Author | Topic |
safimera
CANADA
|
Posted - Friday, June 18, 2010 - 5:37 AM
quote: have heard Dr. Zakir Naik often say "Come to common terms." And I feel tht this would be the only way for us to be UNITED and live together with our religious differences.
aboosait==> very good point.....
let us go further: I am living with a community and now 1) one my friend is doing "meelaad" which I consider "bidaat" and 2) another who does not believe in some hadees which I believe and then 3) another who is strict hanafi and I am not taqleedi.
on these specific scenario what should my reaction:
1) do nothing 2) just stop him verbally but remain still friend if he would not change 3) if he would not change then stop relationship with him 4) stop him by force if I could.
now please comment in all 3 scenario and 4 possibilities.
isfi22...please comment and others also appreciated |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, June 19, 2010 - 8:51 AM
مذہبی اختلافات کے باوجود ہم آہنگی کیسے قائم کی جائے اور برقرار رکھی جائے
میں اس باب میں جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ، اس بات پر اصرار کروں گا کہ مسلمانوں کے مختلف ا سکالرز، ا سکولز آف تھاٹز اور ان کی مختلف جماعتوں اور فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات چونکہ دین کی اساسات میں نہیں ہیں بلکہ دوسری دوسری باتوں اور تفصیلات میں ہیں ، لہٰذا انہیں مذہبی اختلافات سمجھنے اور کہنے کے بجائے علمی، فکری، نقطۂ نظر، استنباط و استدلال اور راے کے اختلافات لکھنے بولنے کی عادت اپنانی چاہیے ۔ دین کی اساسات اور بنیادوں کے حوالے سے سب ایک ہی جگہ پر کھڑ ے اور ایک ہی طرح کے نظریات اور جذبات رکھتے ہیں ۔ ہر شخص اور جماعت خدا، رسول اور آخرت پر ایمان رکھتے اور قرآن و سنت ہی کو دین کے معاملے میں اصل ا تھاڑ تی اور مرجع قرار دیتے ہیں ۔ لہٰذا باقی امور چاہے فروعی ہوں یا اصولی، ان کے اختلافات کو مذہبی اختلافات قرار دینا میرے نزدیک بنیادی طور پر غلط ہے اور اس طرح کی اصطلاحات و جذبات ہی نے ہمیں باہمی دوری و جماعتی تعصبات میں زیادہ شدت سے مبتلا کیا اور الجھایا ہے ۔شیعہ برادری کے امامت اور قرآن میں تحریف اور کمی بیشی اور صحابہ کرام کے بارے میں تخفیف و تحقیر کے نظریات اور قادیانی برادری کا ختمِ نبوت کے انکار کے ہم معنیٰ مرزا قادیانی کی نبوت کا اعتقاد وغیرہ ایسے خیالات و نظریات ہیں جن کے باب میں رواداری و ہم آہنگی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا اور یہ بنیادی اور اساسی امور میں اختلافات کی قسم سے ہیں ۔ اگر چہ اس کے باوجود ان سے لڑ نا اور انہیں جان و مال کا نقصان پہنچانا جائز نہیں ہو جائے گا۔ تاہم اس طرح کی مثالوں میں شدت اور کسی ایک ہی نقطۂ نظر پر اصرار کی بات تو سمجھ آتی، پلے پڑ تی اور معقول و مناسب محسوس ہوتی ہے لیکن احادیث کے دین میں مقام و حیثیت کے باب میں مختلف راے رکھنے ، فقہ کے مختلف ابواب و مسائل میں فتویٰ و رجحان کے فرق اور جدید دور میں دین کی دعوت اور فروغ کے کام کے لائحۂ عمل کے بارے میں مختلف نقطۂ نظر و طرزِ عمل کو بنیاد بنا کر دو مسلم نمائندوں یا جماعتوں یا ا سکول آف تھاٹز کو مذہبی اختلافات کا شکار بتانا اور پھر انہیں باہمی طور پر مذہبی ہم آہنگی کی تلقین کرنا بہت تعجب انگیز امر اور حیران کن معاملہ ہے ۔ لہٰذا میرا یقین اور گزارش ہے کہ اس طرح کے اختلافات کو علمی و فکری اور سنجیدہ بحث مباحثے کے دائرے تک محدود رکھا جائے اور ان کی بنیاد پر کسی کو مطعون کرنے ، فتویٰ بازی کا نشانہ بنانے اور گمراہ، بے دین اور فتنہ پرور قرار دینے اور خود ان اختلافات کو مذہبی و دینی اختلافات قرار دینے سے آخری احتیاطی حد تک پرہیز و گریز کیا جائے ۔
خدا نے قرآن کو قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا ہے ۔ دینِ اسلام اس کے نزدیک واحد پسندیدہ دین ہے ۔ اور قرآن و سنت جو اس دین کے ترجمان و منبع ہیں وہ بھی اب قیامت تک محفوظ ہیں ۔ اس حفاظت اور قیامت تک موجودگی کی یقینی صورت اس کے علاوہ اور کچھ ہو نہیں سکتی تھی اور نہ اختیار کی گئی کہ اس مسلم امت کو تا قیامت باقی رکھا جائے اور اس کے درمیان ایسے لوگ اور دین کے علم و فہم کے وارث پیدا ہوتے رہیں جو اس دین کو باطل کی در اندازی، تحریف و ترمیم کی ترکتازی اور مفسدین و اشرار کے فساد و بگاڑ سے الگ کر کے خالص و بے آمیز انداز و شکل میں خدا کے بندوں اور دنیا کی قوموں کے سامنے لاتے اور پیش کرتے رہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باطل اس پر حملہ آور ہو گا، تحریف و ترمیم کی کوششیں اس پر یلغار کریں گی اور اشرار و مفسدین اس میں بگاڑ و فساد برپا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے ، لیکن خدا کے دین کے مخلص و جاں سپار بندے ان کی ایسی تمام کوششوں کا مقابلہ کر کے انہیں پسپا کرتے رہیں گے اور ہر طرح کے گرد و غبار، کمی بیشی اور تحریف و تاویل سے اس دین کو الگ اور پاک صاف کر کے لوگوں کے لیے بیان و نمایاں کرتے رہیں گے ۔ اب ذرا اس پہلو پر نظر کیجیے کہ یہ امت کیا دو چار لوگوں یا دو چار قوموں کا نام ہے ۔ آپ اتفاق کریں گے کہ نہیں بلکہ یہ تو بے شمار افراد و اقوام پر مشتمل اور دنیا کے تمام اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی مسلمانوں کی بے شمار تعداد کا نام ہے ۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا یہ ممکن ہے اور کسی بھی پہلو اور پیمانے سے معقول ہو گا کہ اس امت کی کسی ایک ہی شاخ یا چند مخصوص جماعتوں ہی میں دین کے ایسے خادمین و حامیین اور ترجمان و مفسرین ظاہر ہوں ۔ باقی شاخیں اور جماعتیں گمراہیوں اور ضلالتوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی شیطان کا چارہ بنی رہیں ۔ یقینا نہیں تو جب امکان اور عقل دونوں اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایسے قابلِ قدر خادمینِ دین و رہبرانِ امت ہر دور، ہر خطے ، ہر علاقے اور ہر جماعت و تحریک میں ظاہر ہو سکتے ہیں تو پھر کسی ایک ہی تحریک و تنظیم کے خول میں بند ہوکر رہ جانا اور اسی حلقے کے اہل علم و قلم کی باتوں کو خالص حق اور کھری سچائی گمان کرنا اور دوسرے مسلم اہلِ علم اور حلقوں سے کنارہ کشی برتنا وغیرہ جیسے رویے کیسے معقول قرار دیے جا سکتے ہیں ۔ پھر بات یہ ہے کہ انسان کتنا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو اور اس کی علمی و فکری جلالت کتنی ہی بلند و درخشاں کیوں نہ ہو، رہتا انسان ہی ہے اور یہ امکان ہر وقت موجود رہتا ہے کہ کسی معاملے میں اس سے خطا ہوجائے اور کسی مسئلے میں اس کا رجحان اور راے کسی غلطی سے دوچار ہوجائیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ اہلِ علم و قلم اور مذہبی نمائندوں اور ترجمانوں کی باتوں کو بھی تحقیق و تنقید اور تجزیہ و تنقیح کر کے ہی قبول یا رد کیا جائے ۔ ان پر اندھادھند اعتماد کر لینا اور ان کی ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہہ دینا ہرگز کوئی معقول و محمود رویہ نہیں ہے ۔اور اسی لیے یہ بھی لازمی ہے کہ کسی معاملے اور مسئلے میں تمام اہلِ علم کے نقطۂ نظر کو کم از کم سننے اور زیرِ غور لانا کا ذہن بنایا جائے ۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر عام آدمی بھی یہ سارا جتن کرنے نکل کھڑ ا ہو کہ کسی مختلف فیہ امر میں مختلف اہل علم و فہم کیا فرماتے ہیں لیکن اسے بہرحال اس کے لیے تو ضرور ہی تیار رہنا چاہیے کہ اگر اس کے سامنے اس کے اختیار کردہ طرزِ عمل پر کوئی تنقید یا کسی معاملے میں کسی دوسرے اہلِ علم کا نقطۂ نظر آئے تو وہ اسے ہمدردی کے ساتھ سننے اور سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور و فکر کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے ۔
دنیا کے بے شمار خطوں میں کتنے ہی مسلمان افراد اور حلقے ہیں جو نہایت اخلاص اور دینی حمیت و وابستگی کے باعث دین کو پھیلانے اور اس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں ۔ کیا یہ کوئی مناسب بات ہو گی کہ کوئی مسلمان اپنے حلقے کے علاوہ ہر مسلم حلقے اور تحریک کو بے کار اور غیر مخلص و گمراہ سمجھ لے اور ان کی تمام کارگزاریوں پر اپنے جذبات میں پانی پھیر دے اور کسی دوسرے حلقے اور تنظیم کی خدمات اور جانفشانیوں کو کریڈٹ اور پذیرائی دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ میں تو کم از کم اس طرح کی سوچ اور رویے کو شدید طور پر اعتدال و میانہ روی اور عقل و فطرت سے ہٹا ہوا اور نہایت قابلِ تنقید و مذمت محسوس کرتا ہوں ۔گو یہ مانا جانا جا سکتا ہے اور ایک حقیقت ہے کہ سارے ہی مسلم حلقے راہِ راست اور معیاری ڈگر پر استوار نہیں ہیں اور نہ ان کے آپسی اختلافات کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا یقین کرنا ممکن ہے ۔ ان کے ہاں بہت سی فکری و عملی لغزشیں اور غلطیاں موجود ہیں لیکن ہر ایک کو غیر مخلص و بدخواہ اور اسلام کے بھیس میں اسلام دشمنوں کا ایجنٹ باور کرنا یقینا ایک نہایت ہی سنگدلانہ جسارت اور غیر متعدل جذباتیت ہے ۔
میرا احساس ہے کہ اگر مسلمانوں کے افراد اور ان کے مختلف گروہوں اور حلقوں کے درمیان یہ احساسات اور رویے فروغ دیے جا سکیں کہ ہمارے باہمی اختلافات علم و فہم اور استدلال و استنباط کے اختلافات ہیں کوئی دینی و مذہبی اختلافات نہیں ہیں اور یہ کہ حق کا معیار کوئی شخصیت یا طبقہ و فرقہ نہیں بلکہ قرآن و سنت ہیں اور یہ کہ کسی شخصیت یا حلقے کے تمام سرمایے کو سراسر حق قرار دے کر باقی تمام اہلِ علم اور مسلم جماعتوں کے سرمایے کو باطل سمجھنا کوئی معقول و منصفانہ روش نہیں ہے بلکہ ہمیں ہر راے اور مؤقف کو قرآن و سنت کی میزان اور دلائل کی کسوٹی پر پرکھ کر اور جائزہ لے کر ہی اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا چاہیے نہ یہ کہ ہم گروہی اور مسلکی بنیادوں پر چیزوں کو صحیح یا غلط قرار دیں اور یہ کہ اگر ہم اپنے سے مختلف راے کو بہت اعتماد و تیقن کے ساتھ غلط سمجھتے بھی ہیں تو بھی کم از کم اس امکان کو تو تسلیم کریں کہ دوسرا ہم سے اخلاص اور نیک نیتی ہی کے ساتھ اختلاف کر رہا ہو گا اور یہ کوئی لازمی نہیں ہے کہ ضرور ہی اس کی نیت میں کوئی کھوٹ اور اس کے پسِ پردہ کوئی سازش یا شیطانی مقصد کارفرما ہو، لہٰذا گرچہ ہمارا اپنی راے اور مؤقف پر اصرار کرنا ٹھیک اور درست ہے لیکن دوسرے کو بدنیت اور فتنہ جو قرار دینے سے بھی ہمیں پرہیز کرتے ہوئے اس کے حق میں دعاے خیر کرنی چاہیے وغیرہ، اگر یہ احساسات مسلمانوں کے سینوں میں پروان چڑ ھائے جا سکیں اور یہ رویے ان کے باہمی معاملات میں جاری کیے جا سکیں تو اختلافات کی خلیج کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے ، باہمی بغض و نفرت کے زہر کے اثرات کا بہت حد تک توڑ کیا جا سکتا اور باہمی تعصبات و مشتعل جذبات کو بہت حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے ۔ یہ یقینا قربانی کا میدان ہے اور اس میں ان لوگوں کو ضرور اترنا چاہیے جو ہر قیمت پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ان میں باہم پیار و اتحاد لانا چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے حوالے سے موجودہ احساسات اور رویوں کو تبدیل کیے بغیر اور اس راہ کی قربانیوں کے تپتے ہوئے صحرا کو سر کیے بغیر ہمارے یہ خواب اور تمنائیں محض خیالی تصویریں ہیں جن میں حقیقت کی دنیا میں رنگ بھرنا کسی فنکار و مصور اور کسی داعیٔ اتحاد و علبردارِ اخوت کے بس کی بات نہیں ہے ۔
’الجماعہ‘ سے مراد
الجماعہ اسلامی لٹریچر اور احادیث میں اپنے لغوی مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے اور ایک خاص اصطلاحی مفہوم میں بھی۔ جس حدیث میں اہلِ حق فرقے کو جماعت بتا کر اس کا وصف اتباعِ ما انا علیہ و اصحابی بتایا گیا ہے وہاں یہ اپنے لغوی مفہوم، جماعت، گروہ اور ٹولہ کے مفہوم میں ہے اور جن احادیث میں مسلمانوں کو ’الجماعہ‘ سے وابستہ رہنے کی تاکید و تلقین کی گئی اور اس سے علیحدگی اور بغاوت کو جرم اور گمراہی بتایا گیا وہاں یہ اپنے خاص اصلطلاحی مفہوم ’(مسلمانوں کے ) سیاسی اقتدار‘ کے معنیٰ میں ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس باب کی دوسری روایات میں الجماعہ کی جگہ السلطان کا لفظ موجود ہے جو صراحتاً نظمِ اقتدار کی طاقت اور سیاسی قوت کے مفہوم میں ہے اور واضح ثبوت ہے کہ الجماعہ سے مراد بھی کسی اسلامی معاشرے میں برسرِ اقتدار گروہ اور نظمِ حکومت کے سربراہ کار ہیں ۔ مسلمانوں کو انارکی، طوائف الملوکی اور سیاسی و اجتماعی خلفشار سے بچانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے زمانے میں فتنوں کے سر اٹھانے ، اسلامی نظمِ اقتدار کے معیاری حالت میں برقرار نہ رہنے اور اس میں خرابیوں اور خامیوں اور حکمرانوں کے اخلاق و کردار میں گراوٹوں کے در آنے کے باوجود انہیں باہم متحد رہنے اور انتشار و خلفشار سے محفوظ رہنے کے لیے یہ تلقین و نصیحت فرمائی ہے کہ وہ ہر حال میں مسلمانوں کی اجتماعی مرضی سے وجود میں آنے والے نظام اور اس کے امراء سے اطاعت و معاونت کا رویہ اپنائے رکھیں اور ہر گز خروج و بغاوت کا راستہ اختیار نہ کریں ۔ اس الجماعہ کا کوئی تعلق مسلمانوں کی کسی اصلاحی و انقلابی جماعت اور اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت اور اس کی کلی و غیر مشروط اطاعت و تقلید سے نہیں ہے ۔ بلکہ یہ سر تا سر مسلمانوں کے اجتماعی سیاسی اقتدار اور اس کے سربراہ کاروں سے متعلق ہے ۔
باقی آج مختلف مسلمان اور ان کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں خود کو معیاری جماعت اور حق یافتہ گروہ ثابت کرنے کے لیے جس طرح ایک حدیث پیش کر کے اور اس میں سے من مانا مفہوم نکال کر ایڑ ی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔اور یہ گمان کرتے ہیں کہ بس وہی حق پر ہیں اور باقی ہر مسلم گروہ و جماعت اور تحریک و تنظیم گمراہ و بے دین اور اللہ معاف کرے جہنمی اور دوزخی ہے ، اس حوالے سے اسٹڈنگ اسلام ہی کے جنرل ٹاپکز کے سب سیکشن ینگ مائنڈز کے ٹاپک ’سلفی‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے جو کچھ عرض کیا تھا، اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں :
"سلفی یا اہل سنت و الجماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر چلنے والے لوگوں کو کہتے ہیں۔ جو قرآن اور سنت کو اپنی بنیاد بناتے ہیں مگر اس زمانے میں جو لوگ دراصل ایک ٹولہ، جماعت یا فرقہ بن چکے ہیں۔ اپنے آپ کو برسرِ حق گردانتے اور دوسروں کو باطل کا علمبردار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے اپنے آپ کو سلفی یا اہل سنت والجماعت قرار دے لینے سے ان کا تعلق اس اصل سلفی و اہل سنت والجماعت طبقے سے نہیں جڑ جاتا۔ کیوں کہ اصلاً یہ ایک صفاتی نام ہے نہ کہ گروہی اور جماعتی۔ مطلب یہ کہ کون سلفی ہے یا اہل سنت والجماعت ہے اس کا فیصلہ اس کا اپنا نام سلفی وغیرہ رکھ لینا یا سلفی اور اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعویٰ کرنا جیسی بنیادوں پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اس عمل و طریقے کی اساس پر ہوگا کہ وہ واقعتا قرآن و سنت کو اپنی بنیاد بناتا اور اپنے دینی فکر و اثاثے کی انہیں حقیقی سورس بناتا ہے کہ نہیں۔
اس وقت مسلمانوں کی کتنی ہی جماعتیں اور فرقے اس بات کے دعویدار ہیں کہ تنہا وہی سلف صالحین کے طریقے اور اہل سنت و الجماعت کے راستے پر گامزن ہیں اور دوسرے تمام فرقے اور جماعتیں گمراہ و بے راہ ہیں۔ کیا ان میں سے ہر ایک کے دعوے کو درست تسلیم کرلیا جائے اور کیا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان سب کو اہل حق اور سلفی اور اہل سنت والجماعت تسلیم کرلیا جائے۔ یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے۔
اصل بات یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین قرآن و سنت و احادیث کی شکل میں چھوڑا ہے۔ صحابہ کرام کی طرح اسے مضبوطی سے پکڑا جائے، اس پر پوری وفاداری و استواری سے عمل کیا جائے اور اپنے حق اور دوسروں کے باطل ہونے کے دعوے اور اعلانات کرنے کے بجائے علمی و فکری اختلافات کے حوالے سے وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے تمام مسلمانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ تسلیم کیا جائے کہ نجات کا دار و مدار ہمارے یا کسی دوسرے فرقے اور جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کون اس طریقے کے مطابق چلا اور کس نے اپنے عقل و ضمیر کے مطابق جس بات کو حق سمجھا اس پر ہر طرح کے حرص و تخویف اور تعصب و ہٹ دھرمی جیسے محرکات سے بالا تر ہوکر ثابت قدمی اختیار کی۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے امام شافعی کا یہ بیان اس باب میں مثالی نمونے کا مقام رکھتا ہے کہ ہم اپنی راے کو درست سمجھتے ہیں لیکن اس میں خطا کا امکان تسلیم کرتے ہیں اور ہم دوسروں کی راے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس میں درستی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔
حق پسند مسلمانوں کو یہی رویہ زیب دیتا ہے ۔ کیوں کہ ان میں سے کسی پر بھی وحی و الہام نہیں ہوتا کہ وہ یہ گمان کرنے لگے کہ بس اسی کی راے اور روش درست اور مطابق حق ہے اور دوسروں کا تمام کا تمام سرمایہ باطل و خرافات ہے۔ اسی راستے سے مسلمانوں کے اندر رواداری، علمی و فکری آداب، شائستہ و معقول اختلاف کی روایت اور سنجیدگی و استدلال کے دائرے میں رہتے ہوئے تبادلۂ خیالات کا ماحول عام ہوگا۔ آج امت مسلمہ کے افراد میں اتحاد و اخوت پیدا کرنے کے لیے اسی رویے کو سب سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔"
[ڈئیر سیفے میرا آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے اور اس کی مختلف ڈائیمنشنز کو کور کرنے کے لیے بہت اچھی مثالیں پیش کرتے ہوئے اپنا سوال سامنے رکھا ہے۔ میں اس پر ضرور کمنٹ کروں گا اور اپنا تفصیلی جواب آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)] |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, June 19, 2010 - 9:12 AM
ڈاکٹر ذاکر نائک کا مشورہ بہت مفید و معنیٰ خیز ہے لیکن نامکمل ہے۔ وہ مکمل تب ہوگا جب آپ مختلف طبقات اور جماعتوں کے مسلمانوں کو مشترک امور یا ایک دوسرے نمائندہ بڑے آدمی کے الفاظ میں "قدرِ مشترک اور دردِ مشترک" کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کی بھی تلقین و نصیحت اور تاکید و تنبیہہ کرو گے کہ باہمی اختلافات گو موجود ہیں لیکن ان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بغض و نفرت میں مبتلا نہ ہو اور نہ ہی لڑائی جھگڑا کرو بلکہ ایک دوسرے کی آزادیٔ راے کا احترام کرتے ہوئے انہیں علمی و فکری سنجیدہ قسم کے مباحث تک محدود رکھو اور انہیں عوامی جذبات کو اشتعال میں لانے اور بھڑکانے کا عنوان مت بناؤ۔
ہر شخص اپنے ارد گرد نظر ڈورا کر دیکھ سکتا ہے کہ تقریبا تمام معاشروں میں مختلف نقطۂ نظر اور ڈفرنٹ کلچر و تہذیب کے لوگ اور طبقات موجود ہیں۔ ان میں جہاں جہاں امن و اتحاد موجود ہے اسی وجہ سے موجود ہے کہ وہاں رہنے والے لوگ انسانی آزادی کا احترام کرتے ہوئے ہر ایک کی فکر و عمل کی آزادی کو تسلیم کرتے اور ریسپیکٹ دیتے ہیں۔ جہاں یہ سوچ اور رویہ نہیں پایا جاتا باہمی نفرت و عداوت اور لڑائی اور فساد وہاں ضرور آڈیرہ لگاتے ہیں۔ اس لیے مشترکہ مقاصد اور متفقہ امور کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو اختلافات اور فَرقوں کے ساتھ جینا سکھایا جائے، دوسروں کی آزادی اور راے کا احترام کرنے کی تربیت دی جائے اور اختلافات کے باب میں شائستہ اسلوب میں بحث مباحثہ کے علاوہ ہر دوسری روش کو ترک کردینے کی تعلیم و تلقین کی جائے۔
Edited by: isfi22 on Saturday, June 19, 2010 10:54 AM |
|
safimera
CANADA
|
Posted - Saturday, June 19, 2010 - 12:55 PM
thank u isfi22....jazakAllah khair....
i wish more people participate in this topic...as it is very important for muslims now... |
|
aboosait
INDIA
|
Posted - Saturday, June 19, 2010 - 4:54 PM
quote: thank u isfi22....jazakAllah khair....
i wish more people participate in this topic...as it is very important for muslims now...
If only the discussion is in English. Cant join you in your native languages. |
|
saba2 Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Monday, June 21, 2010 - 6:38 AM
safimera, 3 very interesting scenarios I can tell you which options I would not take i.e. 4) , 3) and 1). I would take a modified version of option 2) for situation 1) I would talk about the milad and discuss the parts which are bidat. If he accepts the point of view well and good other wise wait to put your point of view at another time. 2) You believe in a hadis but your friend doesn't .... you can give all your arguments to prove your Hadees is authentic, but what if your friend can prove your Hadees is weak then what, are you open enough to accept his arguments? 3) he is a strict Hanifi but you are not Taqlidi ........ as long as you don't have to compromise on your principles then it makes no difference. Where there is a need you explain your point of view as to why you must not do a certain thing or must do. None of these situations require you to break your friendship.
Edited by: saba2 on Monday, June 21, 2010 6:43 AM |
|
safimera
CANADA
|
Posted - Wednesday, June 23, 2010 - 6:34 AM
thank u isfi22 and saba2 for your comments.........
some others have something to say....??? |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Wednesday, June 23, 2010 - 7:25 AM
I don’t know about the others dear, but I have something to add here and I am still writing regarding your presented three dimensions of relations with others even in the situation of religious or opinion differences. I have a responsible and working man, so I got little time to concentrate on debate and writing, so why I often become late and complete my post not only in hours but often in days. Please Pray for me Yar>>>!!! |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, June 24, 2010 - 10:09 AM
(In reply to the Question Posted by Safimera on - Friday, June 18, 2010 - 5:37 AM)
محترم برادر سیفے میرا!سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اتنے اچھے پوائنٹس کو سامنے لا کر ہمیں ان پر بات کرنے کا موقع عنایت کیا۔ اس کے بعد میری خواہش ہے کہ میں چونکہ ان موضوعات کو بہت ہی معتلق اور اہم اور لائقِ غور و فکر سمجھتا ہوں ، لہٰذا ان پر بہت تفصیل سے اپنی گزارشات پیش کروں ۔ تمہیدی نکات
خدا نے انسانوں کو پیدائشی طور پر ہدایت کے اپنے خزانے میں سے بہت کچھ عطا کیا ہوتا ہے ۔ پھر اُس نے نبیوں اور رسولوں کا ایک پورا مبارک سلسلہ قائم فرمایا جو انسانوں تک ان کی اپنی زبان اور قابلِ فہم اسلوب و دلائل کے ساتھ خدا کا پیغام پہنچاتے ، انہیں ہدایت کا راستہ دکھاتے اور آخرت میں نجات کا ضابطہ بتاتے رہے ہیں ۔ پیغمبروں کی یہ دعوت ایک عالمی و آفاقی دعوت تھی اور اب اس کی گونج اور شہرت تمام اطراف و اکنافِ عالم اور تمام انسانی قوموں اور نسلوں میں موجود ہے ۔ انسانوں کے مختلف گروہ اور مذاہب اپنی ابتدا میں خدا کے نبیوں ہی کی ہدایت پر گامزن اور انہی کی رہبری و رہنمائی پر استوار ہوئے تھے گو آگے چل کر ان میں بہت کچھ بدعات و خرافات، کمی بیشیاں ، تحریفات و تغیرات اور باطل و غیر الہامی اجزا شامل ہوتے گئے اور وہ اپنی ابتدائی شکل و صورت سے بدل کر کچھ سے کچھ ہوتے چلے گئے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو بہت سی ایسی اقوام اور مذہبی گروہ اس وقت دنیا میں موجود ہیں جن کے باپ دادا اور تاریخی اجداد مسلمان امت ہی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ تاہم اب موجودہ صورت میں انہیں مسلمان قرار دینا اور مسلم ملت کا حصہ باور کرنا نہ ہی درست ہو گا اور نہ ہی ممکن ہے ۔ پیغمبر خدا کے براہِ راست نمائندہ ہوتے تھے ۔ وہ خدا کی براہِ راست رہنمائی اور نگرانی میں ہوتے تھے ۔ ان کے ذریعے اپنی قوم و برادری کو ملنے والی خدائی دعوت اور مذہبی پیغام جب بالکل قطعی اور آخری درجے میں ان پر واضح ہوجاتا لیکن وہ سرکشی و ڈھٹائی اور ضد و استکبار کی بنیادو پر اس کا انکار کرتے رہتے اور پیغمبر اور اس کے ماننے والے کو نقصان و اذیت پہنچانے کے درپے رہتے تب خدا کی طرف سے براہِ راست اور اس کی واضح ہدایت ہی کے تحت خدا کے فرستادے اپنی قوم سے براء ت کا اعلان کرتے اور اُس کے علاقے سے ہجرت کرجاتے تھے ۔ یہ معاملہ ان کی اپنی صوابدید پر نہیں چھوڑ ا جاتا تھا بلکہ خدا ہی اس کا فیصلہ کرتا تھا کہ کب کسی قوم اور کسی انسانی گروہ پر اتمامِ حجت ہو گیا ہے اور اب اس کا انکار و مخالفت کسی غلط فہمی، لاعلمی اور اشکال و الجھن کی وجہ سے نہیں بلکہ محض ضد و عناد اور باپ دادا کی اندھی بہری تقلید و پیروی کے غلو کی وجہ سے ہے ۔ لہٰذا اسی کی ہدایت کے مطابق خدا کے پیغمبر اس قوم سے اپنی بیزاری و لاتعلقی اور براء ت و علیحدگی کا اعلان کرتے اور اس کے علاقے کو چھوڑ کو خدا ہی کی رہنمائی میں کسی دوسرے علاقے کی طرف چلے جاتے ۔ اس کے بعد خدا کے فیصلے کے مطابق اسی کے حکم سے اُس قوم پر خدا کا عذاب مختلف شکلوں میں نازل ہوجاتا۔ تفصیلی ہدایات
اوپر کی تفصیلات اشارۃً اس لیے پیش کی گئی ہیں تاکہ ان کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنی قوم و برادری میں ’چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم یا پھر مختلف مذاہب و تہذیب کی حامل و حلقہ بگوش ہو‘، کس طرح رہنا چاہیے ، مختلف خیال و عمل کے ساتھیوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے اور کس حد اور انتہا پر جا کر ان سے قطع تعلق، براء ت اور دوری کے بارے میں سوچنا چاہیے جیسے پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرنا آسان رہے اور پیغمبروں کی تاریخ اور اسوے کی روشنی میں ہم ان حوالوں سے زیادہ بہتر راے اور رویے کو اخذ و نشان زد کرنے میں کامیاب رہیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کبھی کسی پیغمبر نے اپنی قوم اور مخاطبین کو دعوت و نصیحت کرنا اُس وقت تک بند نہیں کی اور نہ ہی اس کے ساتھ قطعِ تعلق اختیار کیا اور نہ بیزاری و براء ت کا اعلان کیا جب تک کہ خدا نے براہِ راست اسے ان باتوں کا حکم اور اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے ان کے لیے حکم یہی تھا کہ انہیں خدا کا پیغام سناتے اور پہنچاتے رہو۔ انہیں نصیحت و تلقین کرتے رہو۔ انہیں ہدایت کے راستے کی طرف بلاتے رہو۔ ان کے ساتھ امانت و خیرخواہی کا رویہ اختیار کیے رہو۔ انہیں آخرت کی فلاح، جنت کی خوش قسمتی اور جہنم کی تباہی سے بچاؤ کے لیے بیدار کرتے اور پکارتے رہو۔ان کی ایذاؤں ، مخالفتوں ، اعتراضات اور بدسلوکیوں کو برداشت کرو، ان پر صبر کرو اور ہر حال میں انہیں حق اور سچائی اور فلاح کا پیغام دیتے رہو۔ خدا کے پیغمبر یہ کام اُس وقت بند کرتے تھے جب انہیں براہِ راست خدا کا حکم مل جاتا تھا۔ آج کون ہے جس کا خدا سے براہِ راست تعلق قائم ہو اور اسے وہاں سے ڈائریکٹ رہنمائی اور مشورے اور حکم و اجازت ملنے کا امکان ہو۔ کوئی بھی نہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چاہے معاملہ غیر مسلم بھائیوں کا ہو یا ہمارے علم و فہم کے مطابق ہمارے اپنے گمراہ یا غلط فکری و غلط کاری کا شکار مسلمان بھائیوں کا، ہمارا کام ہے کہ ہم حق اور سچ کو ان کے روبرو پیش کرتے رہیں ، ہر پہلو اور زاویے سے اسے واضح اور صاف کرنے کی کوشش کریں ، ان کے اشکالات، اعتراضات اور سوالات کا سامنا کریں اور ان کی تسلی و تشفی کا سامان کرنے کی جستجو کریں ، بحث کا موقع ہو تو خدا کی ہدایت کے مطابق اچھے اسلوب اور اعلیٰ درجے کی علمی و فکری اور عقلی و فطری دلائل کے ہتھیار کے ساتھ بحث کریں ۔ ایسی صورتحال میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم بھی انسان ہی ہیں اور وحی و الہام کے شرف سے سرفراز کوئی اعلیٰ و برتر اور محفوظ و معصوم ہستی نہیں ہے ۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ غلطی و نادرستی ہمارے ہی فکر و عمل میں ہو، لہٰذا ہمیں دوسرے کی بات اور دلائل بھی پورے غور و ہمدردی کے ساتھ سننے چاہیے ۔ تاکہ اگر ہم ہی کسی راے یا اقدام کی غلطی میں مبتلا ہو تو اپنی اصلاح کرسکیں ۔ ہمیں ہمیشہ اسی ذہن و برتاؤ کے ساتھ غیرمسلموں اور اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے لیکن کسی حال میں ان سے نا امید و مایوس ہوجانا اور ان کے ہدایت یاب ہونے کے حوالے سے اپنی آس کھودینا ہمارے لیے جائز نہیں ہے ۔ ہم کسی حال میں ان سے قطع تعلقی اختیار نہیں کرسکتے ، رشتہ نہیں توڑ سکتے ، بول چال اور میل ملاقات ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی مرحلے پر ان سے براء ت و بیزاری کا اعلان کرسکتے ہیں ۔
اس باب میں ایک معقول بات یہ ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی زیادہ علم نہیں رکھتا اور اس کا واسطہ ایسے غیرمسلم حضرات کے ساتھ پڑ جاتا ہے جو بہت زیادہ معلومات رکھتے اور اتنے ذہین و باصلاحیت ہیں کہ ان کے ساتھ میل جول برقرار رکھنے اور اسلام یا قرآن وغیرہ پر بظاہر ان کے ایسے مضبوط و ناقابلِ رد فلسفیانہ و تاریخی وغیرہ اعتراضات بار بار سننے سے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہے یہ خطرہ ہے کہ وہ خود کسی شک و تردد میں مبتلا ہوجائے ، تو ایسی صورت میں احتیاطی طور پر ان سے کترانے یا تعلق میں کمی کر لینے یا میل جول ختم کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یا ایسے مسلمانوں سے میل ملاپ میں کمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ جو بدعات اور شرکیہ اوہام و رسومات میں بالکل ہی غرق ہوں اور ہزار دلائل اور تفہیم کے باوجود اپنی ڈگر سے ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہ ہوں اور ان کی صحبت اور معیت میں اپنے کسی لغزش و گندگی میں لتھڑ نے اور مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے ۔تاہم معاملہ مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا نفرت و عداوت اور بغض و مایوسی کا کوئی سوال نہیں ۔ آپ کسی معقول بنیاد یا ضروت کے تحت احتیاطی نقطۂ نظر سے ضرور ان سے دور ہوجائیے یا ملنا جلنا کم کر دیجیے یا بات چیت اور بحث سے گریز کیجیے لیکن ان کے حق میں اپنے دلی جذبات کو خیرخواہی اور ہمدردی ہی کے حدود میں رکھیے ، عناد و نفرت اور بغض و بدخواہی میں ہرگز ہرگز نہ ڈھلنے دیجیے ۔
ہم اس بات کی معقولیت کو اپنی عام زندگی کے معمولات کی روشنی میں بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک بیٹا اگر ماں باپ کا نافرمان اور باغی ہوجائے ۔ انہیں تنگ اور پریشان کرے ۔ ان کی ایک نہ مان کر دے ۔ ہر وقت ان کا دل جلانے اور کلیجہ دکھانے والی حرکتیں کرتا پھرے ۔ محلہ بھر کے لوگوں کی ناک میں دم کرڈالے ۔ لوگ اس کی شکایت لے لے کر اس کے والدین کے پاس آتے اور انہیں مزید پریشان و بے چین کرتے ہوں وغیرہ۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے بیٹے کو سمجھانا اور سدھارنے کی کوشش کرنا معقول، درست اور بہتر ہو گا یا فَٹ سے اسے گھر اور جائداد سے عاق کرینا، اس کے ساتھ رشتہ ناطہ ختم کر دینا، اسے گھر سے دھکے دے کر نکال باہر پھینکنا اور بہن بھائیوں کا اس کے ساتھ بغض و نفرت میں مبتلا ہوجانا اور اس کا ہر طرح سے بائیکاٹ کر دینا۔ یقینا ایسا ہو سکتا ہے کہ والدین اس کی اصلاح و سدھار کے سارے جتن کرڈالنے کے بعد بالآخر اس کی اصلاح کی امید سے مایوس ہوجائیں اور بامر مجبوری اسے گھر سے نکال دیں اور اپنی زندگی سے خارج کریں ۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسا اُسی انتہائی صورت میں ہو گا جب کہ ایسا بیٹا بالکل ہی بگڑ چکا اور نرا شیطان بن چکا ہو اور اس کی ہر بات اور ادا سے اس بات کا اظہار و اعلان ہورہا ہو کہ یہ سدھرنے اور بدلنے والا نہیں ہے ۔ ورنہ عام طور پر یہی ہوتا اور اسی بات کو معقول و درست سمجھا جاتا ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن، دوست رشتہ دار اور پڑ وسی و محلے دار سب اسے سمجھانے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ہر طرح پیار سے ، ڈانٹ ڈپٹ سے ، نصیحت و تلقین سے ، تنبیہہ و تذکیر سے ، مار پیٹ سے ، سزا اور سختی سے وغیرہ وغیرہ درست کرنے اور اپنی غلطیوں سے باز آجانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اور یہ کوششیں لمبا عرصہ چلتی رہتی ہیں ۔ ایسے ہی ایک دو لمحات یا دو چار دنوں کے بعد یا اکا دکا واقعات کے نتیجے میں اسے ناقابلِ تبدیلی قرار دے کر اس سے منہ نہیں موڑ لیا اور رشتہ نہیں ختم لرکیا جاتا۔ یہ کوششیں اور افہام و تفہیم کی کاوشیں اکثر و بیش تر کامیاب ہوتیں اور مفیدِ مطلب نتائج رونما کرنے کا باعث بنتی ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساری جدوجہد بے سود و بے کار جاتی اور بالآخر بیٹے کو زندگی اور جائداد وغیرہ سے بے دخل کر دینے کے علاوہ کوئی چارہ اور حل باقی نہیں بچتا۔ بیٹے کے معاملے میں والدین اور عزیز و احباب اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ ایک انتہا اور حد پر جا کر وہ اس بات کو جان اور سمجھ لیں کہ اب بس یہ ٹھیک ہونے والا نہیں ہے مگر کسی کے ہدایت اور حق و سچائی کی دعوت کے باب میں آخری درجے میں ناقابلِ توقع اور نالائقِ امید ہوجانے کو جان لینا اکثر و بیش تر کسی انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ دلوں کا حال اور مستقبل کا علم خدا ہی کے پاس ہے لہٰذا اس باب میں کسی کو یہ حق و اختیار نہیں دیا گیا یہاں تک کہ خدا کے پیغمبروں کو بھی کہ وہ اپنی شخصی و ذاتی صوابدید اور اپنے ذاتی عقل و فہم و تجربہ کی بنیاد پر کسی کے بارے میں اس حوالے سے فیصلہ کر لیں ۔ نہیں بلکہ اس کے لیے خدا کے پیغمبر خدا ہی کی رہنمائی اور فیصلے اور اجازت کا انتظار کرتے تھے ۔ اب جبکہ نبوت و رسالت ختم ہو چکی اور پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص یا گروہ کے بارے میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے ۔ اب ہر ایک کے لیے بس یہی راستہ ٹھیک ہے کہ وہ حق و سچائی کا پیغام عام کرتا رہے ۔ اور لوگوں کو ہدایت کے راستے کی طرف پکارتا رہے ۔ اور یہ کام اور سلسلہ کبھی بند نہ کرے ۔ لوگوں کی طرف سے کیا جواب ملتا اور رد عمل سامنے آتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ اچھا جواب اور مثبت رد عمل سامنے آئے تو خدا کا شکر بجالایا جائے ورنہ صبر و تحمل اور ثابت قدمی و حوصلہ مندی سے کام لیا جائے ۔ خدا کے پیغمبر بھی خدا کے راستے اور دین کی دعوت کے سلسلے میں بے شمار اذیتوں کو سہتے اور مشکلات و تکالیف کو برداشت کرتے رہے ہیں لیکن جب تک خدا کا حکم نہیں آیا انہوں نے اپنے مخاطبین اور اقوام سے بیزاری و قطع تعلقی اختیار نہیں کی۔ ہم لوگوں کو چونکہ خدا کی طرف سے کسی اطلاع نے نہیں آنا اور نہ کسی الہام نے نازل ہونا ہے لہٰذا ہمارا کام تو بس پیغام پہنچاتے اور دعوت و ہدایت کی صدا لگاتے رہنا ہے ۔ اس پر لوگ کیا روش اپناتے اور کیا رد عمل فرماتے ہیں اس کی ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے ۔ ہمیں بہرحال اس راستے کو نہیں چھوڑ نا ہے چاہے اس کے نتیجے میں اعزاز و ا کرام سے سابقہ پیش آئے اور بظاہر کامیابیاں اور فتوحات نصیب ہوں یا اذیتوں اور مشکلات سے سابقہ ہو اور بظاہر ناکامیاں اور شکستیں مقدر بنیں ۔ اصلاح و دعوت اور حق و سچائی کی پیغام رسانی کا یہ کام ہمیں لگاتار کرتے رہنا ہے ، معاملہ چاہے غیر مسلموں کا ہو یا اپنے فکری و عملی خرابیوں اور گمراہیوں میں مبتلا مسلمان بھائیوں کا۔ ہم اگر کسی چیز کو غلط یا بدعت یا مشرکانہ سمجھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے اپنے مسلمان بھائی اور غیرمسلم ساتھی سے ہمدردی کریں ، اسے اس کی خرابی و شناعت سے واقف کرائیں اور اسے اس دلدل اور کیچڑ سے نکالنے کی جستجو کریں نہ یہ کہ اس سے منہ موڑ لیں اور پیٹھ پھیر لیں ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ شاندار و اثر آفرین الفاظ ہمیں یاد رکھنے چاہیے ، جو آپ نے اُس موقع پر ارشاد فرمائے جب آپ کے پاس خدا کا فرشتہ یہ پوچھنے آیا تھا کہ آپ کے ساتھ بدسلوکی اور سنگدلی کا انتہائی گھناؤنا مظاہرہ کرنے کے جرم میں فلاں بستی اور اس میں رہنے والوں کو دو پہاڑ وں کے درمیان کچل اور مسل کر رکھ دوں ۔ آپ نے فرمایا: نہیں میں یہ امید رکھتا ہوں کہ شاید ان کی نسلوں میں آنے والے لوگ مسلمان اٹھیں اور میری پیروی اختیار کریں ، یہ ہمارے لیے اس باب میں آخری نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہمیں بھی آپ کے سچے امتی اور حقیقی پیرو ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے حق و ہدایت کے راستے پر ثابت قدمی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ حق کی دعوت اور سچائی کے فروغ کی راہ میں دل و جان سے لگے رہنا چاہیے ۔ کسی کی غلطیوں ، شرک و کفر اور فکری و عملی بے راہ رویوں کو دیکھ کر ہمیں دل شکستگی و مایوسی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیشہ امید کے ساتھ جینا، لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے کوششیں کرتے رہنا اور اپنے خدا سے اپنے بھائیوں کی ہدایت یابی اور فلاح و کامیابی کی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔
اسی باب میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر رکھنے کا ہے کہ خدا کے پیغمبر مثلاً نوح علیہ السلام ساڑ ھے نو سو سال تک اپنی قوم کو جھنجوڑ تے اور بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ ان کی تمام ایذاؤں اور مخالفتوں کے علی الرغم آپ انہیں توحید اور خدا کی بندگی کی دعوت دیتے رہے ۔ بتوں اور جھوٹے معبودوں کی بندگی کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے رہے ۔ اسی طرح دوسرے پیغمبروں نے بھی لمبے لمبے عرصے تک اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھایا، نصیحت کی، ان کے سوالات کے جواب دیے ، ان کے اشکالات دور کیے ، ان کے اعتراضات کا سامنا کیا، ہر طرح سے ان کی ذہنی و فکری الجھنوں کو ختم اور دور کرنے کی کوشش کی، ان کی ایذاؤں ، تکلیفوں اور مخالفتوں کا ثابت قدمی اور حوصلہ مندی سے سامنا کیا۔ اور انہوں نے یہ سارے کام سراسر خیرخواہی، انسانی ہمدردی اور پوری دردمندی سے کیے ۔ لہٰذا ان کے ماننے والوں اور ان کی پیروی کا دم بھرنے والوں کو بھی لوگوں کو پیٹھ دکھانے کا سوچنے اور ان سے بیزاری و براء ت کا اعلان کرنے کے بجائے ان سے ہمدردی و خیرخواہی رکھنی چاہیے ، ان کی ہدایت و نجات کے لیے تڑ پنا اور رونا چاہیے اور ہر طرح سے انہیں سمجھانے ، پگھلانے ، راہِ ہدایت کی طرف لانے اور نجات و فلاحِ آخرت کے سچے راستے پر چلانے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنی چاہیے ۔لوگ آخر ان باتوں کو کیوں نہیں دیکھتے کہ خدا ہی نے اپنے بندوں کو فکر و عمل کی آزادی دی ہے اور وہ ان کی تمام ناشکریوں ، سرکشیوں اور بغاوتوں کے باوجود ان سے نرمی ہی کی معاملہ کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ہدایت حاصل کریں ۔ اسی لیے اس نے پہلے پیغمبروں کا سلسلہ قائم فرمایا۔ پھر اس کے بعد ان کی امتوں کی یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ اقوامِ عالم تک خدا کا پیغام پہنچائیں اور انہیں ہدایت کے راستے کی طرف بلائیں ۔ ختمِ نبوت کے بعد اب یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم اقوام تک قیامت تک خدا کے دین اور حق و سچائی کا پیغام پہنچاتے رہیں ۔ یہ کام انہیں مسلسل کرنا ہے ۔ اور ہر حال و صورت میں کرنا ہے ۔ جب غیر مسلموں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے تو پھر اپنے غلط فکری و عملی میں مبتلا بھائیوں کے حوالے سے ان کے لیے یہ رویہ اور برتاؤ کیسے روا اور مناسب ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں گمراہی اور ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیں اور ان کی فکری و عملی لغزشوں کو ان پر کھولنے اور انہیں اس دلدل سے نکالنے کے بجائے انہیں جواز بنا کر ان سے قطع تعلق کر لیں اور دوری و بیزار میں مبتلا ہوجائیں ۔ یقینا یہ روش بالکل بھی مناسب اور صحیح نہیں ہے ۔ ہمارے بھائیوں کا ہم پر یہ حق بنتا ہے کہ ہم ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اور ان کی بدعتوں اور شرکیہ اوہام و رسومات کے باوصف ان سے ملتے جلتے رہیں ۔ ان کی علمی و عملی خطاؤں کو ان پر واضح کرنے کی سنجیدہ، مدلل اور خیرخوانہ کوششیں کرتے رہیں ۔ وہ مانیں یا نہ مانیں ، سنیں یا نہ سنیں ، ہم سے اچھا برتاؤ کریں یا بدسلوکی سے پیش آئیں ، ہمیں یہ کام کرنا چاہیے اور ان کی خیرخواہی و ہمدردی کا حق ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ خدا اور دین نے کہیں ہمیں یہ تلقین نہیں کی فلاں حد پر جا کر یا فلاں تعداد پوری کر کے تم یہ کام بند کر دینا اور اگر فلاں اور فلاں اتنی اتنی بار بتانے سمجھانے کے بعد بھی باز نہ آئیں اور اپنی روش و ڈگر تبدیل نہ کریں تو تم ان سے منہ پھیر لینا اور تعلقات و روابط ختم کرڈالنا۔
ہمیں یاد رکھنا اور ہمیشہ اس بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو شرکیہ عقائد و رسومات اور بدعتیں بہت بڑ ے پیمانے پر رواج پا گئیں ہیں وہ انہیں خلافِ اسلام جان اور سمجھ کر نہیں اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ انہیں ان کے باب میں علم و فہم اور تاویل کی غلطی لگی ہے ۔ وہ جن مشرکانہ عقائد و تصورات کو مانتے ہیں ، آپ اُن سے بحث کر کے دیکھ لیجیے کہ وہ کبھی انہیں مشرکانہ اور خلافِ اسلام تسلیم نہیں کرتے ۔ آپ جن چیزوں کو بدعت اور جن رسموں کو غیر دینی بتاتے ہیں وہ انھیں عین مطابقِ اسلام اور موافقِ قرآن و سنت گردانتے ہیں ۔ انہیں اصل میں یہی مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اپنے ان خیالات و رسومات اور بدعات کی غلطی و خامی کو سمجھ نہیں پا رہے اور دھوکے اور غلط فہمی سے انہیں اسلامی چیزیں سمجھ کر دل و جان سے اپنائے ہوئے ہیں ۔ ایسی صورت میں ہمارا کام ان پر شرک و کفر اور گمراہی کا فتویٰ جڑ کر ان سے دور ہوجانا نہیں ہے بلکہ نہایت ہمدردی و دلسوزی اور نرمی و شفقت کے ساتھ ان پر ان باتوں کی غلطی و خامی کو واضح کرنے کی کوشش کرنا ہے ۔ یہ ساری صورتحال اس وجہ سے ہے کہ لوگ براہِ راست قرآن و سنت کی تعلیمات سے واقفیت و آگاہی نہیں حاصل کرتے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے بیزار و متنفر ہونے کے بجائے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات ان تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ انھیں توحید کی حقیقت اور اس کے تقاضوں سے روشناس کرائیں اور اسلام کی پاکیزہ و روشن تعلیمات سے آشنا بنائیں ، تاکہ ان پر خود ہی ان خیالات و رسومات کی حقیقت و شناعت واضح ہوجائے اور وہ خود اپنی سمجھ اور فیصلے سے ان کی غلطی کو محسوس کر کے ان سے رجوع کر لیں ۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں راے اور نقطۂ نظر کے اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ایسے معاملات میں صحیح رویہ یہ ہے کہ اختلافات کو گوارا کیا جائے ، ہر ایک کی آزادی راے کا احترام کیا جائے اور اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و محبت اور عزت و احترام کے ساتھ رہنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, June 24, 2010 - 10:42 AM
What all said by Ms. Saba2… in response to Safimera’s mentioned three situations… and 4 options… (Posted - Monday, June 21, 2010 - 6:38 AM), I want to comment on it as:
She is right that this is not the right attitude that you get disconnected with the person of different opinion and different religious attitude. First thing is to talk with him and try to convey right point of view to him, if he convinced and accepts the right way then well and good other wise wait to put and present your point of view at another suitable time and carry on this attitude and not stop it in any extent and never discontinue relations and meetings with him.
In the matter of difference of opinion regarding a specific Hadith, yes this is right attitude to present your reasons to why you assume this Hadith as “Saheeh” and let the other to present his case with his arguments. If a consensus will developed then well and good, otherwise you continue your opinion and let the other party to take his opinion continue and not make this difference base of any fighting and separation.
Being a Hanfi or Takleedi is also a matter of difference of opionion, if you don’t like and assume it an error to do so, then fulfill you wish but let the other person fulfill his wishes and understandings. This is also not a valid base of any dispute and separation.
In short I have to say that her whole reply and all suggestions are very much Perfect and full of Wisdom and Knowledge. I really appreciate this Beautiful and Wise Post.
Edited by: isfi22 on Thursday, June 24, 2010 10:46 AM |
|
saba2 Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, June 26, 2010 - 3:19 AM
Thank you Isfi for the compliment. I feel judgement can be very easy if we use common sense, respect humanity and have fear of God. |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, June 26, 2010 - 9:11 AM
You are most Welcom Respected Sister>>>!!!
I agree with u but i feel that getting guidance and right and wisdom based opinion in different matters specially in controversial or typical matters is only a blessing of God and a symbol of having Good Luck!!
God bless us all and make us having Guidance and Good Luck. |
|
saba2 Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Wednesday, June 30, 2010 - 6:24 AM
There is nothing wrong in getting guidance or an opinion from anyone specially from the people you trust but it has nothing to do with luck. I feel the final word should be your own after weighing all possibilities.... after all on the day of judgement you will be answerable of your actions..... and arguments like I was misguided will not be acceptable. |
|
Sanwal
INDIA
|
Posted - Friday, July 23, 2010 - 6:34 PM
isfi22 from PAKISTAN Posted - Thursday, June 24, 2010 - 10:09 AM
We are exposed all over the world not indigenously. So our language of communication must be English for convenience of most of the readers. |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, July 24, 2010 - 7:24 AM
I am totally agree with you. I have no object in this statement, but when a person can not do something then you have to understand this matter and excuse him. But i don't think that if you can not express your views in a common language or international language then you have lose the right to express your thinkings or points in your native language and mother tongue.
On this basis i m writing and coming here. If you think this is not fair and i m doing wrong then you have the right to say me "Go from here please and don't come again and write in your Mom Tongue".
By the way i have a feeling to share with all that some people are objecting that why i write in urdu in an international platform. I am agree but i have a strong reason and excuse for doing this but what is the justification of personal attacks and ego fightings and useless debates and discussions on a platform for religious and social reforms. |
|
saba2 Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, July 24, 2010 - 8:16 AM
Isfi we know why you write in urdudu but it would be nice if you use english from time to time and I know you do it which is also well appreciated. You have very clear opinion and substantiate it with Islamic teachings you are also very eloquent in urdu and I know it is very difficult every time to translate you thoughts in another language you are not comfortable with. So rather than not read your posts at all I am willing to wear my reading glasses and read all what you have to say.So nephew please continue in which ever language you choose. As for people fighting and being intolerant to each other it is disturbing but you need to ignore it and continue you cannot change everyone. |
|