Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
1 2 3 4 5
Next page >>
Page 1 of 5

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
isfi22

PAKISTAN
Topic initiated on Tuesday, May 25, 2010  -  7:18 AM Reply with quote
Purpose of Life and Religion


اکثر مسلمان یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی انسان کو اپنی عبادت و بندگی کے لیے عطا کی ہے۔ وہ یہاں انسان کو عارضی اختیار و آزادی دے کر آزما رہا ہے کہ آیا وہ اپنے اختیار و مرضی سے اس کی بندگی کرتا اور صالح اعمال اپناتا ہے یا بندگی سے منہ موڑتا اور شیطان و نفس کی پیروی میں بدیوں اور سرکشیوں کے انبار کھڑے کرتا ہے۔۔۔۔۔


لیکن خدا نے انسان کو جو دین دیا ہے۔ اس کا مقصد و مدعا کیا ہے؟ دین اپنے ماننے والوں کے سامنے کس چیز یا ٹارگٹ یا گول کو نصب العین بناکر پیش کرتا اور اس کے حصول پر اکساتا اور اس کی یافت کو اخروی کامیابی کی کلید و سبیل قرار دیتا ہے؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ان فورمز میں آنے والے احباب اس سوال کا اپنے پاس کیا جواب رکھتے ہیں۔۔۔ میں یہ واضح کردوں کہ یہ سوال نہایت کلیدی اور بنیادی اہمیت کا حامل سوال ہے۔ اس وقت مسلمان امت جس ابتری اور بدحالی کے حالات میں پھنسی ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کے مفکرین و قائدین نے اس سوال کے جواب میں دین کے حوالے سے اس کے سامنے ایسے ایسے نصب العین رکھے ہیں کہ جن کے حصول کے راستوں میں سرگرداں ہوکر اس نے صرف اپنی مشکلات اور مصیبتوں ہی میں اضافہ کیا ہے اور آج مسلمان جہاد و دہشت گردی کے عنوان سے جو دنیا کے کونے کونے میں زیرِ بحث آرہے ہیں اس کے پیچھے بھی اس سوال کا غلط جواب، اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والا فکری لٹریچر اور اس کی اساس پر منظم و متحرک ہونے والے مسلم گروہ، جماعتیں اور بڑی بڑی تحریکیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔


Edited by: isfi22 on Wednesday, June 16, 2010 12:57 PM
aslammir

PAKISTAN
Posted - Tuesday, May 25, 2010  -  3:17 PM Reply with quote
You have posted very important question. You are true that Muslims have lost their precious time, energies and blood in following goals which even their God did not demand from them.I think the basic goal of every Muslim and Islamic movement should be the attainment of Tazkiya nafs for seeking the pleasure of Allah and success in the hereafter as its result.
samra

UNITED KINGDOM
Posted - Tuesday, May 25, 2010  -  4:12 PM Reply with quote
How do we convey the tazkyyah e nafs message to Non Muslims? Here in UK 90% of the people we live and work with come from other religions. This is the point on which a conflict has happened between Dr.Henna and other Almawrid brothers here in UK. She thinks that looking at so many social issues in the society here, she feels that every human being needs help regardless of caste, creed and religion, but the other almawrid brothers working here insist that the tazkyah e nafs message must be limited for Muslims only. Don't you think it's a bit selfish?
isfi22

PAKISTAN
Posted - Tuesday, May 25, 2010  -  4:30 PM Reply with quote
Fantastic, thrilling and precise answer by aslammir, and good question by samra. Insha Allah i will comment and reply later in detail.

Edited by: isfi22 on Wednesday, June 16, 2010 12:58 PM
samra

UNITED KINGDOM
Posted - Tuesday, May 25, 2010  -  8:29 PM Reply with quote
Thank you but I have just copied Dr.Henna's email message :P
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, May 26, 2010  -  7:01 AM Reply with quote
میرے محترم بھائی اسلم میر نے جو جواب دیا ہے وہ بلاشبہ اس امت کی پچھلی دو صدیوں کی تاریخ میں ایک انوکھی علمی دریافت ہے ۔ خدا کی کتاب کا تدبر و تفکر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اس میں یہ بات ایک واضح اور دوٹوک فیصلے کی حیثیت سے نمایاں نظر آئے گی، مگر مسلمانوں کی سب سے بڑ ی علمی و تاریخی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ انہوں نے اپنے افکار و تصورات کی اساس خدا کے کلام کو بنانے کے بجائے پہلے سے چلے آتے نظریات یا نئے زمانے کے پیدا کردہ حالات اور اپنے وقت کے دورِ رواں کے ابھرتے اور غلبہ حاصل کرتے فلسفوں اور نظام ہاے حیات کے تناظر و ردِ عمل کے نتیجے میں بننے والے اپنے رجحانات کو بنایا ہے ۔ ملت مسلمہ کی یہ بڑ ی سنگین درجے کی غفلت اور اس کے نتیجے میں نہایت افسوسناک سطح کی بدقسمتی رہی ہے کہ خدا کی کتاب کو حکم و میزان اور برہان و فرقان نہ بنانے کے باعث اس نے فکر و عمل کی بے شمار کجیوں اور کوتاہیوں کو اپنے درمیان جگہ مہیا کی اور پروان چڑ ھنے دیا۔ نتیجتاً کتنے ہی مخلص و صاحبِ جوش و جذبہ مسلمان غلط راستوں میں اسلام کی سربلندی اور غلبے کی آرزوؤں اور امنگوں میں سرفروشیوں اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے ۔

لیکن یہ ایک واضح و روشن حقیقت ہے کہ اسلام ایک انسان کے سامنے تزکیۂ نفس کے نصب العین کے علاوہ کوئی اور مقصد و ٹارگٹ نہیں رکھتا۔ حکومت الہیہ کا قیام یا اقامت دین اپنے جدید معنوں میں جیسے نظریات اور مطالبات دین اسلام کے لیے سراسر اجنبی اور نامانوس ہیں ۔ جہاد و تشدد اور جبر و ا کراہ کے بل بوتے پر اگر لوگوں کو ایمان و اسلام کے حلقے میں لانا مقصود و مطلوب ہوتا یا شرعی احکام و قوانین کا بالجبر یا احتجاج و مارچ جیسے ہنگاموں کے ذریعے نفاذ و رواج مطلوب و مفروض ہوتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے یہ کام خود ہی کیوں نہیں کر دیے ۔ اور کیوں بلاوجہ اپنے بندوں کو لڑ انے اور باہم فساد و خونریزی مچانے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور پھر کیوں اپنی کتاب میں اس طرح کے واشگاف اعلانات فرمائے کہ ’لا ا کراہ فی الدین‘ دین کے معاملے میں کوئی جبر (روا) نہیں ۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کی ابتدائی زندگیاں کیوں ان مقاصد کے حصول کی جدوجہد سے بالکل خالی اور کفار کے ہر طرح کے ظلم و ستم اور شقاوت و قساوت کے مقابلے میں صبر و برداشت اور تحمل و اعراض سے بھری نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ بہت سے اصحاب ایمان لانے کے بعد اسی دور میں دنیا سے وقتاً فوقتاًرخصت بھی ہوتے رہے ۔ تو کیا وہ دین کے نصب العین کو جاننے اور اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرنے کی سعادت پانے سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی بعد کی زندگیاں بھی موجودہ زمانے میں مشہور و رائج مفاہیم کے لحاظ سے ان مقاصد اور ان کے حصول کے لیے موجودہ طرز کی کاروائیوں اور حکمت عملیوں سے خالی ہیں لیکن ہم ان سے محض طولِ بحث سے بچنے کے لیے صرف نظر کر لیتے ہیں کیوں کہ ان میں خدائی سزا کے بطور ہونے والے جنگ و قتال کو غلط تعبیر و تشریح کر کے اپنے نظریات کے حق میں استدلالی مواد کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ۔

تزکیۂ نفس مشہور و معروف اسلامی اصطلاح ہونے کی وجہ سے بظاہر سادہ سی بات نظر آتی ہے مگر حقیقتاً یہ پوری زندگی اور اس کے تمام شب و روز جاری رہنے والی ایک مستقل و مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔ اسی کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا گیا ہے اور قرآن کے چار مقامات پر خدا کے نازل کردہ کتاب (شریعت) اور حکمت (ایمان و اخلاقیات) کی تعلیم کو اس کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ کتاب و حکمت خدا کے پورے دین کی تعبیر ہے ۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلام سے ملا ہوا دین قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے اور یہی قرآن و سنت وہ مصادر و منابع ہیں جن میں یہ کتاب و حکمت پورے کا پورا موجود ہے ۔

آسان لفظوں میں ہم اسے دین کا علم و عمل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تو گویا کہ تزکیہ کے حصول کے لیے دین کے علم و عمل سے واقف اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ دین کا علم انسان کے فکر کا تزکیہ کرتا ہے اور دین کے اعمال اس کے ظاہری وجود کو پاک صاف بناتے ہیں ۔ توحید و رسالت پر ایمان، آخرت پر اعتقاد اور ملائکہ وغیرہ غیبی حقیقتوں پر یقین، اسی طرح کھانے پینے کے معاملات میں حلال و حرام اور خبیث و طیب کی تمیز انسان کے علم وفکر اور اس کے عمل و اخلاق کی پاکیزگی کی چند نمائندہ مثالیں ہیں ۔

بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دین کا مقصود و نصب العین تزکیہ کا حصول ہے اور یہی ہر ہر فرد انسانی کا مطلوب و نشانہ ہونا چاہیے ۔ اسی کی بنیاد پر انسان کی نجات اور جنت میں اس کے مقام کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ اور یہ ایک ایسا ٹارگٹ ہے کہ جس سے انسان زندگی کے کسی بھی لمحے اور موڑ پر غافل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہر وقت اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ علم و عمل کی کوئی گندگی یا آلائش اس کے تزکیے کو متأثر کرڈالے ۔ لہٰذا یہی وہ جہاد ہے جو زندگی بھر جاری رہتا اور ایک مؤمن و مسلم کو ہر پل بیدار و ہوشیار رکھتا ہے ۔

مزید آسانی کے لیے ہم اسے خدا اور بندوں کے حقوق کے عنوان سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اصل میں ایک انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ خدا و خلق کے حقوق پورے کے پورے ادا کر دے ۔ وہ خدا کا نیازمند بندہ اور اس کی مخلوق کا مہربان و مخلص اور ہمدرد و خیرخواہ بن کر جیے ۔ ایسا انسان ایک بلند اخلاق انسان، دوسروں کے لیے بے ضر ر و بے مسئلہ شخصیت اور خدا کا آخری حد تک فرماں بردار و وفادار بندہ ہو گا۔ اور اسی روش پر مبنی اس کی زندگی اسے نجات و فلاح کا حق دار بنائے گی۔ایسا شخص ایمان و عمل صالح کی مکمل تصویر ہو گا۔ خدا کے لیے سراپا خضوع و تذلل، عاجزی و انکساری اور انسانوں کے لیے سراپا رحمت و شفقت، رأفت و عنایت ہو گا۔

تزکیہ اصلاً روحانی مشاہدات یا کرامات و خارق عادت کمالات کے حصول کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب سادہ طور پر علم و عمل کو ہر طرح کے فسادات، آلائشوں اور خباثتوں سے پاک بنانا اور اس پاکیزگی کو بڑ ھاتے رہنا ہے ۔ جس طرح مؤمن کا سفرِ معرفت کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح تزکیے کا میدان لامحدود ہے اس کا بھی کوئی کنارہ اور سرحد نہیں ہے ۔ یہ بڑ ھتا گھٹتا رہتا ہے لیکن اگر بڑ ھاتے رہو تو کبھی بڑ ھنا بند نہیں ہوتا۔ الغرض روز مرہ زندگی میں اخلاق و شرافت اور تہذیب و آداب کے ساتھ جینا اور توہمات و خلاف حقیقت تصورات و اعتقادات سے خود کو بچانا، اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ جب تک زندگی باقی ہے تزکیے کے حصول و افزائش کی جدوجہد چلتی رہتی ہے اور زندگی کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے ، اس سے پہلے کبھی نہیں ۔

محترم بہن سارہ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ ہم غیر مسلموں تک تزکیۂ نفس جو کہ اسلام کا اصل مقصود ہے ۔ اس کا پیغام کیسے پہنچائیں ۔ میں گزارش کروں گا کہ اس طرح کے ماحول میں دعوت کی ترتیب کیا ہو گی اس کا بیان خود قرآن مجید میں یہ ہے کہ بنیادی مسلمات سے بات شروع کی جائے ۔ اس دنیا کی سب سے بڑ ی سچائی اور اس عالم کی سب سے برتر حقیقت اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کا کسی نہ کسی شکل میں اقرار و تصور رکھتے ہیں ۔ اسے ہی گفتگو کی اولین بنیاد بنایا جائے ۔ خدا کے وجود، اس کی کارفرمائی، اس کی ہدایت، اس کی پسند و ناپسند، آخرت ، اس کے نمائندہ پیغمبرانِ گرامی، اس کی نازل کردہ آسمانی کتابیں اور عالمی طور پر انسانیت کا مشترکہ ورثہ و سرمایہ بنیادی اخلاقیات جیسے موضوعات پر دلنشین، سنجیدہ، ہمدردانہ اور خیرخواہانہ انداز میں بات شروع کی جائے ۔ شرک کی نفی کی جائے ، اس کا بے بنیاد، غیر علمی و عقلی اور سراسر خلاف فطرت ہونا جیسے پہلو واضح کیے جائیں ۔ اسلام کے تاریخی استناد اور جدید حقائق و انکشافات کے اسلامی معتقدات و تعلیمات کے حق میں تائیدی بیانات و عنوانات کو زیرِ بحث لایا جائے ۔

خیر اس میں اصلاً تو اس پہلو کو دیکھا جائے گا کہ مخاطب کون ہے ؟ اس کی ذہنی و فکری سطح کیا ہے ؟ اس کے لیے کس ٹاپک اور اشو پر بات کرنا مفید و مؤثر ہو سکتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ میں تو اس سلسلے میں بڑ ی انوکھی انوکھی مثالیں ملتی ہیں کہ مثال کے طور پر کسی نے اسلامی حکومت کے سربراہ کو قانون کی ماتحتی کرتے اور عام آدمی کی طرح عدالت میں حاضر ہوتے دیکھا تو اسے اسلام کی یہ مساوات اور عدل و انصاف پسندی کے یہ غیر معمولی طور پر ممتاز پہلو اتنے پسند آئے کہ وہ اسی بنیاد پر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر معمولی ایثار و عطا اور آپ کے برتر اخلاق و اوصاف سے قائل ہوکر اسلام لے آیا، کوئی قرآن کے کسی حصے یا آیت کو سن کر اس قدر متأثر ہوا کہ محض یہی تجربہ اس کے قبول اسلام کا سبب بن گیا۔ وغیرہ وغیرہ

لہٰذا اس باب میں مختلف لوگوں کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہی مفید و مناسب ہو سکتا ہے ۔ اس کا فیصلہ اس شخص کو کرنا ہے جسے کسی غیر مسلم شخص سے سابقہ پیش آیا ہے اور وہ اسے اسلام کی دعوت پہنچانے کا جذبہ رکھتا ہے ۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے حلقے کے کسی اہل علم و صاحب فہم شخص سے اس غیر مسلم کی ملاقات کرادی جائے ۔ غرض اس معاملے میں بنیادی بات یہ ہے کہ اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے مسلمات اور اتفاقی بنیادوں پر توجہ دی جائے اور بات اساسی پہلوؤں اور اخلاقی بنیادوں سے شروع کر کے آگے بڑ ھائی جائے ۔ قرآن کا کوئی بہتر ترجمہ یا کسی اسلامی مفکر و ا سکالر کی کوئی اچھی دعوتی یا اسلام کے تعارف پر مبنی کتاب بھی اس سلسلے میں کسی غیر مسلم کو مطالعے کے لیے دی جا سکتی ہے ۔ بس یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اپنے کسی بھی قول و عمل سے اسے بدکایا اور بدظن نہ کیا جائے بلکہ ہر ہر ادا سے اس کا دل موہ لینے اور اسے متأثر کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بالخصوص اپنے اعلی اخلاق و کردار اور شائستہ برتاؤ اور ہمدردانہ و خیرخواہانہ رویوں کے ساتھ اس کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے ۔

پھر جب کوئی اسلام کے قریب ہوجائے اور اس کے دائرے میں آجائے تو ایک ترتیب و تدریج کے ساتھ اسے روز مرہ کے آداب و فرائض، اسلام کی دوسری تعلیمات، احکامات اور تفصیلات بتائی جائیں ۔ اسی میں تزکیۂ نفس کے مقصود و مطلوب اصلی ہونے کی بات بھی آجائے گی۔

باقی آپ نے محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کے جس قضیے کا ذکر کیا ہے ، میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ تاہم ان کی راے مجھے زیادہ معقول و مناسب اور مضبوط معلوم ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے ۔ اس کا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے ۔ وہ فطرت و وجدان کے شعور و رجحانات، اخلاقی احساسات، صحف انبیا اور ایسے عقلی و تاریخی مسلمات پر کھڑ ا ہوا ہے کہ ہر مسلم و غیر مسلم کے ساتھ پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ اس کے حوالے سے گفتگو کی جا سکتی اور اس کے سامنے اس کی دعوت رکھی جا سکتی ہے ۔ اس معاملے میں ہرگز کوئی رکاوٹ اور پابندی نہیں ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام کی ترجمانی و نمائندگی کرنے والے اہل اور لائق انسان ہونا چاہیے ۔

اصل مقدمے کی تفصیلات اور فریقین کے خیالات اور استدلالات اگر میرے سامنے ہوتے تو میں بھی تفصیل کے ساتھ کسی جانب اپنے رجحان اور اس کے دلائل عرض کر دیتا۔ چونکہ تفصیلات ہمارے سامنے نہیں ہیں اسی لیے ہم اوپر دیے گئے اپنے اصولی و اشاراتی بیان ہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔
aslammir

PAKISTAN
Posted - Wednesday, May 26, 2010  -  2:20 PM Reply with quote
Thank you isfi sahib for the thought-provoking post! Now plz will you shed some light on the factors which made Muslims derail from the right course(manhaj) of dawah and got them embroiled in movements and activities which have nothing to do with the spirit of the Quran.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, May 26, 2010  -  4:04 PM Reply with quote
Yes sure brother, why not but later. Give me some time. In this moment i only want to say that i like so much creative and healthy discussions and opinion exchange. Insha Allah you will find me trust able in this regard. Plz remember me in your sincere prayers.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, May 27, 2010  -  10:49 AM Reply with quote
محترم بھائی اسلم میر آپ نے بڑ ا اچھا سوال کیا ہے لیکن یہ ایک ایسا ٹاپک ہے جو تفصیلی جواب بھی چاہتا ہے اور اس معاملے میں یہ امکان بھی پوری طرح موجود ہے کہ اس تناظر میں سوچنے سمجھنے اور غور کرنے والوں کی راے اور تجزیات مختلف ہوں ۔

ان تمہیدی گزارشات کے بعد میں بغیر کسی توقف کے عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک مسلمانوں کا اپنے اولین مثالی ادوار کے بعد بتدریج مختلف فرقوں ، مسالک اور گروہوں میں بٹتے چلے جانا اور علم و فکر کا میدان ہو یا عمل و طریقۂ کار کے شعبہ جات، ہر ایک کے معاملے میں بے شمار را ہوں ، راستوں اور پگڈنڈیوں میں منتشر و تتر بتر ہوجانا اور اس سفر میں باہمی دشمنیوں ، عداوتوں اور تکفیر و تضلیل بازیوں بلکہ اس سے بھی آگے بڑ ھ کر قتال و جدال اور باہمی خون ریزیوں تک کے واقعات سے اسلامی تاریخ یا مسلمانوں کی تاریخ کو بدنما داغ دھبوں سے بڑ ے پیمانے پر داغدار بنادینا اور پھر بالخصوص پچھلی دو تین صدیوں میں جہادی و متشددانہ افکار سے متأثر و مغلوب ہوکر ساری غیر مسلم دنیا کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے جہاد و قتال اور مختلف شکلوں میں لفظی و قلمی اور لسانی و ہتھیاری اور احتجاجی و مظاہراتی اور نہ جانے کن کن صورتوں میں نبرد آزما اور برسرجنگ و جدال ہونا جیسے تمام سانحات کے بہت سے عوامل و اسباب ہیں جن کے باعث یہ تمام افسوسناک تفصیل ایک واقعی دفترِ حقیقت و واقعہ بنی ہے ۔ ذیل میں میں اپنے علم و فہم کے مطابق ان اسباب و وجوہات کی کچھ تفصیلات عرض کیے دیتا ہوں :

۱) سب سے پہلی چیز، مسلمانوں کا قرآن مجید سے بتدریج اشتغال کم ہوتا چلا گیا۔ آہستہ آہستہ فقہ و حدیث مسلمانوں کی توجہات اور تحقیقات و تدقیقات کا مرکز و محور بنتے چلے گئے ۔ فقہ و حدیث سے اشتغال و اتصال اپنی جگہ گو کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے غیر دینی یا قابل اعتراض قرار دیا جائے لیکن ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ قرآن بالکل ہی پس پشت چلا گیا اور نظر انداز ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ یہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مسلمانوں کا تعلق بالقرآن مضبوط و مستحکم رہے ، اُن میں سے بعض نے اپنے اس بڑ ھے ہوئے جذبہ کی زور دار لہروں میں بہہ کر قرآن کے فضائل اور اس کے مطالعے کے ثمرات و بشارات پر مبنی عجیب و غریب حدیثیں تک گھڑ ڈالیں ۔ قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کی مخصوص تعداد میں تلاوت کے جو ہوش ربا فضائل معاشرے کے ماحول میں عام سننے کو ملتے یا بعض دیگر مخصوص سورتوں کی خصوصی تلاوت و ورد سے مختلف مشکلات و امراض سے شفا و نجات اور طرح طرح کے آفات و مصائب سے چھٹکارے کی پیشن گوئیاں ہر طرف سنائی دیتی ہیں ، یہ اسی اعراضِ قرآن کے ظاہرے کے رونما ہونے کے بعد قرآن سے محبت و انس رکھنے والوں کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے گھڑ ے گئے اس طرح کے روایات کے ذخیرے کے کمالات اور کرشمے ہیں ۔ عام معلوم بات ہے کہ انہونی باتیں اور معمولی کاموں پر اجرِ کثیر کی بشارات اور بلاؤں اور آفتوں سے بچنے کے وظائف اور نسخے عوام میں بہت جلد اتنا مقبول و مروج ہوجاتے ہیں کہ پھر ان کو جڑ سے اکھاڑ نا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں رہتی۔

۲) جس طرح قرآن سے دوری نے وضع احادیث جیسے فتنے کو جنم دیا، اسی طرح دنیا کے مال و اسباب کی فراوانی اور اموالِ غنیمت کے راستوں سے آنی والی معاشی و مادی خوشحالی نے مسلم دنیا میں دنیا پرستی کو فروغ دینا اور آخرت سے بے توجہی اور غفلت کو عام کرنا شروع کر دیا۔ اس ظاہرے نے کچھ اور نیک دل اور آخرت پسندی کا رجحان رکھنے والوں اور دنیا اور اس کے اموال و اسباب اور رونق و رنگینی سے پرہیز کرنے والوں اور انہیں فتنہ و فساد کی دلدل سمجھنے والوں کو اکسایا۔ انہوں نے لوگوں کو دنیا کی محبت و پرستش سے نکالنے کے لیے دنیا اور اس کی گرویدگی کی مذمت کرنا اور لوگوں کو آخرت پسندی کی طرف مائل کرنے کے لیے وعظ و نصیحت کی محفلیں منعقد کرنا شروع کیں اور اس بات پر زور دیا کہ لوگ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اپنی ترجیح بنائیں اور اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوں ۔ یہ لوگ عملاً بھی دنیا اور اس کی آسائشات و لذات سے کتراتے اور سادہ زندگی اور سادہ رہن سہن پر اصرار کرتے تھے ۔ ابتدا میں یہ معاملہ بس یہیں تک تھا۔ لیکن اس نے مزید ترقی کی اور پھر یہ آگے بڑ ھ کر تصوف کے ایک نظریے اور ادارے کی شکل میں نمایاں سے نمایاں اور اسلامی دنیا میں زیادہ سے زیادہ رائج و مقبول ہوتا چلا گیا۔ بعد میں اس نے تدریجاً اسلام کے متوازی ایک مابعد الطبیعیاتی فلسفے اور نظام عمل یا آسان لفظوں میں ایک پورے دین کی شکل و صورت اختیار کر لی۔

۳) قرآن کو عملاً چھوڑ نے کے بعد اس امت کے اہل علم فقہ و حدیث کے میدانوں میں داد تحقیق دینے میں مصروف ہوگئے تھے ۔ اس عمل نے آگے چل کر مختلف مکاتب فکر اور متعدد مسالک فقہ کے اسکولز کا روپ ڈھارا۔ ہر مسلک و فقہی ا سکول کا جداگانہ نظام اصول و فروع تھا۔ تاہم شروع شروع میں ان کے باہمی اختلافات علمی آداب کے مروج ہونے اور رسول و اصحاب رسول سے چلنے والی اخلاقی و عملی روایت کے مضبوط شکل میں موجود ہونے کے باعث باہمی احترام و محبت کی اقدار کو مٹا نہ سکے اور وہ تفرقہ و تعصب اور تکفیر و تذلیل کا ہنگامہ اور باہمی فساد و بگاڑ کے واقعات وجود میں نہیں آئے جو اس دورِ حاضر کی نمایاں ترین چیزوں میں سے ایک ہیں ۔ لیکن آگے چل کر ان فقہی اختلافات اور ا سکولز نے بھی تعصبات و گروہ بندیوں کے جراثیم پھیلانے شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ ان کی کوکھ سے برآمد ہونے والے علمی اختلافات ایسی متعصبانہ و متشددانہ صورت اختیار کرگئے کہ بعد کے ادوار میں پہلے کے ادوار کی اخلاقی و عملی روایت قائم نہ رہ سکی۔ جس کے باعث باہمی احترام بھی ختم ہوا، تکفیر و تضلیل کے فتاویٰ بھی مرتب ہوئے ، نماز کی جماعت بھی الگ ہوئی، الگ الگ مدارس و مکاتب بھی وجود میں آئے اور ان اختلافات و تفرقات نے باہمی لڑ ائی اور تشدد کے بھی مختلف رنگ اختیار کیے ۔

۴) مسلمانوں کو اسلام کی بدولت دنیا کے بیش تر حصے پر جو غلبہ و اقتدار اور بے تحاشا دولت و وسائل حاصل ہوئے اور جس طرح دنیا کے ایک بڑ ے حصے پر انہیں بلاشرکتِ غیرے حکومت و فرمانروائی کے مواقع میسر آئے ۔ ان چیزوں نے ان کے اندر عیاشی، آرام طلبی، سستی و کاہلی، نوابی، دنیا پرستی اور دیگر امراض بھی عام کیے ۔ ان کا ذہن یہ بن گیا کہ یہ دنیا پر حکومت کرنے اور عیاشی کی داد دینے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کا مقام و حیثیت ہی یہی ہے کہ وہ دنیا کی قوموں کی قیادت کریں اور ان کی دولت کو اپنی خواہشات اور عیاشیوں اور رنگ رلیوں کی مدوں میں بے دریغ لٹائیں ۔ اس ذیل میں مسلم حکمرانوں نے مسلم و غیر مسلم حکومتوں اور گروہوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی، جس طرح انہیں لوٹا اور تاراج کیا اور دنیا کے زرخیز اور وسائل و قدرتی ذخائر سے مالا مال علاقوں پر بلاجواز فوج کشی کر کے قبضہ جمائے وغیرہ، اس عمل نے بھی مسلمانوں کے مجموعی فکر و عمل پر اپنے دور رس اثرات چھوڑ ے ۔

۵) یہ تمام عوامل مختلف وقتوں میں روبعمل ہوتے رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی وسعت و پھیلاؤ اور اثرات و نتائج میں شدید ہوتے گئے ۔ تاآنکہ تاریخ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ غیر مسلم دنیا نے بیدار ہوکر اور علم و ٹکنالوجی کی دنیا میں نئی نئی دریافتوں اور برتریوں کے بل پر مسلم ممالک پر اپنا قبضہ جمالیا اور مسلمانوں کی حکومت و خلافت کو ماضی کی ایک داستان میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں ایک رد عمل شروع ہوا اور وہ جو حکمرانی اور قیادت و سیادت کی نفسیات میں جی رہے تھے اور اس کے علاوہ اپنے لیے کسی حیثت و مقام پر راضی ہونے کے لیے بالکل تیار نہ تھے انہوں نے اس صورتحال کو بدلنے اور اپنے غلبے اور حکومت و خلافت کو پھر سے قائم کرنے کے لیے تگ و دو اور جدوجہد شروع کر دی۔ سیا سی مزاحمت اور رد عمل کی اس گرمی نے بھی مسلمانوں کے درمیان بہت سے مفکرین کو اٹھایا جنہوں نے الفاظ و اسالیب کے اختلاف کے ساتھ ایک ہی دعوت اور فکر مسلمانوں کے سامنے رکھی کہ مسلمان اس زمین پر خدا کا نائب و خلیفہ ہے اور اسی کی یہ حیثیت ہے کہ دنیا کا اقتدار اور تختِ فرمانروائی اسے حاصل ہو اور دنیا کی قومیں اس کی ماتحت بن کر رہیں ۔ ایسا جب تک نہیں ہوتا اور طاغوت جب تک مغلوب نہیں ہوجاتا دنیا میں سے ظلم و فساد اور بگاڑ و برائی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ اور نہ مسلمانوں ہی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے دین پر اجتماعی طور پر عمل پیرا ہونا تو دور کی بات رہی انفرادی طور پر ہی پوری طرح عمل پیرا ہو سکیں ۔ اور یہ کہ اسلام اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ لوگ انفرادی طور پر اس سے وابستہ رہیں لیکن زندگی کے تمام اجتماعی شعبوں میں طاغوت کی حکمرانی اور غلبہ قائم رہے اور اسلامی احکام و قوانین معلق ہوکر پڑ ے رہیں ۔ یہی وہ سوچ و فکر ہے جس کی صدا اس دورِ ہنگامہ خیز میں مسلمان ملت کے مختلف اطراف سے مختلف نمائندہ اشخاص نے بلند کی اور اس زور و قوت اور تسلسل کے ساتھ بلند کی کہ وہی ان کا عمومی فکر و عمل بن گئی۔ مسلمانوں کی موجودہ تمام جہادی تحریکیں اور متشددانہ تنظیمیں اسی فکر و ذہنیت کی کوکھ سے نمودار ہوئی ہیں ۔ بیک گراؤنڈ میں نام مختلف ہو سکتے ہیں ، اصطلاحات و اسالیب اور طریقۂ کار میں بھی کچھ فرق ہو سکتا ہے ، لیکن اصلاً یہ تمام ایک ہی ماں کی بیٹیاں اور ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد دنیا پر اسلام کا غلبہ قائم کرنا اور زندگی کے تمام اجتماعی شعبوں میں اسلامی احکام و قوانین کا اجرا ہے ۔ نظام مصطفی، شریعت کا نفاذ، مطالبۂ نظام اسلامی سب اسی کے معروف اور مختلف روپ ہیں ۔

اوپر کی تفصیل اس باب میں میرے مطالعے کا ایک حاصل ہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی سوال کے جواب میں کوئی مفصل مقالہ یا مرتب و جامع مضمون تو نہیں پیش کیا جا سکتا بلکہ ایک حاصل مطالعہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ویسے بھی میں کوئی باقاعدہ محر ر و مضمون نگار نہیں ہوں ، ایک عام سا لکھنے والا ہوں ۔ لہٰذا اوپر میں نے اس باب میں اپنے فہم کے مطابق ایک نقشہ پیش کر دیا ہے جس نے مسلمانوں کو منتشر کیا اور ایسی را ہوں میں سرگرمِ سفر کر دیا جن کا کوئی مثبت نتیجہ ان کے مقدر میں نہیں آیا، انہیں کچھ ملا تو محرومی اور مسائل و آفات میں اضافے کی تاریکی۔

لیکن اس باب میں ایک اہم پہلو وہ علاج و تجاویز بھی ہیں جو اب مسلمانوں کو ان حالات اور اس بھیانک صورتحال سے نکالنے کے لیے صاحب درد مخلصین کو اپنے پیش نظر رکھنی اور زیر عمل لانی چاہیے ۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک نہایت تفصیل طلب سوال ہے ۔ لیکن میں اس کا مختصر جواب دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے پہلے مسلمانوں کو قرآن مجید کی طرف لوٹنا چاہیے اور ہر طرح کی فرقہ وارانہ سوچ و کاروائی سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اپنے اختلافات کو علمی آداب و شائستہ انداز ہی میں زیرِ بحث لانا چاہیے ۔ اپنی راے پر اصرار کے ساتھ دوسرے کے مؤقف کے صحیح و درست ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اختلاف کے باوجود دوسروں کے ادب و احترام کی اولین ادوارِ اسلام کی روایت کو زندہ اور رائج کرنا چاہیے۔ پھر عام مسلمانوں کو دین کے معاملے میں سنجیدہ ہونا چاہیے انہیں جاہل اور پیشہ ور مولوی قسم کے دینی پیشواؤں اور کم علم قسم کے واعظین و خطبا کے بجائے سچے اور محقق اہل علم سے دین سیکھنا چاہیے ۔ اسلامی اخلاقیات کو ہر ہر سطح پر پوری جانفشانی و بیداری سے اپنانے اور رواج دینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ غیرمسلموں سے نفرت و عداوت کے بجائے انہیں بھی خدا کی مخلوق محسوس کرتے ہوئے ان سے محبت و ہمدردی کا تعلق رکھنا چاہیے ۔ ہمارا دین تو جانور سے بھی اعلیٰ سلوک کی تعلیم دیتا ہے پھر غیرمسلم گھرانوں اور غیر مسلم دنیا میں پیدا ہونے کے باعث اسلام سے دور لوگوں سے کیسے نفرت کی جا سکتی اور ان کے جان مال آبرو کے حلال ہونے کے احساسات رکھے جا سکتے ہیں ۔ یقینا یہ لوگ بھی ہمدردی و خیرخواہی کے مستحق اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی سلوک و برتاؤ کے حق دار ہیں ۔

اس دور میں مسلمانوں کے درمیان مختلف ناموں سے اصلاحی مقاصد کے پیش نظر بہت سی ایسی تحریکیں اٹھ کھڑ ی ہوئی ہیں جنہوں نے آسانی کے لیے اپنے مختصر نصابات ترتیب دے رکھے ہیں ۔ ان نصابات میں ضعیف و غیر معتبر روایات، بے سر و پا حکایات اور بہت سے نت نئے اجنبی و مبتدعانہ تصورات کی بھرمار موجود ہے ۔ ایسی تحریکیں اور تنظیمیں جو دعوت دیتی اور جو تعلیمات بیان کرتی ہیں وہ اپنی مجموعی شکل میں بہت سی اسلامی اساسات و عبادات و معمولات کو سموئے ہونے کے باوجود اپنی تفصیلی ہیئت و ڈھانچے اور اثرات کے لحاظ سے بہت حد تک غیر اسلامی محسوس ہوتی ہیں ۔ عام مسلمانوں میں ان سے متعلق ہوکر بظاہر نماز و تبلیغ اور دیگر ظاہری دینی علامتوں کی تو ترویج ہوتی ہے لیکن ان کے ذریعے سے ان مسلمانوں کو فکر و عمل کے باب میں پہنچنے والے مضر اثرات بھی کم اہم اور نظر انداز کرنے کے لائق نہیں ہے ۔ ان تنظیموں کے نصابات و مواد کی اصلاح اور ان سے متعلق بے شمار مسلمانوں کے فکر و عمل کو ان تحریکوں کے موجودہ نصابات و مواد کے ذریعے پہنچنے والے نقصانات و مضر اثرات کا ازالہ بھی ایک بڑ ا مشن و میدان ہے ۔

سب سے بڑ ھ کر آج جو ضرورت ہے وہ خدا کے ساتھ اپنے ایمانی و ذاتی تعلق کی تجدید و تشکیل نو کی ہے ۔ اسے مضبوط و مؤثر اور زندہ و توانا بنانے کی ہے ۔ مسلمانوں میں مروج دینداری بہت بڑ ی حد تک بے روح اور کھوکھلی ہو چکی ہے ۔ اس میں سے روح و معنویت اور جذبہ و کیفیت رخصت ہو چکے ہیں ۔ اس صورتحال کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے ۔ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو اخلاص و حساسیت اور جذبات و کیفیات کی شمولیت کے ساتھ از سر نو استوار کرنے کی بہت ضروت ہے ۔ پھر عبادات و دینی معمولات کا رواج بھی بے شعوری کی سطح پر جاری ہے ۔ اس میں بھی جان ڈالنے اور شعور و فہم کو داخل کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کے بجائے اصل ٹھکانہ آخرت ہے اس تصور کو ایک ضمنی عقیدے اور سائڈ پر پڑ ے خیال کے مقام سے اٹھا کر ایک زندہ و جاندار حقیقت کی حیثیت سے توجہات کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔ پھر انفرادی و اجتماعی اخلاق و کردار نہایت پستی و گراوٹ کا شکار ہیں ۔ انہیں درست کرنا اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی اوصاف و کردار سے انفرادی و اجتماعی طور پر آراستہ ہونا بے حد ضروری ہے ۔

بچوں کی تربیت کا نظام و رجحان خطرناک حد تک کم یا بالکل ختم ہو چکا ہے ۔ جبکہ اس کی اہمیت اساسی و کلیدی ہے ۔ اس پہلو کو زندہ کرنے اور بچوں اور نوجوان نسل کی دینی، اخلاقی اور سماجی تربیت و نگہداشت کی روایت کو بھرپور طور پر زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کو سربلند کرنے اور اس کے عزت و وقار کر بڑ ھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سماجی و فلاحی شعبوں اور مادی و ٹکنکل علوم و سائنسز کی طرف بھی بھرپور دھیان دیں ۔ ان میدانوں میں توجہ اور ترقی کے بغیر ہم کبھی مستحکم نہیں ہو سکتے اور نہ ہی قیادت و سیادت اور اقوام عالم میں توانا و مؤثر حیثیت کے مالک بن سکتے ہیں ۔ الغرض معارفِ اسلامی کی تشکیل جدید سے لے کر اس کی بنیاد پر ایک نئے نظام فکر و عمل کو رواج دینے اور اسلامی و سماجی اخلاقیات و کردار کے باب میں بنیادی و اجتہادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کے بعد ہی ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہم دین و دنیا کے حوالے سے سرخرو ہوں اور جو انعامات و کمالات ابتدائی ادوار کے مسلمانوں کا حصہ بنے ، ہمیں بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوجائے ۔
aslammir

PAKISTAN
Posted - Thursday, May 27, 2010  -  2:36 PM Reply with quote
Thank you for the very detailed and perceptive reply!
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, May 27, 2010  -  4:04 PM Reply with quote
You are most Welcome dear. I want to share a feeling that i found that most of the participants are not taking full advantage of this platform. Topics are not creative and healthy and discussions are not worthy. I m very sorry, but i strongly feel that.
aslammir

PAKISTAN
Posted - Friday, May 28, 2010  -  3:43 AM Reply with quote
You are right! In its first days the forum used to be abuzz with discussions but then most of the participants of those days drifted off,including the moderators. Now as you have dropped in,inshallah it will again accelerate. I hope you stay here and don,t leave us in the lurch!!!!!
isfi22

PAKISTAN
Posted - Friday, May 28, 2010  -  8:11 AM Reply with quote
Dear Safimera!!!

Thanks for your detailed comments. You are right that we can explain Najat Oriented Topic in a very short statement. But you should know that people want detailed explanation with examples and descriptive interpretation of every part of that kind of short statements.

First note please that I m too weak in English, so please ignore my language’s or conversational Errors. I will only try to express my opinion and comments.

“your lecture is just a beautiful wording and ideal bunch of instructions which is just a hyopthesis but not a PRACTICAL.”

Can you explain with strong Proofs your above claim and statement for a simple student like me>>!!

“Muslim as a nation has had very shameful history just after 30 yrs of Prophet Muhammed (PBUH)....

killing each other and totally involved in lust of world...”

Your statements like the above are totally baseless Claims. You did not put any proof for that kind of Statements. And what is the answer of the conflict between the above statement and the lower one.

“Muslims were super power till 1000 yrs , not because they were accurate according to Islam ....they ruled becuase they were the best among all other nations which were present at that time .....this is GOD's Sunnah....”

If Muslims were Super Power for 1000 years only because they were the best among all the other Nations then what is the meaning of these words “Muslim as a nation has had very shameful history just after 30 yrs of Prophet Muhammed (PBUH)....

killing each other and totally involved in lust of world...”

You want and like unity among Muslims, all over the World. I assure you that all good and sincere Muslims want and like the same thing. But unfortunately it is not happening because of some other reasons, which I can not explain in this reply because it is already gone lengthy.

“You also I think believe in quran only as I noticed from your lecture (if i am wrong please tell me)...

you also belong to a school of thought ..."Only quran...no hadees"....”

Yes you are wrong I am strongly believe in Quran and Sunnah as sources of Deen and Ahadees too as record of knowledge and instructions of RasoolAllah (Peace Be Upon Him) and his footprints and ethical examples.

“Haha”

What is this? This only shows that you are not serious, just passing time. And your style of claiming without proofs shows that you can only blame and take enjoyment by doing this. I want to show you clearly that this is not the way and doings by which an individual can safe and secure his Aakhirat.

“so first save yourself as individualand then just try to do something as a nation.....”

Thanks for the advice but please note and think on it that doing good deeds and doing something for the religion and the Nation is the only way by which an individual can save his self. Selfishness and ignoring serving religion and Nation is not the way for that Goal.

My English weakness preventing me to write more words in this reply, otherwise I want to say more and more to show you and all readers that you were so far from just, honesty and proofs in your reply and commentary and you are from a specific school of thought or have very strong attraction to it.

No problem, if you try to go more then I shall Insha Allah express my complete opinion in Urdu with your permission……….

Now this time, this much is enough for putting a mirror of reality in front of you. But please note this that I don’t like unhealthy and useless debates and discussions. If you come with proofs and arguments then I will reply, otherwise I will simply ignore that what you are claiming, blaming and hitting.
aslammir

PAKISTAN
Posted - Friday, May 28, 2010  -  7:31 PM Reply with quote
Plz Asfandyar ignore negative remarks of some participants. I read and treasure every word of yours.I wish I could write here in Urdu. I am not very smart with computers.I don,t know how you write here in Urdu.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, May 29, 2010  -  7:18 AM Reply with quote
Dear Friend Aslammir!!
Salam!!!

You are quite right in advising of ignoring negative remarks of some Participants. But I don’t think so that you assume at very first time that a Participant have negative mentality and views etc.

I like discussions, but when I feel its going on the wrong path and a Participant is not behaving seriously and good mannerly, I stop participating in that discussion.

I don’t know Safimera and his attitude and approach; it was my first experience to talk with this participant. So I replied and try to open the weakness and unjust approach, used in this participant’s comments.

By the way leave it now, you please carry on writing in English, I can not write English properly and frequently, but can understand much better. You don’t put your self in difficulty because of me.

Your question under your posted topic “ttainment of Tazkiya-e-Nafs” is yet due on me. I will Insha Allah reply in detail, but don’t know when it is possible for me. But it is my commitment that I shall do it surely, if God and Life give me chance and permission.

Thanks so much for your kindness and appreciation. Please keep remember me in your Sincere Prayers.

God bless U and all Muslims and Whole Mankind. (Aameen)
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, May 29, 2010  -  8:09 AM Reply with quote
ڈیئرسیفے میرا!!!
سلام!!!

پہلے تو اس بات کی پیشگی معذرت کہ شاید میں نے اردو میں آپ کا نام ٹھیک نہ لکھا ہو۔ اور دوسرا میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آیا آپ میل ہو یا فی میل؟؟؟


خدا کی پناہ کہ میں آپ کو کافر یا گمراہ کہنے کی جسارت کروں۔ میں اس کام کا حق دار صرف اور صرف خدا کو سمجھتا ہوں اور اس کے پیغمبر بھی اگر کسی کے کفر و ضلالت کا دوٹوک اعلان فرماتے تھے تو اسی کے علم و اطلاع سے آگاہی پاکر اور اسی کے اذن و اجازت سے۔ میرے کہنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ آپ نے جس انداز میں مجھے صرف قرآن کا ماننے والا گمان کرکے ماحول کو لائٹ رکھتے ہوئے ایک زوردار قہقہہ لگایا تھا، اس سے مجھے یہ گمان ہوا تھا کہ شاید آپ کا رجحان و میلان اسی طرح کے کسی اسکول آف تھاٹ کی طرف ہےجو آپ میرے بھی اسی مکتبۂ خیال سے ہونے کے گمان پر اتنا زوردار قہقہہ لگارہے ہو کہ مجھے محسوس ہوا کہ شاید آپ سنجیدہ نہیں ہو اور بس منفی ریمارکس دے کر ٹائم پاس فرمارہے ہو۔ آپ کے تازہ جواب سے میں نے بھی مبالغہ آمیز سنجیدگی ترک کرکے لائٹ موڈ بنالیا اور آپ کے حوالے سے اپنی اس غلط فہمی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ خیر یہ میرا آپ کے میرے بارے میں اہل قرآن ہونے کے گمان اور اس پر ایک گرجدار قہقہہ لگانے کے باعث آپ کے حوالے سے جوابی گمان تھا۔ آپ کے پاس وضاحت کا پورا پورا حق ہے اور میں پیشگی اس کا اعتراف کیے لیتا ہوں۔لیکن جہاں تک آپ کے اس احساس کا تعلق ہے کہ کل کلاں ناراض و برہم ہوکر میں آپ کو اللہ معاف کرے، نہایت جسارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کے دائرے سے خارج قرار دے دوں گا، تو آپ اطمینان رکھو کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ محض ایک مغالطہ ہے جو کسی وجہ سے آپ کو لاحق ہوگیا ہے۔


اسلامی تاریخ کے شروع کے مثالی ادوار اور چند حکمران شخصیتوں کو چھوڑ کر آپ نے اسلامی تاریخ کا جو بدنما اور بھیانک روپ دیکھا اور دوسروں کو دکھانے کے لیے اپنی دونوں تحریروں میں اس کا ویسا ہی تاریک و بھیانک نقشہ کھینچا ہے، میں بغیر کسی توقف کے بطور مفروضہ یہ مان لیتا ہوں کہ چلو جیسے آپ نے فرمایا کہ اسلامی تاریخ کے کچھ ادوار اور چند حکمرانوں کو چھوڑ کر باقی سارے ادوار و حکمران تاریکی، شرمندگی اور شر و شقاوت ہی کی تصویریں اور تمثیلیں ہیں۔ تو اس سے کیا ثابت ہوا؟ کیا یہ کہ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار اور ہمارے درمیان کے ادوار و صدیوں میں اسلام معدوم ہوگیا یا اس میں رد و بدل اور تحریف ہوگئی؟ یا یہ کہ یہ سب اسلام ہی کا کیا دھرا اور اسی کے اثرات و فروغ کے نتائج ہیں؟


اگر ایسا کچھ نہیں ہوا، اسلام آج بھی پوری آب و تاب اور بے آمیزی کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے، اس کی تعلیم و ہدایت آج بھی ایک محفوظ و مستند حقیقت ہے اور مسلمان حکمرانوں کی گمراہیاں اور عیاشیاں اس سے انحراف و روگردانی کا نتیجہ ہیں نہ کہ اس کو اپنانے اور زیرِ عمل لانے کا۔تو پھر اگر واقعتا ایسا ہی ہوا بھی ہو جیسا کہ آپ کا دعویٰ اور فرمان ہے تب بھی کوئی خرابی اور بگاڑ پیدا نہیں ہوتا، بس یہ ہوگا کہ مسلمانوں سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی تاریخ پر جھوٹے فخر میں مبتلا مت ہو اور اس کے اصل چہرے کے یہ یہ تاریک و بدترین نقش و نگار اپنی نگاہوں کے سامنے رکھو۔گو شروع کے چند ادوار اور یہ گنتی کے چند حکمران تو قابل توقیر و فخر ہیں لیکن اس کے آگے بس تاریکی ہی تاریکی ہے جس پر تمہیں سینہ پھلانے کے بجائے شرم سے پانی پانی ہوکر اس پانی کو ایک حوض کی شکل دے کر اس میں ڈوب مرنا چاہیے!!!


لیکن اس سےفرق کیا پڑے گا۔ ایک مسلمان پر اسلام کی پابندی و پیروی لازم ہے نہ کہ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں تختِ سلطنت پر براجمان ہونے والے مختلف حکمرانوں کی۔ اسلام آج بھی محفوظ و غیر محرف حالت میں موجود ہے، انہیں اس پر عمل کرنا اور اس کے مطابق اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو منظم کرنا ہے۔ اسی سے وہ دنیا میں ہدایت یافتہ ٹھہریں گےا ور آخرت کی فلاح و نجات کے حق دار قرار پائیں گے۔ ایسی حالت میں اگر اسلامی تاریخ کے پچھلے ادوار لائق تنقید و افسوس احوال کا مرقع ہوں بھی تو اس سے اسلام پر کیا حرف آتا ہے جب کہ یہ واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ اسلام سے انحراف کا نتیجہ تھا نہ کہ اس کی پیروی اور مطابقت کا۔ اور پھر آج مسلمانوں کو یہ کالا آئینہ دکھاکر اور اپنے تاریخی چہرے کے بدترین داغ دھبے اور اپنے ہسٹاریکل وجود کے سیاہ ترین کارنامے دکھا کر ان سے کیا مزید منوانا اور کرانا مقصود ہے؟


میں پھر واضح کردوں کہ یہ سب باتیں بطورِ مفروضہ میں نے تسلیم کی ہیں۔ ورنہ حقیقت اتنی دلخراش نہیں ہے جتنا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔ یہ چونکہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مطالعے اور راے تعمیری کے لیے بے تحاشا مواد و لٹریچر موجود ہے اور اس حوالے سے مختلف اذہان و اشخاص اپنا اپنا رجحان رکھتے بھی ہیں۔ اس لیے میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ میں تو معذرت کے ساتھ اس ذہن کا آدمی ہوں کہ چلو بھائی مان لیا کہ اسلامی تاریخ یا صحیح تر لفظوں میں مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی اچھائی، خوبی اور کمال ہرگز موجود نہیں ہے مگر کیا اسلام کے بارے میں بھی ایسا کہنا درست ہے؟ اگر نہیں تو چھوڑو تاریخ کو، ہماری ہدایت و نجات کا تعلق اس حوالے سے کسی بات کی تائید و تردید میں کھڑے ہونے سے نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیم و ہدایت کو بے آمیز انداز میں جاننے اور اس پر کاربند ہونے سے ہے۔ لہٰذا آؤ تم اور میں ان بحثوں میں الجھنے کے بجائے اپنی ہدایت اور نجات کی فکر کریں۔ اور اسلام کو اچھے طریقے سے جان کر اس پر زندگی بھر عمل پیرا رہیں، تاکہ کل خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوکر ہمیں اُسی طرح شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے جیسا کہ آج تمہارے بقول اسلامی تاریخ یا مسلمانوں کی تاریخ کے بھیانک احوال کا تقاضا ہے کہ ہم فخر کرنے کے بجائے شرم سے سر جھکالیں۔


لہٰذا میں اپنے مخاطب سے بھی بصد احترام یہی درخواست کرتا ہوں کہ جن امور کا تعلق اس دنیا میں ہماری ہدایت اور آخرت میں ہماری نجات سے ہے ان پر ضرور گفتگو کیجیے لیکن جو معاملات اس دنیا میں نہ کبھی طے ہوئے ہیں اور نہ بظاہر آئندہ ان کے سیٹل ہونے کی کوئی توقع ہے اور نہ خدا کی بنائی ہوئی انسانی فطرت اور نظامِ کائنات کے پیش نظر کبھی سلجھ سکتے ہیں ان پر خوامخواہ بحث مباحثے میں الجھنے سے آپ اور میں پرہیز ہی کریں تو بہت اچھا ہوگا اور ہمارے دین و دنیا کو اس سے نقصان تو کوئی نہیں ہوگا، فائدے بہت ہوں گے۔

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

1 2 3 4 5
Next page >>
Page 1 of 5


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker