Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
faridraseed

INDIA
Topic initiated on Sunday, January 29, 2006  -  3:02 PM Reply with quote
موبائل کھلا (آن) رکھ کر مسجد میں آنا


ہندستان کے مشہور عالم دین اور مفتی جناب حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب دامت برکاتہم (صدر مفتی اور نائب شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل،گجرات، انڈیا) کا فتوی

باسمہ تعالی موبائل کھلا (آن) رکھ کر مسجد میں آنا
سوال : بہت سےحضرات مسجد میں فرض نماز کےوقت بھی موبائل سوئچ آف نہیں کرتے، جس کی وجہ سےدوران نماز موبائل کی گھنٹی (جو میوزک ٹون میں بھی ہوتی ہے) بجتی رہتی ہی۔اس صورت حال کا کیا حکم ہے؟
جواب :حامدًا ومصلیًاو مسلمًا
نماز کےاوقات میں مسجد میں کوئی بھی ایسا فعل جو مصلیوں کی نماز میں مخل ہو،جائز نہیں ہے۔ اگر چہ وہ دینی کام کیوں نہ ہو۔مثلًا نماز کےوقت جہرًا تلاوت یا ذکر کرنا، بآواز بلند کتاب پڑھنا وغیرہ افعال امور دین اورکارہائےثواب ہیں ، پھربھی اس لیےناجائز ہیں کہ ان سےمصلیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتاہے۔ آپ سوچ سکتےہیں کہ دوران نماز مذکورہ امور ِدین اورکارہائےثواب کی بھی اجازت نہیں دی گئی ،تو پھر نمازباجماعت جاری ہونےکی حالت میں کسی کےموبائل سےبلند آواز میں میوزک بجنےلگے،اس کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے؟
خصوصا اس لیےبھی کہ احادیث پاک میں میوزک کےبارے میں سخت وعیدیں مذکور ہیں، زمیں میں دھنسا دینےاور انسانی چہرے مسخ کر دیےجانےتک کی سخت وعیدیں اس برے فعل پر وارد ہوئی ہیں۔نبی اکرم ۖ نےاپنی بعثت کا اہم مقصد راگ اور باجوں کو ختم کرنےکا ذکر کیاہو، ایسی حالت میں کسی امتی کا اپنی جیب میں ایسےآلہ کوجاری (on) رکھتےہوئے مسجد میں آنا اور نماز میں شامل ہونا، پھر اس گھنٹی کی وجہ سے پوری مسجد کےمصلیوں کی نماز کےخراب ہونےکا اندیشہ لاحق ہو تو ، پھر یہ فعل کتنا برا اور قابل مذمت ہے، یہ سمجھا جاسکتا ہے۔ لہذاجو حضرات اس طرح دانستہ یا نادانستہ نمازیں خراب کرنے کےگناہ میں مبتلا ہوتےہیں، انہیں خوب غورو فکر کرناچاہیےکہ وہ حضرات اس طرح مسجد میں آ کر اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں یا برباد کر رہے ہیں؟
مصلی کےسامنےسےگذرنےکی ممانعت جو حدیث پاک میں مذکور ہے ، اس کی بھی یہی وجہ ہےکہ سامنے سےگذرنےکی وجہ سےمصلی کا دھیان نماز سے ہٹ جاتاہے ، نبی کریم ۖ کا ارشاد گرامی ہے:
عن بشر بن سعد قال : ارسلنی ابو جہم الی زید بن خالد اسالہ عن المار بین یدی المصلی، فقال : لویعلم المار بین یدی المصلی ماذا علیہ لکان ان یقوم اربعین خریفا خیرا لہ من ان یمر بین یدیہ
ترجمہ : نماز ی کےسامنےسےگذرنےوالےکو اگر معلوم ہوجائےکہ یہ کتنا بڑا گناہ ہےتو چالیس سال وہاں کھڑا رہنا اسےگذرجانےکےمقابلہ میں آسان معلوم ہو۔(کشف النقاب : ٥ ١٠٣)
عن یزید بن نمران قال : رایت رجلا مقعداً فقال : مررت بین یدی النبی وانا علی حمار وہو یصلی فقال: اللہم ’ اقطع اثرہ ‘ فما مشیت علیہا۔
ترجمہ : یزید ابن نمران فرماتے ہیں کہ میں نےایک اپاہج آدمی کو دیکھا، جس نےمجھے بتایاکہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نماز ادا فرمارہے تھے،اور میں گدھےپر سوار آپ ا کےسامنےسےگذرگیا ۔تو آپ ﷺ نےفرمایا : اےالل ہ! اس کےنشان قدم کوختم کر د ے، میں اسی وقت سےچلنےسےعاجز ہوں۔( ٥٠٠٣)
رجل من اہل الطائف قال : جاء کلب والنبی یصلی بالناس صلاۃ العصر - لیمر بین ایدیہم فقال: رجل من القوم : اللہم احبسہ فمات الکلب، فلما انصرف النبی ۖ قال : ایکم دعا علیہ ؟ قال الرجل: انا یا رسول اللہ ! فقال النبی ۖ: ’ لو دعا علی امۃ من الامم لاستجیب لہ
ترجمہ :ایک مرتبہ نبی کریمۖ عصر کی نماز میں امامت فرما رہے تھے کہ ایک کتا آیا جو نمازیوں کے سامنے سےگذرنا چاہتا تھا۔ ایک نمازی بول پڑا کہ اے اللہ! اسےروک دی۔چنانچہ وہ کتا وہیں مرگیا۔نماز سےفارغ ہوکر نبی کریم ۖ نےدریافت فرمایا کہ تم میں سےکس نےاس کےلیے بد دعا کی تھی؟ ایک صاحب نےعرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ میں نے۔ حضورۖ نےاس پر فرمایا کہ اگر ایک پوری قوم کے لیے بد دعا کی جاتی تو وہ بھی قبول ہوجاتی۔( ٥٠٠٣)
مذکور احادیث پر غور و فکر کرنےکی ضرورت ہے،ایک آدمی مصلی کےسامنےسےخاموش گذر جاتاہے، پھر بھی اس کے لیےاتنی سخت وعیدیں ہیں، کیوں کہ اس طرح گذرنے سے بھی مصلی کی نماز میں خلل واقع ہوتاہے ۔تو پھر جو حضرات اپنا موبائل کھلا (آن ) رکھ کر نماز میں شامل ہوتےہیں ،اور پھر دوران نماز ان کا موبائل شیطانی آواز یعنی میوزک بجا کر پوری مسجد کےمصلیوں کی نماز میں خلل انداز ہوتاہے، توایسےآدمی کو کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کےکسی بندے کی زبان سےکوئی بد دعا نکل جائےاور ایسےآدمی کی ہلاکت کا سبب بن جائے۔
تمام دنیا کےشاہی درباروں اور عدالتوں کےخاص خاص آداب مقررہوتےہیں،جن کو ہر شخص جانتاہے، چونکہ مسجد تمام بادشاہوں کے پیدا کرنےوالےکا عظیم الشان دربار ہے،اس لیےاس کےبھی کچھ آداب ہیں، جواس دربار کےناظم یعنی نبی کریم ۖ نےہم کوسکھائےہیں، ہر مسلمان پر ضروری ہےکہ ان کو معلوم کرکےان کےموافق چلنےکی کوشش کرے۔ (آداب المساجد : ٦٢)
بعض بزرگان سلف سےنقل کیاجاتاہےکہ جب وہ مسجد کےدروازے پر پہنچتےتھےتو بوجہ خوف ان کا رنگ زرد پڑ جاتاتھا،لوگوں نےوجہ پوچھی تو فرمایاکہ لوگ جب دنیا کےکسی حاکم کےدربار میں جاتےہیں تو ان پر اس کا رعب چھاجاتاہےاور ڈرتےہیں کہ کوئی بات عدالت کےآداب اور حاکم کی شان کےخلاف نہ ہوجائے،تو کیا میں احکم الحاکمین کےدربار کی اتنی بھی وقعت نہ کروں جتنی ایک ادنی حاکم کی کی جاتی ہے ۔اس خوف سےمیرا رنگ زرد ہوجاتاہےکہ کہیں اس دربار کی شان کےخلاف کوئی بات صادر نہ ہوجائے۔ (آداب المساجد : ٠٣)
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نماز میں تھے، ایک شخص آیا،جو کچھ لیےہوئےتھا،اس کو صف کےآگےڈال دیا۔اور خود نماز میں شریک ہوگیا۔(جیساکہ آج کل عموما کیاجاتا ہے) فاروق اعظم جب نماز سےفارغ ہوئےتو اس کو سزا دی کہ تو نےنمازیوں کو تشویش میں ڈالا۔ (کتاب الاعتصام للشاطبی)
اس حکایت کو نقل فرمانےکے بعد حضرت مفتی شفیع صاحب رقم طراز ہیں کہ :
اس سےمعلوم ہواکہ کسی چیز کو نمازیوں کےآگےاس طرح ڈالنا یا اٹھانا کہ ان کی توجہ اس کی طرف پھر جائے برا ہے۔لیکن اگر بضرورت ِحفاظت اپنےضروری سامان کو آہستہ سےاس طرح سامنےرکھ دے کہ نمازیوں کو تشویش نہ ہوتو کوئی حرج نہیں۔ (آداب المساجد: ٠٤)
مذکورہ واقعہ میں اس شخص نےاپنا سامان آہستہ رکھنےکے بجائےڈال دیا،جس کی آواز سےمصلیوں کی نماز میں خلل واقع ہونےکا اندیشہ تھا،حضرت عمر نےاسی بنیاد پر اس کو سزا دی۔
جو حضرات اپنا موبائل کھلا(آن) رکھ کر مسجد میں آتےہیں،اور دوران نماز ان کا موبائل بجنےلگتا ہے تو اس سےمسجد میں موجود تمام مصلیوں کی نماز میں جو شدید خلل واقع ہوتاہےاس سےکو ئی ناواقف نہیں،ایسا شخص کتنی سخت سزا کا مستحق ہوگا ،یہ سوچاجاسکتاہے۔
اگر موبائل کا رنگ ٹون سادہ گھنٹی کی آواز میں ہو تو اس کی برائی کا انداز ہ بھی نبی کریم ۖ کےاس ارشاد گرامی سےہوسکتاہےجس میں آپۖ نےفرمایا کہ ”سفر کےایسےرفقا(اور قافلہ) جن کے ساتھ کتا یا گھنٹی ہو، فرشتےان کےہمراہ نہیں چلتے۔“ (مسلم شریف) ایک اور حدیث میں ہے : گھنٹی شیطان کی بانسری ہے۔(ابوداؤد)
گھنٹی کی آواز جس میں کوئی کشش نہیں ہوتی ،اس کےبارے میں بھی نبی کریم ۖ کےیہ ارشادات ہوں تو پھر آج کل موبائل میں جس قسم کےٹونس (tones) عام ہورہے ہیں،اس سےتو میوزک جیسی حرام چیز کی ترویج اوراشاعت ہورہی ہے
قرآن کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی شیطان کو مخاطب کرتےہوئےفرماتےہیں کہ "واستفزز من استطعت منہم بصوتک" (تو اپنی آواز کےذریعہ جس کو چاہےبہکا لے۔)
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں: اس آیت میں شیطانی آواز سےگانا بجانا مراد ہے۔
امام مجاہد فرماتےہیں اس کا مطلب یہ ہےکہ اے ابلیس ! توانہیں کھیل، تماشوں اور گانےبجانےکےساتھ مغلوب کر۔
اور حضرت ابن عباس فرماتےہیں اس آیت میں ہر وہ آواز مراد ہےجو اللہ کی نافرمانی کی طرف دعوت دے۔
یہی قول حضرت قتادہ کا ہے،اور اسی کو ابن جریر نےاختیار فرمایاہے ۔
حافظ ابن قیم اسی کےذیل میں فرماتےہیں :” اور سب کو معلوم ہےکہ معصیت کی طرف دعوت دینےوالوں میں گانا بجاناسب سےبڑھ کر ہے۔اسی وجہ سے” شیطان کی آواز “ کی تفسیر اس کےساتھ کی گئی ۔(احسن الفتاوی ؛ ٨١٨٣)
بخاری شریف میں نبی کریم ۖ کا ارشاد گرامی ہے: ”میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گےجو زنا ، ریشم، شراب اور راگ باجوں کو حلال قرار دیں گے۔“
آج کل موبائل کےمختلف ٹون (tone) کے بہانےلوگ جس طرح کی غفلت اور چشم پوشی کرتےہیں اس سے یہی ظاہر ہوتاہےکہ وہ اس طرح کےٹون(tone) کو حلال سمجھتے ہیں۔
مسند احمد ،ابوداود اور ابن ماجہ میں روایت ہے،حضرت نافع فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر کوراہ چلتےایک گڈریےکی بانسری کی آواز سنائی دی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور راستہ سےایک طرف ہٹ کر چلنےلگے، اور مجھ سےباربار پوچھتے:’ کیا بانسری کی آواز تمہیں سنائی دے رہی ہے؟ ‘میں جواب دیتا : جی ہاں!اسی طرح انگلیاں کانوں میں دیےچلتےرہے، حتی کہ میں نےکہا: ’اب آواز نہیں آرہی‘ تب انگلیاں کانوں سےہٹائیں اور راستہ چلنےلگے، پھر فرمایا:ایک بار حضورۖ کےساتھ بھی بعینہ یہی واقعہ پیش آیاتو آپ نے بھی کانوں میں انگلیاں دےلیں اور یہی عمل فرمایا۔(احسن الفتاوی : ٨٣٨٣)
سوچنےکا مقام ہےکہ آپۖ نےجس شیطانی آواز کو لمحہ بھر سننا گوارا نہ فرمایا، آج آپ کےنام لیوااس پر اس درجہ فریفتہ ہیں کہ انہیں لمحہ بھر اس کی جدائی گوارا نہیں،نماز کےلیےمسجد میں آتےہیں تو اس وقت بھی موبائل کھلا رکھ کر مسجد جیسےمقدس مقام کو اس طرح کی شیطانی آواز کےذریعہ خراب کرنےکی حرکت کر بیٹھتےہیں۔
نماز کےلیےمسجد میں آنےکا مقصد یہ ہےکہ انسان اپنی تمام تر دنیاوی مصروفیات سےمنقطع ہوکر مقرر ہ وقت تک اللہ کےدربار میں حاضر ہوکر اللہ تعالی کےساتھ اپنا رشتہ استوار کرے۔اسی لیےہر وہ کام جو نماز سےتوجہ ہٹانےوالاہو،جائز نہیں ہے۔کسی کو اگر قضائےحاجت کا تقاضاہوتواس حال میں نماز اداکرنا مکروہ تحریمی اور بحکم حدیث ممنوع ہے ۔کیوں کہ ایسی حالت میں نماز پڑھنےکا مطلب یہ ہےکہ یہ شخص ظاہری حالت میں تو نیت کرکےاللہ تعالی کےسامنےدست بستہ کھڑا ہی،مگر درحقیقت اس کا دل اللہ تعالی کی جانب متوجہ نہیں ۔
اسی طرح نماز کی ادایگی لیےجو پیشگی تیاریاں شریعت نےلازم قرار دی ہیں ،اس کا مقصد بھی یہی ہےکہ انسان جب ادایگی فرض کےلیےکھڑا ہوتو مکمل طورپر نماز میں مگن ہوجائے۔ اور اسی لیےفرض نماز سےقبل کچھ سنتیں بھی رکھی گئیں، تاکہ سنت کےذریعہ یک گونہ تعلق اللہ تعالی سےقائم ہوجائے،اوراس کےبعد فرض نماز اس حالت میں ادا ہوکہ اس کا دل تمام علائق سےمکمل طورپر منقطع ہوکر اللہ کی جانب متوجہ ہوچکاہو۔
اس اہتمام کا تقاضا یہ تھا کہ موبائل کو اپنےساتھ مسجد میں ہی نہ لایاجائے، لیکن اگر یہ حکم دیاجائےتو ایسےآدمی کو دشواری لاحق ہوجاتی ، جو سفر میں ہو،یا جو گھر سےدیگر ضرورت سےموبائل لےکر نکلاہو،چنانچہ بند(آف) حالت میں تو موبائل مسجد میں لےجانا ممنوع نہیں ،لیکن کھلا(آن )موبائل مسجد میں لےجانا نماز کے لیے مسجد میں جانےکےمقصد کےبالکل خلاف ہے۔لہذا موبائل استعمال کرنےوالےتمام حضرات کےلیےضروری ہےکہ مسجد میں داخل ہونےسےپہلےاپنا موبائل بند کرلیں۔اور جوحضرات عمد‎ًا موبائل کھلا(آن) رکھ کر مسجد میں آتےہیں وہ گنہگار اور قابل مذمت ہیں۔
اگر کوئی شخص پہلےسےموبائل بندکرنا بھول گیااور دوران نماز گھنٹی بجنےلگی تو عمل کثیر کےبغیر گھنٹی بند کرنا ممکن ہوتوبند کردی جائے۔ لیکن اگراس کےلیےعمل کثیرکا ارتکاب کیاگیاتو اس طرح موبائل بند کرنےسےنماز فاسد ہوجائےگی۔
عمل کثیر کسےکہتےہیں؟ اس بارےمیں راجح قول یہ ہےکہ ہر وہ کام جس کےکرنےوالےکو دور سےدیکھنےوالاشخص سمجھےکہ یہ شخص نماز میں نہیں ، وہ عمل ِ کثیر ہے۔اوراگر وہ حرکت اتنی زیادہ نہ تو عمل قلیل ہی۔جس سےنماز فاسد نہ ہوگی۔
فقط واللہ تعالی اعلم
املاہ: احمد خانپوری


Edited by: ibrahim on Wednesday, May 24, 2006 11:30 AM
ibrahim
Moderator

PAKISTAN
Posted - Wednesday, May 24, 2006  -  11:42 AM Reply with quote
جزاکم اللہ
جناب ادب کے ساتھ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اس فتوے میں بہت سی اچھی باتیں ہیں مگر یہاں نبیۖ کے اس فرمان کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے کہ "دین کو آسان بناؤ، مشکل نہ بناؤ"
ماننا پڑے گا کہ موبائل اس وقت ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے لہذا نماز کے لیے جہاں انسان وضو کرتا ہے، اور بہت سی تیاریاں کرتا ہے وہاں اسے مسجد داخل ہوتے ہی اپنا موبائل یاد سے بند کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاہم ، اگر وہ ایسا کرنا بھول جاۓ اور نماز کے دوران میں "بیل" بجنے لگے تو اسے ہر حال میں فورا اس کو بند کرنا چاہیے۔

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker