Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
isfi22

PAKISTAN
Topic initiated on Saturday, May 22, 2010  -  9:02 AM Reply with quote
چند مضامین


زبان اور مذہب
3-4-2010
بس میں سفر کے دوران کنڈیکٹر بار بار مسافروں سے کہہ رہا تھا کہ ’ساتھ ساتھ میں ہوجاؤ‘۔ میں چونکا اور ٹھٹک کر غور کرنے لگا کہ کیوں مجھے اس کا یہ جملہ کچھ اجنبی اور عجیب عجیب سا محسوس ہورہا ہے ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد مجھ پر یہ واضح ہوا کہ اصل میں تو جملہ ’’ساتھ ساتھ ہوجاؤ‘‘ ہونا چاہیے لیکن یہ پٹھان کنڈیکٹر اپنے پس منظر اور پٹھانوں میں رائج اردو اسٹائل کی وجہ سے مذکورہ جملہ بظاہر اجنبی اور نامانوس انداز میں بول رہا تھا۔

یہ معاملہ تو کلیئر ہو گیا لیکن سوچ کا سفر جاری رہا۔ سلسلہ آگے بڑ ھا تو مجھے فیل ہوا کہ زبان کے استعمال کے معاملے لوگوں کے تین گروہ ہوتے ہیں ۔ ایک عوام جو اسی طرح غلط سلط انداز میں زبان بولتے اور لکھتے ہیں ۔ دوسرے وہ پڑ ھے لکھے ، دانش ور اور مقررین، جو گرچہ بہت حد تک صحیح زبان لکھتے بولتے ہیں لیکن اگر زبان کے اعلیٰ ناقدانہ معیار کے پہلو سے دیکھا جائے تو ان کے ہاں بھی بہت سی غلطیاں پائی جاتی ہیں ۔ اور وہ اس لیے سنگین بن جاتی ہیں کیوں کہ ان کو پبلک میں ایک نمائندہ مقام حاصل ہوتا ہے ۔ لوگ ان سے سیکھتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ لہٰذا ان کے ہاں پائی جانے والی غلطیاں بہت بڑ ے پیمانے پر زبان بولنے لکھنے والوں میں فروغ پاجاتی ہیں ۔

زبان کے استعمال کے حوالے سے تیسرا طبقہ زبان کے اُن ماہرین و محققین کا ہوتا ہے جو اسے اپنی تحقیقی و جستجو کا موضوع بناتے اور لمبے عرصے تک زبان کی تعلیم و تدریس سے متعلق رہتے ہیں ۔ یہ اصل اہل زبان ہوتے ہیں اور کسی بھی زبان کے ادبا، فصحا، بلغا، ناقدین اور ماہرین کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان کے ہاں لکھی اور بولی جانے والی زبان جہاں معنوی خوبیوں کا مرقع ہوتی ہے وہیں لفظی خوبیوں اور کمالات کے حسن سے بھی مکمل درجے میں آراستہ ہوتی ہے ۔ انہی کی زبان اصل معیاری اور مستند زبان ہوتی ہے اور زبان کی تحقیق کے میدان میں انہی کے اقوال و آرا اور تحقیقات پر انحصار و اعتماد کیا جاتا ہے ۔

سوچ کے سفر میں یہ مرحلہ آتے آتے ایک اور نیا زاویہ پیدا ہو گیا۔ مجھے خیال ہوا کہ زبان کی طرح مذہب کا معاملہ بھی غالباً ایسا ہی ہے ۔ اس کے حوالے سے بھی لوگ تین گروہوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ۔ ایک عوام الناس کا طبقہ جن کے ہاں توہمات، بدعات، بے معنی رسومات اور ہزار طرح کی خرافات کا نام دین و مذہب ہوتا ہے ۔ اصل دین سے انہیں بس اتنا ہی مس ہوتا ہے کہ اس کی بہت سی تعلیمات و اعمال یہ ان بدعات و خرافات کے ہجوم میں اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ معاملہ بھی بس شکل اور لفافے والا معاملہ ہوتا ہے یعنی اصل روح اور اندرونی مغز ان چیزوں میں سے بھی غائب ہو چکا ہوتا ہے جو یہ بظاہر دین کی اختیار کیے ہوتے ہیں ۔

دوسرا طبقہ ان علما، خطبا، مقررین، واعظین اور درمیانے درجے کا دینی علم رکھنے والوں کا ہے جن کے ہاں دین کی نسبت سے صحیح باتوں کے قدم بقدم بہت سی غلط اور نامعقول آرا اور باتیں شامل ہوتی ہیں ۔ اور وہ ان کے ذریعے عوامی حلقوں میں بہت زیادہ بڑ ے پیمانے پر اشاعت اور رواج پاجاتی ہیں کیوں کہ انہیں مذہبی حوالے سے ایک نمائندہ مقام ملا ہوتا ہے اور لوگ ان کی باتوں پر سر دھنتے اور عمل پیرا ہوتے ہیں ۔

مذہب کے حوالے سے تیسرا طبقہ اُن محققین، اساتذہ، ا سکالرز اور اعلی درجے کے علما کا ہے جو دین کو اپنی زندگی کا موضوع بناتے ہیں ، زندگی کے بہترین سال اور اپنی صلاحیت و استعداد کا بہترین اثاثہ دین سیکھنے اور اس کے حوالے سے علمی و تحقیقی کام کرنے کے لیے وقف کرتے ہیں ، اپنے مستقبل اور معاشی و مادی مفادات کو دین میں تحقیق کی خاطر قربان کر دیتے ہیں ۔ یہی وہ طبقہ اور اسی طبقے کے لوگ وہ ہستیاں ہیں جن سے اصلاً لوگوں کو دین سیکھنا اور مذہبی رہنمائی اخذ کرنا چاہیے ۔ یہ دین کے محققین اور ماہرین ہوتے ہیں اور ان کی تحقیق اور راے ہی اصل مستند اور قابل اعتماد راے ہوتی ہے ۔ کیوں کہ یہ اپنی ہر دینی راے اور مذہبی نقطۂ نظر کے حق میں معقول شہادت پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور دین کے بارے میں پیدا ہونے والا سوالات، شکوک و شبہات اور اعتراضات کا معقول و مدلل جواب دینا انہی کا خاص حصہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں اور درمیانے درجے کے دینی علما و مقررین کو انہی سے استفادہ کرتے ہوئے دین کے حوالے سے اپنے تصورات و معمولات کو ترتیب دینا چاہیے ۔ یہ مذہبی آئیڈیلز اور ہیروز ہوتے ہیں ۔ اور ان کی اسی انداز سے قدر کی جانی چاہیے ۔
(اسفندیار عظمت)


مسلمانوں کی بد قسمتی اور فکر و عمل کی سنگین غلطیاں
22-05-2010
مسلمانوں کی سب سے بڑ ی بدقسمتی اگر کوئی ہو سکتی ہے جس نے اس پر دین و دنیا کی برکات اور رحمتوں کے دروازے چوپٹ بند کر رکھے ہیں تو وہ صرف اور صرف اللہ رب العزت کی آخری مقدس کتاب قرآن مجید کے اپنے علم و عمل کی بنیاد و اساس نہ بنانا ہے ۔ آج مسلمانوں کے کتنے ہی حلقے اور ماحول اپنے درمیان کے مسلمانوں کی عجیب و غریب تربیت کرنے اور دین کے نام و عنوان پر انہیں عجیب طرح کے خلاف توحید و قرآن و سنت معتقدات و نظریات سے وابستہ کرنے کی نادانیاں کرنے میں پورے جوش و استغراق کے ساتھ محو عمل ہیں ۔

کتنے لاتعداد مسلمان ہیں جو نماز جیسی خدا کی فریضہ بندگی کے معاملے میں تو انتہائی حد تک غیر حساس ہیں لیکن غیر مسنون و غیر شرعی رسومات و تقریبات و میلوں کے انعقاد اور ان میں شرکت و شمولیت کو اپنا انتہائی کنسرن اور مضبوط مشغلہ بنائے ہوئے ہیں ۔ کنڈے ، گیارھویں ، بارھویں ، جشن ولادت، میلاد نامہ، عرس بزرگان اور اس طرح کی کتنی ہی مبتدعانہ و خرافاتی رسوم و محافل و رواجات ہیں جو ایسے مسلمانوں کے درمیان حد سے زیادہ اہمیت اور فروغ پا گئی ہیں ۔

کیسے کیسے عقیدے ، خیالات، نظریات اور باتیں ہیں جو آج مسلمان بے دریغ و بے جھجک کرجاتے ہیں ، انہیں ذرا خیال نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اس قول و عمل سے اسلام کی تعلیمات اور قرآن و سنت کے فرمودات کو جھٹلا رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں ایک ٹرینڈ بہت عام ہے کہ لوگ نعرے لگاتے ہیں : یارسول اللہ!، یا غوث، یا علی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے کلمات بھی بعض اوقات ان نعروں کے ساتھ شامل کیے جاتے ہیں جن میں مختلف ہستیوں سے امداد و استعانت مقصود ہوتی ہے ۔ ذرا ان پر غور تو کیجیے کہ ان کلمات کی زبان حال کیا کیا بیان کر رہی ہے ۔ یہ کلمات اور نعرے لگانے والا ان ہستیوں کو دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود حاضر و ناظر، اپنے احوال و معاملات سے آگاہ، اپنی فریاد سننے اور مشکل کشائی کرنے کی طاقتوں سے مسلح، اسباب سے ماورا اور فوق الفطری سطح پر مدد و نصرت کی اہلیت کا حامل اور دنیا کے کونے کونے میں موجود اپنے معققد و منسوب شخص کی طرف نظر کرم فرمانے اور اس کی داد رسی کرنے پہنچ جانے کی خدائیانہ قوتوں سے ہمکنار ہستی تصور کرتا ہے اور پھر بڑ ی آس و امید اور لجاجت و رجائیت سے اسے پکارتا اور اس سے فریاد و دعا کرتا ہے ۔ کیا ایک آسمان و زمین کے بادشاہ پرودگار عالم کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی ان صفات و خصوصیات سے متصف ہو سکتی اور اس کے ساتھ یہ معاملہ توحید و اسلام کو مجروح کیے بغیر کیا جا سکتا ہے ۔ اگر دوسری ہستیاں بھی ان سب قوتوں اور کمالات کی حامل ہیں اور وہ بھی اپنے ماننے اور پکارنے والوں کی امداد و داد رسی کی یہ سب صلاحیتیں رکھتی ہیں تو پھر آخر خدا کا امتیاز و انفرادیت کیا رہ جاتے ہیں ؟

اسی طرح مثلاً اس طرح کے اشعار و فقرے بہت عام ہوگئے ہیں کہ یارسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے ، جس نے یہ نعرہ لگایا اس کا بیڑ ا پار ہے ۔ کیا قرآن جو اصل کلام الٰہی، مستند ترین اسلامی صحیفہ اور سچے اور حقیقی اسلامی عقائد و افکار کی دستاویز ہے ، کیا اس کی روشنی میں اس طرح کے دعوے یا تصورات قبول کیے جا سکتے ہیں ؟ کیا خدا نے اپنی کتابِ میزان و فرقان میں نجات و فلاح کے لیے اسی طرح کے معیارات مقرر فرمائے ہیں ؟ کیا عیسائیوں کے کفارے پر ایمان لا کر نجات پاجانے کے عقیدے اور اس تصور میں کوئی جوہری یا نوعی اختلاف یا فرق بتایا جا سکتا ہے ؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی عملی و تاریخی زندگیاں یہی تصویر پیش کرتی ہیں کہ زندگی بھر ایمان و عمل کی جاں گسل سختیوں اور معرکوں سے نبرد آزما رہنے کے بجائے اس طرح کے تصورات پر اعتقاد رکھنے سے نجات و کامیابی ملے گی۔؟

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ جنابِ غوث اعظم کا فرمان ہے کہ میرا کوئی مرید توبہ کیے بغیر نہیں مرے گا۔ یعنی وہ زندگی بھر جس روش پر مرضی قائم رہے ، جو بداعمالیاں ، جرائم، فساد اور کالے کرتوت انجام دیتا رہا ہو، جب مرنے کا وقت آئے گا، جناب غوث مطلع ہوکر کہ میرے فلانے مرید کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے ، اگر میں نے اسے توبہ نہ کرائی تو بیچارے کو اللہ تعالیٰ پکڑ لے گا اور عذاب دے گا، حضرت تشریف لائیں گے ، اسے توبہ کرا کر اس کے نامۂ اعمال سے ان ساری سیاہ کاریوں کو دھلوادیں گاے تاکہ خدا کے پاس اس پر گرفت فرمانے اور ہاتھ ڈالنے کا موقع نہ رہے کیوں کہ آخر یہ غوث اعظم صاحب کا مرید ہے کوئی معمولی ہستی تھوڑ ی ہے اور پھر ہی اس کو اس دنیا سے رخصت ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے ۔

جو لوگ اللہ کی کتاب کا مطالعہ کرتے اور اس کے مطالب و مفاہیم پر دھیان لگاتے اور تدبر کے عادی ہیں ، وہ یقینا اس طرح کے بیانات و نظریات سے گہرا توحش و بعد محسوس کریں گے ، کیوں کہ یہ ایک ظاہر اور کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ قرآن و حدیث کی میزان پر اس طرح کے بے بنیاد تصورات کو درست و معقول ثابت کرنا اتنا ہی مشکل و ناممکن ہے جتنا سوئی کی نوک میں سے اونٹ کا گزرنا یا کسی انسان کا تپتے اور بھڑ کتے ہوئے سورج کے صحن میں بستر بچھا کر آرام سے اس پر آرام و استراحت فرمانا۔

انسان اس دنیا میں سدا رہنے کے لیے نہیں آیا، بالآخر اپنے پیش رؤوں کی طرح اسے بھی ایک دن یہاں سے چلے جانا اور پھر اپنے اور کائنات کے پرودگار کے روبرو پیش ہونا ہے ۔ کیا انسان یہ یارا رکھتا ہے کہ خدا کی کتاب کو نظر انداز کر کے اور اس پر تولے اور پرکھے بغیر اپنائے ہوئے اس طرح کے خیالات و رسومات کو وہ عالم آخرت کے سخت و شدید ماحول اور خدا کے اپنے پورے جلال و جبروت کے ساتھ اس کے سامنے موجود ہونے کے وقت درست ثابت کرسکے ۔ نہیں اور یقینا نہیں ۔ خدا نے اپنی کتاب کو محفوظ کر کے اپنی حجت تمام کر دی ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی زندگیاں مکمل طور پر ان عقائد و رسومات کی تردید کر رہی ہیں ۔ انسان کا توحیدی شعور اور عقلی تدبر بھی ان کے سراسر خلاف حقیقت، خود ساختہ اور شیطان کی من گھرٹ ہونے کا اعلان کر رہا ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان اس کے باوجود محض ان بنیادوں پر ان خیالات و رواجات پر اصرار کرے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑ ی تعداد انہیں درست سمجھتی ہے ، فلاں فلاں مولوی و عالم صاحب ان کے درست ہونے کے قائل اور اس کے لیے فلاں فلاں دلائل دیتے ہیں اور یہ کہ ہمارے خاندان میں برسوں سے ان چیزوں کو مانا جا رہا اور ان پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ خدارا ان تعصبات سے باہر نکلیے ، آپ کی نجات کا تعلق ان باتوں سے نہیں ہے کہ آپ نے کسی جم غفیر کے ایک چیز کو سچ ماننے کی بنیاد پر یا ایک عالم و علامہ کی شعلہ بیانی و چرب زبانی سے متأثر ہوکر یا باپ دادا کی چلتی ہوئی روایت ہونے کے ناطے کچھ عقائد و اعمال کو حقیقت تسلیم کر لیا تھا۔ نہیں بلکہ آپ کی نجات کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ نے خدا کی دی ہوئی غور و فکر کی صلاحیتوں کو اسی کی تعلیم و تلقین کے مطابق پوری طرح بروے کار لاتے اور اچھی طرح استعمال کرتے ہوئے اس کی آخری اور محفوظ ترین کتاب قرآن مجید اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی زندگیوں کا مطالعہ کیا اور ان کے مطابق جو ماننے اور کرنے کی باتیں صحیح لگیں بس انہیں ہی اپنی زندگی میں اختیار کیا۔ یاد رکھیے کہ یہ روش اور رویہ ہی آپ کو نجات اور خدا کے روبرو سرخروئی دلائے گا۔ لوگوں کی کھینچی ہوئی لکیروں پر چل پڑ نے ، کسی کی عقیدت میں اندھا دھند اس کی تابعداری اختیار کر لینے یا باپ دادا کے چلن و رواج کے تعصب میں بلا تجزیہ و تحقق ان کی ڈگر اپنالینے کے رویے ایک انسان کو ابدی نامرادی اور خدا کے سخت عتاب و غضب میں مبتلا کرنے کا سبب بن جائیں گے ۔
(اسفندیار عظمت)


سوچنے کی بات
(اسفندیار عظمت)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عموماً ہم انسان زندگی اسی طرح گزارتے ہیں کہ پہلے پڑھائی کرلیں، پھر کام کاج اور نوکری کاروبار کی دھن سوار ہوجاتی ہے۔ پھر شادی اور بچوں کی رغبت دل و دماغ کا احاطہ کرلیتی ہے۔ پھر جب بچے ہوجاتے ہیں تو ان کی بہترین پرورش، ان کی تعلیم اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی امنگ ہماری زندگی کی واحد آرزو بن جاتی ہے۔

اسی طرح ہم پیسے کمانے کی لے میں اتنا زیادہ محو و مصروف ہوجاتے ہیں کہ اپنی صحت کو خراب کرلیتے ہیں۔ پھر ہماری یہی محنت کی کمائی ہمارے علاج معالجے کی نذر ہوجاتی ہے۔ ہم اسی طرح جیتے ہیں کہ جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو اتنے بدحواس ہوجاتے ہیں کہ جیسے کبھی جیے ہی نہ تھے۔

یہ سب حقیقت ہے۔ اور ہم میں سے اکثر لوگوں کی زندگی کی تصویر میں یہی کہانی نظر آتی ہے۔ لیکن ایک اور سوال بھی ہے جو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے، جسے ہم فراموش کردیتے ہیں۔ وہ یہ کہ آخر یہ زندگی اور موت کا تماشہ ہے کیا؟ کیا ہم یونہی بس کھیل کود، موج مستی، کھانے پینے اور بیوی بچوں والے بن کر کچھ عرصہ گزارنے اور پھر آخر ایک دن اس دنیا سے رخصت ہوجانے ہی کے لیے پیدا ہوتے ہیں؟ کیا ہماری اس زندگی اور اس حیرت انگیز اور حکمت و معنویت سے لبریز کائنات کی کوئی غایت اور مقصد نہیں ہے؟

میرے نزدیک یہ سوال سب سے اہم ہے۔ کیونکہ بالآخر ہمارے سامنے جو صورتحال اور ماحول آنا ہے۔ وہ زندگی کے بعد کا ہے۔ اس زندگی کے بعد کیا ہے؟ یہ سوال سب سے زیادہ اہم اور قابل غور ہے۔

اگر ہم ایک مسلمان کے طور پر غور کریں، تو ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کے روبرو حاضر ہونا اور ایک نئے عالم میں ابدی زندگی جینے کے لیے جی اٹھنا ہے۔ وہاں ہماری اس زندگی میں انجام دی گئی سرگرمیاں اور کاروائیاں ہی وہ اصل کسوٹی اور معیار ہوں گی جن کو بنیاد بناکر ہمیں اچھے یا برے نتیجے کا حق دار قرار دیا جائے گا۔ اگر ہم بات کو سمیٹتے ہوئے سمجھنا چاہیں، تو اصل میں ہمارا اخلاقی رویہ ہی وہ اساس ہوگی جس کی بنیاد پر ہمارے لیے جنتی زندگی یا جہنمی حیات کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ ہمارا اپنے خدا کے معاملے میں اور اس کے بندوں کے حوالے سے کیسا برتاؤ اور رویہ رہا، یہی چیز ہمیں یا تو فلاح و نجات سے ہمکنار کرے گی یا پھر بربادی و ہلاکت کی دلدل میں دھنسا دے گی۔

زندگی کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن اصل پوائنٹ یہی ہے کہ زندگی ایک مقصد کے تحت دی گئی ہے۔ جسے آسان زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اس لیے دی گئی ہے کہ انسان اپنے لیے جنت یا جہنم کی تعمیر کرلے۔ زندگی کی ضروریات سے منہ موڑ لینا اور زندگی کی سرگرمیوں اور معاملات سے کٹ کر جینا جہاں ہمیں تعلیم نہیں کیا گیا وہیں ہمیں بار بار اس بات سے بھی متنبہ اور خبردار کیا گیا ہے کہ زندگی کی اس امتحانی نوعیت اور اس کے اس بنیادی مقصد کو بھلا یا نظر انداز کرکے بھی مت جیو۔ کیوں کہ بالآخر جو حقیقت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے سامنے آنی ہے، وہ آخرت کی زندگی ہی ہے۔ جس طرح ہم دنیا کی خوشیوں اور راحتوں سے بے پناہ لگاؤ رکھتے اور یہاں کے دکھوں اور غموں سے اُتنی ہی بیزاری محسوس کرتے ہیں جبکہ یہ دنیا کی زندگی بہت عارضی ہے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب اور کہاں ختم ہوجائے گی۔ ایسے ہی آخرت کی زندگی میں دنیا کی زندگی سے ہزاروں گنا زیادہ قابل قدر خوشیاں ، راحتیں اور لذتیں ہوں گی اور اسی کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی زندگی کے دکھوں اور غموں سے ہزاروں گنا زیادہ بڑے مصائب و آلام ہوں گے۔ ہم میں سے کون ہے جو دنیا کی راحتوں کے مقابلے میں دنیا کی تکلیفوں کو ترجیح دیتا ہو؟اور پھر ہم میں سے کون ہوگا جو آخرت کی ناقابل تصور لذتوں کے مقابلے میں آخرت کی ناقابل قیاس اذیتوں کو اپنے لیے پسند کرے؟ یقیناً کوئی نہیں۔ تو پھر یہ جو نہ کہنے والے ہیں کیا یہ اپنی زندگی میں آخرت کو یاد رکھتے اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں پہنچنے سے پہلے پہلے جنت میں اپنے لیے ایک شاندار و عالیشان گھر تعمیر کرلیں! خدارا۔۔۔ میرے بھائیوں اور بہنوں! اس بات کو سب سے زیادہ سوچو۔


دین میں سختی اور نرمی
دین انسان میں جو خصوصیات پیدا کرتا ہے ان میں سے ایک انسان کے اندر متوازن سوچ اور متوازن عمل ہے۔ انسانوں کے ہاں افراط و تفریط کا معاملہ بہت عام ہے۔ لوگ درمیان کی راہ پر کبھی استوار نہیں رہتے بلکہ وہ یا تو افراط کی جانب مائل ہوجاتے ہیں یا پھر تفریط کی طرف راغب۔ دین میں سختی یا نرمی ہی کے معاملے کو لیجیے۔ ایک طبقہ وہ ہے جس کا دینی تصور یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کو انسان پسند کرے دین اس سے منع نہیں کرتا۔ یہ طبقہ دین میں سختی نام کی کسی چیز کے وجود کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ جو کام انہیں اپنی ذاتی پسند و ناپسند کے معیار پر مشکل اور دشوار محسوس ہو، یہ اس کے دینی ہونے کا منکر ہوجاتے ہیں۔ علماے دین کی طرف سے جب اس پر زور دیا جاتا ہے تو یہ انہیں یہ طعنہ دیتا ہے کہ دین تو بہت آسان ہے مگر یہ مولوی لوگ خوامخواہ اسے مشکل بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور فلاں فلاں سخت و دشوار چیزوں کو من مانی کرکے بلاوجہ دین کا حصہ بنارہے ہیں۔


دوسرا طبقہ دین سے لگاؤ اور تعلق خاطر رکھنے والوں کا ہے۔ وہ ہر اس چیز اور کام پر اصرار کرتے ہیں جو ان کے علم کے مطابق دین سے منسوب ہو۔ دین کے نام پر وہ احکام بھی انہیں اپنی جانب مائل کرلیتے اور یہ ان کی پابندی پر کٹنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں جو فہم و تعبیر کی غلطی کی وجہ سے خلاف واقعہ طور پر دینی احکام سمجھ لیے جاتے ہیں۔

یہ دونوں ہی طبقے توازن کی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ دین نہ تو بالکل نرم ہے اور نہ ہی بالکل سخت۔ بلکہ اس کا تو بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ امتحان دینے والوں کو جہاں سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں وہیں انہیں بہت سی مشکلات اور دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دین گو کہ حقیقتاً بہت آسان اور سراسر عقل و فطرت پر مبنی ہے لیکن اس پر عمل کے دوران مشکل مراحل اور سخت لمحات بھی آجاتے ہیں۔

دین آسان اس لیے ہے کہ وہ انسانی عقل و فطرت سے پوری پوری مناسبت رکھتا ہے۔ اس کی کوئی ہدایت اور تعلیم انسان کو اجنبی اور خلاف فطرت نہیں محسوس ہوتی، لیکن انسان اپنے وجود کے اندر شر کے داعیات بھی رکھتا ہے، اسے خواہش کے طوفانوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جذبات کی دیواریں بھی بارہا اس کا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہیں، تعصب اور دوسرے منفی رجحانات بھی اسے عدل و انصاف اور حق و راستی کے راستے سے ہٹادیتے ہیں۔ پھر امتحان کے ماحول اور مصلحتوں کی وجہ سے خدا ہی کے بنائے ہوئے نظام کے تحت انسانوں کو رکاوٹوں اور سختیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا سچی اور متوازن بات یہ ہے کہ دین اصلاً گرچہ آسان اور نہایت نرم ہے مگر اس میں سختیاں اور مشکلات بھی رکھی گئیں ہیں۔ ہاں لیکن وہ غیرفطری سختیاں اور نامعقول مطالبے بلاشبہ دین کا حصہ نہیں ہیں جو فقہی موشگافیوں، وقتی مصلحتوں اور فہم و تعبیر کی کوتاہیوں کے نتیجے میں دین سے منسوب کردیے گئے ہوں جب کہ حقیقت میں ان کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لیکن اس کا فیصلہ کسی کی خواہشات اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ قرآن و سنت کے دلائل کی بنیاد پر ہوگا۔ وہی یہ واضح کریں گے کہ کیا چیز دینی مطالبہ ہے اور کون سا حکم خودساختہ اور بے بنیاد ہے۔
(اسفندیار عظمت)

خود غرضی
18-02-2010
ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہورہا تھا کہ دیکھا دو مانگنے والے بزرگ آپ میں تیز زبانی کررہے ہیں۔ اصل میں بات یہ ہوئی تھی کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو اس بات پر ٹوک دیا تھا کہ وہ اس کے پاس کیوں کھڑا ہے۔ شاید اس لیے کہ اُس کو لوگ زیادہ خیرات دے رہے تھے اور اِسے کچھ نہیں مل رہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ یہ ذرا پرے ہٹ جائے تاکہ مسجد سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں کا اِس کی طرف بھی دھیان جائے اور وہ اِسے بھی کچھ دیتے جائیں۔

یہ منظر دیکھ کر میری خیالی اُڑن گاڑی نے پرواز کرنا شروع کردی۔ میں نے سوچا کہ دیکھو یہ دونوں بزرگ بیچارے نہایت غریب لوگ ہیں، اتنے کہ مانگ کر انہیں اپنا گزارا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان کے اندر بھی وہ بری خصلت پوری طرح پائی جاتی ہے جو ہمیں سوسائٹی کے تقریباً ہر فرد میں نظر آتی ہے۔ یعنی خود غرضی اور مفاد پسندی۔ آج کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے کا بھلا کرے، کوئی دوسرے کو کامیاب و سرخرو ہوتے اور اپنے سے آگے بڑھتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔ ہر ایک بس اپنا بھلا چاہتا ہے، اپنا مفاد اسے عزیز ہوتا ہے اور بس اپنی ہی کامیابی اور ترقی سے اسے خوشی ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کی خوشحالی اور ترقی آج کل کے خود غرض لوگوں سے ذرا نہیں دیکھی جاتی۔

پھر میں نے سوچا کہ آخر کیوں ایسا ہوا کہ یہ مانگنے والے بزرگ اس طرح آپس کی زبانی تکرار میں پڑگئے۔ یہ بھی تو مسلمان ہی ہیں۔ اسی لیے تو مسجدوں کے باہر اللہ کے نام کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں۔ تو پھر کیوں نہ ان کے اندر اسلامی اخلاقیات کے مطابق اعلیٰ ظرفی اور وسعتِ نظری کے اوصاف پائے گئے۔ تو مجھے دو باتیں یاد آئیں اور کھلیں۔ ایک تو یہ کہ آج ہماری مساجد اور دینی مجالس سے عام مسلمانوں کو جو پیغام دیا جارہا ہے۔ اس میں سیاست سے لے کر جہاد باالسیف اور شاید کہ خود کش بمباری تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ مگر نہیں ہوتی تو اسلامی اخلاقیات کو اپنانے کی ترغیب و تلقین۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو اس مسلمان امت کے ہر ہر فرد کے لیے بہترین نمونہ اور آئیڈیل کردار ہیں، ان کی شاندار و بے نظیر شخصیت کا اصل کمال و ہنر ہی آپ کا بہترین اخلاق تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب قرآن مجید میں آپ کو اسی بات پر خراج تحسین پیش کیا ہے کہ آپ بہترین اخلاق کے مالک ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارے دینی رہنما اور قائدین اور سیاسی لیڈر اور صحافی قسم کے مجاہدین ہمیں ہر بات کی تلقین کرتے ہیں لیکن اچھے اخلاق اپنانے اور حقیقی اسلامی صفات سے اپنی شخصیت و کردار کو آراستہ کرنے کی ترغیب کبھی نہیں دیتے۔

اس کے ساتھ ساتھ دوسری بات جو مجھے چبھی، وہ یہ کہ شاید ہماری سوسائٹی میں آج مجموعی طور پر نچلے اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو عملاً اچھوت اور دوسرے یا تیسرے درجے کا انسان سمجھ لیا گیا ہے۔ ان کی خدمات سے معاشرے کا مڈل کلاس اور اپر کلاس طبقہ اور سوسائٹی کے معززین اور شرفا پورا پورا استفادہ کرتے ہیں لیکن انہیں ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی احساس و خیال نہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ ان کے لیے اسکول اور کالج کھولیں۔ اگر یہ کریں گے تو گرچہ اپنی جگہ بہت قابل تعریف کام ہوگا۔ لیکن میں اس وقت جس تعلیم و تربیت کی بات کررہا ہوں وہ عمومی تعلیم و تربیت ہے۔ یعنی آپ کی دکان پر کوئی غریب بچہ کام کرتا ہے یا آپ کے بازار میں ٹھیلہ لگاتا ہے یا آپ کے گھر میں کوئی ماسی یا بچہ نوکر ہے وغیرہ وغیرہ تو میرے خیال سے یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اسے بھی اچھی باتیں بتائیں، زندگی اور تہذیب کے آداب سے آشنائی دیں، اس کے اندر بلند کردار و اعلیٰ شخصیت کی نشو و نما کے لیے کوشش کریں۔ کیونکہ ان چیزوں پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ یہ سب انسانوں کے لیے ہیں۔ یہ صرف معاشرے کے معزز طبقات اور شرفا گھرانوں ہی کے لیے نہیں ہیں۔

اس طرح ہم اگر اپنے تعلق اور رابطے کے دائرے کے غریب اور پسماندہ لوگوں کو اچھی باتیں بتانا اور سکھانا شروع کردیں تو میرے خیال سے یہ سوسائٹی اور دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اور اس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے اجر کی توقع رکھ سکیں گے ۔

ان دونوں باتوں کے پہلو بہ پہلو ایک نکتہ یہ بھی ابھرا کہ آج ہماری دعوتی اور تبلیغی تنظیمیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ساری دنیا کے لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانا اور ان کی اصلاح کے لیے کوشش کرنا ہر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ مجھے اس راے سے اتفاق نہیں ہے۔ مجھ پر تو مطالعے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایک عام مسلمان پر جسے اپنی معاش اور دوسری ضروریات ہی کے لیے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کے قریبی دائرے کے حوالے ہی سے یہ دعوتی ذمہ داری ڈالی ہے۔ یعنی وہ جہاں رہتا ہے، جہاں کام کرتا ہے، جن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور اس کے رشتہ داروں اور دوست احباب کا حلقہ جن سے وہ رابطے میں رہتا ہے اس کا دعوتی میدان بس یہی ہے۔ یہیں اسے اچھا بن کر دکھانا اور اچھائی اور بھلائی کے فروغ کے لیے کام کرنا ہے۔ اس حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو وہ غریب اور پسماندہ لوگ ہمارے مدعو قرار پاتے ہیں اور ان تک دین کی تعلیمات اور اعلیٰ اخلاقیات کی دعوت و تعلیم پہنچانا ہماری ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں کوئی اسکول کالج کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جس طرح اپنے بچوں کو اپنے گھر میں اسکول کھولے بغیر مختلف اچھی باتیں بتاتے، ان کی بری عادتوں اور غلط حرکتوں پر انہیں ٹوکتے اور نصیحت کرتے اور جس طرح انہیں دینی معلومات اور بلند اخلاقیات سے آگاہی دے کر ان کی سیرت کو نکھارنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمیں ان لوگوں کے معاملے میں بھی یہی کام کرنا چاہیے۔ یہ بلاشبہ ایک پورا مشن ہے۔ اور ایسا مشن ہے جو نہ ہمیں نوکری کرنے سے روکتا ہے اور نہ کاروبار میں رکاوٹ بنتا ہے۔ بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہمیں انسانوں سے لگاؤ ہو، ہم ان کا فائدہ سوچیں، ان کی خوشی ہمیں عزیز ہو، اپنی سوسائٹی کو بہتری کی طرف لے جانا ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوں اور ہمیں یہ احساس ہو کہ گو دنیا بھر کے انسانوں کی اصلاح کے لیے کمر کسنا تو خدا نے ہماری ڈیوٹی نہیں بنائی لیکن اس کام کو ضرور ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم اپنے ماحول میں خیر کا نمونہ اور داعی و علمبردار بن کر جییں۔ اس کام کی ادائیگی کیے بغیر ہم شاید اس کے روبرو کبھی سرخرو نہ ہوسکیں گے۔ لہٰذا آج سے بس یہ عزم کرلیجیے کہ ہم یہ کام کریں گے اور اپنی سوسائٹی کو بہتر بنانے اور اور اپنے دین کی تعلیمات و اخلاقیات کو معاشرے میں فروغ دینے میں اپنا حصہ ضرور ادا کریں گے۔
(اسفندیار عظمت)

پیار و محبت، اسلام اور موجودہ مسلمان
17-02-2010
اس دنیا کی سب سے خوبصورت چیز پیار و محبت ہے۔ انسان دوسرے انسانوں سے اور بے شمار چیزوں سے پیار کرتا ہے۔ پیار و محبت کا یہ تعلق مختلف افراد کے ساتھ مختلف نوعیت سے قائم ہوتا ہے۔ بیٹے کی اپنے والدین سے محبت کا مزاج الگ ہوتا ہے اور شوہر کی اپنی بیوی سے اُنسیت کا انداز جدا۔ والدین کو اپنی اولاد سے جو لگاؤ اور تعلق ہوتا ہے وہ الگ رنگ رکھتا ہے اور بہن بھائیوں اور دوست احباب کی آپسی الفت و رفاقت کے معنی دوسرے ہوتے ہیں۔

ایک انسان کے اندرون میں نہایت گہرائی کے ساتھ پایا جانے والا محبت کا یہ جذبہ اپنے اندر ایک برتر ہستی اور ایک خداوند کے لیے بھی اایسی ہی بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ انسانی کی کتاب کے اول صفحات سے لے کر آج کے دن تک انسانوں کا کوئی قافلہ اور تہذیب ایسے نہیں ملتے جس کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ وہ خدا کے تصور اور اس کے لیے نیازمندی و سپاس گزاری کے جذبات سے خالی تھے۔ ہر دور کے انسان کسی نہ کسی شکل میں خدا کی ہستی اور اس کی عبادت و نیاز کیشی کے تصورات و رسوم سے وابستہ رہے ہیں۔

اسلام خدا کا دین ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خدا کی محبت اور اس کے لیے قربانی و جاں نثاری کی تعلیمات سے خالی ہو۔ ایسا ہے بھی نہیں۔ قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے سچے بندے سب سے زیادہ ٹوٹ کر اس سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے دل کی ساری نیازمندیاں اور بے قراریاں صرف اور صرف ایک برتر خداوند کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ وہ اپنے محبوب خدا کو اٹھتے بیٹھتے اور راتوں کو اپنی کروٹوں پر یاد کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے اپنا مال خرچ کرتے اور اس کے ہر ہر حکم کے آگے سرافگندہ ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں نہ صرف خدا سے محبت رکھنے اور اس کے آگے ہمہ تن سپر انداز رہنے کا درس ملتا ہے بلکہ انسانوں کے ساتھ بھی ہمدردی، شفقت، احسان اور بھلائی کی تلقین ملتی ہے۔ اسلام کے ماننے والوں اور اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلنے والوں کی اس پہلو سے قرآن کریم اور اسلامی تاریخ کے صفحات میں جو تصویر ملتی ہے۔ اس میں ہمیں نظر آتا ہے کہ سچے مسلمان کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں کہ:

وہ عجز و انکساری کا پیکر ہوتا ہے، فخر و غرور اس میں نام کو بھی نہیں ہوتا۔ وہ اپنوں اور پرایوں دونوں کے لیے امانت ودیانت اور خلوص و وفا کی تصویر ہوتا ہے، خیانت، بددیانتی، منافقت اور بے وفائی کے الفاظ اس کی زندگی کی کہانی میں کہیں نہیں ملتے۔ وہ مال و دولت کو سمیٹ سمیٹ کر رکھنے اور اس کی پرستش میں محو رہنے کے بجائے اپنی محنت کی کمائی کو راہِ خدا میں لٹاتا اور اس کے ذریعے غریبوں، مسکینوں، بیواؤوں اور بے سہارا لوگوں کے کام آتا اور ان کی مشکلات رفع کرتا ہے۔ وہ اکھڑ مزاج نہیں ہوتا بلکہ حلیم و بردبار ہوتا ہے۔ اپنی غلطی مان لینے میں اسے کوئی باک نہیں ہوتا۔ وہ دوسرے مذہب والوں سے بیر رکھنے اور نفرت کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ خدا کے جلیل القدر پیغمبروں کے اسوے کی پیروی میں پوری ہمدردی و خیرخواہی اور شفقت و محبت کے ساتھ ان تک اللہ کے سچے دین کا پیغام پہنچانے والا اور ان کی ہدایت کے لیے تڑپنے اور رونے والا ہوتا ہے۔ اس کے دل و دماغ میں یہ بات سمائی ہوتی ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور ہر کنبے والے کی طرح اس کا پرودگار بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کے کنبے کے ہر ہر فرد سے محبت کی جائےا ور ہمدردی رکھی جائے۔ آخر جب خود خدا نے ان کی گمراہی اور بے راہ روی کے باوجود انہیں ہر طرح کی انسانی صلاحیتوں سے محروم کرنے کے بجائے نواز رکھا ہے یعنی کہ انہیں یہ موقع دے رکھا ہے کہ وہ حقیقت کو جانیں اور اپنی آزاد مرضی سے اسے قبول کریں تو پھر کسی دوسرے کو خدا کیسے یہ حق دے سکتا ہے کہ وہ داروغہ اور خدائی فوجدار بن کر ان کے سر پہ تلوار سوند کر کھڑا ہوجائے اور مطالبہ کرے کہ یا تو اسلام قبول کرو، ورنہ میں تمہیں نیست و نابود کردوں گا۔ یقیناً خدا نے کسی کو یہ حق نہیں دیا۔ اپنے آخری پیغمبر کو بھی خدا نے بار بار قرآن میں یہ یاددہانی اور تاکید کی ہے کہ وہ ایک داعی اور پیغامبر ہیں، داروغہ اور مطلق العنان مطاع نہیں۔ ان کا کام خدا کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچادینا ہے،منوالینا نہیں۔ اس کے آگے خدا نے بندوں کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ مانیں یا انکار کردیں۔

مسلمانوں میں زور زبردستی کا جو ذہن پیدا ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ آج غیرمسلموں سے اپنے تعلقات میں محبت و اپنائیت کے بجائے نفرت و عداوت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے دور میں پیش آنے والے کچھ تاریخی واقعات کی غلط توجیہہ اور اس کا قبول عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار سے جو جنگیں پیش آئیں اور یہود کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے شہر بدر کرنے اور جزیہ عائد کرنے کے جو معاملات کیے، ان کو مسلمانوں نے خدائی فیصلہ اور خدائی عذاب سمجھنے کے بجائے غیرمسلموں کے ساتھ اپنے تعلقات و معاملات کی نوعیت وضع کرنے کا نمونہ سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کا متدبرانہ مطالعہ بآسانی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ واقعات اُسی خداوندی سنت کا تسلسل اور اعادہ تھے جو پچھلے رسولوں کی قوموں کے معاملے میں آسمانی و زمینی آفتوں کے عذاب کی شکل میں رونما ہوئے تھے۔ یہ غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے عمومی تعلقات کا کوئی اسلامی نمونہ نہ تھا۔ بلکہ ایک پیغمبر کے اپنی قوم کو پوری شرح و وضاحت کے ساتھ خدا کے پیغام و کلام سے باخبر کردینے اور اس پر آخری درجے میں اتمامِ حجت کردینے کے باوجود ان کے کفر و شرک پر اصرار اور تکبر و ہٹ دھرمی پر خدائی سزا تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی تلوارں کے ذریعے ان کو دی گئی۔ قرآن مجید کے الفاظ یعذبھم اللہ بایدیھم: اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو عذاب دے گا، اس معاملے کو آخری درجے میں واضح کردینے کے لیے کافی ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن میں بیان ہونے والی پیغمبروں کی سیرت اور اور ان کی دعوتی داستان اور پھر سب سے بڑھ کر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پوری زندگی اور اس میں پیش آنے والے حالات و واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک حقیقی مسلمان کا رویہ غیرمسلموں کے ساتھ عناد و عداوت کا نہیں بلکہ انسانیت اور ہمدردی و دعوت کا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدائشی طور پر بھی بہت کچھ ہدایت بخشی ہے، پھر ان کے اندر فطری طور پر اپنے لیے اور سچے راستے کے لیے کشش اور تڑپ رکھی ہے۔ اور اس کے بعد انہیں پوری اور مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جس راستے اور دین کو صحیح سمجھیں یا پسند کریں، اختیار کرسکتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح اس نے اپنے رسولوں کو بھی دعوت و تبلیغ اور پیغام رسانی سے آگے بڑھ کر زبردستی لوگوں سے منوالینے کا حق نہیں دیا، ان پیغمبروں کے بعد کسی اور کو بھی نہیں دیا۔ جبر و اکراہ خدا اوراسلام کی نظر میں قتل و غارت گری سے بھی زیادہ بڑا فتنہ اور شر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اپنا ایک مشن یہ بتایا ہے کہ ان کے ذریعے وہ شرک کے تاریخی جبر و اکراہ کے ماحول کو ختم کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام کے ذریعے روما و ایران کی جابر و قاہر بادشاہتوں کو مسمار و فنا کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ مشن پورا بھی کردیا۔

ہم تو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ معلوم تاریخ میں اسلام نے پہلی بار انسانی آزادی کی بات کی اور اپنے دائرۂ حکومت میں ہر فرد کو راے کی آزادی سے آئیڈیل درجے میں ہمکنار کیا۔ فکری آزادی انسان کا سب سے بڑا حق ہے اور اسلام اس حق کا سب سے بڑا محافظ و پاسبان۔ لیکن پتہ نہیں کیوں آج مسلمان یہ سبق بھول چکے ہیں۔ اور تاریخ اسلام کے واقعات کی غلط توجیہہ کرنے والے مفکرین کی اندھی تقلید و پیروی میں آج زور و جبر اور دہشت و غنڈہ گردی کے علمبردار و علامت بنے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ جس دین اور جس پیغمبر کے ماننے والے ہیں ان کی تعلیمات اور سیرت کا سب سے نمایاں پہلو انسان کے لیے اظہار راے اور اختیار مذہب کی آزادی اور تمام لوگوں سے پیار و محبت ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کل قیامت کے روز خدا کے روبرو ان کی سرخروئی کا معیار ان کی اپنی من مانی کی یہ کاروائیاں نہیں ہوں گی جو آج وہ اسلام کے نام پر دنیا بھر میں انجام دے رہے ہیں، بلکہ یہ ہوگا کہ انہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا اپنی زندگی میں کتنا پاس رکھا اور اپنے پیغمبر کی سیرت کو کتنا نبھایا۔ لہٰذا اب جبکہ قیامت قریب آچکی، اس کی علامات نمایاں ہوچکیں اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ انسانیت کے پاس مزید کتنا وقت مہلت بچا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اس متکبرانہ روش کو بدلیں، غیرمسلموں سے اپنی عداوت کو ختم کریں اور پوری دلسوزی، خیرخواہی اور انسانی شفقت و ہمدردی کے ساتھ ان تک خدا کے دین کا پیغام اور خدا کا آخری کلام پہنچائیں۔

مسلمان جو اس وقت مختلف فرقوں اور ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں، اپنے اپنے اکابر و مشائخ کی اندھا دھند پیروی کررہے ہیں۔ میں انہیں اسلام اور اپنے آقا و مولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تلقین کرتا ہوں۔ کیوں کہ ان کی فلاح و نجات اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و تابعداری پر موقوف ہے، اپنے بزرگوں اور پیروں کی تقلید و عقیدت پر نہیں۔ آج ان کے علما اور مفکرین اور مذہبی رہنما اور دینی قائدین انہیں غیرمسلموں کو دشمن اور مخالف بناکر دکھا رہے ہیں، ان سے لڑنا اور نفرت کرنا سکھارہے ہیں اور انہیں غیرمسلموں کو کچلنے اور غارت کردینے کی ترغیب دے رہے ہیں، جبکہ اسلام کی تعلیمات اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت انہیں ان غیرمسلموں کو اپنا بالقوہ بھائی سمجھنے، ان کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی سلوک برتنے اور ان تک پوری تندہی و دلسوزی کے ساتھ دین کی دعوت پہنچانے کا درس دیتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ کس کی بات سنتے، کس کے پیغام کی لاج رکھتے اور کس کی امامت میں بندھی صف میں شامل ہوتے ہیں۔

آج مسلمانوں کو اسلام اور اپنے پیغمبر سے وفاداری کا ثبوت دینا ہے۔ اس بچے کھچے وقت میں اگر انہوں نے یہ کام کرلیا، تو گویا میدان مارلیا، ورنہ پھر یہ ہوکر رہے گا کہ وہ کہیں گے:
ہائے افسوس! ہم نے تو اپنی قسمت کا بھانڈا اپنے ہی ہاتھوں سے پھوڑلیا۔
(اسفندیار عظمت)

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker