Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
safimera

CANADA
Topic initiated on Saturday, October 9, 2010  -  2:10 AM Reply with quote
Social brutality and islamic scholars


I get usually depressed when I see that all NGOs fighting against the cruelty and adversity of society are not run by any islamic group or scholar.

Yesterday again I saw one program "50 minutes" on geo tv...and stories were horrible.

....young girl married to very old guy by force....women not getting inheritence from their parents and then beaten harshly by own brothers...........acids on faces .....worst of all , with help of her parents, a girl had been raped by police b/c she married by her choice......

these are very very very few examples what brutality is happening in the society....

but always the people who are fighting agianst them are not islamic scholars???

Islamic scholars just condemn such activities and then again they go to thier caves.

But if something happens against the religious rituals or something related with concept of faith...they usually start a big protest or come to the roads.

No doubt, to save concept of faith and HaqooqAllah are very important but why they did not give the same importance to social adversities???? ???
why

What I learned from history: RasoolAllah (PBUH) AND HIS SAHABA (r) GAVE same importance to both HaqooqAllah and haqooqAlibaad!!! and fight for it by action NOT only Tableegh!!!!

and sometimes they gave more importance to social injustice over religious rituals.....and this is the Quranic teaching as well that give more importance to social injustice than religious rituals , if situation like that would come.....

all islamic scholars do not think that present situation is to give more importance to action against social injustice rather than only Tableegh????

Believe me!! it is alarming situation to muslims like me (a weak muslim) and all islamic scholars ........when such adversities come to your door and to your families ...you would regret and cry and then this is not end......in the "last day" GOd would also ask us what you have done in your capacity against such social injustice???
WHAT COULD WE ANSWER >>>IMAGINE!!!!!

I salute to all NGOs which are genuinely doing such help to society, whether they are muslims or not....religious, socialist or communist whatever they are!!!!
I SALUTE THEM.

God knows better.

Edited by: safimera on Saturday, October 09, 2010 2:14 AM
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, October 9, 2010  -  9:37 AM Reply with quote
Salam all, good topic initiated by Respected Safimera, i will soon try to participate.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Saturday, October 9, 2010  -  4:40 PM Reply with quote
wassalam Isfi, promises, promises, and then you disappear.......yes a very important topic and a very neglected one. A woman should have been more secure in an Islamic society but sadly it is just the opposite. The status of women in our society is of a commodity though Islam gave women the right to choose the way they want to live and also choose their husbands.
You are right the NGOs working for women's rights or providing relief, protection and help are all non religious. Domestic violence is not something we even think a serious offense. Our society thinks that a husband has a right to beat his wife, in villages a women cannot even register a complain of domestic violence because it is not a done thing. the question why religious groups are not involved is a very important one. In my opinion it is because they are not clear in their minds about the status of women so it is better to ignore than get involved.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, October 9, 2010  -  5:10 PM Reply with quote
Don't worry madam, i m here writing on this topic a lengthy one as usual. Soon i will come with that stuff, probably on Monday 11 2010.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Tuesday, October 12, 2010  -  4:26 PM Reply with quote
well Isfi monday has gone by and also tuesday ...... so are you still writing should I get my glasses ready? It would be nice if other people also give their input as this is a very important topic and many of us have heard stories of domestic violence abuse of someone close or a friend of someone we know if it is in Pakistan nothing ever comes out of it. A very important question why are religious groups silent ?
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, October 13, 2010  -  3:50 AM Reply with quote
Salam, Yes my writing is walking slowly, when complete, it appears on your screen. Yes keep ready your big glasses for my small writing. Excuase me for the delay and wait for me, i m in the way, just reaching.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, October 13, 2010  -  6:20 AM Reply with quote
سب سے پہلے تو برادرم سیفے میرا صاحب کی خدمت میں سلام و آفرین و ہدیۂ تبریک کہ وہ مردانہ جرأت و جسارت سے کام لے کر اتنے بنیادی اور اساسی موضوعات کو زیرِ بحث لا کر معاشرے اور اس میں پائی جانی والی کھوکھلی اور ظاہری سطح کی دھوم و ہلچل رکھنے والی مذہبیت کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے اور اس کی کمزوری، سطحیت، مردگی، بے اثری، غیر معیاری پن اور حقیت و معنویت و استحکام و روح ہر ہر چیز سے خالی ہونے کی اصل تصویر سے نقاب الٹ ڈالتے ہیں ۔ گو اس کے بعد اپنی اور اپنے معاشرے میں پائے جانے والی دینداری کا بدنما قالب و سراپا ہماری آنکھوں پر عیاں ہوکر اور اور ہمارا وجود و کردار و اخلاق اپنی تمام تر شناعتوں اور پستیوں کے ساتھ منظرِ عام پر آ کر ہمارا اپنا ہی دل جلاتا اور قلب دُکھاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ضروری کام اور حقیقی بہی خواہی ہے کہ ہمیں اپنے کھوکھلے پن، خرابیوں ، بیماریوں اور کمزوریوں سے آگاہ کیا جائے ۔ ہماری خداپرستی اور اسلام دوستی کے کھوکھلے پن اور سطحیت اور اصل معیار و حقیقت سے نامطابقت و دوری کا ہمیں اچھی طرح احساس دلایا جائے ۔ اپنے فرائض و ذمے داریوں سے ہماری غفلت و پہلو تہی اور اصل کاموں اور میدانوں سے ہماری بے تعلقی و بے توجہی کی تفصیل سنائی جائے اور معاشرے کے بگاڑ و فساد اور شر و خرابی میں ہمارا جو کچھ اور جتنا کچھ حصہ اور کردار ہے ، اس سے ہمیں بار بار واقف کرایا جائے ۔ اسی کا نام خوداحتسابی اور ذاتی تعمیر ہے ۔ یہ جہاں فرد کے لیے انفرادی طور پر ضروری ہے ، بالکل اسی طرح ایک قوم و ملت کے لیے اجتماعی ا سکیل پر ایک نہیات لازمی کام ہے ۔ اس کے بغیر فرد اور قوم کا وجود خرابیوں اور کمزوریوں کی دیمک چاٹ چاٹ کر اتنا بودا اور ناتواں بنادیتی ہیں کہ ہوا کا ایک تیز جونکھا بھی اسے تتر بتر کرنے اور فضاے وقت و زمانے میں کسی بے قیمت گرد و غبار کی طرح بکھیر کر رکھ دینے کے لیے کافی ہوجاتا ہے ۔


اس میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ موجودہ زمانے میں جتنے فلاحی ادارے اور خدمتی انجمنیں عوامی بہبود کے لیے قائم و سرگرم ہیں ، ان سے مسلمانوں کے علما اور ان کی دینی تحریکوں کا کوئی بہت گہرا اور قریبی رشتہ نہیں ہے بلکہ قریب قریب وہ اس سے بالکل لاتعلق اور کنارہ کش ہیں ۔ برادرم سیفے میرا کی یہ بات بالکل درست ہے کہ مذہبی علما اور دینی ا سکالرز اس معاملے میں محض زبانی مذمت اور لفظی و بیانی تنقید پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے بعد عملی میدان میں کود کر اس سلسلے میں اصلاح و تعمیر کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھاتے ۔ معاشرے میں ظلم و ستم اور جور و جفا اور حق تلفی و زیادتی جس بڑ ے پیمانے پر رائج ہے اور جس طرح روزانہ بے شمار ظلم و ستم کے نہایت دردناک و مکروہ واقعات رونما ہوتے رہتے اور معاشرے کے لاتعداد افراد و گھرانے اس کا شکار بنتے رہتے ہیں ، اس صورتحال کی تبدیلی اور اس طرح کے معاشرتی ظلم و فساد کے انسداد کے لیے علما و ا سکالرز اور دینی تحریکیں اور جماعتیں مذمتی بیانات اور تعزیتی تبصروں سے آگے بڑ ھ کر عملاً کچھ بھی کرتے نہ نظر آتے ہیں اور نہ ان کے پروگراموں ، مقاصد اور منشوروں میں ایسا کوئی ٹارگٹ اور دفعہ مرقوم ہے جو اس طرح کی خراب صورتحال کا تفصیلی ادراک و تجزیہ کرتی اور اس کی پائدار درستی اور واقعی تلافی کے لیے کسی قسم کی کوشش کے ارادے کا اظہار کرتی ہو۔


یہ بات بھی ٹھیک ہی کہی گئی ہے کہ اہلِ علم اور نمائندگانِ مذہب اس طرح کے دردناک واقعات اور ظلم و ستم کی داستانوں کو سن کر تو ذرا نہیں تڑ پتے اور متحرک ہوتے لیکن اگر کہیں کوئی بات دینی خیالات کے خلاف ظاہر ہو یا دینی شعائر و مظاہر کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ رونما ہوجائے یا کوئی آزاد منش دانشور اور سیکولر پسند ا سکالر اسلام کے حوالے سے کوئی قابلِ اعتراض بات کر دے تو یہی مذہبی پیشوا اور دینی قائدین روڈوں پر نکل آتے اور احتجاج و مارچ کے ہنگامے کھڑ ے کر دیتے ہیں ۔ مذمتی بیانات اور تردیدی مضامین کا تانتا بندھ جاتا اور فضا احتجاجی شور و غل اور اشتعال انگیز تقاریر و خطبات سے اٹ جاتی ہے ۔ آخر یہ تضاد کیوں ہے ؟ کیوں علما دینی نزاکت کے اوقات میں تو غیرمعمولی طور پر فعال نظر آتے ہیں لیکن سماج میں ہونے والے بدترین مظالم اور سنگین ترین واقعات انہیں کیوں نہیں تڑ پاتے اور روڈوں پر لاتے ؟ یہ سوال نہایت معقول و وزن دار ہے ۔ لیکن اس کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے ۔ بات اصل میں دینی فکر کے اُس انحراف سے شروع ہوتی ہے جو مسلمانوں نے اپنے مفکرین و قائدین کی قیادت و رہنمائی میں اسلامی تعلیم و طریق کے باب میں اختیار کیا۔ مسلمان جب سیاسی سطح پر مغلوب ہوئے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی طرف متوجہ ہوتے جو ان کے زوال و پچھڑ ے پن کا باعث بنی تھیں وہ غالب اقوام کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات میں بری طرح مبتلا ہوگئے اور انہوں نے ان کے خلاف ناعاقبت اندیشانہ قسم کی مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ ان کا مطالبہ اور نشانہ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ بس سیاسی طور پر اپنا غلبہ چاہتے تھے اور اپنے اپنے معاشروں میں اسلامی حکومت اور اسلامی قانون و نظام کی عملداری کے طالب تھے ۔ اس صورتحال اور جذباتی ہیجان اور رد عمل کی فضا میں ان کے درمیان جو اسلامی لٹریچر اور ادب وجود میں آیا اس میں اسلام کے نام پر بس ایک ہی بات کو مختلف اسالیب و طرق سے بار بار بیان کیا گیا تھا کہ مسلمان کا کام زمین پر خدا کی حکومت قائم کرنا ہے ۔ مسلمان کا نصب العین اسلامی غلبہ ہے ۔ مسلمان کی ڈیوٹی دین کو سیاسی، قانونی، نظامی اور انتظامی سطح پر با اقتدار کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ۔ مسلمان کے لیے نجات اور خدا کی رضا کا حصول اسی بات پر موقوف ہے کہ وہ زمین پر خدائی اور اسلامی نظام و قانون کی بالادستی کے لیے جہاد کرتا اور قربانیاں دیتا رہے ۔ یہ وہ فکری رہنمائی تھی جو گو اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک واضح انحراف تھا لیکن اس نے مسلمانوں کے درمیان ملت کے پیمانے پر عمومی قبولِ عام حاصل کیا اور پچھلی دو تین صدیاں مسلمان اسی فکر کو حرزِ جاں بنا کر جیتے اور اقدامات کرتے رہے ہیں ۔ ان کے علما، عوام اور تحریکیں اور جماعتیں ایک کے بعد ایک اسی سوچ کے تحت اٹھتے ، تگ و دو کرتے اور قربانیوں کی قطار لگاتے رہے ہیں ۔ لیکن اس فکر کے تحت کی گئی عظیم الشان کوششوں اور لاتعداد جانی و مالی قربانیوں نے مسلمانوں کو مثبت طور پر تو کوئی فیض و فائدہ نہیں پہنچایا الٹا مسلمانوں کے تمام موجودہ مصائب و آلام کی جڑ یہی فکری انحراف ہے ۔ اس نے مسلم علما و ا سکالرز کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی تعمیر و نگرانی کے انتہائی اہم کام سے غافل کیا اور اسی نے مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو عوامی اور معاشرتی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکے رکھا۔ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا خود کش بمباری کا ظاہرہ بھی اسی فکری انحراف کی کوکھ سے برآمد ہوا اور دنیا بھر میں اسلامی کی بدنامی کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کے معاشرے میں ایک ناسور بن کر پھیل گیا ہے ۔ اس فکری انحراف کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوئی کہ پچھلی چند صدیوں سے مسلمان عوام ہوں یا علما، سب اسلام کو سیاسی طور پر فتح و غلبہ دلانے اور اس کے مقابلے میں ساری غیر مسلم اقوام کو مغلوب و مفتوح کرنے کی باتوں اور کاروائیوں میں مشغول رہے ہیں اور پھر اسی فکر و عمل کی نسبت سے ان کے اندر اُن تصورات و معمولات نے اسلامی تعلیمات و نمونہ جات کی حیثیت اختیار کی جن میں اس طرح کے فلاحی و رفاہی کاموں کی نہ کوئی خاص اہمیت تھی اور نہ اس فکر و عمل کی لے سے اس کے سروں میں سے کوئی سر میل کھاتا تھا۔ مسلمان اس سارے عرصے میں بس ایک کام کرتے رہے ، غیر مسلموں کے خلاف زبانی اور قلمی چیخ پکار اور عملی و مسلح جدوجہد۔ سیاسی غلبے کے اس بنیادی خیال نے ان کے سارے نظریات و اعمال کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور انہیں اس سانچے اور رخ پر ڈھال دیا جس کے مطابق اس طرح کے معاشرتی فلاح و بہبود اور سماجی ظلم و ستم کے انسداد کے مقاصد بالکل ثانوی یا غیر اہم حیثیت رکھتے تھے ۔


اسی لے اور رو سے مسلمانوں کے زعما و لیڈران میں ایک ظاہرہ اسلام کی ٹھیکیداری کا بھی پیدا ہوا کہ وہ خود کو اسلام کا ٹھیکیدار و اجارہ دار سمجھنے لگے ۔ اب جو کوئی اسلام پر بات کرتا یا کسی اسلامی تعلیم، قرآنی آیت یا حدیث رسول کے حوالے سے کوئی نئی تحقیق یا پہلے سے موجود تعبیرات سے ہٹ کر کوئی نئی تعبیر و تاویل پیش کرتا، یہ اسے گمراہ، بے دین، اسلام کی جڑ اکھاڑ نے والا، مسلمانوں کا بدخواہ، ان میں انتشار و ضلالت اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والا اور اسلام دشمنوں کا ایجنٹ و زرخرید غلام قرار دینے لگے ۔ یوں ان میں باہمی منافرت، آپسی جھگڑ وں اور ایک دوسرے کے خلاف کفر و ضلالت کے مخالفانہ فتو وں کا نہ ختم ہونے والا ایک بدترین سلسلہ بھی قائم ہو گیا۔ سیاسی مغلوبیت نے ان کے اندر جو مختلف قسم کے رد عمل پیدا کیے تھے بعد میں انہوں نے مختلف دھاروں اور مسلکوں کی شکل بھی اختیار کی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور نت نئی اقوام و معاشرتوں سے سابقے اور تعامل و تبادلے کے نتیجے میں مسلمانوں میں فکر و عمل کی جو بہت سی خرابیاں اور انحرافات جگہ بنا چکے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ ایک پورے مکتبۂ فکر و نقطۂ نظر کی صورت ڈھارتے گئے ۔ یوں اس سیاسی مغلوبیت نے ’جو کہ ایمان و اخلاق کے زوال و پستی اور سیرت و کردار کی کمزوریوں اور خامیوں کا نتیجہ تھی‘ بعد کے دور میں مسلمانوں میں بے تحاشا افراتفری، افتراق، پریشان خیالی، مسلکی و فرقہ وارانہ ذہنیت و رجحانات، غیرمسلم اقوام کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات اور جنگ و جہاد اور اس سے بھی آگے بڑ ھ کر خود کش بمباری کی سوچ و رویہ جیسی چیزوں کو جنم دیا اور رائج کر دیا۔ معاشرتی فلاح و رفاہیت کے کاموں سے مسلمانوں کی عدم دلچسپی بھی اس ساری صورتحال کا ایک جزو و نتیجہ ہے ۔ لیکن اسلام کے ابتدائی ادوار کی تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے ۔


آپ اگر دورِ نبوت کی تاریخ اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی داستان پڑ ھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوتی ہے اور آپ اس نئے اور انوکھے تجربے سے گھبرا کر گھر آتے اور چادر میں لپٹ جاتے ہیں تو آپ کی اہلیہ محترمہ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتی ہیں کہ حوصلہ اور اعتماد رکھیے آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ خدا آپ کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہیں کرے گا۔ آپ تو لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ، کمزوروں کے کام آتے اور بے یار و مددگار لوگوں کا آسرا بنتے ہیں ۔ لوگوں کی خدمت و نفع رسانی آپ کی مستقل عادت ہے ۔ حلف الفضول کا مشہور واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے جس میں عرب کے بعض بزرگ رؤسا ایک کمیٹی بنا کر جماعتی طور پر یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ کسی ظالم کو کسی پر ظلم نہ کرنے دیں گے ، کسی طاقتور کو کسی کمزور کا حق نہ مارنے دیں گے ، کسی کو زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ رسول اللہ اس معاہدے اور کمیٹی میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔ پھر دورِ رسالت و نبوت میں جب اسلام کمزور حالت میں ہوتا ہے جو غلام اور غریب اور کمزور لوگ اسلام قبول کرتے ، وہ اپنے اپنے مالکوں اور خاندانوں کی طرف سے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتے ۔ ایسے موقع پر مالدار صحابہ اپنا مال خرچ کر کے غلاموں کا آزاد کراتے اور اپنے کمزور اور دبے ہوئے بھائیوں کی امداد کر کے انہیں آرام و راحت دلاتے تھے ۔ اسلام قبول کرنے والوں کی کسی معاشرتی ضرورت کے لیے مال خرچ کرنے کا کوئی موقع آتا تو اس موقع پر مالدار اور رئیس صحابہ پیش پیش ہوتے ۔ اسلامی خلافت کے احوال پڑ ھیے کہ خلفا کس کس طرح معاشرے میں خود گھوم گھوم کر ضرورت مندوں کا پتہ لگاتے اور ان کی مدد و دستگیری کرتے تھے ۔ انصاف لوگوں کے دروازوں تک پہنچتا تھا اور کوئی سائل و ضرورت مند بے آسرا اور بے یار و مددگار نہیں رہتا تھا۔ کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اپنے اثر و اقتدار اور اپنی کرسی و عہدہ کی بنا پر کسی کو زیادتی کا نشانہ بنائے اور کسی کمزور پر ظلم کرے ۔ ظالم اور مجرم چاہے کوئی شخص کیوں نہ ہو اور کتنے ہی اونچے گھرانے سے متعلق اور کتنے ہی بڑ ے عہدے پر فائز ہو، عدالت کے کٹہرے میں کھڑ ا کیا جاتا اور جرم ثابت ہونے پر اسے قرار واقعی سزا نہ صرف سنائی جاتی تھی بلکہ مجمعِ عام کے سامنے اعلانیہ دی بھی جاتی تھی۔ غرض پچھلی اسلامی تاریخ کی تفصیل کا مطالعہ کیجیے تو مسلمانوں نے سماجی فلاح و بہبود اور معاشرتی خدمت و نفع رسانی کے میدانوں اور شعبوں میں غیر معمولی طور پر نمایاں خدمات انجام دیں اور لافانی روایات اور مثالیں قائم کیں ہیں ۔ موجودہ سائنسی ترقیاں اور نیا اور ماڈرن زمانہ جو آج اپنی رونق و رنگینی اور راحت و آسائش سے ہماری آنکھیں چندھیا رہا اور ہوش گما رہا ہے اس کی بنیاد رکھنے والے اور اس نئی شاہراہ کو دریافت کرنے اور اس کی ابتدائی مشکل مسافتوں کو طے کرنے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان اہلِ علم و دانش ہی تھے ۔ پچھلی چند صدیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی ان ابواب میں تاریخ و روایات نہایت عظیم الشان و رفیع المقام رہی ہیں ۔ کسی بھی میدان میں کوئی ان کا ثانی ہونا تو کیا معنی، حقیقتاً ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا تھا۔ آج بھی ہم علم و فن، تہذیب و تمدن اور انسانی فلاح و بہبود کے مختلف میدانوں اور دائروں میں جو کچھ ترقیاں اور بلندیاں دیکھ رہے ہیں وہ اپنے ماضی کے تسلسل میں انہی مسلمانوں اور اسلامی تاریخ سے جاملتی ہیں ۔ علم و ہنر ہو، سائنسی ایجادات و تحقیقات ہوں ، آداب و اسالیب ہوں ، تہذیب و تمدن ہو یا سماج کی خدمت و بہبود کا میدان مسلمان اپنے عروج کے زمانے میں ان سب شعبوں میں یکتا اور بلامقابلہ ممتاز و فائق رہے ہیں ۔


صورتحال کے تجزیے اور زیرِ بحث خرابی کے اصل سرے کا سراغ لگانے کے بعد اگر ہم اس کے حل کی بات کریں تو وہ نہ صرف اس حوالے سے بلکہ مسلمانوں کو مجموعی طور پر اٹھانے اور موجودہ ذلت و زوال کی پستیوں سے نکالنے کے لیے یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے انہیں اسلام کے اصل فکر سے آشنا بنایا جائے ۔ جو غلط فکر و رجحانات ان میں در آئے اور مقبول و مشہور ہوکر ان کے معمولات کا حصہ بن گئے ہیں ، ان کی غلطی و کوتاہی کو مدلل تنقید و تجزیے کے ساتھ ان کے سامنے بیان کیا جائے ۔ ان میں بلند اخلاقی اور اعلیٰ انسانی اقدار کی اہمیت کا شعور و احساس اجاگر کیا جائے ۔ انہیں نسلی و خاندانی و پیدائشی اسلامیت کی سطح سے اٹھا کر سچی خدا پرستی اور حقیقی انسانیت دوستی کے مقام پر لانے کی سعی کی جائے ۔ یہ کام مسلمانوں کی جہالت و بے شعوری دور کرنے لیے ہیں ۔ ان کاموں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ان میں پائی جانی والی غربت، باہمی چپقلشوں ، خاندانی جھگڑ وں ، لسانی و علاقائی تعصبات اور باہمی زیادتیوں اور نا انصافیوں کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوں اور فعال کردار ادا کریں ۔ جہالت و غربت کے خلاف یہ جنگ و جہاد موجودہ وقت میں مسلمانوں کی بقا، اصلاح، عروج اور ترقی کے لیے اشد طور پر ناگزیر ہے ۔ جن لوگوں میں اس کا احساس ہے وہ اس میں حصہ لیں اور ساتھ ساتھ اس احساس سے عاری مسلمان افراد و طبقات تک اس احساس و شعور کو منتقل کرنا اپنا مشن بنالیں ۔


قوموں کی تقدیر خواہشات، تجزیوں ، تبصروں اور مشوروں سے نہیں بدلا کرتی بلکہ اس کے لیے ہمیشہ ان سرفروش و جاں باز افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم و ملت کی تقدیر جگانے اور مستقبل چمکانے کی خاطر اپنی صلاحتیں ، توانائیاں ، امنگیں اور زندگیاں قربان کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ عموماً یہ کام نوجوان کیا کرتے ہیں ۔ سو ہمیں بھی یا تو وہ نوجوان بننا چاہیے جو اپنی قوم و ملت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لیے تن من دھن سے اٹھ کھڑ ا ہو یا ہمیں اپنے نوجوانوں تک یہ پیغام پہنچانے اور انہیں اس بڑ ے مقصد کے لیے آمادہ کرنے کی سعی کرنی چاہیے ۔ ایک مزید بات یہ کہ کوئی کام بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کی استطاعت اور دائرہ محدود ہوتا ہے ۔ اسے اپنی حدود ہی میں رہ کر جو کچھ وہ کرسکتا ہے کرنا چاہیے ۔ اپنی حد و قامت سے اونچے بڑ ے بڑ ے کام اور عظیم الشان منصوبوں کے بارے میں سوچنے والے عموماً اپنی حدود میں بھی کچھ نہیں کرپاتے ۔ لہٰذا ہمیں خواب پسند اور حسین تخیلات میں سرگرداں رہنے کے بجائے اپنی اپنی صلاحیت و طاقت اور توانائی و استطاعت کے مطابق عملاً مسلم قوم و ملت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارا انسانی، اخلاقی، اسلامی اور قومی و ملی فریضہ ہے ۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Thursday, October 14, 2010  -  2:46 PM Reply with quote
Well isfi your reply is not so long but why the problem of dreaming big? We need dreamers who can dream of a better society and then follow that dream. I agree with you for a reform you cannot have a perfect situation a big plan with no resources. These things never work but if you put limits to your work or talent then it will also not go far.Go slow start small think big and take leaps where you can.
What is the actual cause of this gross social brutality? Why is there so much violence against women? In my opinion because our society structure is still feudal and in a feudal system a woman is a commodity a piece of property. She cannot demand , have an opinion or have freedom to choose her life, a life partner or a career if she so chooses. When she gets married the property shifts hands and now her prime purpose is to produce kids, State laws are there but not enforced. We as individuals and collectively as a society must give women the freedom to live their life the way they want to till then not much will change. The religious groups or organisations are confused as to how much freedom should they concede to a woman having. Muslim men think Islam allows a husband to beat his wife and very few Muslim scholars discuss this issue and the ones who do discuss are mostly those who live in western countries. domestic violence when seen should be stopped and condemned families should intervene and stop this happening and the woman should be supported emotionally and financially and allowed to leave her husband if she chooses to. This is something all of us can do at least support the victim and empower her.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Thursday, October 14, 2010  -  3:05 PM Reply with quote
Ibrahim Sahab would you like to share your views.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, October 16, 2010  -  3:03 PM Reply with quote
Oh sorry aunt, don't get angry on my absence, m still writing your reply and will soon present on your screen. So please wait with out anger, if you can.....
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Sunday, October 17, 2010  -  1:51 PM Reply with quote
Isfi I am not angry I hope your father is getting better.Safimera where are you lets hear from you too.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, October 23, 2010  -  9:47 AM Reply with quote
محترمہ صبا ٹو جی، آداب و احترام۔ جناب سیفے میرا نے سماجی ناہمواری اور معاشرتی ناانصافی کا جوایشو اٹھایا ہے وہ اسے اپنی پوری وسعت میں پیش نظر رکھ کر بات کررہے تھے کہ سماجی زیادتی چاہے اس کا شکار آدمی ہو یا عورت، کمزور و غریب محنت کش ہو یا کوئی طالبعلم اور نوکری پیشہ انسان۔ آپ اس ٹاپک کو اچک کر صرف خواتین تک لے گئیں ہیں اور آپ کی زیادہ تر گفتگو اس معاملے کی وسعت کو سمیٹتے ہوئے محض خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، زیادتیوں اور بدسلوکیوں تک محدود ہوگئی ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ خواتین کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک اور خراب و ناروا برتاؤ بھی گو اپنی جگہ ایک قابلِ بحث و مذاکرہ موضوع ہے اور ہمیں اس کے اسباب اور ان کے تدارک پر بھی بات کرنی چاہیے لیکن اس وقت ہمیں اس مسئلے کو محض خواتین کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے سماج میں پائی جانے والی اس عمومی بے حسی، خود غرضی، ناانصافی، زیادتی اور بدسلوکی کو اپنی توجہ اور غور و فکر کا موضوع بنانا چاہیے جس کی لپیٹ میں مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سبھی آجاتے ہیں اور اس معاملے میں زیادہ افسوسناک و المناک پہلو یہ ہے کہ اس میدان میں اصلاح اور عوامی بہبود کے لیے متحرک ہونے والوں میں مذہبی لوگوں اور مذہبی جماعتوں کا نام نشان اور آثار و خدمات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔


ہمارا موجودہ ڈسکشن ٹاپک صنفی نابرابری، صنفی امتیاز اور صنف و جنس کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی بدسلوکی اور زیادتی نہیں ہے بلکہ اس وقت ہم معاشرے کے اس غلط قسم کے مجموعی رویے پر بات کررہے ہیں کہ سماج میں آئے روز ظلم و ستم، زیادتی، حق تلفی، ناانصافی، قتل و غارتگری، عصمت دری، وراثت سے بے دخلی، دوسروں کی املاک و پڑاپڑتی پر قبضوں جیسے ہزاروں واقعات ہوتے رہتے ہیں، کتنے ہی افرادِ معاشرہ نہایت غربت و کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں، کتنے نوجوان غیر تعلیم یافتہ اور بے روزگار ہیں، کتنے گھرانے بیمار مریضوں اور جوان بیٹیوں کے مسائل سے دوچار ہیں لیکن کتنے دینی ادارے ہیں جو اس طرح کے معاملات میں پبلک کی خدمت کرنے اور لوگوں کو مدد و اعانت فراہم کرنے کے لیے قائم و فعال ہو۔ ہمارے مذہبی گروپس اور دینی خطبا و مقررین ہمارے سامنے بے شمار دینی تقاضے اور مطالبات رکھتے رہتے اور ہمیں بہت سے رخوں پر متحرک و سرگرم ہونے پر اکساتے رہتے ہیں لیکن اس طرح کی عوامی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں سے نہ کسی کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ کوئی اس طرح کے معاملات میں عام آدمی کی مشکلات دور کرنے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔ ایک انسان جسے کھانے پینے، پہننے، بچوں کو پڑھانا لکھانا تو دور رہا ان کے پرورش و علاج کے ذرائع میسر نہ ہوں، آپ اس سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام کو برپا کرنے اور اسلام کے قانون و شریعت کو بالادستی دلانے کی جدوجہد میں آپ کا شریک و رفیق بنے گا اور نعرے لگائے گا اور جلوس و مارچ کی رونق و بھیڑ بڑھائے گا۔


مسلمانوں کا مسئلہ جو کوئی بھی ہو اس کے ڈانڈے گہرائی میں جاکر قرآن اور سیرتِ رسول سے روگردانی سے جاملتے ہیں۔ خدا انسانوں کو اپنی عیال اور اپنا کنبہ و خاندان قرار دیتا اور ان کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کو اعلیٰ ترین نیکیوں میں شمار کرتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلانے، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کا سہارا بننے اور بے یار و مددگار و محتاج بندگانِ خدا کی دل گیری و داد رسی کرنے کو بہترین نیکیاں اور عمدہ ترین کاروائیاں گردانتا ہے۔ جب وہ اعلی ترین ایمانی خصائص گنواتا ہے تو ان میں اکثر و بیشتر اسی طرح کے سماجی فلاح و بہبود اور انسانی خدمت و رفاہیت کے کاموں کو سرِ فہرست رکھتا اور انہیں نہایت ممتاز ترین افعال خیر ٹھہراتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سماجی تعارف منصبِ نبوت ملنے سے پہلے بھی صادق و امین تھا۔ آپ لوگوں کی خبرگیری کرنے اور ان کے دکھ بانٹنے والے شخص تھے۔ لوگوں کے کام آتے اور ان کی مدد کرتے۔ آپ کی یہ صفات و اخلاقیات و معمولات نبوت کے دور میں اور بھی ترقی کرگئے اور آپ ہمیشہ ہر موقع پر ایک نہایت مہربان رفیق و ساتھی ثابت ہوئے۔ آپ لوگوں کے درد میں شریک ہوتے۔ ان کی مشکلات میں کام آتے۔ ان کی پریشانیوں میں دلاسہ دیتے۔ ان کی تنگیوں میں داد رسی کرتے ۔ آپ ایک انتہائی سخی و فیاض شخص تھے۔ جو مدد کے لیے آتا بامراد ہوکر جاتا۔ جو آس لگاتا دامن بھر کر جاتا۔ جو امید باندھتا نہال ہوجاتا۔


یہ کردار و نمونہ تاریخ میں سفر کرتا ہوا ہمیں کتنے ہی خدا کے بندوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں اور پہلے کے مسلمانوں میں پوری آب و تاب سے نظر آتا ہے۔ مسلم صوفیا کا کردار تو اس حوالے سے اور بھی زیادہ ممتاز و نمایاں ہے کہ ان سے تو بلاتفریق مسلم و غیرمسلم سبھی فیضیاب ہوتے اور ان کی قربت میں آکر اپنے غموں اور دکھوں اور پریشانیوں سے نجات پاتے تھے۔ دوسرے سانحات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے کہ مسلمان اس وقت اس پہلو سے بھی کسی قابلِ قدر مقام پر نہیں ہیں۔ اس کے اسباب میں قرآن سے دوری اور سیرت رسول سے انحراف کے ساتھ ساتھ اس غلط فکر کی پیدا کردہ ترجیحات بھی کارفرما ہیں جو بس سیاسی سطح پر دین کو غالب و رائج کرنے ہی کو اصل الاصول بتاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا پرستی کی وہ عالمی لہر بھی اس کا ایک قوی عامل ہے جس نے انسانوں کو عام طور پر اپنی لپیٹ میں لے کر دنیوی رونقوں اور رنگینیوں کا دیوانہ بنارکھا ہے۔ یہ عوامل انسان کو خود غرض، بے حس، لاپروا اور دوسروں کے خوشی و غم سے بالکل بے گانہ بنادیتے ہیں۔ ایسے انسان پھر غیر مسلم ہوں یا بظاہر مسلمان، ہم ان سے سماجی خدمت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں شرکت کی بالکل توقع نہیں رکھ سکتے۔


لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا دارِ امتحان ہے۔ یہاں آزمائش اسی بات کی ہے کہ انسان اس دنیا میں رہ کر اچھے کام کرتا ہے یا برے کام۔ وہ دوسروں کے ساتھ بے حسی و بدسلوکی کا معاملہ کرتا ہے یا حسن سلوک سے پیش آتا اور اخلاقی اقدار کے تحت گزر بسر کرتا ہے۔ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب نہ یہ دنیا باقی رہے گی، نہ یہاں کی رونقیں اور لذتیں ہوں گی اور نہ یہاں انسان کی زندگی کا کوئی نام و نشان ہوگا۔ قیامت کے روزِ حساب میں خدا کی میزان میں اس شخص کے اعمال ہی سب سے زیادہ وزن دار ہوں گے جو انسانی بھلائی کے ساتھ جیا ہوگا۔ جس نے انسانوں کی نفع رسانی اور خیرخواہی کی زندگی گزاری ہوگی۔ جس کے اخلاق و کردار سب سے اچھے ہوں گے۔ جس نے خدا کے کنبے اور اس کی عیال کی خدمت و خبرگیری کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا ہوگا۔ اس وقت یہی وہ کام ہوں گے جو انسان کے کام آئیں گے اور اسے ہر دکھ، پریشانی، تکلیف، بیماری اور رنج و غم سے پاک پر تعیش زندگی کا مستحق ثابت کریں گے۔ جبکہ ان کاموں سے اعراض و غفلت کا نتیجہ محرومی اور حسرت و ندامت کے دوروں کی صورت میں انسان کو اپنے گھیرے میں لے لے گا۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Saturday, October 23, 2010  -  11:58 AM Reply with quote
Isfi you are so right i was only talking about women here and had neglected to mention other issues concerning men children and society as a whole.
The topic you had initiated revolution I had posted some comments let me go back to them

" Religion is the strongest weapon these days and when religion is used as a weapon, through fear and instigation you have a hysterical blind following.
The humane part is no more instead of kindness comes cruelty and the preacher becomes the controller fear and insecurity is constantly fed into the society non issues become issues and kindness equality and freedom found no more. " "Poverty and lack of education has left our common man open to exploitation and that is what is happening be it religion or democracy the result is the same. Tolerance and respect of individual thought has no place in our society. Inquisitiveness is killed in a child from day one. We cannot tolerate questions all we want is obedience, when independent thought is not present then there cannot be scientific investigation or innovation.
Religion has become a ritual it has not affected our souls we go through the rituals everyday every month every year but it does not affect our being our core. We are the same inside we will cheat exploit lie kill etc."
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Tuesday, October 26, 2010  -  4:14 PM Reply with quote
Salam everyone I would like to be excused from these forums for a few days. All of you please continue I will join in inshaalah.

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker