TariqRaheel
PAKISTAN
|
Topic initiated on Wednesday, January 7, 2015 - 4:49 AM
اہل سنت، اہل تشیع اور اباضیہ
لفظ "شیعہ" کا معنی ہے گروہ، جتھا یا پارٹی۔ یہ لفظ قرآن مجید میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ "تشیع" کا مطلب ہے گروہ بنانا۔ عہد صحابہ میں یہ لفظ کسی بھی گروہ یا پارٹی کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ جب سَیّدنا علی اور معاویہ ؓ کے مابین اختلاف رائے ہوا تو ان کے گروہوں کو علی الترتیب "شیعان علی" اور "شیعان معاویہ" کہا گیا۔ بعد کی صدیوں میں یہ لفظ صرف "شیعان علی" کے لئے خاص ہو گیا۔ موجودہ دور میں شیعہ اہل سنت کے بعد دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کی کل تعداد کا 10-15فیصد ہیں۔ ممکن ہے کہ اس تناسب میں کچھ کمی بیشی ہو کیونکہ اقلیتی آبادیوں کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ ایران،عراق ، آذر بائیجان اور بحرین میں یہ اکثریت میں ہیں جبکہ لبنان، پاکستان، ہندوستان، یمن ، کویت ، عرب امارات اور بعض دیگر ممالک میں یہ ایک بڑی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔ ایران کے بعد دنیا میں سب سے بڑی شیعہ آبادی پاکستان میں ہے۔ اس کے برعکس "اہل السنۃ و الجماعۃ" کا مطلب ہے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے والے اور مسلمانوں کی جماعت یعنی حکومت کی پیروی کرنے والے۔ عہد صحابہ کے بعد جب مختلف فرقے بننے لگے تو یہ اصطلاح ان مسلمانوں کے لئے استعمال ہوئی جو کہ کسی خاص گروہ سے وابستہ نہ تھے بلکہ حکومت وقت کی اطاعت کرتے تھے اور مسلمانوں کے تواتر سے رسول اللہ ﷺ کی جو سنت منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی، اس کی پیروی کرتے تھے۔ واضح رہے کہ شیعہ بھی سنت کا انکار نہیں کرتے بلکہ انہیں اصرار ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت سے وابستگی کے باعث اصلی اہل سنت وہی ہیں۔ موجودہ دور میں اندازہ ہے کہ اہل سنت مسلم آبادی کا 85-90 فیصد ہیں۔ ایران، عراق، آذر بائیجان، لبنان اور بحرین کے علاوہ تقریباً تمام ہی ممالک میں اہل سنت کی تعداد اکثریت میں ہے۔ ان ممالک میں بھی ان کا شمار بڑی اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ سنت کی نسبت سے انہیں مختصراً "سنی " بھی کہا جاتا ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع سے ہٹ کر ایک فرقہ اور بھی ہے جو "اباضیہ" کہلاتے ہیں۔ یہ بھی ایک قدیم گروہ ہے۔ شیعان علی میں سے ایک گروہ نے ان کے خلاف بغاوت کر دی تھی، جو کہ بعد میں "خوارج" کہلائے۔ یہ ایک نہایت انتہا پسند گروہ تھا ، جو تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کی جان لینے اور ان کا مال لوٹنے کو جائز سمجھتا تھا۔ انہی خوارج میں سے ایک نسبتاً اعتدال پسند گروہ ان سے الگ ہوا، جنہیں "اباضیہ" کہا جاتا ہے۔ اباضی مسلک کے لوگ اس وقت عمان میں اکثریت میں ہیں جبکہ لیبیا، الجزائر اور تنزانیہ میں ان کی بڑی اقلیتی آبادیاں موجود ہیں۔ اب ہم ان تینوں گروہوں کے عقائد، امتیازی اعمال، تاریخ، سیاسیات، سماجی حرکیات (Dynamics) اور ایک دوسرے سے تعامل (Interaction) کا جائزہ لیں گے۔ .............................. اہل سنت، اہل تشیع اور اباضیہ کے مابین مشترک امور: اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین دین اسلام کے بنیادی عقائد اور اعمال پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ تینوں ہی اللہ تعالی کی توحید کے قائل ہیں اور شرک کی سختی سے نفی کرتے ہیں، محمّد رسول اللہ ﷺ کو اپنا پیغمبر اور آخری نبی مانتے ہیں، سابقہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھتے ہیں، آخرت کے عقیدے، جزا و سزا اور جنت و جہنم پر ایمان رکھتے ہیں۔ تینوں ہی قرآن مجید کو آسمانی کتاب مانتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو تینوں ہی مانتے ہیں اور آپ سے منقول احادیث کی بنیاد پر دین کو سمجھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تینوں کے ہاں احادیث کے صحیح و ضعیف ہونے کو پرکھنے اور قبول کرنے کے معیار میں کچھ فرق ہے۔ اہل سنت،اہل تشیع اور اباضیہ دین کی بنیادی اخلاقیات جیسے عدل، احسان، خشوع و خضوع، توبہ و انابت، عجز و انکسار پر یقین رکھتے ہیں۔ اخلاقی برائیوں جیسے تکبر، ریاکاری، حسد، بغض، بدگمانی کو برا سمجھتے ہیں۔ ان تمام معاملات میں ان کے ہاں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔ شریعت کے معاملے میں بھی تینوں گروہ بنیادی امور پر متفق ہیں۔ تینوں ہی کے ہاں پانچ نمازیں فرض ہیں اور ان کی لازم یا فرض رکعتوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ نماز کی جزوی تفصیلات میں البتہ کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ روزہ، زکوۃ اور حج کی مشروعیت (شریعت کا حصہ ہونے) کے بارے میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ ان کے تفصیلی طریقہ کار کے بارے میں کچھ فروعی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ نکاح و طلاق، رسوم و آداب، جہاد، خور و نوش وغیرہ کے معاملات میں بھی تینوں بنیادی امور پر متفق ہیں البتہ تفصیلات میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ .............................. اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین بڑے اختلافات: اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین متعدد امور ایسے ہیں جن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض امور میں یہ اختلاف بہت شدید ہے جبکہ دیگر امور میں یہ اختلاف بہت بڑا اور شدید نہیں ہے۔ اس کتاب میں ہم خود کو صرف انہی امور تک محدود رکھیں گے جن کے معاملے میں اختلاف میں شدت پائی جاتی ہے کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن میں اختلاف کے باعث دونوں فرقوں میں حد امتیاز واضح ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض اختلافات عقیدے کی نوعیت کے ہیں، بعض کا تعلق تاریخ سے ہے اور بعض کا فقہی امور سے۔ ان کی اجمالی فہرست یہ ہے: • احادیث نبویﷺ کی قبولیت میں اختلاف • عقیدہ اِمَامت • اسلامی تاریخ کو دیکھنے کا انداز • صحابہ کرامؓ ور اہل بیت اطہار ؓ کا مقام و مرتبہ • متعہ • تقیہ • محرم الحرام کی رسوم • باغ فدک .............................. اہل سنت اور اباضیہ کے مابین بڑے اختلافات: اہل سنت اور اباضیہ کے درمیان جو بڑے اختلافی مسائل ہیں، وہ یہ ہیں: • مجموعہ ہائے حدیث • جہنم میں گناہ گار کے ہمیشہ رہنے کا عقیدہ • مسئلۂِ اِمَامت • اسلامی تاریخ کو دیکھنے کا انداز • حکمران کے خلاف بغاوت
Edited by: TariqRaheel on Wednesday, January 07, 2015 4:50 AM |
|