Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
isfi22

PAKISTAN
Topic initiated on Monday, May 24, 2010  -  9:38 AM Reply with quote
ہمارے حالات اور علی حیدر کے خیالات


ہمارے حالات اور علی حیدر کے خیالات

مشہور فنکار و گلوکار علی حیدر جنہوں نے حال ہی میں مستقبل میں گلوکاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ، ان کا ٹی وی پر ایک انٹر ویو سنا۔ علی حیدر نے بڑ ے قلق و دردکے ساتھ اپنے ان جذبات و احساسات کا اظہار کیا کہ آج ہمارے اپنے ملک پاکستان پر جو کچھ بیت رہا ہے ۔ اور جس طرح آئے روز پاکستان کے مختلف مقامات سے بے شمار انسانی جانوں کی ہلاکت، املاک کی بربادی اور لوگوں کی اپنے گھر اور علاقوں سے دربدری کی اطلاعات آ رہی ہیں ، ان تکلیف دہ اور انتہائی افسوسناک حالات میں ہم اچھل کود اور ناچ گانوں میں لگے رہیں تو یہ آخری درجے کی سنگدلی اور بے حسی کا مظاہرہ ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے کافی عرصے سے اپنے اس پروفیشن سے بے اطمینانی محسوس کر رہے اور اپنے اندرونی وجود میں کسی نامعلوم خلا کا احساس کر رہے تھے ، یہاں تک کہ یہ حالات رونما ہوئے اور ان کی اس کیفیت میں مزید اضافہ ہوا اور با الآخر انہوں نے اپنے ہم قوم پاکستانیوں کے ان افسوسناک حالات و مشکلات کو دیکھتے ہوئے آئندہ موسیقی نہ کرنے کا اعلان نشر کر دیا۔

جناب علی حیدر صاحب نے اپنے جن خیالات و احساسات کا اظہار کیا ہے ۔ وہ ہمیں جدید دور کے میڈیا اور ہمارے موجودہ ٹی وی چینلز کے منفی اثرات کے بارے میں غور و فکر کی بھی دعوت دیتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ آج جب ہم روز میڈیا پر مختلف حادثات، فسادات، قتل و غارت گری اور خون ریزی کے واقعات اور ان میں ہونے والی کثیر تعداد میں انسانی جان و مال کی ہلاکت و بربادی کی خبریں سنتے رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ انسانی جان کی حرمت و اہمیت اور انسانی ہمدردی کے ہمارے جذبات میں ایک ٹہراؤ اور بے حسی پیدا ہورہی محسوس ہوتی ہے ۔ علی حیدر کے الفاظ میں ہم ٹی وی پر لوگوں کی ہلاکت اور دربدری اور کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑ ے ہونے کی خبریں سن رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی معمول کے مطابق اپنے لذیذ کھانوں اور مشروبات سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں جس سے گویا کہ ایک ایسا سماں پیدا ہوتا ہے کہ ہم شاید کوئی حقیقی اطلاع نہیں پا رہے بلکہ کوئی دلچسپ فلم اور پروگرام دیکھ رہے ہیں ۔ اسی نوعیت کی چیزوں نے ہماری صورتحال یہ کر دی ہے کہ جب ہم سنتے ہیں کہ مثلاً فلاں جگہ بم دھماکہ ہوا اور کوئی زیادہ بڑ ا نقصان نہیں ہوا بلکہ بس ایک دو یا چار لوگ جاں بحق ہوئے ہیں تو ہمارے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل جاتے ہیں کہ چلو غنیمت ہے کہ بس دو چار لوگ ہی ہلاک ہوئے ہیں کوئی 100یا 200 لوگ نہیں مرے ۔ کوئی زیادہ بڑ ا نقصان اور سانحہ نہیں پیش آیا۔ حالانکہ اللہ رب العزت کے نزدیک تو ایک انسانی جان کی ناحق پامالی ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے ۔ اس معاملے میں ہمارے احساس کے اس تنزل اور پستی کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے کہ یہ میڈیا اور مختلف چینلز کے ان خبروں کو بار بار نشر کرنے کا نتیجہ ہے کہ اب ہم ان چیزوں کے عادی ہوگئے اور دو چار لوگوں کی ہلاکت ہمارے لیے ایک بہت ہی معمولی واقعہ بن گیا ہے ۔ پھر ایسے مواقع پر میڈیا کے مختلف چینلز جس طرح فرطِ مسرت سے بار بار اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مثلاً ناظرین اس بم دھماکے کی اطلاع سب سے پہلے ہمارے چینل نے آپ تک پہنچائی ہے یا اس طوفان اور زلزلے کی خبر سب سے پہلے ہم رپورٹ کر رہے ہیں اور اس میں ہونے والے بے تحاشا جانی و مالی نقصان کے اعداد و شمار سب سے پہلے ہمارا چینل اور ہماری ٹیم آپ کو بتا رہے ہیں تو حقیقت ہے کہ دل آگ بگولہ ہوجاتا اور جذبات میں شعلے بھڑ ک اٹھتے ہیں کہ ان بے حس اور مشینی لوگوں کو اس افسوسناک واقعہ پر کوئی صدمہ اور دکھ نہیں ہے بلکہ یہ اسے بھی اپنی Popularity اور Viewer ship بڑ ھانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں ۔

یہ حقائق جہاں قوم کے ضمیر کو جھنجوڑ نے والے اور میڈیا کی فیلڈ کے لوگوں کو اپنے اس طرح کے طرزِ عمل کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہی دے کر اسے بدلنے پر اکسانے والے ہیں وہیں میں یہاں اس بات کا اضافہ کرنا چا ہوں گا کہ بلاشبہ علی حیدر جیسے فرد کا اس طرح کے افسوسناک حالات پر قومی درد محسوس کرنا اور اس طرح کا انقلابی فیصلہ کرنا نہایت قابلِ ستائش کارنامہ ہے ۔ مگر اس سے آگے بڑ ھ کر اُن جیسے لوگوں اور قوم کے دوسرے دردمندوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر یہ حالات پیدا ہی کیوں اور کیسے ہوئے ہیں ؟ یہ سوال بہت اہم ہے لہٰذا اس کا جواب معلوم کر کے قوم و ملت کے سب دردمندوں اور بہی خوا ہوں کو اِس جستجو اور کاوش میں سرگرم ہوجانا چاہیے کہ اپنے لوگوں کی اُس جہالت اور محرومی کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اور پائیدار لائحۂ عمل بنایا جائے اور اسے پوری دیانت داری اور استواری کے ساتھ بروئے کار لایا جائے جو اس طرح کے حادثات و سانحات اور ابتر و افسوسناک حالات پیدا کرنے کا سبب بنتی رہی ہے ۔

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker