محترم سیفے میرا کے اٹھائے ہوئے چند ابتدائی نکات کے جواب میں:
انسانی زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہے ؟
ایک مسلمان کے زاویے سے اگر اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے براہِ راست جواب سے پہلے اس جواب کی اساسات کو بھی سامنے لانا پڑ ے گا۔ وہ اساسات یہ ہیں کہ ایک مسلمان بہت اچھی طرح یہ جانتا اور مانتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خداوند ہے ۔ اس کی یہ زندگی ایک خدائی امتحان ہے ۔ اسے جو آزادی، اختیار، مہلت اور صلاحیت و طاقت کے وسائل میسر ہیں ان کے دیے جانے کا مقصد محض یہ ہے کہ دیکھا اور پرکھا جائے کہ وہ ان کے بل بوتے پر اس دنیا اور اپنی زندگی میں کیا گل کھلاتا اور کیسی داستان بناتا ہے ۔ اچھائی اور نیک عملی کے سیرت و کردار کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے یا بدی و نفسانیت کے اندھیروں میں بھٹک کر زندگی کی مہلت کو تباہ و برباد کرتا ہے ۔ اس کی یہ زندگی محض ایک عارضی و امتحانی وقفہ ہے ۔ اصل جہاں اور حیات کا سلسلہ موت کے بعد آنے والے وقت میں شروع ہو گا۔
دنیا میں بسنے والے بے شمار انسانوں کے حوالے سے تو اس سوال کا جواب بہت کچھ مختلف ہو سکتا ہے مگر اس سارے پس منظر کے ساتھ ایک مسلمان کے زاویے سے اس سوال کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا جواب نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی سوچا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان انسان کی زندگی کا بنیادی اور اولین و فائنل مقصد کائنات کے خداوند کی رضامندی، اس امتحانِ زندگی میں کامیابی اور اگلی آنے والی دنیا میں سرخروئی کا حصول ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ اس مقصد کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ انسان خدا کی بندگی کرے اور اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جو دین نازل کیا اور پیغمبر بھیجے ہیں ان کا دامن تھامے اور ان کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارے ۔
ایک مسلمان کس مدرسۂ فکر یا ا سکول آف تھاٹ سے وابستگی اختیار کرے
مسلمانوں کے پاس اس سوال کا واضح جواب قرآن و حدیث کی بیش قیمت تعلیمات میں موجود ہے ۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ مسلمان اس وقت قرآن و سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرامین سے زیادہ اپنے اپنے حلقے ، فرقے اور اکابرین کے آرا و خیالات اور تحریری و تقریری مواد سے مانوس و پیوستہ ہو چکے ہیں ۔ اسی لیے یہ سوال آج ان کے لیے زیادہ پیچیدہ اور قابلِ توجہ بن گیا ہے ۔ قرآن و حدیث کے مطالعے سے ہم واضح طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ ایک مسلمان کو جس طرح عبادت صرف اور صرف خدا کی اور غیر مشروط اطاعت صرف اور صرف خدا کے پیغمبر کی کرنی چاہیے اسی طرح اس کی وابستگی صرف اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات اور محمدِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے ہونی چاہیے ۔ اس معنیٰ میں کہ اس کا انحصار و اعتماد اور اس کا مأخذِ ہدایت و رہنمائی یہ ذرائع ہوں ۔ دین کے علما اور مفسرینِ قرآن و شارحینِ حدیث و فقہاے امت وغیرہ محققین و معلمین سے بھی اسے استفادہ کرنا اور رہنمائی لینی چاہیے لیکن یہ استفادہ و رہنمائی ان مذکورہ الہامی و پیغمبرانہ منابع کی فوقیت و بالادستی قائم رکھتے ہوئے اور انہی کی ماتحتی میں ہونا چاہیے ۔ نہ یہ کہ انسان بس اپنے اکابر و اسلاف اور مشائخ و بزرگوں ہی کے ملفوظات و فتاویٰ جات پر اندھادھند اور کلی اعتماد کرنے لگے اور براہِ راست ان منابعِ ہدایت و مصادرِ رہنمائی سے اعراض و روگردانی برتے ۔
مسلمان چونکہ اس معاملے میں صحیح روش پر قائم نہ رہ سکے اور آہستہ آہستہ ان کے حلقے اور فرقے اور مختلف گروہ وجود میں آنے اور ان کے جذباتی لگاؤ اور متعصبانہ ربط کا مرکز بننے لگے ۔ اسی طرح ان کے ہاں اپنے حلقے اور جماعت کے علما اور اکابر کے تصورات وجود میں آتے چلے گئے اور ان کے ہاں یہ رویہ عام ہوتا اور رواج و معمول بنتا چلا گیا کہ وہ بس اپنے من پسند اور جماعتی علما و فقہا و محدثین و مفسرین و مفکرین کی چیزیں پڑ ھیں اور انہی کے افکار و نظریات پر سر دھنیں اور انہی کی کہی اور لکھی ہوئی باتوں کو مستند و معتبر ٹھہرائیں ۔ اور ہر دوسرے حلقے یا اپنی جماعت سے باہر کے عالم و مفکر کی چیزوں کو لایعنی اور قابلِ رد قرار دیں ۔ اپنے نظریات و معمولات کو سراسر حق اور دوسروں کی آرا اور روایات کو باطل و ضلالت سمجھیں ۔ لہٰذا اب عام طور پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ لوگ کس مسلم فرقے اور اسلامی جماعت سے منسلک ہوں اور کون سا مدرسۂ فکر اور کون سا اسلامک ا سکول آف تھاٹ معتبر ہے جس سے وہ وابستہ ہوجائیں ۔
میرے نزدیک اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ ہے کہ انسان خدا و رسول سے اور قرآن و سنت اور محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول مستند ذخیرۂ احادیث سے وابستہ ہو۔ کوئی شخص اگر اس مختصر سے نسخے پر پوری وفاداری و استواری سے عمل پیرا ہوجائے تو یقینی ہے کہ وہ ہدایت پالے گا۔ ہر معاملے میں صحیح راے اور رویہ اس پر واضح ہوجائے گا۔ اور وہ اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ لے گا کہ ہدایت یاب ہونے اور راہِ راست کا راہی بننے کے لیے مسلمانوں کے موجودہ ا سکولز آف تھاٹز اور جماعتوں اور فرقوں میں سے کسی سے اتفاق اور کسی سے اختلاف اور کسی سے انسلاک اور کسی سے علیحدگی ضروری نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ انسان خدا و رسول پر اپنے اعتماد کو بحال کرے ، قرآن و سنت اور احادیثِ نبوی سے اپنے تعلق کی تجدید کرے اور اپنے قرب و تعلق کے دائرے میں آنے والے تمام مسلم حلقوں میں موجود دین کے مستند و معتبر علما کی رہنمائی میں مختلف معاملات میں دین کے رجحان اور مطلوب و محمود رویوں کو معلوم کرنے کی روش اپنائے ۔ ہمارے ہاں یہ طریقہ جو چل پڑ ا ہے کہ ہماری ہی راے برحق ہے اور وہ کبھی غلط ہونہیں سکتی اور دوسرے کا مؤقف باطل ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ درست ہو، یہ رویہ و روش نہایت گمراہ کن اور متکبرانہ ہے ۔ انسان کو خود کو انسان ہی سمجھنا چاہیے ۔ اپنی سمجھی ہوئی بات اور راے کو درست تو کہنا چاہیے لیکن اس امکان کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے علم و فہم میں کوئی نقص اور جھول ہو اور اسے غلطی پیش آ گئی اور ٹھوکر لگ گئی ہو۔ اور اس کے برخلاف دوسرا مؤقف پیش کرنے والا ہی در اصل درست جگہ کھڑ ا ہو اور اسی کی بات اور راے مطابقِ صحت و حقیقت ہو۔ یہی ہمارے حقیقی اسلاف کا طریقہ تھا اور اسی طریقے پر پھر سے استوار ہوکر ہم کامیاب و سرخرو ہو سکتے اور اپنے درمیان اعتدال، شائستہ اختلاف، سنجیدہ بحث و تمحیص، صبر و برداشت اور وسعت قلبی و تحمل وغیرہ قیمتی اقدار و خصوصیات وجود میں لا سکتے ہیں جو اتحادِ عمل اور باہمی محبت و اخوت کی اصل بنیادیں اور لوازمات ہیں۔
ہم کیسے متحد ہو سکتے اور اپنے اختلافات کے باوجود کیسے اکٹھے رہ سکتے ہیں
اس سوال کا براہِ راست جواب دینے سے پہلے مفید و مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلو پر غور کر لیا جائے کہ اختلافات انسانی دنیا اور انسانی گروہوں میں ہمیشہ رہے ہیں ، آج بھی موجود ہیں اور ہمیشہ پائے جاتے رہیں گے ۔ دنیا میں کوئی کتنی ہی متحد جمعیت و مستحکم سے مستحکم قومیت ہو اس کے افراد بھی اختلاف سے خالی نہیں ہوتے ۔ اصل چیز آدابِ اختلاف سے شناسا ہونا اور انہیں برتنا اور اختلاف کے باوجود مشترک اجتماعی امور و مصالح کے باب میں متفق و متحد رہنا اور مل جل کر کوشش کرنا ہے ۔ اسلام کے ابتدائی ادوار میں صحابۂ کرام کے مابین بھی اختلافات موجود تھے ۔ ان کے بعد محدثین و فقہا کے زمانوں میں بھی اصولی و فروعی ہر طرح کے اختلافات پوری وسعت کے ساتھ پائے جاتے رہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک شاندار تہذیب اور مستحکم امت و قومیت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اختلاف کے حدود و آداب سے آشنا اور انہیں ملحوظ رکھنے والے لوگ تھے ۔ ملی امور و مصالح میں اتفاق و ہم آہنگی قائم رکھنے اور اس دائرے میں انفرادی و گروہی مفادات کو قربان کر دینے کا حوصلہ رکھنے والے لوگ تھے ۔ ہمیں بھی یہی رویہ و روش اختیار کرنا ہو گا۔ قرآن و سنت ہمارے درمیان ا تھاڑ تی کی حیثیت سے موجود ہیں ۔ ہمیں اپنی آرا و نظریات پر حد سے زیادہ اعتماد و اصرار کی روش کو ترک کر دینا چاہیے اور دلائلِ قرآن و سنت سے قریب راے اور فکر کو اپنانے کو اپنی ترجیح اور مقصد بنانا چاہیے ، چاہے وہ ہماری اپنی دریافت ہو یا کسی دوسرے مسلم اہلِ علم و فکر کی۔ مسلم حلقوں کے درمیان قائم حدبندیوں کو ختم کر دینا چاہیے اور عام لوگوں کو ہر طبقے اور حلقے کے سنجیدہ و بالغ نظر اہل علم و فکر سے استفادے کی روایت کو اپنے درمیان پوری آب و تاب سے جاری کرنا چاہیے ۔ فروعی و جزئی امور پر موجود اختلافِ آرا کے باب میں تشدد کی روش کو ترک کر دینا چاہیے ۔ اپنی اپروچ کو علمی و تحقیقی بنانا چاہیے ۔ ایک معاملے سے متعلق مختلف نقطۂ ہاے نظر کے مطالعے اور سنجیدہ تنقید و تجزیے کی عادت کو اختیار کرنا چاہیے ۔ پروفیشنل اور کم علم قسم کے دینی پیشواؤں اور مذہبی رہنماؤں کے اقوال و خیالات کو بلاسوچے سمجھے قبول کرنے کی روایت کو بدلنا چاہیے ۔ جدید علوم و فنون اور تحقیقات کے ابواب میں اپنی نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جدتوں سے گھبرانے کے بجائے ان کا گہرے انداز اور دین و دنیا کے علم و فہم کی کسوٹی پر اچھی طرح جائزہ لے کر ان کے بارے میں کوئی معقول و مضبوط راے اختیار کرنی چاہیے ۔ غیر مسلموں کو دشمن اور مبغوض و حریف کی نظر سے دیکھنے کے بجائے انہیں اپنا مدعو سمجھ کر ان کے حق میں اپنے دلوں میں نرمی و شفقت اور ہمدردی و نصیحت کے جذبات پروان چڑ ھانے چاہیے ۔ لڑ نے مرنے اور الٹے سیدھے جھنڈوں تلے جہاد کا نام لے کر جنگ کے میدان میں اتر پڑنے کے بجائے مادی و اخلاقی میدانوں اور علمی و فنی شعبوں میں آگے بڑ ھنے اور نمایاں و ممتاز مقام و حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اسی طرح اور بہت ساری تبدیلیاں لانے اور اپنے علم و عمل کے بہت سے اجزا کی اصلاح کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی اتحاد و اخوت کے خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتے اور ہم آہنگی و اتفاق اور باہمی محبت و بھائی چارے کے ساتھ ایک ساتھ مل کر رہنے کی امید بر آ سکتی ہے ۔
ہمارے معاشرے کے پہلو سے اور موجودہ حالات کے تناظر میں سب سے زیادہ اہم ضروت اس باب میں اپنی حیثیت کو پہچاننے اور اپنی آرا کے باب میں معتدل و متوازن روش اپنانے کی ہے جسے امام شافعی کے خوبصورت الفاظ و تعبیر میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اپنی راے کی صحت پر اصرار، لیکن اس میں خطا کے امکان کو تسلیم کرنا اور دوسرے کی راے کے غلط ہونے پر اصرار، لیکن اس میں صحت کے امکان کو بھی ماننا۔ پیشوا اور نمائندہ لوگ جب اس رویے کو اپنائیں گے اور اپنے پیروکاروں کو اسی کی تلقین و نصیحت کریں گے تو ایک واضح تبدیلی معاشرے میں نظر آئے گی اور اختلاف کو برداشت نہ کرنے اور ایسی صورت میں تشدد و خون ریزی پر اتر آنے جیسے رویوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
انسانی زندگانی کا مقصد و مدعا:
(الگ سے لکھا گیا ایک مضمون)
انسانی زندگانی کا اصل مقصد کیا ہے ۔ یہ نہایت فلسفیانہ سوال تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ اپنی عملی و افادی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ مطلب یہ کہ کسی انسان کے لیے اس سوال کے جواب کی تلاش محض کسی علمی نکتے کی جستجو ہی نہیں ہے بلکہ اسی سوال کے جواب پر اس کی زندگی کی تشکیل منحصر ہوتی اور زندگی بھر اس کے طرزِ عمل کا انحصار ہوتا ہے ۔ مثلاً جو لوگ حصولِ خوشی یا لذت کو مقصدِ حیات سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ ایسی چیزوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جو انہیں خوشی اور لذت دے سکیں ۔ چاہے وہ اچھی ہو یا بری، انسانی اخلاقیات اسے معروف گردانے یا منکر قرار دے ، دوسروں کو ان سے اذیت و نقصان پہنچتا ہو یا فائدہ و تازگی ملتی ہو۔ اسے اصلاً اس طرح کے کسی سوال اور پہلو سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیشِ نظر قابل غور پہلو صرف یہ ہوتا ہے کہ اس سے خوشی اور لذت ملے گی یا نہیں دوسروں پر اس کو اثر اچھا پڑ ے یا برا، وہ اس سے فائدہ پائیں یا نقصان اٹھائیں ، اسے اس سے کوئی لگاؤ اور دلچسپی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے دل و دماغ کے روبرو بس اپنا فائدہ، خوشی اور لذت ہوتی ہے ۔
زندگی کی حقیقت بیان کرنے والا فکر و نظریہ اور خیال و تصور ہی وہ محرک قوت ہے جو کسی انسان کے عمل و کارکر دگی کا ایک نقشہ متعین کرتا اور اس کے قویٰ، صلاحیتوں اور وسائل کو کسی میدان میں صرف کرنے پر اسے اکساتا اور ابھارتا ہے ۔ انسان اس حوالے سے جو تصور رکھتا ہے اس کا کردار اور اس کا اخلاق اور اس کی زندگی کی عملی اٹھان اسی کی مطابقت میں وجود میں آتے اور کوئی رنگ و ڈھنگ اختیار رکرتے ہیں ۔
اس زاویے سے ہر طرح کی طول بیانی اور فلسفیانہ تاریخ سرائی سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ہم بحیثیتِ مسلمان اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہیں اور اس کے لیے خدا کی کتاب کی طرف رجوع کریں تو وہاں واضح طور پر اس سوال کا یہ جواب موجود ہے کہ جنوں اور انسانوں کو خدا کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ یعنی ان کے بنانے والے کے نزدیک ان کی زندگانی کا یہی مقصدِ اصلی و حقیقی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان انواع کے مختلف افراد و طبقات یعنی مختلف انسان اور ان کی الگ الگ جماعتیں اپنی زندگی کے دوسرے دوسرے مقاصد و اہداف مقرر کر لیں اور انہی کی تحصیل کی کوششوں میں ان کی زندگی گزرے ۔
اب یہ بندگی جس کے لیے عربی لفظ عبادت اختیار کیا گیا ہے ، کیا چیز ہے ؟ کیوں کہ یہ تو واضح ہے کہ یہی زندگی کا اصل مقصود و مدعا ہے ۔ لہٰذا پہلے اسی کی تھوڑ ی سی وضاحت ضروری ہے ۔ عبادت انتہائی خضوع و نہایت تذلل کی ایک باطنی اور اندرونی کیفیت کا نام ہے جو ایک بندہ اپنے معبود و مالک اور خالق و پرودگار کی نسبت سے اپنے قلب و روح میں پوری شدت و حدت سے محسوس کرتا ہے ۔ ذکر، شکر، حمد و تسبیح وغیرہ اس کے باطنی مظاہر و نشانات ہیں اور نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ وغیرہ اس کے ظاہری و عملی مظاہر و علامات۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو شعور کی آنکھ کھولنے کے بعد وہ اپنے اندر کے جہاں اور اپنے باہر پھیلی ہوئی کائنات میں ربوبیت اور نعمت و رحمت کے ا تھاہ مظاہر و اسباب مصروفِ کار دیکھتا ہے ۔ پھر اس کے اندر وجدانی طور پر اپنے خالق کی معرفت موجود ہے ۔ اسی کے ساتھ سلسلۂ انبیا نے ساری دنیا اور انسانی نسلوں میں خدا کی معرفت و بندگی کی دعوت کا جو صور پھونکا اور پیغام پہنچایا ہے وہ بھی نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا مختلف انسانی خطوں اور نسلوں میں ایک باقاعدہ روایت اور مذہبی تعلیم و وراثت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ ان اسباب و عوامل کے زیرِ اثر انسان کے اندر اپنے خالق و مالک اور پرودگار و آقا کے لیے بے انتہا محبت و عظمت اور جلال و خشیت کے جذبات موجزن ہوجاتے ہیں ۔ انہی مختلف کیفیات کی شکلوں میں عبادت ظہور کرتی ہے اور یہ عبادتی کیفیت ہی کے مختلف شیڈ و اظہار ہیں ۔ پہلے اس کے کچھ باطنی مظاہر پیدا ہوتے ہیں ، انسان اپنے خالق کی یاد میں جیتا اور اس کی محبت و خشیت کی لہروں میں ہچکولے کھاتا ہے ۔ اس کے لیے نیازمندی و شکرگزاری و احسان مندی کی ابلتی کیفیات اپنی روح کی گہرائیوں اور وجود کی پہنائیوں میں محسوس کرتا ہے ۔ پھر یہ اندرونی کیفیات و تغیرات اسے اپنے عملی وجود سے بھی اپنے مالک کی بندگی اور آقا کی وفاداری و تابعداری کے لیے آمادۂ کار کرتے اور اکساتے ہیں ۔ نماز وجود میں آتی، روزہ عمل میں ڈھلتا، زکوٰۃ کی جانبازیاں رقم ہوتیں اور حج کی سرفروشیاں جنم لیتی ہیں وغیرہ۔ انہی کیفیات کی شدت میں جینا اور انہی اعمال و عبادات کی مصروفیتوں کو زندگی بنانا وہ عبادتی زندگی ہے جو ایک مسلمان کا مقصودِ حیات و ذریعۂ نجات ہے ۔ زندگی کے متعلقات بھی اپنی جگہ قائم رہتے اور اپنے لیے پوری توجہ اور توانائی حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن ان کی شدت و طغیانی مؤمن کو عصیاں و سرکشی و حق تلفی کے اندھیرے غاروں میں نہیں لے جاتی۔ بلکہ بندۂ مؤمن جس طرح دل کی کیفیات اور اعمال و عبادات کے گوشوں میں عبد اللہ ہوتا ہے ویسے ہی میدانِ کارزار و مصروفیاتِ حیات کے باب میں بھی وہ خدا کی دی ہوئی ہدایات کے تابع رہتا اور اس کی کھینچی ہوئی لکیروں اور باندھی ہوئی حدوں سے باہر نکلنے سے دامن بچاتا اور اس کا فرمانبردار و وفادار رہتا ہے ۔ یہ سارے پہلو جب اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں تو وہ تصویر سامنے آتی ہے کہ پرودگار میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب تیرے ہی لیے ہے ۔ یہاں پہنچ کر مؤمنانہ تصویر اور اسلامی زندگی مکمل ہوجاتی ہے ۔
(باقی نکات بھی میرے پیشِ نظر ہیں۔ انشاء اللہ ان پر بعد میں اظہارِ خیال کروں گا۔ آرزو ہے کہ اے کاش ہماری یہ صحت مند گفتگو ہمارے اور دوسروں کے لیے روشنی اور اصلاحِ احوال کا ذریعہ بن جائے)