Author | Topic |
isfi22
PAKISTAN
|
Topic initiated on Thursday, May 27, 2010 - 12:10 PM
مسلمانوں کا ٓاصل مقام
مسلمانوں کا اصل مقام تو یہ تھا کہ وہ خدا کے بندے بن کر دکھاتے ، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین اسوے کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرتے ، دنیا کی زندگی کو امتحان سمجھتے ہوئے آخرت کی تیاری کرتے رہنے والے بن کر جیتے ، غیرمسلموں کے لیے اسلام کی برکت و رحمت کا نمونہ و نشان ثابت ہوتے اور انھیں بھی خدا کی اُس جنت کی طرف بلاتے جس کی وسعت زمین و آسمان سے زیادہ ہے ۔ یہی چیز ان کی دنیوی خوش حالی اور عروج کا بھی باعث بن جاتی۔ لیکن مسلمان چونکہ اپنے اس اصل مقام کا حق ادا کرنے میں ناکام رہے اس لیے وہ اس کے نتیجے میں ملنے والے اعزاز و ا کرام کے بھی مستحق نہ رہے ۔ لیکن ان کے لیے آج بھی موقع ہے کہ وہ توبہ کریں ، اپنے خدا کی طرف رجوع کریں ، اپنی کوتاہیوں کی تلافی کریں ، اپنے اندر اتحاد اور وسعتِ قلبی پیدا کریں ، اعلیٰ اخلاق کے ساتھ جینا سیکھیں ، دنیا سے زیادہ آخرت کو اپنی توجہات کا مرکز بنائیں اور غیرمسلموں کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے انھیں اپنا مدعو سمجھیں اور پوری حکمت و خیرخواہی کے ساتھ انھیں اسلام کی دعوت دیں ۔ یہی وہ طریقہ ہے جو مسلمانوں کی دنیا کی عزت و ترقی کا بھی ضامن ہے اور آخرت کی کامیابی و سرفرازی کا بھی۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, May 27, 2010 - 12:12 PM
کوئی ایسے کام نہیں ہیں جن سے دین روکتا یا منع کرتا یا انھیں ناپسندکرتا ہو۔ بلکہ یہ تو وہ فطری انسانی جذبات اور اعمال ہیں جن کے معاملے میں سستی اور کاہلی دکھانا خود دین کی روشنی میں ٹھیک نہیں ہے بلکہ دین چاہتا ہے کہ انسان اس طرح کی دنیا داریوں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے بھر پور طریقے سے کام لے کر آگے بڑ ھنے کی کوشش کرے ۔ لیکن دنیاداری جب یہ شکل اختیار کر لے کہ انسان بس پیسہ کمانے والی مشین میں تبدیل ہوجائے اور محض ایک معاشی حیوان بن کر رہ جائے تو دین اس صورتحال کو بلاشبہ ناگوار رکھتا ہے ۔ ایسا انسان نہ صرف اپنے دینی فرائض سے غافل رہتا، آخرت کو نظر انداز کرتا، مال و دولت جمع کرنے کی دھن میں حرام حلال سے بے پرواہی برتتا اور لوگوں کے حقوق غصب کرنے پر اتر آتا ہے بلکہ وہ بالآخر ایک انتہائی خودغرض، مفاد پرست، بے حس اور وحشی انسان بن جاتا ہے جو ہر چیز سے بے تعلق ہوکر اپنی خواہشات و مفادات کا غلامی اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ صورتحال بلاشبہ وہ ہے جو دین کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ لیکن عمومی انداز میں کھانا کمانا، شادی بیاہ کرنا، بال بچے پالنا اور انکی تعلیم و پرورش کا اہتمام کرنا، رشتے ناتے نبھانا اور سوسائٹی میں عزت و مرتبہ حاصل کرنے کی تگ و دو کرنا ہرگز ہرگز دینی لحاظ سے کوئی برے کام نہیں ہیں ۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, May 27, 2010 - 12:14 PM
کھانا کمانا، کاروبار یا ملازمت کرنا، تعلقات اور رشتہ داریاں نبھانا اور اپنی زندگی کو پرآسائش، مزیدار اور بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنا کوئی ایسے کام نہیں ہیں جن سے دین روکتا یا منع کرتا یا انھیں ناپسندکرتا ہو۔ بلکہ یہ تو وہ فطری انسانی جذبات اور اعمال ہیں جن کے معاملے میں سستی اور کاہلی دکھانا خود دین کی روشنی میں ٹھیک نہیں ہے بلکہ دین چاہتا ہے کہ انسان اس طرح کی دنیا داریوں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے بھر پور طریقے سے کام لے کر آگے بڑ ھنے کی کوشش کرے ۔ لیکن دنیاداری جب یہ شکل اختیار کر لے کہ انسان بس پیسہ کمانے والی مشین میں تبدیل ہوجائے اور محض ایک معاشی حیوان بن کر رہ جائے تو دین اس صورتحال کو بلاشبہ ناگوار رکھتا ہے ۔ ایسا انسان نہ صرف اپنے دینی فرائض سے غافل رہتا، آخرت کو نظر انداز کرتا، مال و دولت جمع کرنے کی دھن میں حرام حلال سے بے پرواہی برتتا اور لوگوں کے حقوق غصب کرنے پر اتر آتا ہے بلکہ وہ بالآخر ایک انتہائی خودغرض، مفاد پرست، بے حس اور وحشی انسان بن جاتا ہے جو ہر چیز سے بے تعلق ہوکر اپنی خواہشات و مفادات کا غلامی اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ صورتحال بلاشبہ وہ ہے جو دین کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ لیکن عمومی انداز میں کھانا کمانا، شادی بیاہ کرنا، بال بچے پالنا اور انکی تعلیم و پرورش کا اہتمام کرنا، رشتے ناتے نبھانا اور سوسائٹی میں عزت و مرتبہ حاصل کرنے کی تگ و دو کرنا ہرگز ہرگز دینی لحاظ سے کوئی برے کام نہیں ہیں ۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, May 27, 2010 - 12:15 PM
اسی طرح دینداری محض نماز روزے کی پابندی، حج و عمرے کی ادائگی، صدقہ و خیرات اور کسی دینی تحریک و جماعت کے ساتھ شامل ہوکر اس کی سرگرمیوں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لینے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اعلیٰ اخلاقی رویے اپنائے ۔ نرمی و شفقت، صبر و استقامت، حوصلہ و ہمت، جرأت و شجاعت اور تقویٰ و فکرِ آخرت کے اوصاف سے متصف ہو۔ معاملات میں راستباز ہو۔ لین دین میں کھرا اور اصولوں کا پابند ہو۔ وعدوں کی پابندی کرتا ہو۔ رشتہ داروں ، متعلقین اور پڑ وسیوں کے حقوق ادا کرتا ہو۔ اور اپنے حلقۂ احباب میں ایک ایماندار، شریف اور اچھے اخلاق کے حامل کے طور پر معروف ہو وغیرہ۔ دینداری کا مطلب اگر دیکھا جائے تو یہ ہونا چاہیے کہ انسان خدا کی بندگی کے شعور کے ساتھ زندگی گزارے ، اپنے تمام معاملات اس کے احکام و ہدایات کی روشنی میں انجام دے ، اپنی دنیوی مصروفیات و مشغولیات کے ساتھ ساتھ اپنے دینی فرائض و واجبات بھی بجا لائے ۔ خود حق و سچائی اور نیکی و بھلائی پر قائم رہے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی انھیں چیزوں کی تلقین کرتا رہے ۔ مشکلات اور سختیوں میں صبر و برداشت سے کام لے اور فراوانی کے لمحات میں غافل و بے پرواہ بننے کے بجائے اپنے رب کا شکرگزار و فرماں بردار بنے وغیرہ۔ اگر کوئی انسان ان چیزوں کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی گزارتا ہے تو اس کی زندگی میں دنیاداری اور دین داری کی کوئی تقسیم باقی ہی نہیں رہتی۔ بلکہ اس کی زندگی سراپا خدا کی بندگی بن جاتی ہے ۔ اور انسان کی زندگی کے لیے اگر کوئی موزوں ترین عنوان ہے بھی تو وہ یہی ہے کہ وہ خدا کی بندگی کی شکل میں گزرے ۔ ایسے انسان کی ہر دنیاداری بھی دینداری ہی ہوتی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے انھیں اس بات کی دعوت دیں کہ وہ اچھے اور ایسے دنیادار بنیں کہ ان کی دنیاداریاں بھی دین داری بن جائیں ۔ وہ اپنے خدا سے ہر لمحہ متعلق ہوکر، اس کے احکام و ہدایات کے پابند رہ کر، اس کے قوانین و حدود کا لحاظ کرتے ہوئے ، اعلیٰ انسانی سلوک اور بہتریں اخلاقی رویے کے ساتھ اور نیکی و بھلائی کے پیکر و داعی بن کر اس طرح اپنی زندگی گزاریں کہ ان کے صبح و شام اور دن اور رات سب کچھ عبادت اور دینداری بن جائیں ۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, May 27, 2010 - 12:17 PM
اسلام اپنے ماننے والوں کو خودغرضی اور مفاد پروری کے بجائے دریادلی، فیاضی، دوسروں کے کام آنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی بہتری کی خاطر غریبوں ، محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور اسی طرح دیگر انسانی بھلائی و خیرخواہی کے کام کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ ایک مسلمان دوسروں سے محبت کرنے والا، ان کے کام آنے والا، ان کے درد دکھ کو اپنا سمجھنے والا اور بڑ ھ چڑ ھ کر دوسروں کی خدمت و بھلائی کے کاموں میں حصہ لینے والا ہوتا ہے ۔ وہ کبھی خودغرض، سخت دل، مفاد پرست، اور دوسروں سے نفرت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت و نرمی برتی اور ہمدردی و خیرخواہی کی جائے ۔
اسی طرح اسلام اپنے حلقہ بگوشوں کو ایمانداری، سچائی، اصول پسندی، بلند اخلاقی، عالی ظرفی، ایفاے عہد، قانون کی پابندی، راستبازی، صفائی و پاکیزگی اور انسانی ہمدردی جیسی اعلیٰ خوبیوں کی تلقین کرتا ہے ۔ کسی سوسائٹی اور معاشرے میں اسلام کے آنے کا مطلب برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہے ۔ اسلام کی تربیت انسانوں کو اپنے معاشرے کے لیے انتہائی کارآمد اور مفید رکن بناتی ہے ۔ وہ امن، انصاف، پیار اور محبت کے علمبردار اور نمائندے بن کر جیتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے دائرے میں خوشیوں ، سکون و اطمینان اور فرحت و سلامتی کی علامت بن جاتے ہیں ۔ لہٰذا آج ہر طرف پھیلی ہوئی خودغرضی اور بے حسی ہو یا دیگر طرح کی برائیاں ، ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اعلیٰ، پاکیزہ اور روشن تعلیمات کو خود اپنائیے ، انھیں نرمی و حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیے اور اپنے بچوں اور احباب کے درمیان اسلام کی برکتوں اور خوبیوں کا چمکتا نمونہ بن کر زندگی گزارئیے ۔ مسلمان ہونے کا آج یہ آپ پر سب سے بڑ ا قرض ہے ۔ |
|