raushan
UNITED ARAB EMIRATES
|
Topic initiated on Sunday, June 14, 2009 - 1:11 PM
خدا کے نام پر !
اگر خودکش حملے حرام سمجھنے کے جرم میں دیوبندی مولانا حسن جان اور پھر بریلوی مولانا سرفراز نعیمی قتل ہوسکتے ہیں تو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور جمیعت علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی اور ان کے ہم عقیدہ دو ہزار علمائے کرام کس کھیت کی مولی ہیں جنہوں نے صرف چارماہ قبل ہی خودکش حملوں کے غیرشرعی ہونے کا فتویٰ جاری کیا ہے اور اب تک زندہ ہیں۔
اب معاملہ سنی، شیعہ، دیوبندی، وہابی اور بریلوی سے آگے نکل گیا ہے۔اب اینٹ کے جواب میں پتھر کا نہیں بلکہ لفظ کے جواب میں بم کا زمانہ ہے۔ اور اس اصول کے تحت اس دنیا کے سوا ارب مسلمانوں میں سے سوائے چند ہزار کے سب ہی مرتد، مشرک اور زندیق ہیں جن کے لیے قبر کے علاوہ کوئی پناہ نہیں۔ اور قبر بھی کیوں ؟
اگر بس چلے تو مکہ کی اس عورت کے باقیات تلاش کرکے کیوں نہ جلا دیے جائیں کہ جو رسول اللہ پر اپنے گھر کی چھت سے برابر کوڑا پھینکتی تھی اور رسول اللہ برابر اس کے راہِ راست پر آنے کی دعا کرتے ہوئے گلی سےگذر جاتے تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ سرسید احمد خان محسنِ قوم تھے لیکن کیوں نہ ان کی قبر پر ٹائم بم فٹ کردیا جائے کیونکہ انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کے پہلے شمارے میں ہی یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ فی زمانہ غلامی کی رسم ساقط ہوچکی ہے اور آج کا تعلیم یافتہ مسلمان جدید مسائل کے حل کی خاطر اسی طرح اجتہاد کا حق رکھتا ہے جس طرح گذرے وقتوں کے علماء اپنے دور کے مسائل کے بارے میں اجتہاد کرتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ علامہ اقبال مفکرِ پاکستان ہیں لیکن ایسے خیالات رکھنے پر ان کے مزار میں بارود کیوں نہ بچھا دیا جائے کہ
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا، لاالہ الا اللہ یا میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو ، اللہ ہو یا رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
بھول جائیں اس بات کو کہ کسی محمد علی جناح نے کسی قوم کے لیے کوئی ملک بنایا تھا۔ان کی صرف یہ بات یاد رکھیں کہ ’اگر آپ خود کو ملک و قوم کے لیے وقف کردیں تو وقت کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی معنوں میں نہیں بلکہ ان معنوں میں کہ ذاتی عقیدہ رکھتے ہوئے بھی ریاست کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔‘
اب فرمائیے کہ ان جملوں کی روشنی میں ان کے مزار کے احاطے میں خودکش ٹرک کب بھیجئے گا!
اور رہے حسن البنا اور سید قطب کے فکری قائد ابوالاعلٰی مودودی ۔تو انہیں تو انیس سو اکیاون کے بعد سے متعدد بار مفسد و مرتد قرار دیا جاچکا ہے۔ان کی قبر کا وجود مٹانے کے لیے کیا حکمتِ عملی بن رہی ہے۔
کہا تو یہ جارج بش نے تھا کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ لیکن اس قول کو آپ نے کیسے اپنا لیا ؟
اگر لفظ کا جواب بم ہی ٹھہرا تو پھر خارجی، سبائی اور قرامطی کیا برے تھے ؟
تو کیا خدا کے نام پر سب فیصلے خود ہی کرنے ہیں یا کچھ کارِ منصفی خدا پر بھی چھوڑنا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان |
|