اور پھیل جانے اور مسلمانوں میں تفرقے اور گروہ بندی جیسی وبا کے پھوٹ پڑنے کے زمانے میں اس صورتحال کے فتنے اور شر سے بچنے کے لیے ڈھیر ساری ہدایات دی ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کو برہنہ اور ناقابلِ رد حقیقت ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہیں کہ انسانوں کے درمیان اختلاف کا پیدا ہونا بہرحال ایک فطری و کائناتی حقیقت ہے۔ خدا نے دنیا اور انسانوں کو جس اسکیم و حکمت کے تحت تخلیق کیا ہے، اسی کا حصہ اور اقتضاء ہیں۔ [/teal][/right][/b] [right][teal][b]لہٰذا ہمیں اصلاً جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس فطری حقیقت کو پوری طرح تسلیم کریں، اختلافات کو بغض و عناد اور باہمی فسادات کی بنیاد نہ بنائیں، اختلاف کرنے والوں کی نیت میں فتور تلاش کرنے، ان کے باطن میں پوشیدہ برے محرکات کی کھوج لگانے اور انہیں ہر حال و صورت میں بد نیت اورفتنہ پرور قرار دینے کے بجائے علمی و فکری اختلافات کے باب میں وسعت، عالی ظرفی اور دلائل و تجزیے کو رد و قبول کی بنیاد بنانے کی روش و عادت اپنائیں۔اختلافات ہر حال میں برے نہیں ہوتے بلکہ وہ اکثر اوقات علم و فکر کو مہمیز لگاتے، افکار و نظریات کی تصحیح کا باعث بنتے، سوچ و معلومات میں نئے مواد کا اضافہ کرتے اور انسانی علم و فن اور تہذیب و تاریخ کو ترقی اور عروج کے مزید زینے طے کرانے کا باعث و سبب بن جاتے ہیں۔ اختلاف سے پاک و ماوراء یا خدا کی ذات ہوسکتی ہے یا پھر جنہیں اس نے براہِ راست اپنی ہدایت اور اپنے کلام سے سرفراز فرمایا۔ باقی انسانوں کے معاملے میں خدا کی طرف سے ایسی کوئی گارنٹی اور ضمانت کہیں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا ہمیں بھی یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ سرے سے اختلافات پیدا ہی نہ ہوں یا جو ہوچکے ہیں وہ کسی طرح ختم اور دفن ہوجائیں۔ یہ فطرت، تاریخ اور خدا کی اسکیم سے جنگ لڑنا ہے جس میں ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔ جو کچھ ممکن ہے وہ یہ کہ اختلاف کے آداب کا پاس کیا جائے، دوسروں کے مؤقف اور رائے کا احترام کیا جائے اور اختلافات کے باب میں علمی سنجیدگی و شائستگی اور دلائل و استدلال کے تجزیے تک محدود رہنے جیسے اصولوں کی ہر حال میں رعایت و پاسداری کی جائے۔ اس کے بعد اختلافات تو بہر حال باقی رہیں گے لیکن مسلمانوں کے درمیان باہمی بغض و عناد، آپسی لڑائی جھگڑوں اور تشدد، قتل و خونریزی اور فسادات میں ان شاء اللہ ضرور کمی آئیگی۔۔۔۔۔۔۔[/b][/teal][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top