Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
mehwish_ali

PAKISTAN
Topic initiated on Monday, September 27, 2004  -  8:58 AM Reply with quote
امہات المومنين کے فضائل (صحيح مسلم مختصر، اردو)


مختصر صحيح مسلم، اردو ترجمہ


باب: نبی اکی زوجہ مطہر اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان۔

1670: سیدنا عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی ص سے کوفہ میں سنا, وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے سنا, آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم فرماتے تھے کہ (آسمان و زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں مریم بنت عمران افضل ہیں اور (آسمان اور زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا افضل ہیں۔ ابوکریب نے کہاکہ وکیع نے آسمان و زمین کی طرف اشارہ کیا۔

1671: سیدنا ابوہریرہ ص کہتے ہیں کہ جبرئیل ں نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یارسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم! یہ خدیجہ ایک برتن لے کر آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس آرہی ہیں، اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے۔ پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہئے اور میری طرف سے بھی اور ان کو ایک گھر کی خوشخبری دیجئے جو جنت میں خولدار موتی کا بنا ہوا ہے، جس میں کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے۔

1672: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، البتہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا اور میں نے ان کو دیکھا نہیں۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ اس کا گوشت خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجو۔ ایک دن میں نے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو ناراض کیا اور کہا کہ خدیجہ؟ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا کہ میرے دل میں اس کی محبت ڈال دی گئی ہے۔

1673: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے خدیحہ رضی اللہ عنہا پر دوسرا نکاح نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔

1674: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خدیحہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آگیا۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ ! ہالہ بنت خویلد۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو اس سے بہترعورت دی (جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔
باب: اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1675: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے (اپنی ازواج سے) فرمایا کہ تم سب میں پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ پس سب ازاوج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھ ناپے تاکہ معلوم ہو کہ کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ ہم سب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے، اس لئے کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتی تھیں۔
باب: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان ۔

1676: ابوعثمان سیدنا سلمان ص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل، کیونکہ بازار شیطان کا میدان جنگ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے خبر دی گئی کہ جبرائیل ں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس آئے اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبرئیل ں آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے باتیں کرنے لگے، پھر کھڑے ہوئے (یعنی چلے گئے) تو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص تھے؟ انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھے، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا خطبہ سنا، آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ہماری خبر بیان کرتے تھے۔ میں (راوئ حدیث) نے کہا کہ میں نے ابوعثمان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا اسامہ بن زید ص سے۔

باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی زوجہ مطہرہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1658: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے خواب میں تین راتوں تک دیکھا کہ ایک فرشتہ تجھے ایک سفید ریشم کے ٹکڑے میں لایااور مجھے کہنے لگا کہ یہ آپ کی عورت ہے میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تو ہی نکلی۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہو گا (یعنی یہ عورت مجھے ملے گی اگر کوئی اور اس خواب کی تعبیر نہ ہو)۔

1659: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کیسے جان لیتے ہیں؟ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا کہ جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں محمد (صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کے رب کی قسم، اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں قسم ہے ابراہیم (ں) کے رب کی۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ کی قسم یارسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم، میں صرف آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا نام چھوڑ دیتی ہوں (جب آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے ناراض ہوتی ہوں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ اسی رشک کے باب سے ہے جو عورتوں کو معاف ہے اور وہ ظاہر میں ہوتا تھا دل میں آپ کبھی رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے ناراض نہ ہوتیں)۔

1660: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سہیلیاں آتیں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو دیکھ کر غائب ہو جاتیں (شرم اور ڈر سے) تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ان کو میرے پاس بھیج دیتے۔

1661: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ میری باری کا انتظار کرتے تھے اور جس دن میری باری ہوتی، اس دن تحفے بھیجتے تاکہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم خوش ہوں۔

1662: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہاکو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم جازت مانگی، اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہاکہ یارسول صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم للہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم! آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے مجھے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اوریہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم انصاف کرتے تھے) اورمیں خاموش تھی۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایاکہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یارسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم چاہیں۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواجِ مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں(ابوقحافہ سیدنا ابوبکر ص کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی ازواج نے اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناتا جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے اجازت چاہی توآپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم میری چادر میں تھے، جس حال میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ یارسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم! آپ اکی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم جواب دینے سے بُرا نہیں مانیں گے، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یاان پر غالب آگئی۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر صکی بیٹی ہے (کسی ایسے ویسے کی لڑکی نہیں جو تم سے دب جائے)۔

1663: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم (بیماری میں) دریافت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں آج کہاں ہوں گا، میں کل کہاں ہوں گا؟ یہ خیال کر کے کہ ابھی میری باری میں دیر ہے۔ پھر میری باری کے دن اللہ تعالیٰ نے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو بلا لیا میرے سینہ اور حلق سے (یعنی آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا سر مبارک میرے سینہ سے لگا ہوا تھا)۔

1664: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو اپنی وفات سے پہلے فرماتے ہوئے سنا اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم میرے سینہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے کان لگایا توآپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم فرماتے تھے کہ” اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنے رفیقوں سے ملا دے“۔

1665: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم اپنی تندرستی کی حالت میں فرماتے تھے کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ نہیں لیا اور اسے دنیا سے جانے کا اختیار نہیں ملا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی وفات کا وقت آگیا تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا سر میری ران پر تھا۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ایک ساعت تک بیہوش رہے، پھر ہوش میں آئے اور اپنی آنکھ چھت کی طرف لگائی اور فرمایا کہ اے اللہ! بلند رفیقوں کے ساتھ کر (یعنی پیغمبروں کے ساتھ جو اعلیٰ علییّن میں رہتے ہیں)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس وقت میں نے کہا کہ اب آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ہمیں اختیار کرنے والے نہیں اور مجھے وہ حدیث یاد آئی جو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے تندرستی کی حالت میں فرمائی تھی کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹھکانہ جنت میں نہ دیکھ لیا ہو اور اس کو (دنیا میں رہنے اور آخرت میں رہنے کا) اختیار نہ ملا ہو۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آخری کلمہ تھا جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایاکہ اے اللہ ! مجھے بلند رفیقوں کے ساتھ کر۔

1666: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم جب سفر کو جاتے تو اپنی ازواج پر قرعہ ڈالتے۔ ایک بار قرعہ مجھ پر اور اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر آیا اور ہم دونوں آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے ساتھ نکلیں۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم جب رات کو سفر کرتے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ساتھ ان سے باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہوتی ہوں، تم دیکھو گی جوتم نہیں دیکھتی تھیں اور میں دیکھوں گی جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اچھا۔ پس وہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور حفصہ رضی اللہ عنہا ان کے اونٹ پر۔ رات کو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی طرف آئے، جس پر حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں، آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے سلام کیا اور ان ہی کے ساتھ ساتھ چلے، یہاں تک کہ منزل پر اترے۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو (رات بھر) نہ پایا تو انہیں غیرت آئی۔ جب وہ اتریں تو اپنے پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈالتیں اور کہتیں کہ اے اللہ! مجھ پر بچھو یا سانپ مسلط کر جو مجھے ڈس لے، وہ تو تیرے رسول ہیں، میں ان کوکچھ نہیں کہہ سکتی۔

1667: سیدنا ابوموسیٰ ص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا: مردوں میں بہت لوگ کامل ہوئے، لیکن عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ رضی اللہ عنہا جو کہ فرعون کی بیوی تھی۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے۔

1668: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا کہ اے عائش! یہ جبرئیل ں ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وعلیہ السلام ورحمة اللہ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم وہ چیزیں دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
باب: اسی سے متعلق اور امّ زرع کی حدیث کے بیان میں۔

1669: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دُبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں توپورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑ نا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے، اگر میں اس کی بُرائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گااور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے(یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگرکھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں، عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا، لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اور بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے) اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ) (یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے)۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے۔ اور مالک کیا خوب ہے۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شترخانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابوزرع ہے سو واہ کیا خوب ابوذرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے، پس اس نے مجھے گھوڑے، اونٹ، کھیت اور ڈھیریوں/ خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی، اس نے مجھے باعزت اور مالدار کر دیا)۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے بُرا نہیں کہتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابوزرع کی ماں، پس ابوزرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں۔ ابوزرع کا بیٹا، پس ابو زرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خوابگاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے)، اس کو (بکری) حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے)۔ ابوزرع کی بیٹی، پس ابوزرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنی سوتن کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے)۔ اور ابوزرع کی لونڈی، ابوزرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لیجاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے کے لئے) بلویا جا رہا تھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابوزرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے اُمّ زرع! خود بھی کھا او راپنے لوگوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایساہوں جیسے ابوزرع اُمّ زرع کے لئے تھا۔(لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا)۔
mehwish_ali

PAKISTAN
Posted - Monday, September 27, 2004  -  9:00 AM Reply with quote
باب: سیدنا انس بن مالک ص کی والدہ، سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1677: سیدنا انس بن مالک ص کہتے ہیں کہ نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کسی عورت کے گھر میں نہیں جاتے تھے سوا اپنے صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم زواج کے یا اُمّ سلیم کے (جو سیدنا انس ص کی والدہ اور سیدنا ابوطلحہ ص کی بیوی تھیں)۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم اُمّ سلیم کے پاس جایا کرتے تھے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایاکہ مجھے اس پر بہت رحم آتا ہے، اس کا بھائی میرے ساتھ مارا گیا۔

1678: سیدنا انس بن مالک ص نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں گیا، وہاں میں نے (کسی کے چلنے کی) آہٹ پائی تو میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ غمیصا بنت ملحان (اُمّ سلیم کا نام غمیصا یا رمیصا تھا) انس بن مالک کی والدہ ہیں۔
باب: سیدنا اسامہ بن زید کی والدہ، سیدہ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1679: سیدنا انس بن مالک ص کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر ص نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر ص سے کہا کہ ہمارے ساتھ اُمّ ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے لئے بہتر ہے۔ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ اُمّ ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر ص کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
ibrahim
Moderator

PAKISTAN
Posted - Monday, September 27, 2004  -  3:46 PM Reply with quote
مہوش بہن ، آپ کی معلومات سے بھری ان دونوں پوسٹس پر آپ کا شکریہ۔
اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں ان کا مقصد پوچھنا چاہوں گا؟

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker