Powered by
UI
Techs
ہوم
>
فورم
>
>
عمومی بحث و نظر
>
بدعت کی تعریف
Post Reply
Username
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote]بسم اللہ سلام علیکم ابراہیم صاحب، تاخیر کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ لیکن جیسے ہی مصروفیات سے فراغت ملی ہے، آپ کی پوسٹ کا جواب عرض کر رہی ہوں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ علماء اس حقیقت سے واقف ہیں کہ "رضی اللہ عنہ" کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ میرے سامنے اب یہ سوالات ہیں: 1) عام عوام اس کی دینی حیثیت سے واقف کیوں نہیں ہے؟ 2) اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ سعودی عرب کے اردو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ شائع کردہ قران میں سورہ مجادلہ کی آّخری آیت کی تفسیر میں مفسر لکھ رہے ہیں کہ:"۔۔۔۔۔ اور علمائے اہلسنت نے صحابہ کے علاوہ اسکا استعمال ممنوع قرار دیا ہے۔۔۔۔۔" 3) اسی طرح کا مسئلہ "علیہ السلام" کے ساتھ ہے، جو کہ صرف انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ بریلوی اور اہل تشیع حضرات اہلبیت کے لیے بھی اسکا استعمال کرتے ہیں مگر اس پر دیگر حضرات کی طرف سے بھرپور تنقید ہوتی ہے۔ (میں نے یہ مسئلہ کئی ڈسکشن فورمز میں دیکھا ہے)۔ حتیٰ کہ امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں اہلبیت کے لیے "علیہ السلام" استعمال کیا ہے، مگر موجودہ ایڈیشنز میں اسکو تبدیل کر کے "رضی اللہ عنہ" کر دیا گیا ہے۔ جہاں تک اذان سے پہلے درود کو دین کا حصہ بنا لینے کا تعلق ہے، تو میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ بہت آخر کی بحث ہے اور ہم تو ابھی تک یہ بات ہی نہیں طے کر سکے کہ آیا کوئی عبادت کا ایسا فعل انجام دیا جا سکتا ہے جس کا حکم رسول ص نے نہ دیا ہو۔ اور مجھ جیسے کم علم کے لیے تو بہت ہی مشکل بات ہے کہ ایسے مسائل پر زبان کھولی جائے۔ بہرحال آپ کی اجازت سے صرف وہ باتیں عرض کرنا چاہوں گی جو کہ میری عقل میں آ سکی ہیں۔ جب میں نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا، تو میرے سامنے یہ سوالات تھے: 1) آیا صحابہ نے رسول ص کی زندگی میں ایسے کوئی نیا عمل کیا ہو جسکا کرنے کا حکم پہلے رسول ص نے نہ دیا ہو۔ اور ایسے نئے عمل پر رسول ص کا کیا ردِ عمل تھا۔ 2) اور آیا کہ رسول ص کی وفات کے بعد بھی صحابہ نے ایسے کوئی نئے اعمال اپنی ذاتی رائے سے سر انجام دیے؟ (یعنی صحابہ کے افعال اگرچہ کہ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں، مگر مجھے یہ دکھنا تھا کہ بدعت کے ذیل میں اُن کی انڈر سٹینڈنگ کیا تھی)۔ تو رسول ص کی زندگی کے حوالے سے پہلی حدیث تو یہ تھی: صحیح مسلم، کتاب 34، حدیث6466 جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے: رسول (ص) نے فرمایا، "جس نے اسلام میں کسی اچھے رواج کی بنیاد رکھی اور لوگوں نے اس اچھے کام میں اس کی پیروی کی، تو اسے، اس پیروی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا، اور پیروی کرنے والے کے ثواب میں بھی کسی قسم کی کمی نہ ہو گی۔ اور جو کوئی اسلام میں بری رسم کی بنیاد رکھے گا اور لوگ اس کی پیروی کريں گے، تو اسے ان پیروی کرنے والوں کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے بوجھ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی مگر اہلحدیث حضرات سے جب میں نے رجوع کیا تو انکا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہمیں اس واقعہ کا پس منظر دیکھنا ہو گا کہ رسول ص نے کس سلسلے میں یہ فرمایا تھا۔ (یعنی رسول پہلے ہی خیرات کرنے کا حکم دے چکے تھے اور یہ ایک نیا عمل نہیں تھا)۔ پس اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اپنی رائے یا اجتہاد سے انسان کوئی نیا عمل کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دوسری حدیث جو میرے مطالعہ میں آئی، وہ یہ تھی: ابن رفیع سے روایت ہے: ایک دن ہم رسول (ص) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ (ص) نے رکوع سے سر اٹھایا اور کہا سمع اللہ لمن حمدہ، ایک شخص جوپیچھے نماز پڑھ رہا تھا اس نے کہا ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو رسول اللہ (ص) نے پوچھا کہ یہ کون شخص تھا۔ اس آدمی نے کہا،"میں"۔ اس پر رسول (ص) نے فرمایا، میں نے تیس سے زیادہ فرشتے دیکھے جو اس نیک عمل کو پہلے لکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ [ صحیح بخاری، کتاب 12، حدیث 764] حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے اسپر کہ نماز میں ان اذ کار کے علاوہ، جو حدیث میں ملتے ہیں، کوئی بھی نیا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ صرف خیال یہ رکھا جاۓ کہ یہ نیا ذکر دین کے اصولوں کے خلاف نہ ہو۔ پھر حافظ عسقلانی صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب حضرت خبیبؓ کو کفار قتل کرنے لگے تو انہوں نے مرنے سے قبل دو رکعت نماز ادا کرنی کی اجازت مانگی۔ اور حافظ العسقلانی کا کہنا ہے کہ یہ عمل انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے کیا۔ اسی طرح کے چند اور واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ نے اپنی رائے سے نئے کام کیے، اور جب بعد میں رسول ص کو انکا علم ہو تو آپ نے اِن اعمال کے نئے یا پرانے ہونے کو نہیں دیکھا، بلکہ یہ دکھا کہ آیا یہ اعمال دین کے مطابق ہیں یا نہیں۔ سنن ابو داؤد کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے: Book 23, Number 3413: Narrated Alaqah ibn Sahar at-Tamimi: Alaqah passed by a clan (of the Arab) who came to him and said: You have brought what is good from this man. Then they brought a lunatic in chains. He recited Surat al-Fatihah over him three days, morning and evening. When he finished, he collected his saliva and then spat it out, (he felt relief) as if he were set free from a bond. They gave him something (as wages). He then came to the Prophet (peace_be_upon_him) and mentioned it to him. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: Accept it, for by my life, some accept it for a worthless charm, but you have done so far a genuine one. میں نے پھر اہلحدیث کے علماء کے سامنے یہ سوال اٹھایا اور انکا جواب یہ تھا کہ اس وقت تک رسول ص زندہ تھے اور صحابہ کے ایسے اعمال کو نیا عمل نہیں کہہ سکتے۔ لیکن آج کے دور میں اگر کوئی ایسا نیا عمل کرے گا تو وہ بدعت کہلائے گا۔ تو اب مسئلہ یہاں تک پہنچا کہ آیا صحابہ کرام نے ایسے نئے اعمال (جن کا رسول ص نے اپنی زندگی میں حکم نہیں دیا تھا) آپ ص کی وفات کے بعد بھی کیے؟ یہ چیز میرے بس سے باہر تھی کہ ایسے افعال کے لیے احادیث کو ڈھونڈا جائے، اور اہلسنت بریلوی حضرات کے لٹریچر میں بھی مجھے ایسی روایات نہیں ملیں۔ البتہ اہلحدیث حضرات ابن مسعود کی روایت نقل کرتے ہیں جو کہ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں نقل کی ہیں۔ بہرحال، چند دوسرے مضامین پڑھتے وقت چند ایسی احادیث میری نظر سے گذریں کہ جن پر میں رک گئی اور مجھے بہت سوچنا پڑا۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کر رہی ہوں۔ عثمان بن عبد اللہ کہتے ہیں، " میرے گھر والوں نے مجھے ام المومنین ام سلمہ کے پاس ایک پانی سے بھرے برتن کے ساتھ بھیجا۔ ام سلمہ نے ایک بوتل نکا لی جس میں رسول (ص) کے کچھ بال تھے۔ اور ایسا ہوتا تھا کہ اگر کسی کو نظر بد لگ جا تی تھی یا کوئی بیمار ہوتا تھا تو اسے پا نی سے بھرے برتن کے ساتھ ام سلمہ کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ وہ پا نی میں سے اس بال کو گذارتی تھیں اور پھر لوگ یہ پا نی پی لیا کرتے تھے۔ میں نے اس بوتل میں چند سرخ بال دیکھے۔ [صحیح بخاری ، جلد 7، کتاب 72، حدیث 784] میرے ناقص رائے اس حدیث کے متعلق یہ ہے کہ ام المومنین ام سلمہ (ر) نے یہ نیا عمل اپنی ذا تی راۓ سے خود متعارف کرایا (یعنی رسول ص کے بال سے بیماری کے خلاف یوں برکت حاصل کرنا کہ اسے پانی میں بھگویا جائے اور پھر یہ پانی پیا جائے)، کیونکہ انہیں علم تھا کہ رسول (ص) کے تبرکات میں برکت ہے۔ اسماء بنت ابو بکر نے کہا: یہ رسول اللہ (ص) کا جبہ ہے جو عائشہ کے پاس ہوتا تھا اور اس کی وفات کے بعد میرے قبضے میں آ گیا۔ اللہ کے رسول (ص) اس کو پہنا کرتے تھے۔ اور ہم (وہ اور عائشہ) اس کو بیماروں کے لیے دھویا کرتے تھے تاکہ وہ اس سے شفا پا سکیں [صحیح مسلم، کتاب 24، حدیث 5149] حضرت عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابو بکر نے یہ عمل اپنی ذا تی راۓ سے کیا، کیونکہ انہیں علم تھا کہ رسول (ص) کے تبرکات میں برکت ہے۔ ابو ہریرہ نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ دو رکعت نماز مسجس اشعار میں ادا کریں اور ان کو کہا کہ نماز کے بعد وہ یہ کہیں کہ: "ھذا لی ابی ھریرہ" (یعنی یہ ابو ھریرہ کے لیے ہیں) سنن ابو داؤد، جلد ۲، صفحہ 236 ا س حدیث کے ذیل میں اہلحدیث حضرات کے لیے دو سوالات اٹھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر شریعت میں دوسرے لوگ ایصالِ ثواب نہیں کر سکتے تو ابو ھریرہ لوگوں سے یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ سے کہیں کہ "ھذا لی ابی ھریرہ"؟ (یعنی یہ ابو ھریرہ کے لیے ہیں) دوسرا سوال آپ حضرات سے بدعت کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔ ابو ھریرہ یہ نیا عمل مسجد العشار میں کر رہے ہیں جبکہ رسولﷺ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اگر اہلحدیث حضرات کی بدعت کی تعریف کو صحیح مانا جائے تو پھر ابو ھریرہ کا یہ فعل ضلالت کی زد میں آ جائے گا؟ اس ابو ہریرہ والی حدیث کا متن عربی میں آن لائن پڑھیں: http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=4&Rec=5421 سنن ابو داؤد، الملاحم ، فی ذکر البصرہ حدثنا محمد بن المثنى حدثني إبراهيم بن صالح بن درهم قال سمعت أبي يقول انطلقنا حاجين فإذا رجل فقال لنا إلى جنبكم قرية يقال لها الأبلة قلنا نعم قال من يضمن لي منكم أن يصلي لي في مسجد العشار ركعتين أو أربعا ويقول هذه لأبي هريرة سمعت خليلي رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الله يبعث من مسجد العشار يوم القيامة شهداء لا يقوم مع شهداء بدر غيرهم قال أبو داود هذا المسجد مما يلي النهر حضرت انس کا رسولﷺ کے بال کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہونا :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ۵) ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس نے فرمایا: یہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا ایک بال مبارک ہے ۔ پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہی میں نے وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔ الاصابہ فی تمیز الصحابہ۷۱:۱ یہ ایک نیا عمل ہے جو انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے کیا۔ حضرت انس کا رسولﷺ کے پیالے سے برکت حاصل کرنا ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: حضرت حجاج بن حسان بیان کرتے ہیں: ہم حضرت انس کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کہ تین مادہ گوہ اور لوہے کا ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ گھا۔ اور حضرت انس کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور رسول ﷺ پر درود پڑھا۔ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ مسند احمد بن حنبل ۱۸۷:۳ البدایہ و النہایہ ۳۷۰:۴ قاضی عیاض بیان کرتے ہیں: اور عبداللہ ابن عمر کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ، جہاں رسولﷺ تشریف فرما ہوتے تھے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔ الشفاء۶۲۰:۲ انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے: البدایہ وا لنہایہ، 4:368 http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=251&CID=89&SW=عصية-انس#SR1 حدثنا ابو شيبة ابراهيم بن عبد الله بن محمد، ثنا مخول بن ابراهيم، ثنا اسرائيل عن عاصم، عن محمد بن سيرين، عن انس بن مالك انه كانت عنده عصية لرسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم فمات فدفنت معه بين جنبه وبين قميصه کہ ان کے پاس رسولﷺ کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ چھڑی ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔ البدایہ و النہایہ ۳۶۸:۴ صحیح بخاری، کتاب الاستئذان http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=13&CID=170#s1 6355 ـ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ، كَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نِطَعًا فَيَقِيلُ عِنْدَهَا عَلَى ذَلِكَ النِّطَعِ ـ قَالَ ـ فَإِذَا نَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَخَذَتْ مِنْ عَرَقِهِ وَشَعَرِهِ، فَجَمَعَتْهُ فِي قَارُورَةٍ، ثُمَّ جَمَعَتْهُ فِي سُكٍّ ـ قَالَ ـ فَلَمَّا حَضَرَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ الْوَفَاةُ أَوْصَى أَنْ يُجْعَلَ فِي حَنُوطِهِ مِنْ ذَلِكَ السُّكِّ ـ قَالَ ـ فَجُعِلَ فِي حَنُوطِهِ. حضرت ثمامہ حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم نبیﷺ کے لیے ایک چمڑے کا گدا بچھا دیا کرتی تھیں اور رسولﷺ ان کے ہاں اسی طدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ جب نبیﷺ سونے سے بیدار ہو کر اٹھ کحڑے ہوتے تو میں پﷺ کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک جمع کر لیتا اور ان کو ایک شیشی میں ڈال کر خوشبو میں ملا لیا کرتا تھا۔ حضرت ثمامہ کا بیان ہے کہ جب حضرت انس کی فوات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ وہ خوشبو ان کے کفن کو لگا دی جائے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خوشبو ان کے کفن کو لگا دی گئی۔ صحیح بخاری ۹۲۹:۲ اب رسول ص نے کبھی یہ نہیں فرمایا تھا کہ ایسی کوئی انکے پسینے والی خوشبو کفن کو لگائی جائے، اور انس ابن مالک یہ کام اپنی ذاتی رائے سے کر رہے ہیں۔ غرض، میری نظر سے ایسی اور بہت سی احادیث گذری ہیں جہاں صحابہ کرام اپنی ذاتی رائے سے رسول ص کی وفات کے بعد نئے اعمال اپنی ذاتی رائے سے کر رہے ہیں۔ اور ان سب واقعات کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ پائی ہوں کہ بدعتِ حسنہ (یعنی ایسی بدعت جو کہ دین کے مطابق ہو) کا وجود موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے نتیجے میں غلط ہوں، مگر فی الحال یہی مجھ کم علم و کم عقل کی ذاتی رائے ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا ایسے افعال کو اتنا زیادہ کیا جائے کہ وہ دین کا حصہ نظر آنے لگیں (جیسا کہ اذان سے پہلے درود کا مسئلہ)، تو اس سلسلے میں بھی علماء سے مجھے دوآراء ملی ہیں۔ پہلی رائے اہلحدیث علماء کی ہے کہ لوگوں نے اسے اذان کا حصہ بنا لیا ہے اور دوسری طرف بریلوی علماء کا کہنا ہے کہ یہ اذان کا حصہ نہیں ہے اور اسکے بغیر بھی یقیناً اذان ہو جاتی ہے۔ بہرحال میں اس بحث میں نہیں پڑ سکتی کیونکہ دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون کس نیت سے کیا کام کر رہا ہے۔ مگر اس موقع پر میں اذان سے پہلے درود پڑھنے کے مسئلہ کو ایک اور مسئلہ سے منسلک کروں گی۔ اور وہ مسئلہ ہے تراویح کی نماز کا۔ اور اس تراویح کی نماز میں بھی کئی نکات ہیں جن پر میرے پاس بہت سے سوالات ہیں ، مگر اس وقت میں صرف اور صرف دو سوالات اٹھا رہی ہوں: پہلا سوال ::::::::::::: کیا رسول نے کبھی باجماعت تراویح کے دوران پورا قران ختم کیا (جیسا آجکل کیا جاتا ہے)؟ دوسرا سوال: ::::::::::::::: اور کیا رسول ص نے کبھی رمضان کے پورے 30 دنوں تک تراویح باجماعت ادا کی؟ (جیسا آجکل کیا جاتا ہے) شریعت کا دارومدار صرف اور صرف ؔوحی" پر ہے۔ (یعنی رسول بھی اپنی طرف سے کسی کام کا اضافہ نہیں کر سکتے)۔ اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تراویح کا پورے 30 دن تک اہتمام کرنے سے کیا یہ دین کا حصہ بن گئی ہے (جیسا کہ اذان سے پہلے درود کا مسئلہ ہے)؟ اور کیا انبیاء کے نام کے ساتھ ہمیشہ ؔعلیہ السّلام" کا استعمال ہونے سے یہ بھی دین کا حصہ بن گیا ہے؟ (ہمارا اصل سوال یہی تھا کہ کوئی عمل اتنا زیادہ کیا جائے کہ وہ دین کا حصہ معلوم ہونے لگے)۔ جنابِ حافظ صاحب، میں معذرت چاہتی ہوں کہ میرے ذہن میں شاید ہزاروں سوالات پیدا ہوتے ہیں اور میں آپ کو بھی اِن سوالات سے پریشان کر رہیں ہوں۔ بلکہ جب میں چھوٹی تھی تو میرے تمام گھر والے میرے ان سوالات کرنے کی عادت سے تنگ تھے اور اکثر جواب دینے سے عاجز آ جایا کرتے تھے اور ناراض ہو جاتے تھے۔ بہرحال بڑے ہونے کے بعد یہ عادت کچھ کنٹرول میں ہے۔ امید ہے کہ آپ میرے ان سوالات کی عادت سے ناراض نہیں ہوں گے۔ لول۔ والسلام۔ م[/quote]
Write in Urdu
اردو میں لکھيۓ
(For Urdu Forums Only)
Write here in Roman Urdu
Preview
Kwx Amdid
خوش آمديد
A
=
آ
a
=
ا
B
=
N/A
b
=
ب
C
=
ث
c
=
چ
D
=
ڈ
d
=
د
E
=
N/A
e
=
ع
F
=
N/A
f
=
ف
G
=
غ
g
=
گ
H
=
ھ
h
=
ح
I
=
N/A
i
=
ي
J
=
ض
j
=
ج
K
=
خ
k
=
ك
L
=
N/A
l
=
ل
M
=
N/A
m
=
م
N
=
ں
n
=
ن
O
=
N/A
o
=
ا
P
=
N/A
p
=
پ
Q
=
N/A
q
=
ق
R
=
ڑ
r
=
ر
S
=
ص
s
=
س
T
=
ٹ
t
=
ت
U
=
ہ
u
=
ء
V
=
ظ
v
=
ط
W
=
N/A
w
=
و
X
=
ژ
x
=
ش
Y
=
N/A
y
=
ے
Z
=
ذ
z
=
ز
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top