Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][blue][right][b]۔۔۔۔۔۔ ڈیئر ذیشان الحق بھائی صاحب، سلام و احترام و مزاجِ گرامی! بھائی اکثر اوقات مصروفیات گھیرے رکھیتں اور ہجوم کیے رہتی ہیں اسی لیے تاخیر ہوجاتی ہے۔ آج موقع نکال کر آپ کی ای میل پڑھی اور اب جواب میں یہ لائنز لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ میرا عذر قبول فرمائیں گے اور برا نہیں مانیں گے۔[/b][/right][/blue] [right][b][blue]سب سے پہلے میں آپ کے اس عمدہ و قابلِ قدر رویے کی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ آپ شروع سے بڑے حوصلے اور شائستگی کے ساتھ مجھ سے بات کررہے اور میری گزارشات پڑھ رہے ہیں۔ آپ کو بے شک مجھ سے بہت سی جگہ اختلاف ہے لیکن آپ کی اعلیٰ ظرفی اور تہذیب و شرافت ہے کہ آپ پورے تحمل اور سنجیدگی اور باوقار انداز میں اس کا اظہار کرتے اور کہیں بھی زبان و قلم کو سنجیدگی و متانت کے دائرے سے باہر نہیں جانے دیتے۔ یہ وصف موجودہ مسلمانوں اور خصوصاً ان کے علما و زعما میں بالکل مفقود و عنقا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان اپنے مثالی ادوار میں ان اوصاف کے معاملے میں بھی بے نظیر و قابلِ تقلید نمونہ تھے اور ان کے سنہری ترین ادوار کے علما و محققین گرچہ بہت سارے معاملات و مسائل میں اختلاف کرتے اور اپنا اپنا مؤقف رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے سے مختلف راے کے حامل و قائل کے بارے میں بدزبانی و گستاخ نگاری کا سوچتے بھی نہیں تھے۔ وہ ہزار اختلاف کے باوجود باہم شیر و شکر رہتے اور ایک دوسرے کا ہر طرح اکرام و احترام کرتے تھے۔ آپ ماشاء اللہ اسلاف کی اس بہترین روایت و خوبی کے امین ہیں، اللہ آپ کو اس کی بہترین جزاے خیر عطار فرماے، آمین۔[/blue][/b][/right] [blue][b][right]آپ فرماتے ہیں کہ کسی کو بغیر دعوت دیے، اس کے غلط و گمراہ کن عقائد و تصورات کی بنیاد پر کافر قرار دینا آپ کے نزدیک بھی غلط ہے۔ پہلے دعوت دی جائے گی اور اگر اس کے بعد بھی کوئی قائل نہیں ہوتا تو پھر اس پر یہ حکم لگایا جائے گا۔ آپ مجھ سے سوال فرماتے ہیں کہ اگر میں اس مرحلے پر بھی کسی کو کافر و گمراہ قرار دینے کو غلط سمجھتا ہوں تو پھر میرے خیال میں اس موقع پر کیا کیا جانا چاہیے؟ میں عرض کروں گا کہ بھائی یہ بات تو آپ نے بالکل بجا فرمائی ہے کہ پہلے دعوت دی جاتی ہے، حق و سچائی کا پیغام بالکل واضح، دو ٹوک اور صاف و صریح انداز میں بار بار انسان کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اسے یہ تلقین و نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سچائی اور ہدایت کو قبول کرلے اور حق کے آگے سرافگندگی اختیار کرے۔ اس کے بعد آپ کا جو فرمان ہے کہ بار بار سمجھانے اور نصیحت کرنے کے باوجود بھی اگر وہ نہ سمجھے اور مان کر نہ دے تو پھر اسے کافر ہی قرار دیا جائے گا، اس کے بارے میں میں عرض کروں گا کہ ذرا پیغمبرانِ گرامی قدر کی سرگزشتِ دعوت کی داستانوں اور تفصیلات کی طرف نظر فرمائیے اور دیکھیے کہ خدا کے پیغمبر اس معاملے میں کیا کرتے تھے اور کس بنیاد و اتھاڑتی پر کرتے تھے۔ وہ پاک و اعلیٰ نفوس بے شک سب سے پہلے انسانوں کو خدا کا پیغام پہنچاتے اور انہیں ہدایت کو قبول کرنے کی بار بار دعوت سے اپنے کام کا آغاز کرتے تھے لیکن ان کا معاملہ یہ تھا کہ خدا کی ہدایت اور وحی اور براہِ راست رہنمائی ہر قدم پر ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ ہر موقع اور صورتحال میں ان کا اقدام و رویہ خدائی ہدایت و پیغام رسانی پر مبنی ہوتا تھا۔ وہ نہ دینی حوالے سے اپنی طرف سے کچھ کہتے تھے اور نہ ہی کوئی عمل کرتے تھے۔ دین کے تعلق سے ان کا ہر قول و فعل براہِ راست خدا کی وحی و پیغام پر استوار ہوتا تھا۔ وہ اپنی اپنی قوم و برادری کو مسلسل ہدایت کی طرف بلاتے اور خدا کے آگے جھک جانے اور اس کی بڑائی و کبریائی تسلیم کرلینے اور اس کے پسندیدہ و مقبول دین اسلام کو قبول کرلینے کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ خدا کے جلیل القدر پیغمبروں نے لمبے اور طویل عرصوں تک اپنی زندگی میں یہ کارِ دعوت انجام دیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں تو قرآن میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ انہوں نے ساڑھے نو سو برس تک یہ کام کیا۔ اتنے لمبے عرصے تک اپنی اقوام کو خدا کی طرف بلانے اور سچائی اور ہدایت کا پیغام پہنچانے کے بعد کہیں جاکر یہ مرحلہ آتا تھا کہ ان پر حجت تمام ہوتی اور ان کے حق میں یہ واضح ہوجاتا کہ یہ منکرین اب کسی عذر و غلط فہمی کی بنا پر نہیں بلکہ محض ہٹ دھرمی، کبرِ نفس، قومی پندار اور دنیوی اغراض و مفادات کی بنیاد پر سچائی کے اس پیغام کو جھٹلارہے اور پیغمبر کی تکذیب کررہے ہیں۔ یہ اطلاع بھی خدا ہی کی طرف سے اپنے ان نمائندوں کو دی جاتی اور پھر ہجرت کا فرمان جاری کردیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اب اس قوم کو خدا نے اپنے فیصلے کے مطابق کافر اور مستحقِ عذاب ٹھہرادیا ہے، پیغمبر اور ان کے ساتھی اس سے براءت و بیزاری و لاتعلقی کا اعلان کرکے الگ ہوجاتے اور اس مقام سے ہجرت کرجاتے۔ اس کے بعد اس قوم پر خدا کا عذاب اور سزا نافذ ہوجاتی اور وہ قوم اپنے کالے کرتوتوں کی بنا پر صفحۂ ہستی سے مٹادی جاتی۔ اس سارے پس منظر کے مطابق بتائیے کہ اب اس زمانے میں ایسا کون سا داعی اور عالم یا حلقہ ہے جو خدا سے براہِ راست ہدایت و الہام پاتا ہے اور اسے خدا کی طرف سے اس اطلاع کی فراہمی کی توقع کی جاسکتی ہے کہ کون سا مدعو فرد یا گروہ ایسا ہے جس کے بارے میں دعوتی ذمہ داری اپنی تکمیل کو پہنچ چکی، اس پر حجت تمام ہوچکی اور اب اس کا انکار و اعراض صاف طور پر سرکشی اور ضد جیسی بنیادوں پر مبنی ہے۔ جب تک یہ اطلاع و کنفرمیشن کسی کو براہِ راست خدا کی طرف سے یا اور کسی پراسرار طریقے سے نہیں مل جاتی، اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی فرد یا جماعت یا گروپ کی تکفیر کرے اور انہیں کافر و خارج از اسلام قرار دے۔ [/right][/b][/blue] [right][b][blue]خدا کے پیغمبر بھی خدا کے بتانے اور حکم دینے کے بعد ہی کسی قوم و گروہ کے کفر کا اعلان فرماتے اور اس سے اپنی براءت کرتے تھے۔ آج کون ہے جو خدا سے براہِ راست جان کر کسی کے کفر و گمراہی اور اس معاملے میں اس کے کسی غلط فہمی کے بجائے لازماً سرکشی و ڈھٹائی پر کھڑے ہونے کی یقینی شہادت دے سکے۔ اس بات کے تعین کا کسی عالم یا اکیڈمی کے پاس کیا جواز اور ذریعہ ہے کہ کسی فرد یا ٹولے کو سمجھانے اور راہِ راست پر لانے کے جو طریقے اور ذرائع ہوسکتے تھے وہ ان سب سے کام لے چکا اور پھر بھی اس کے بارے میں مایوس ہے۔ کسی فرقے کا ہر ہر فرد بار بار دعوت دیے جانے اور تفہیم کی کوششوں کے باوجود جانتے بوجھتے ناحق پر اصرار کررہا اور اس کے نزدیک کفر و شرک پر مبنی خیالات و معمولات کو اپنائے رکھنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے۔ کوئی ہے جو ان باتوں میں سے کسی ایک بھی بات کا دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکے۔ تو پھر ان باتوں کے ثابت ہونے سے پہلے کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو کافر و گمراہ قرار دیتا پھرے۔ دین کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں خدا و رسول کی نیابت امتِ مسلمہ یا مسلمان قوم کے نظمِ اجتماعی کو حاصل ہے۔ عام لوگ تو دور رہےکسی عالم و محقق تک کو اس معاملے میں کوئی دخل نہیں ہے۔ جیسے زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا نظام اور جرائم کی پاداش و سزا دینا وغیرہ معاملات۔ کسی فرد یا گروپ کے غلط اور قابلِ اعتراض اعتقادات کو بنیاد بناکر اسے غیرمسلم اور اسلام سے خارج قرار دینے کا معاملہ بھی مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے دائرے کا معاملہ ہے۔ جو عدالتی کاروائی کے ذریعے اور ٹھوس ثبوت اور شہادتیں فراہم کرنے کے بعد انجام پاتا ہے۔ گلی کوچے کے کسی فرد یا کسی علامہ و فہامہ کو اپنی ذاتی صوابدید پر اس طرح کے فیصلے کرنے کا کوئی حق شرعاً حاصل نہیں ہے۔[/blue][/b][/right] [b][right][blue]آپ اپنی یہ غلط فہمی دور کرلیجیے کہ کسی فرد یا گروپ کے عقائد اگر آپ کی نظر میں کفریہ و شرکیہ ہیں تو دینی حوالے سے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ لازماً اسے گمراہ، کافر اور دین سے خارج سمجھیں اور قرار دیں۔ یہ ایک عام مسلمان کی حیثیت سے آپ سے متعلق معاملہ ہے ہی نہیں۔ پھر اگر آپ بحرین میں رہتے ہیں اور وہاں کی حکومت و انتظامیہ قادیانیوں وغیرہ سے نہ واقف ہے اور نہ انہیں باقاعدہ طور پر حکومت کی طرف سے کافر قرار دیا گیا ہے تو آپ کو کیوں اس بات کی بے چینی ہے کہ آپ لازماً انہیں ایسا ہی سمجھیں اور کہیں۔ کیا اس کے بغیر آپ کا ایمان و اسلام ناقص رہے گا؟ ہرگز نہیں۔ اگر آپ دین اسلام کے بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتے اور ان کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو اطمینان رکھیے کہ آپ ایک کامل اور مکمل مسلمان ہیں۔پھر ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ کا تعلق اگر کسی دوسرے مسلمان ملک سے ہے اور آپ بحرین میں کام و معاش کے سلسلے میں مقیم ہیں یا وہیں رہ بس گئے ہیں اور یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ آپ کے ملک کی حکومت انہیں کافر قرار دے چکی ہے تو اگر آپ کو اپنی حکومت کی اس رائے سے اتفاق ہے تو آپ ان کے بارے میں یہ گمان رکھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ اس طرح کے معاملات میں آپ حکومتی اور عدالتی فیصلوں اور راے سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف بھی کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی وحی و الہام پر مبنی آسمانی فیصلے نہیں ہوتے جن سے کوئی اختلاف نہ کرسکتا ہو۔[/blue][/right][/b] [blue][right][b]شیعوں یا قادیانیوں کو غلطی پر سمجھتے ہوئے انہیں صحیح راستے پرلانے کے لیے جہاں تک دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں یہ پیشِ نظر رہے کہ ایک عام آدمی پر دین نے سب سے پہلے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور نجاتِ آخرت کی کوشش کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ اس کے بعد دعوتی و تبلیغی حوالے سے عام آدمی کا دائرہ یہ ہے کہ وہ اپنے احباب اور متعلقین میں خیر و شر کے حوالے سے بیداری و آگہی پھیلانے والا بنے۔ ساری امتِ مسلمہ، ساری دنیا اور مسلمانوں کے تمام گمراہ و غلط فکر فرقوں کی فکر کرنا اور انہیں ہدایت و فلاح اور راستی و درست فکری کی طرف لانے کے لیے فکرمند و کوشاں ہونا ایک عام آدمی کے دینی فرائض نہیں ہیں۔ اور نہ ہی اس پر یہ لازم ہے کہ وہ دنیا جہاں میں بسنے والے مسلمانوں کے تمام گروپوں کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کرے اور پھر ان کی بنیاد پر ان میں سے کسی کے صحیح و ہدایت یافتہ ہونے اور کسی کے گمراہ و بے دین یا کافر و مشرک ہونے کا فیصلہ کرے اور پھر ان چیزوں کی عمومی تشہیر کرے۔ کتنے مسلمان ہیں کہ انہیں اس طرح کے کسی فرقے اور ٹولے کے بارے میں کوئی معلومات اور ان کے غلط عقائد و خیالات کے بارے میں کسی طرح کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر کتنے ایسے مسلمان ہیں جو انہی فرقوں اور جماعتوں میں پیدا ہوئے ہیں، بچپن ہی سے ان عقائد و تصورات کی تعلیم و تربیت پاتے آرہے اور انہیں ہی اصل اسلام و ایمان باور کرتے آرہے ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے کہ انہیں سچائی کا پیغام پہنچائے اور راہِ راست کی طرف بلائے بغیر ان کے کسی ایسے گروپ و حلقے سے متعلق ہونے کی بنا پر انہیں کافر و مشرک اور بے دین و بد دین قرار دے دیا جائے۔ خدارا ان باتوں کی سنگینی پر غور و تدبر کیجیے، خدا خوفی سے کام لیجیے، آخرت کی پرسش کو پیشِ نظر رکھیے اور ضرور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط فرمائیے لیکن لوگوں کے بارے میں انفرادی و اجتماعی فیصلے دینے اور اعلانات سنانے سے پرہیز کیجیے۔ یہ اپنے اوپر بہت ہی سنگین و بھاری ذمہ داری لینا ہے۔ کل قیامت کے روز کہیں یہ فیصلے اور دعوے اور اعلانات اگر ثابت کرنے پڑگئے تو نا معلوم ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو بے جھجک اور بغیر سوچے سمجھے بے ڈھرک لوگوں کو گمراہ، بے دین، باغی اسلام، منکرِ دین، کافر اور مشرک قرار دے ڈالتے ہیں۔ خدا کی پناہ ان رویوں اور سنگین و خطرناک بولوں سے۔[/b][/right][/blue] [b][right][blue]ایک مسلمان کا معاملہ، ذہنیت اور اپروچ کیا ہوتی ہے۔ یہ کہ وہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے بارے میں، اپنے اہل و عیال کے بارے میں اور اپنے ملنے جلنے والوں کے بارے میں فکرمند و حساس ہوتا ہے۔ وہ اس دائرے میں خیر کے فروغ اور شر و معصیت کے استیصال کے لیے سرگرم ہوتا ہے۔ باقی لوگوں کے حوالے سے بھی اس کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کا ہمدرد و خیرخواہ ہوتا ہے۔ انہیں ہدایت کی طرف لاکر، خدا کے سامنے جھکا کر، اس کے دین کا متبع بناکر جنت میں لے جانا اور جہنم سے بچانا چاہتا ہے۔ اس کی روش یہ نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کی غلطیوں اور گمراہیوں کو بنیاد بناکر ان سے علیحدہ ہوجائے، قطع تعلق کرلے اور ان کے بارے میں گمراہی اور بربادی کے فتوے اور فیصلے دے۔ بلکہ وہ لوگوں کی فکر و عمل کی کوتاہیوں اور اخلاقی انحرافات کو دیکھ دیکھ کر کڑھتا اور ان کی اصلاح و رجوع کے لیے تن من دھن سے کوشش کرتا ہے۔ وہ برائیوں سے نفرت کرتا ہے نہ کہ برائی کرنے والوں سے۔ وہ غلطیوں اور نادرست اعتقادات و معمولات کی وجہ سے لوگوں سے نفرت کرنے اور دور بھاگنے کے بجائے انہیں اپنائیت و خیرخواہی کے ساتھ توجہ دلاتا اور ان کی اصلاح کی سعی کرتا ہے۔ خدا کے پیغمبروں کا معاملہ اس حوالے سے کیا ہوتا تھا ہمیں اس کے بارے میں مطالعہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تبصرہ فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس غم میں خود کو ہلاک کرڈالیں گے کہ یہ لوگ ہدایت قبول نہیں کرتے۔ ہمیں بھی اسی فکر و ذہینت اور رویہ و روش کے ساتھ جینے اور لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں آخرت کی نجات و سرخروئی نصیب فرماے، آمین۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔"۔۔۔۔۔۔[/blue][/right][/b] [center][b][size=5][red]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/red][/size=5][/b][/center] [center][size=4][b](اس کے علاوہ کفر کے فتاوی جات کے اجراء اور خود کش بمباری کے موضوع پر ڈیبیٹز جاری ہیں۔ وہ بھی اپنے اختتام کے بعد ان صفحات میں انشاء اللہ تعالیٰ پیش کردی جائیں گی۔)[/b][/size=4][/center][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top