Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
<< Previous Page
1 2 3 4
Next page >>
Page 3 of 4

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, September 1, 2010  -  6:07 AM Reply with quote
اس وقت مسلمان افراد و اقوام کے ساتھ جو مسائل اور صورتحال درپیش ہے، اُس میں جہاں عام فطری و تاریخی عوامل و حقائق کا عمل دخل ہے وہیں اسلام کے حوالے سے مسلمانوں کی فکر اور ان کے عمل میں در آنے والی بہت سی قابلِ اصلاح کجیوں اور غلط فہمیوں اور تعلق و ربط کی سطحیتوں کا بھی گہرا اثر ہے۔ مسلمان افراد کا اس وقت بیش تر معاملہ یہ ہے کہ ان کے اسلام کے دامن وابستہ ہونے اور خود کو مسلمان کہنے بتانے کے پیچھے سوائے نسلی و خاندانی و پیدائشی طور پر مسلم گھرانوں میں متولد ہونے اور مسلم قومیت کی فضاؤں میں پروان چڑھنے کے اور کوئی بنیاد و سبب نہیں ہوتا۔ ان کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ ان میں سے بیش تر افراد اسلام کے علمی و تحقیقی و تجزیاتی و تقابلی مطالعے کے بعد سوچ سمجھ کر اسلام سے جڑے ہوئے ہوں اور اچھی طرح اسلام کی بنیادوں اور جزئیات و علامات و تفصیلات سے براہِ راست شعوری درجے میں واقف و آگاہ ہوں یا پھر اگر قدرت نے انہیں اسلام سے وابستہ گھرانوں ہی میں پیدا کردیا تھا تو بعد میں شعور و فہم کی حدود میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے اسلام سے کوئی گہری واقفیت اور اس کے حوالے سے کوئی واقعی معرفت بہم پہنچائی ہو۔ نہیں بلکہ ان میں سے اکثریت بلکہ شاید تمامتر افراد و اشخاص کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چونکہ مسلم گھرانوں اور اسلام کے نام لیوا خاندانوں میں پیدا ہوئے اس لیے مسلمان ہیں اور پھر اسلام کے حوالے سے ان کے ہاں جن افکار و معتقدات و تصورات و معمولات کا چلن ہے بھی، اس کا سبب و مأخذ بھی بس اسی گھرانے اور خاندان یا زیادہ سے زیادہ اپنے معاشرے اور قوم کے حدود میں پایا جانے والا اسلامی فہم اور اسلام کے نام پر موجود عملی اثاثہ و ڈھانچہ ہے۔ عام طور پر نہ کوئی اس بات کا موقع پاتا ہے کہ اپنی واقفیت کو اسلام کے حوالے سے براہِ راست اس کے اصل مصادر و ریسورسز سے متعلق کرے اور نہ ہی یہ سوچ و رجحان ہمارے ہاں کسی بھی درجے میں مقبول و معمول نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مسلم افراد و گروپس کے اسلام میں بے حد فرق و بعد اور تضاد و اختلاف پایا جاتا ہے اور ان مختلف جگہوں کے اسلام کی سماعت و جھلک یہ منظر پیدا کرتی اور سماں باندھتی ہے کہ یہ گویا ایک ہی دین و مذہب کی تعلیمات و تشریحات کا اختلاف نہیں ہے بلکہ شاید اس اسلام نامی دین و مذہب کے مختلف ایڈیشنز ہیں جو آپس میں جزئی و تفصیلاتی امور میں بے حد و شمار جگہوں پر مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے گہرے اساسی و بنیادی اختلافات بھی اپنے اندر رکھتے اور اس طرح تشریحی و تعبیری اختلاف سے آگے بڑھ کر ایڈیشنی اختلاف کا تأثر دیتے ہیں۔

اسی صورتحال کے یہ نتائج ہیں کہ اس وقت عالمی سطح پر مسلمان جن افکار و نظریات اور جن پرتشدد و جہادی اقدامات کا مظاہرہ کررہے ہیں ان کی تہہ میں اور ان کی بنیاد میں بھی گو اسلام کے نام و حوالے سے بہت سے مفکرین کے افکار و تشریحات کارفرما ہیں لیکن اسلام کی اصل تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں ان کو قبول کرنا اور جواز کے حدود و دائرے میں لانا ممکن ہی نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کے عملی و اخلاقی معاملات میں جو بے پناہ گراوٹیں اور پستیاں اور عمومی شرافت و انسانیت کے معیار سے بھی گری ہوئی خامیاں ایک تسلسل کے ساتھ چلی آرہی اور ان کے سیرت و کردار کا علامتی تعارف اور شناختی لاحقہ بن گئی ہیں، ان کا اسلام کے زاویۂ نگاہ میں معتبر و مقبول قرار پانا بھی بالکل محال ہے۔ اس ابتر صورتحال کا زور و شور سے یہ تقاضا ہے کہ ہم ان موجودہ بڑی تعداد میں پائے جانے والے مسلمانوں کو معیاری درجہ دے کر ان سے اسلامی حوالے سے سماجی و معاشرتی سطح پر کسی تبدیلی، اصلاح اور نتیجے کی توقع کرنے کے بجائے ظاہراً اسلام کے حلقہ بگوشوں اور اسلام سے ظاہری دوری رکھنے والے دونوں طرح کے افراد و طبقات کو اسلام کی اصل اور بنیادی اور آٖفاقی تعلیمات سے شعور و معرفت کی سطح پر آشنا بنانے کی جدوجہد کریں۔ انہیں توحید کی لذت سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ خدا سے ان کے تعلق کو وفاداری و بے قراری و مکمل تابعداری جیسی بلندیوں پر پہنچاکر استوار کرنے اور ان میں دنیا کی رونقوں اور لذتوں کی چسپیدگی سے بڑھ کر آخرت کے حوالے سے فکرمندی اور اخری فوز و فلاح کے لیے اعلیٰ ترین درجے کی بے تابی و بے چینی ابھاریں۔ ان کے اندر بلند انسانیت اور کمال درجے کا اعلیٰ و تابندہ و یکطرفہ اخلاق پروان چڑھانے کی جدوجہد کریں۔ انہیں اپنے پیمبر کی سیرتِ عالیشان اور ان کے اصحاب و پیروکار صالحین کے عمدہ و بے مثل نقوش و امثال کو اپنا آئیڈیل اور نشانہ سمجھنے کی سوچ و رجحان کا حامل بنائیں۔

ہمارے ہاں اس معاملے میں جو غلطی کی جاتی ہے وہ عام طور پر یہی ہوتی ہیں کہ اسلام کا دم بھرنے والے تمام افراد کو امتِ مسلمہ کا معیاری و حقیقی اجزائے ترکیبی فرض کرلیا جاتا اور مسلمان کے نام سے موجود تمام افراد و اشخاص کو اسلامی برادری کا قابلِ اعتماد و مستحکم اثاثہ گمان کرکے انہیں بغیر کسی تفریق و تمییز کے اسلامی کاز کے لیے اور اسلام کو فروغ دینے یا سربلند کرنے یا اسلامی شعائر و روایات کو رائج کرنے کے لیے پکارا جاتا اور دعوت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بھیانک و سنگین غلطی جو اس سلسلے میں ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر واقع ہورہی ہے کہ بہت سے اسلام سے ہمدردی اور محبت رکھنے والے مسلمان افراد و تنظیمات اپنے غیر معیاری و نادرست فہمِ اسلام کے مطابق اسلام کے نام پر مختلف تعلیمات و شیڈولز کو مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر رائج و معمول بنانے کے لیے سر ڈھر کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام و حوالے سے ایسے ایسے افکار و تصورات اور اقدامات و رسومات کے بارے میں سننے دیکھنے میں آتا ہے کہ حیرت کو بھی حیرت ہوجاتی اور تعجب بھی خود ورطۂ تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ اس ساری بھیانک و تباہ کن اور المناک و افسوسناک صورتحال کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلام کو اس کے اصل منابع و مصادر و مأخذ سے اخذ کرنے اور سمجھنے کے بجائے ماحول و خاندان، تنظیم و حلقہ، فرقہ و ٹولہ اور سماج و سوسائٹی میں اسلام کے نام سے معروف و مشہور باتوں کو بنیاد و اساس بناکر اسلام کا کوئی تصور قائم کیا جاتا اور کسی نہ کسی رنگ میں تصور و فہم اختیار کیا جاتا ہے اور پھر اسی سرمایے کو اسلامی تعلیمات اور معمولات کے نام سے ہر جگہ پھیلانے اور رواج دینے کی مخلصانہ مگر اپنے نتائج و اثرات کے اعتبار سے اسلام کے حق میں سنگدلانہ و دشمنانہ کوششیں کی جاتی ہیں۔

اس وقت اسلامی فکر و تعبیر کے عنوان سے جو دھارے یا فکری رجحانات مسلمانوں میں بالعموم غلبہ پائے اور ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں وہ یا تو جہادی تگ و دو کے ذریعے اسلام کو غالب و نافذ کرنے سے متعلق ہیں یا پھر صوفیانہ، فقہی جزئیات پسندانہ، مسائل رخانہ اور فضائل و بشارت آمیزانہ رجحانات و نظریات رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد یا تو زور و طاقت کے استعمال اور اسلحہ و ہتھیار کے ذریعے قومی و عالمی پیمانے پر اسلام کے نظام و قانون کو رائج کرنا اور زمین کے اوپر برسرِ اقتدار و رواج دیکھنا چاہتی ہے یا پھر وہ اسلام کو مسائل و جزئیات اور فقہی پابندیوں اور تفصیلات کا ایک گورکھ دھندہ باور کیے ہوئے ہیں اور یا پھر وظائف و اوراد اور جادو اثر اذکار و ادعیہ کا ایک طلسماتی مجموعہ و نسخہ۔ ان دو طرح کی فکری لہروں کے برعکس اسلام خدا سے مخلصانہ و سرفروشانہ و نیازمندانہ تعلق کا عنوان ہے اور اسی اساس سے وہ افکار و اخلاقیات پھوٹتے ہیں جو ایک مؤمن و مسلم سے مطلوب اور اس کی زندگی اور کردار میں مقصود ہیں۔ انسان اس کائنات میں جب پیدا ہوکر آنکھ کھولتا ہے تو وہ اپنی اس ابتدا ہی سے خدا کا بندہ، اس کا دست نگر، اس کی پرورش و نگہداشت کا محتاج، اس کی عنایت و رحمت پر نربھر اور مکمل طور پر اس کے اقتدار و اختیار کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سنِّ شعور کو پہنچنے کے بعد انسان کو اپنے فہم و معرفت کا حصہ بنانا اور اسی کو بنیاد بناکر اپنی زندگی کی عمارت کو استوار و تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ اسی کا نام بندگی، عبدیت اور خداپرستانہ زندگی ہے اور اسی طرزِ زندگی کے حصول یا محرومی پر انسان کے اخروی و ابدی انجام کی اچھائی برائی کا انحصار و مدار ہے۔ خدا سے تعلق اور توحید سے وابستگی اور صرف اور صرف اسی کو اپنی بندگی و دستگیری، اعتماد و توکل، تسلیم و رضا، وفاداری و جاں نثاری جیسے معمولات و جذبات کا واحد مرکز بنانا اور آنے والے انصاف و بدلے کے دن اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا ہی اسلام و ایمان کی بنیاد و کلید ہے۔ اس کا راستہ یہی ہے کہ خدا نے اپنی جو ہدایت نازل کی اور اپنے جو پیغمبر اپنا کلام و پیغام دے کر بھیجے ہیں، ان کا دامن و در تھاما جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ان سے قربت و وابستگی اپنائی جائے اور انہیں اپنا پیشوا و مقتدا بنایا جائے اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات اور چھوڑی ہوئی ہدایات کی دل و جان سے پیروی و تابعداری کی جائے۔

یہی وہ نقشہ ہے جس پر ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا ہے اور پھر یہی وہ فارمولا اور پروگرام ہے جس کے مطابق ہمیں ظاہری تعارف کی سطح کے مسلمانوں اور بظاہر اسلام کے حلقے سے باہر کے غیرمسلموں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کی کوشش اور جستجو کرنی ہے۔ اسلام انسان کا اساسی و حقیقی مقصد آخرت کی کامیابی کو قرار دیتا اور اس کے لیے دنیا میں اپنے نفس کا تزکیہ اور اپنی شخصیت کی صالح بنیادوں پر تعمیر و تشکیل کو قرار دیتا ہے۔ اسی پروگرام و لائحۂ عمل کو ہمیں خود بھی اختیار کرنا اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف آنے اور اس کے مطابق جینے کی دعوت دینی ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ اور واقعی ٹارگٹ ایک انسانی فرد اپنی انفرادی حیثیت ہی میں ہے۔ وہ اسی کو اعلیٰ اخلاقی و روحانی اوصاف و خصوصیات سے آراستہ کرنا اور فکر و عمل اور اخلاق و سیرت کی آلائشوں اور غلاظتوں سے بچانا اور خالی کرنا چاہتا ہے۔ اسلام اصل کامیابی اس کو قرار دیتا اور فوز و فلاح کا حقدار اسے ٹھہراتا ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنے اور اپنی انفرادی شخصیت کو فطری و عقلی و اخلاقی اساسات پر تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کرلے۔ اسلام کا طریقہ فضائل و بشارات کی مبالغہ آمیز روایات سناکر جذباتی طور پر اکسانے اور وقتی جوش و ابال بھڑکانے اور زور و طاقت کے بل بوتے پر سماج و سوسائٹی میں غالب آنے اور نافذ ہونے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، نصیحت و فہمائش، تذکیر و تلقین اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے انسانوں کے ذہن و فکر کو بیدار کرتا، انہیں خدا و آخرت کے حوالے سے چوکس و چوکنا بناتا اور آخرت کے حساب کتاب کے مرحلے کو ان کی نظر میں اتنا سنگین و اہم بنادیتا ہے کہ پھر ایسے انسانوں کے نزدیک ہر مسئلے سے بڑا مسئلہ اور ہر گول سے بڑاگول آخرت کی کامرانی، جنت کی بازیابی اور جہنم سے نجات و خلاصی بن جاتا ہے۔ یہ تصورات انسان کو ایک صالح، پاکیزہ، حدود و ضوابط کی تحدیدات میں بندھی، خدا و خلق کے حقوق و واجبات کی ادائیگی سے عبارت اور انصاف و انسانیت سے معمور زندگی بتانے والا اور نہایت خداترس و انسان دوست شخص بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان اپنے سماج کے لیے سرمایہ، اپنے حلقۂ احباب کے لیے نہایت قیمتی رفیق و مشیر، قابلِ اعتماد مرجع اور بے شبہ لائقِ فخر اثاثہ و سرمایہ ہوتا ہے۔ پھر جب چراغ سے چراغ جلتا اور شمع سے شمع روشن ہوتی ہے تو سماج و سوسائٹی میں ایسے افراد کی تعداد بڑھنا اور خیر کی روشنی بدی کی تاریکیوں پر غالب آنا شروع ہوجاتی ہے۔ معاشرے میں اچھی اقدار و روایات کا چلن عام ہوتا اور برائی و ناانصافی و بدکاری کے معمولات کا زور ٹوٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ آہستہ آہستہ نیکی بدی کے لیے ایسی سوسائٹی میں کھل کھیلنا، پھلنا پھولنا اور زور و اثر کے ساتھ برقرار رہنا مشکل بنادیتی اور سماج میں صالح عنصر اور پاک فکر و کردار کے لوگ چھانا اور اثر و رسوخ پانا شروع ہوجاتے ہیں۔ یوں اسلام، اپنی تعلیمات و روایات و معمولات و خصوصیات کی صورت میں سماجی شعبوں، معاشرتی دائروں اور نظم و قانون کے ایوانوں میں بھی جلوہ گر ہونا اور اپنی تابندگی بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسلام کو اس کی اصل تعلیمات اور اس کے اصل منابع و مصادر کی شکل میں کبھی میدان میں ایک تحریک و مشن بناکر لایا ہی نہیں گیا۔ ہاں اسلام کا نام تو بہت سی تحریکوں اور دعوتوں نے ضرور استعمال کیا مگر انہوں نے جن افکار و خیالات کا پرچار کیا وہ یا تو ان کے ذاتی تراشیدہ تھے یا زمانے اور دور کی پیداوار تھے یا غالب فلسفوں اور نظام کا چربہ و تراشہ تھے یا پھر منحرف و مسخ شدہ اسلامی فکر کے مصداق مسائل کے دفتر یا فضائل و بشارات کی غیر حقیقی باتوں کا پلندہ۔ آج بھی اگر انہی چیزوں کو اسلامی دعوت و تبلیغ اور اسلامی فکر کے نام سے پیش کیا جاتا رہے تو ہم مستقبل میں کسی بہتری اور خوشگوار تبدیلی کی کوئی امید رکھنے میں بالکل بھی حق بجانب نہ ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو خدا پرستی، اخلاق دوستی، انسانیت رسی، آخرت ترسی اور سیرت و اطوارِ پیمبر سے وابستگی اور اس کی کلی اطاعت و پیروی کی شکل میں پیش کیا اور پھیلایا جائے۔ اسلامی انقلاب جیسی منازل سے نظریں پھیر کر ایک ایک فرد کو تزکیۂ نفس کی راہ کا مسافر اور پاکیزہ سوچ و اخلاق و کردار کا حامل بنانے کو اپنی کوششوں اور جدوجہد کا مرکز و نشانہ قرار دیا جائے۔ یہی وہ کام ہے جو کرنے کا اور بڑے سے بڑے پیمانے پر کرنے کا ہے۔ اس وقت اسلام کی پاکیزہ، آفاقی اور انسانیت پرورانہ تعلیمات و ہدایات عالمی طور پر انسانیت کی ضرورت بن چکی ہیں۔ اس وقت جو خودغرضی، مفاد پرستی، یاشیخ اپنی اپنی دیکھ، مقابلہ بازی اور سطحی لذت پسندی و تابڑ توڑ مادہ و تفریح پسندی کا زہریلا دور چل رہا ہے اس نے انسانیت کے گلے کو خونخوار اور درندہ قسم کے جانوروں کے ریوڑ کی شکل دے دی ہے۔ ایسے میں اسلام جیسے آفاقی و عالمی نظریے اور اس کی صالح و روشن اور اخلاق و انسانیت سے بھرپور تعلیمات کو انسانیت کے سامنے پیش کرنا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت اور نفع رسانی ہوگی اور اسی سے اسلام کے مستقبل کی بہتری اور مسلمانوں کے عروج و استحکام و سربلندی کی راہ بھی پوری طرح کھل جائے گی۔

اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ایسے مردانِ کار و صاحبان حوصلہ و قربانی و ایثار کی ہے جو اسلام کے تحقیقی مطالعے کو اپنی جولانگاہ بنائیں۔ اسلامی فکر کو اپنی صحیح اور حقیقی شکل میں جاننے اور عام کرنے کے لیے اپنی زندگی تجنے اور کھپانے کے لیے پوری طرح آمادہ و تیار ہوں۔ اسلام کے نام پر پھیلی ہوئی غلط فکریوں، کجیوں اور خیال و تصور کی بدعتوں کو بے نقاب کرنے اور صحیح افکار و معمولات کی نشاندہی کرنے کو اپنا مشن و مقصدِ زندگی بنائیں اور افراد و معاشرہ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اسلام کو ایک زندہ و واقعاتی نظریہ اور رواج پذیر طریقۂ زندگی بنانے کی راہ میں اپنا تن من دھن لٹانے کے لے بخوشی رضامند ہو۔ ایسے افراد اگر خود اسلامی فکر و عمل کے سانچے میں ڈھل کر اپنے اپنے حلقوں اور دائروں میں متحرک اسلامی مشن شکل میں ڈھل جائیں تو اسلام کی عمومی اشاعت، اس کی خوبیوں اور نفع رسانیوں اور رفعتوں اور انسانیت کے آلام و مصائب دور کرکے اس کی راہ نمائی کی اجارہ دارانہ صلاحیتوں کا بھرپور و شاندار طریقے پر اثبات و اظہار ہوجائے گا اور یہ مثالیں اور نمونے اور تجرباتی واقعات مزید بڑے اور وسیع پیمانے پر اسلام کی اشاعت و فروغ کا سبب بن جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کام کی اہمیت اور قدر نہیں۔ وہ مساجد، مدارس و مکاتب اور دوسرے دوسرے شعبوں میں تو دل کھول کر بھی پیسہ لگانے اور راہِ خدا میں انفاق سمجھ کر خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن اس کام و مقصد کی اہمیت و ضرورت سے ایسے سارے ہی لوگ شاید بالکل بے خبر ہیں کہ وہ ذہین و باصلاحیت نوجوانوں کی ایک تعداد کو اسلامی کے علمی و تحقیقی و تقابلی مطالعے اور اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید اور پھر اس فکر کی تشہری اور اس کی بنیاد پر نئی اسلامی روایات کی ترویج کے مشن کے لیے سہولتیں اور لوازمات بہم پہنچائیں اور مسلم علما و مفکرین کا ایک ایسا دانشور و بیدار مغز دستہ ترتیب دیں جو اسلام کو اس کی اصل بنیادوں کے ساتھ نہ صرف جانتا ہو بلکہ اپنے عمل و کردار میں بھی اپنائے ہوئے ہو اور اسلام کی صحیح و بے آمیز ترجمانی کرنے کی پوری پوری اہلیت و لیاقت رکھتا ہو۔ اگر ہم مسلمان اس مقصد کے لیے متحرک ہوکر اسلامی مفکرین و معلمین کا ایک ایسا فہیم و ذہین دستہ تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ اسلامی انقلاب اور اسلام کے عالمی و آفاقی سطح پر پھیلاؤ اور رچاؤ کی راہ میں ایک بہت بڑا انقلابی قدم و عظیم الشان پیش رفت ہوگی۔ میری دلی تمنا ہے کہ مسلمان اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے کرنے کی توفیق پائیں تاکہ اسلام کے ابلاغ و دعوت کا کام اس کی صحیح اسپرٹ اور بے آمیز شکل میں سرانجام دے کر انسانیت پر حجت تمام کرنے اور اس تک خدا کے دین کا پیغام بے کم و کاست پہنچانے کی راہ بازیاب ہوسکے۔

[اسلام کی بلندی و رفعت، مؤمنانہ خوبیوں اور کمالات، اسلامی تعلیمات کے نافع اثرات اور مسلمانوں کی تربیت و اصلاح کے حوالے سے مجھ ناچیز کے لکھے ہوئے چند مضامین]


اسلام کی برکتیں


آج کا دور بڑ ی خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور ہے ۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان نے آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا مطمحِ نظر اور مقصود بنا لیا ہے ۔ دنیا میں کسی کو کچھ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز آپ کے پاس نہ رہے اور نہ بدلے میں آپ کو کچھ ملے ۔ جب کہ آخرت کی خاطر کسی کو کچھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کے ذخیرے میں کچھ اضافہ کر لیا اور اپنی اخروی جمع پونجی بڑ ھا لی۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو خودغرضی اور مفاد پروری کے بجائے دریادلی، فیاضی، دوسروں کے کام آنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی بہتری کی خاطر غریبوں ، محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور اسی طرح دیگر انسانی بھلائی و خیرخواہی کے کام کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ ایک مسلمان دوسروں سے محبت کرنے والا، ان کے کام آنے والا، ان کے درد دکھ کو اپنا سمجھنے والا اور بڑ ھ چڑ ھ کر دوسروں کی خدمت و بھلائی کے کاموں میں حصہ لینے والا ہوتا ہے ۔ وہ کبھی خودغرض، سخت دل، مفاد پرست، اور دوسروں سے نفرت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت و نرمی برتی اور ہمدردی و خیرخواہی کی جائے ۔

اسی طرح اسلام اپنے حلقہ بگوشوں کو ایمانداری، سچائی، اصول پسندی، بلند اخلاقی، عالی ظرفی، ایفاے عہد، قانون کی پابندی، راستبازی، صفائی و پاکیزگی اور انسانی ہمدردی جیسی اعلیٰ خوبیوں کی تلقین کرتا ہے ۔ کسی سوسائٹی اور معاشرے میں اسلام کے آنے کا مطلب برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہے ۔ اسلام کی تربیت انسانوں کو اپنے معاشرے کے لیے انتہائی کارآمد اور مفید رکن بناتی ہے ۔ وہ امن، انصاف، پیار اور محبت کے علمبردار اور نمائندے بن کر جیتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے دائرے میں خوشیوں ، سکون و اطمینان اور فرحت و سلامتی کی علامت بن جاتے ہیں ۔ لہٰذا آج ہر طرف پھیلی ہوئی خودغرضی اور بے حسی ہو یا دیگر طرح کی برائیاں ، ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اعلیٰ، پاکیزہ اور روشن تعلیمات کو خود اپنائیے ، انھیں نرمی و حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیے اور اپنے بچوں اور احباب کے درمیان اسلام کی برکتوں اور خوبیوں کا چمکتا نمونہ بن کر زندگی گزارئیے ۔ مسلمان ہونے کا آج یہ آپ پر سب سے بڑ ا قرض ہے ۔

مؤمن انسان


انسان کوئی بھی ہو اور اس کا تعلق کسی بھی تہذیب، سماج اور ملک سے ہو، وہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی چیز کو بے انتہا رغبت و دلچسپی اور مطلوبیت و پسندیدگی کا مقام دیے ہوئے ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں خاندان کے بزرگوں کا رجحان اور سوسائٹی کے لوگوں کا چلن بھی اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نئے آنے والے آپ سے آپ اُن چیزوں کو اپنا ٹارگٹ اور محبوب بنالیتے ہیں جو خاندان و معاشرے کے لوگوں کے ہاں پہلے سے یہ مقام پائے ہوئے ہوتی ہیں ۔

مؤمن بھی ایک انسان ہوتا ہے ۔ مگر ایک ایسا انسان جو اپنی زندگی میں خدا، اس کے پیغمبر اور آخرت کے حقائق کو سب سے اونچا مقام دیے ہوئے ہو۔ دوسرے لوگوں کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں مقام و مرتبہ کی طلب نصب العین بنی ہوئی ہے ، کوئی حسن و جمال کا پرستار بنا جی رہا ہے اور کوئی مال ودولت اور آسائش و ثروت کو اپنا منتہاے مقصود قرار دیے ہوئے ہے ۔ مگر اللہ کا مؤمن بندہ اپنے خیالات، احساسات، جذبات، خواہشات اور اپنی تمام تر توجہات کا مرکز اپنے رب اور اس کی رضا کو، اپنے پیغمبر اور ان کے بلند اخلاق کواور جنت کے حصول اور جہنم سے بچاؤ کو بناتا ہے ۔ وہ بھی اگرچہ عام لوگوں کی طرح کھاتا کماتا، شادی بیاہ اور دیگر تعلقات کے بندھنوں میں بندھا ہوتا، والدین، آل اولاد اور خاندان و سوسائٹی کے حقوق ادا کرتا اور زندگی اور دنیا کی ساری سرگرمیوں میں شریک و شامل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے دل و دماغ اور اس کے شعور و جذبات میں اپنے پرودگار کی یادیں ، اسے راضی کر لینے کی امنگیں ، اپنے نبی کے اسوے کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی پرزور تمنائیں ، دنیوی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دینی فرائض بجالانے کی تڑ پ اور جہنم سے بچ کر جنت کی ابدی اور سرمدی بادشاہی کو پالینے کی کوشش و جستجو بسی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسا انسان ایک انسان دوست شخصیت، سب سے پیار کرنے والا، ہر ایک کا خیرخواہ، انصاف پسند، اصول پرست، خوش اخلاق اور روشن و اعلیٰ سیرت کا مالک شخص ہوتا ہے ۔ عہد کا پابند، قول کا سچا، امین، راستباز، قابلِ اعتماد، مخلص، وفاشعار، بہادر اور صاف شفاف شخصیت۔ اور اسی حسین و جمیل پیکر کا نام ہے مؤمن انسان۔

خدا اور بندۂ مؤمن 1


ایک انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا اور میسر آتا ہے ، وہ ایک ہی خداوند کی بخشش و عنایت ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن جن سے کسی مدد، بخشش اور عنایت کی توقع کی جاتی ہے ، وہ تو خود اپنے لیے بھی کچھ کر لینے کی کوئی طاقت نہیں رکھتے ۔ جس خداوند نے یہ آسمان و زمین بنائے ، پہاڑ و دریا تخلیق فرمائے اور انسان کو زندگی اور دوسری ساری نعمتیں عطا کی ہیں ، وہی اکیلا انسان کا پالنہار اور خالق و مالک ہے۔ اور آخری درجہ میں لازمی ہے کہ وہی انسان کی تمام عبادتوں ، تعظیم و تکریم، توجہات، گہرے جذبات اور دعاؤں اور التجاؤں کا مرکز و مرجع ہو۔

ماں کے پیٹ میں ایک ننھی جان کی پرورش و بقا اور افزائش کا انتظام کون کرتا ہے ؟ آسمان سے بارش کون برساتا ہے ؟ زمین سے غلہ و نباتات کون اگاتا ہے ؟ رات اور دن کی یکے بعد دیگرے آمد و برخاست کس کے اشاروں کی رہینِ منت ہے ؟ سورج کس کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا اور تارے کس کی رحمت سے چمکتے ہیں ؟ زمین کو بچھونا اور انسانی تہذیب و تمدن کی تزئین و تحسین کے لیے موافق اسباب کا عظیم الشان گودام کس نے بنایا ہے ؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں ایک خداوندِ کائنات کے علاوہ کس ہستی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ کسی کا بھی نہیں ۔ تو پھر عبادت و استعانت کا حق دار اُس کے علاوہ کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا ہے ۔ زمین و آسمان کی نشانیاں ، خدا کی نازل کردہ کتابیں اور اُس کے اولو العزم پیغمبروں کی تعلیمات اور سیرتیں ایسی کسی بات کے حق میں اپنے اندر کوئی بھی دلیل نہیں رکھتی۔

قافلۂ انسانی کے بہترین اور اعلیٰ ترین لوگ ہمیشہ اپنے آپ کو اُس کا عاجز بندہ کہتے اور اپنی محبتوں ، اندیشوں ، فریادوں اور بہترین جذبوں کا مرکز ہمیشہ اُسے ہی بناتے رہے ہیں ۔ تو ان کے بعد آنے والوں اور ان کے ماننے والوں کو یہ کس طرح زیب دے سکتا ہے کہ وہ کسی اور دربار، بارگاہ اور آستانے پر جائیں اور اپنی منتیں اور حاجتیں مانگیں ۔

خدا پر ایمان رکھنے والے ایک سلیم الفطرت بندۂ مؤمن کا طرزِ زندگی تو بس یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر آن و لمحہ اپنے پرودگار کا شکرگزار، ہمیشہ اُس کا تابعدار، اُس سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا، اُس سے بے انتہا ڈرنے والا، اُس کی رحمت و عنایت کا متمنی، اس کے احکام و ہدایات کا پابند، اس کے بندوں پر شفیق و مہربان، اپنا جان و مال اور اوقات و اسباب اپنے پرودگار اور اس کے دین کی راہ میں بے دریغ لٹانے والا اور دنیا کی ذمہ داریاں اور معاملات نبھانے کے ساتھ ساتھ آخرت میں سرخروئی اور اپنے پرودگار کے رضا و قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔

ایسا شخص اپنی تمام حاجتیں اپنے پرودگار ہی کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اپنے مسائل میں اسی سے مدد طلب کرتا ہے ۔ مشکل اوقات اور سخت لمحات میں اسے ہی یاد کرتا، پکارتا اور اپنا سہارا بناتا ہے ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات، پیغمبروں کی سیرتیں اور انکے اولین پیروکاروں کی روشن زندگیاں ہمیں مؤمنانہ زندگی کی یہی تصویر دکھاتی اور اسی بات کا سبق دیتی ہیں ۔

اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندے کا خدا سے تعلق ایک زندہ اور شعوری تعلق ہو۔ وہ نفسیاتی اور حسیاتی طور پر اُس سے مربوط ہوجائے ۔ پوری شعوری بیداری اور دل و دماغ کی مکمل حاضری کے ساتھ اُسے یاد کرے ، اُس کا ذکر کرے اور اُس کی عبادت بجالائے ۔ خدا سے اس کا تعلق اور اس تعلق کے اظہار میں انجام دی جانے والی عبادات اور سرگرمیاں محض بے روح رسوم بن کر نہ رہ جائیں ۔ بلکہ بندہ جب اپنے پرودگار کو یاد کرے اور اُس کی عبادت میں مشغول ہو تو اس کے دل میں اپنے پرودگار کے لیے شوق و ذوق، چاہت و الفت، اشتیاق و محبت اور فدائیت و جانثاری کا ولولہ اور طوفان موجزن ہو۔ زندگی کی مختلف کروٹوں میں رہ رہ کر اسے اپنے مالک کی عنایتوں ، مہربانیوں اور رحمتوں کا خیال آتا رہے اور وہ اندر ہی اندر اُس کے لیے شکر و احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہوجائے ۔ وہ اُس قرآنی بیان کی زندہ تصویر بن جائے کہ : خدا کے بندے وہ ہیں جو اس کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے اور اپنے بستر پر لیٹے اور پہلو بدلتے ہوئے اسے یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اُس کی زندگی کا مشن بس یہ ہو کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاکر خدا کی رضا و رحمت کے مقام جنت میں جگہ حاصل کر لے ۔ وہ دنیا میں ایک اعلیٰ اخلاقی شخصیت اور خدا کے دین کا داعی و علمبردار بن کر جیے اور دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی دنیا کا باسی بن جائے ۔

مسلمانوں کی بدحالی اور اس کا علاج


انسان ایک زندہ اور باشعور ہستی ہے ۔ وہ اپنی تمام کاروائیوں میں اس بات کا ثبوت فراہم کرتا اور ہر کام ذہن و قلب کی شمولیت اور رغبت و دلچسپی کے ساتھ کرتا ہے ۔ جس کام میں انسان کا دل و دماغ حاضر نہ ہو اور نہ ہی اس میں اس کی رغبت و دلچسپی برقرار رہے وہ کوئی زندہ عمل نہیں بلکہ محض ایک مردہ کاروائی ہوتا ہے ۔ اور بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی تمام تر دین داریاں اور دینی اعمال و سرگرمیاں اسی انداز پر ڈھل چکے اور اسی پستی میں اتر چکے ہیں ۔ انکی عبادات، دینی رسومات اور تقریباً ساری ہی مذہبی تقریبات اپنے اندر ایک روایتی سطح اور چل چلاؤ کا انداز لیے ہوئے ہوتی ہیں ۔ ان میں کوئی زندگی، شعور، قلبی وابستگی اور جذباتی پیوستگی نظر نہیں آتی۔ خدا سے ان کا تعلق بس ایک قانونی تعلق میں ڈھل چکا ہے جس کا حق وہ اپنی مجالس کے شروع و آخر میں روایتی طور پر اس کی حمد اور کبریائی کے کلمات بول کر اور نماز روزے جیسے اعمال کی بے روح اور کھوکھلی ادائگی و پابندی کر کے ادا کرتے ہیں ۔ وہ اپنے اکابر اور بزرگوں کی عقیدت و احترام سے تو سرشار رہتے ہیں مگر خدا کے لیے گہری محبت و چاہت، اس کے لیے جذبات و احساسات کا تلاطم رکھنے والے اور اس کی نعمتوں اور نشانیوں کو دیکھ اور سوچ کر اس کی یادوں اور عظمتوں میں گم رہنے والے مسلمان کہیں نظر نہیں آتے ۔ انکی عبادات میں بے کیفی اور عدمِ دلچسپی کے مظاہر تو عام نظر آتے ہیں مگر عبدیت و نیاز مندی کی کیفیات اور خدا کے لیے والہانہ پن اور بے تابی کے نشانات ڈھونڈے نہیں نظر آتے ۔ میرا احساس ہے کہ آج جو مسلمان ہر طرف پسے ہوئے اور پچھڑ ے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ان کی دین داریوں اور ان کے اپنے خدا کے ساتھ تعلق میں گہرائی، زندگی اور ایک اندرونی چاہت و فدویت معدوم ہوگئی ہے ۔ ان کی عبادات اور دینی رسومات بے جان اور رسمی ہوگئی ہیں ۔ اس صورتحال میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب مسلمان حقیقی معنوں میں خدا پرست اور سچے مسلمان بنیں گے ۔ یعنی وہ بندے جو اٹھتے ، بیٹھتے اور کروٹیں بدلتے ہوئے بھی اپنے رب کو یاد کریں ، جن کے رکوع اور سجدے عبدیت و نیازمندی اور اپنے پرودگار کے لیے خشوع و خضوع کی سراپا تصویر ہوں ، جن کی زندگیاں اس کی اطاعت و فرماں برداری میں ڈھل چکی ہوں ، جو اپنے رب ہی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے ہوں ، جو خدا کے بندوں کے لیے سراپا شفقت و ہمدردی ہوں ، جن کے لیے آخرت اور جنت و جہنم سب سے بڑ ا مسئلہ ہو، جو خدا کے دین کے داعی بن کر جیئیں اور جن کا مقصود و مطلوبِ حیات خدا کی رضا اور اس کی جنت کو پالینابن گیا ہو۔

اسلام امن و سلامتی کا دین


اسلامی تاریخ کے بڑ ے بڑ ے اور نمایاں واقعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو آپ پورے 13 برس تک پیغمبرِ اسلام کے مکہ میں ہر طرح کی تکلیفوں اور اذیتوں پر صبر کرتے ہوئے پرامن طریقے سے دین کی دعوت دینے کے مناظر دیکھیں گے ، فتحِ مکہ کے موقع پر جانی دشمنوں ، سالوں تک اذیت پہنچانے والوں اور عزیزوں اور محبوبوں کے قاتلوں کو اللہ کے رسول کی طرف سے معافی ملتے دیکھیں گے ، صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ’وقفۂ امن‘ حاصل کرنے کے لیے یک طرفہ شرائط پر صلح نامے پر خدا کے رسول کو دستخط کرتے دیکھیں گے ، بعثت کے بعد 23 برس پر پھیلی پیغمبرِ خدا کی زندگی میں بلند اخلاقی اور کریمانہ برتاؤ کی جابجا جھلکیاں جھلملاتی دیکھیں گے ، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ’سرایا‘ اور ’غزوات‘ (جنگیں ) بھی پیش آئیں ، مگر انسانی تاریخ کی دیگر جنگوں میں ہونے والی جان و مال کی ہلاکت و بربادی کی بنسبت اُن میں جان و مال کا اتنا کم نقصان ہوا کہ اِن جنگوں کی نسبت سے انہیں معمولی جھڑ پیں کہنا غالباً ناموزوں نہ ہو گا۔ یہ حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اسلام، دشمنوں کی ایذا رسانیوں پر صبر و اعراض کرنے ، مخالفوں اور دشمنوں پر قابو پا چکنے کے باوجود اُنہیں معاف کر دینے اور ’امن‘ کے حصول کی خاطر بڑ ی سے بڑ ی قربانی دینے اور دیگر ہر طرح کی مصلحتوں کو نظر انداز کر کے ’امن و آشتی‘ کو اولین ترجیح دینے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ وہ نہ صرف اپنوں کے ساتھ بلکہ غیروں اور پرایوں کے ساتھ بھی بلکہ اس سے بھی آگے بڑ ھ کر بے زبان جانوروں تک کے ساتھ اعلیٰ اور شریفانہ برتاؤ کرنے کی تاکید و تلقین کرتا ہے ۔ اسلام امن و سلامتی، پیار و محبت اور انصاف و انسانیت کا دین ہے ۔ وہ جنگ و قتال اور دنگا و فساد کا دین نہیں ۔ وہ پیار و الفت کا دین ہے وہ نفرت و عداوت کا دین نہیں ۔ پیغمبر اسلام بہترین اخلاق کے مالک تھے ۔ آپ کا اسوہ بہترین اسوہ ہے ۔ آپ عالمین کے لیے رحمت تھے اور آپ کا لایا ہوا دین بھی انسانیت کے لیے رحمت و برکت ہے ۔ وہ انسانوں کو دہشت و خون ریزی اور مصیبت و زحمت کا تحفہ کبھی نہیں دے سکتا۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی پوری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے نہ کہ جنگ و قتال کا دین۔

مسلمان ہمارا واحد نام


آج مسلمانوں کے اتنے ڈھیر سارے نام ہیں کہ جن کا شمار بھی کافی مشکل ہے ۔ مسلمانوں کی ہر تحریک، تنظیم اور ٹولی بالآخر اپنے لیے ایک الگ نام وضع کر لیتی اور مسلمانوں کے ناموں کی فہرست میں ایک اور نام کے اضافے کا کارنامہ انجام دے جاتی ہے ۔ آج ان کے ہاں اس بات کا تصور ہی محال ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور وہ کسی تنظیمی یا مسلکی نام سے منسوب ہونے پر فخر نہ کرتا ہو۔ ملاقات کے موقع پر تعارف حاصل کرنے کی غرض سے آج مسلمان ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ مثلاً آپ دیوبندی ہو یا بریلوی، اہلِ حدیث ہو یا اہلِ سنت، سنی ہو یا شیعہ، حنفی ہو یا مالکی وغیرہ وغیرہ۔

قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروعِ انسانیت سے انسانوں کو جو دین دیا اور جو مذہب پسند کیا ہے اس کا نام اسلام ہے ۔ تمام نبی اور رسول یہی دین لے کر آئے اور زندگی بھر اسی کی منادی کرتے اور دعوت دیتے رہے ۔ قرآن اس دین کے ماننے والوں کو ایک ہی نام دیتا ہے ، ’مسلم‘ جسے اردو میں ہم مسلمان کہتے ہیں ۔ تمام پیغمبر اپنا تعارف ’اللہ کے مسلم‘ کے طور پر کراتے تھے اور اپنی آل اولاد اور پیروکاروں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے کہ وہ خدا کے مسلم بنیں اور اسی حالت میں جییں اور مریں ۔

’مسلم‘ اسلام سے ہے جس کے معنیٰ سرِ تسلیم خم کر دینے ، خود کو سپرد کر دینے اور خدا کے آگے جھک جانے کے ہیں ۔ دیکھیے کتنا پیارا نام ہے اور کتنا خوبصورت ہے اس کا مطلب۔ ایک مسلمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ خدا کے آگے ہمہ تن جھک جاتا ہے ، اپنے بہترین جذبات اور اپنی ساری توجہات کو اسی سے وابستہ کر لیتا ہے ، شب و روز اسی کی یادوں میں جیتا اور اسی کی عظمت و بڑ ائی کے احساسات میں گم رہتا ہے ، اپنی الفت و چاہت، خوف و خشیت، اعتماد و توکل اور بیم و رجا کو پورے جوش و ولولے سے اسی کے لیے خالص کیے رہتا ہے ، اپنی حاجات اور فریادیں اسی کے سامنے پیش کرتا اور اپنی ساری زندگی اسی کی سپردگی یعنی اس کی تعلیم و ہدایت کی پابندی و پیروی میں گزارتا ہے ۔ مختصراً یہ کہ خدا کے آگے جھک کر اور ڈھ کر اور اپنے آپ کو پوری نیازمندی و وفاداری کے ساتھ اس کے سپرد کر کے جینے کا نام اسلام اور مسلمانی ہے اور ایسے ہی انسان کو مسلم اور مسلمان کہا جاتا ہے ۔ کیا ایک انسان کے لیے اس سے زیادہ پیارا کوئی دوسرا نام ہو سکتا ہے ۔ یقینا نہیں ۔ تو پھر آخر ہم کیوں اس نام پر قناعت نہیں کرتے اور دوسرے دوسرے نام رکھنے اور انہیں اپنی پہچان بنانے پر اصرار کرتے ہیں؟
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Wednesday, September 1, 2010  -  10:31 AM Reply with quote
A long and detailed post, when I say too idealistic it's because I am one of those people you have described who are too lost or

engrossed in day to day worldly affairs I don't know how to achieve all you have described I like some muslims is looking for the

right way but sometimes lack conviction or find religious guidance which is so full of contradictions that it leaves me in total

confusion. Then there are sects and each and every sect wants to prove the other wrong or misguided. How do you get me to

follow you revolution? I have yet to find moving and strong logic to get me to understand some arguments put up by people to

follow from my heart. I don't mean your arguments, I am sure you must be practising all that you are suggesting , I really really

admire that I wish it would come to me too but it hasn't. There are so many things that I don't do which you have suggested and I

know for various reasons or excuses on my part will not be able to. How do you change me ?
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, September 2, 2010  -  6:20 AM Reply with quote
محترم آنٹی صاحبہ، آپ کے تبصرے کو میں نے بغور پڑھا۔۔۔۔۔ میں ذیل میں چند نکات و گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ پچھلی پوسٹوں کی طرح اُن پر بھی تدبر فرمائیں گی، توقع ہے کہ آپ کو جو کنفیوژن اور خدشات لاحق ہیں اُن کا کسی حد تک ازالہ ہوسکے گا۔

ایک بنیادی بات جو میں بار بار واضح اور صاف کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہا ہوں وہ یہ کہ انسان جس طرح اکیلا اور انفرادی حیثیت میں پیدا ہوتا ہے بالکل اسی طرح انسانی زندگی کے سب سے بڑے اور سنگین مرحلے یعنی خدا کے روبرو پیشی کے وقت بھی وہ اپنی انفرادی و شخصی حیثیت ہی میں مسئول و جوابدہ ٹھہرے گا۔ دوسروں نے کیا کیا اور بنایا اور کیا بگاڑا اور سنوارا اور دنیا کے معاملات و حالات کیا رہے اور وہاں کیا کچھ ہوتا رہا اور کون ظالم و جابر بن کر جیا اور کون مظلومیت و ستم زدگی کی زندگی بتاتا رہا، اس طرح کی ساری باتیں اُس وقت ہر شخص کے لیے بالکل غیر متعلق ہوں گی اور نہ خدا ہی ان کے باب میں کسی سے بازپرس اور مؤاخذہ فرمائے گا۔ انسان کو صرف اور صرف اپنے ہی اعمال و اخلاق و کردار اور کارناموں اور کاروائیوں کا حساب دینا ہوگا۔ اس کی نیتیں کیا کیا رہیں، اس نے کون کون سے مقاصد اپنائے، کیا کیا الفاظ و خیالات اپنی زبان سے نکالے، کس کس محرک کے تحت کون کون سا فعل سرانجام دیا، انسانوں کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات و روابط کے حوالے سے اس کا سلوک و معاملہ اور طریقہ و رویہ کیا رہا اور خدا کی دی ہوئی طاقتوں، صلاحیتوں اور مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اس نے کیا کیا کاروائیاں کیں اور اعمال و کارنامے رقم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا نازل کردہ اور اس کے پیغمبروں کا لایا ہوا دین انسان کو اس کی انفرادی حیثیت ہی میں اپنا مخاطب بناتا اور اس کے سامنے اس دنیا میں تزکیۂ نفس یا تعمیر و تکمیلِ شخصیت ہی کا نصب العین اور اس کے نتیجے کے طور پر خدا کی خوشنودی اور آخرت کی فلاح و سرفرازی کا ٹارگٹ رکھتا ہے۔ انسان پر جو ذمہ داری اور بار ڈالا گیا ہے اس کا اصل اور حقیقی حصہ اس کی اپنی ذات ہی سے متعلق ہے اسے اپنی انفرادی ہیئت ہی میں خدا کی بندگی بجالانی اور پاکیزگی سے معمور زندگی بتانی ہے۔ صالح کاموں میں دلچسپی اور مشغولیت اختیار کرنی اور بدی و برائی کی کاروائیوں سے اپنی حفاظت کرنی ہے۔ وہ چاہے اپنی انفرادی زندگی جی رہا اور اپنی ذات ہی کی حدود میں کسی قول و فعل کا ارتکاب کررہا ہو یا خاندان و سماج کے حدود اور دوسروں سے تعلقات و روابط کے ذیل میں کوئی خیال و عمل انجام دے رہا ہو، اسے ہمیشہ یہ پیشِ نظر رکھنا ہے کہ اس کے کسی بول و حرکت سے غلط اور خلافِ حق و سچائی کوئی بات صادر نہ ہو۔ کوئی بدی واقع اور کوئی ظلم و زیادتی و حق تلفی وجود میں نہ آئے۔ اس کی نیت ہمیشہ سیدھی اور راست رو رہے اور اس کے خیالات و اقدامات میں کوئی کجی، ٹیڑھ، ناراستی، پستی، گراوٹ، اخلاقی رذالت اور لغزش و گمراہی در آنے نہ پائے۔ دوسرے کیا سوچتے، بولتے اور کرتے ہیں، ان حوالوں سے اُس پر کوئی ذمہ داری اور بار اس پہلو سے نہیں ہے کہ وہ براہِ راست ان کے اقوال و افعال کا نگران و ذمہ دار ہو اور ان کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر قدم و عمل کا اسے بھی حساب کتاب دینا اور جوابدہی کرنی پڑے۔ انسانوں سے تعلق و وابستگی اور کسی قوم و سماج و ملت کا حصہ ہونے کے حوالے سے جو ذمہ داریاں، حقوق اور فرائض و واجبات کسی انسان پر عائد ہوتے ہیں وہ یہ نہیں ہیں کہ وہ انہیں بھی ہر حال میں صحیح و درست اور حق پر کاربند رکھے اور انہیں بہرحال کسی لغزش و خرابی اور خامی و کوتاہی میں مبتلا نہ ہونے دے، بلکہ اس زاویے اور جہت سے اس کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ان دائروں میں بھی اپنی طرف سے کسی خرابی و بدی کو رونما نہ کرے، اپنی جانب سے کسی غلطی اور خطا کا صدور نہ ہونے دے، لین دین اور حقوق کی ادائیگی کے باب میں کسی زیادتی اور حق تلفی کا مرتکب نہ ہو اور یہ بھی کہ وہ اپنے احباب و متعلقین کے حوالے سے تذکیر و نصیحت اور تلقین و فہمائش کے دائرے میں رہتے ہوئے اس بات کی بھرپور کوشش و جستجو کرے کہ اس دائرے اور اس کے احباب و متعلقین کے حلقے میں بھی خدا کی بندگی کی روح جاری و ساری رہے، بھلائیاں اور اچھائیاں فروغ پائیں اور بدیاں اور برائیاں دبیں اور ختم ہوں۔ اسلامی حکم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مسلمانوں کے اسی باہمی اصلاحی کام کا عنوان ہے کہ وہ اپنے درمیان اور اپنے معاشرے میں بھلائیوں اور معروفات کی ترغیب دینے اور بدیوں اور منکرات سے دور و مجتنب رہنے کی تلقین کرنے والے ہوتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ترتیب الاقرب فالاقرب کی ہے یعنی جو جتنا نزدیکی ہے وہ اتنا ہی پہلے ہماری اس خیرخواہی اور پیغامِ اصلاح و پارسائی کا مستحق و حقدار ہے یعنی پہلے اپنا گھرانا اور خاندان اور پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ اپنے ملنے جلنے والے، دوست احباب، کاروباری یا معاشی یا تعلیمی یا دوسرے رفقاء و شرکاء اور تعلق و ربط میں آنے والے لوگ۔ نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی تلقین کرنا تو بہرحال ہر مسلمان کی اپنے اپنے دائرۂ احباب و متعلقین کی حد تک ایک بنیادی ذمہ داری ہے مگر اپنے ارد گرد کے تمام لوگوں یا اپنی قوم کے تمام افراد یا دنیا جہاں کے تمام انسانوں کو حق و ہدایت کے راستے پر گامزن کردینا اور انہیں نیکی کرنے اور بدی کو ترک کرنے والا بنادینا کسی بھی انسان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے جو مسلمانوں میں اب بعض کم علم اور جوشیلے مبلغین کی پرجوش تقریروں کے ذریعے فروغ پانے لگا ہے کہ مجھے ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح و درستی کی فکر اور کوشش کرنی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے حلقۂ تعلق و ربط ہی میں رہ کر خیر کا داعی اور منکرات کا منذر بننا چاہیے۔ خدا اور دین نے اس پر اتنی ہی ذمہ داری ڈالی ہے۔ دین کے ایک جید عالم و فاضل پر بھی دین نے بس اپنی قوم کی حد تک یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ اس بڑے دائرے میں ایک خبردار کرنے اور جگانے والے کا کردار ادا کرے۔ ساری دنیا کو سنوارنے اور تمام انسانوں کو سدھارنے اور راہِ راست پر لانے کی فکر اور کوشش کرنے کی ذمہ داری تو دین نے کسی بھی عام یا خاص فرد پر نہیں ڈالی۔ اس ساری طول بیانی کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے اپنی نجات و فلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے اسے اپنا ہی تزکیہ کرنا، اپنے ہی نفس کو آلائشوں اور خباثتوں سے پاک بنانا اور اپنے ہی فکر و عمل کو ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے خالی کرنا ہے۔ دوسروں کے حوالے سے بھی اس پر عموماً جو ذمہ داریاں دینی لحاظ سے عائد ہوتی ہیں وہ بھی اسی لیے ہیں کہ اس کا دامن، اس کا ذہن اور اس کا عمل کسی گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہوجائے اور یہ انسانوں کا بدخواہ نہیں بلکہ خیرخواہ بن کر زندگی گزارے۔

دوسروں کے حوالے سے انسان پر اسلام جو اصلاحی ذمہ داری عائد کرتا ہے وہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس کا کام اور فرض یہ ہے کہ وہ لازماً دوسروں کو نیک و پارسا بناکر ہی چھوڑے اور چاہے کچھ ہو وہ ان سے اسلامی قانون و شریعت کی پیروی و پابندی بہرحال کرائے۔ یہ ذمہ داری تو خدا نے کسی پیغمبر پر بھی نہیں ڈالی کہ وہ ضرور ہی اپنی قوم کے ہر ہر فرد کو سدھار و سنوار کر ہی دم لیں اور اسے اپنا ایک خدائی فریضہ اور دینی ذمہ داری سمجھیں۔ اس کے برعکس خدا نے بار بار اپنے پیغمبروں کو یہی توجہ دلائی اور تلقین فرمائی ہے کہ وہ ناصح ہیں، خبردار کرنے والے ہیں، ہدایت و اصلاح کی طرف بلانے والے ہیں، کوئی آسمانی داروغہ اور خدائی فوجدار نہیں کہ ضرور ہی اپنے مخاطبین کو درست کرکے اور سیدھا کرکے چھوڑیں۔ پیغمبر کے ماننے والوں پر بھی ازروئے دین یہی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرے کے لوگوں کو دین کی پاسداری اور خدا کی بندگی کی طرف بلائیں، انہیں نیکیوں اور بھلائیوں کی تلقین کریں اور ظلم و ناانصافی، خیانت و بدعہدی، سرکشی و نافرمانی، جھوٹ و ملاوٹ اور دوسری تمام فکری ضلالتوں اور عملی برائیوں اور اخلاقی پستیوں کو چھوڑنے کی ترغیب دیں۔ اسلام زور زبردستی کرنے اور گولی اور بم اور تلوار اور ہتھیار کے ذریعے لوگوں کو مسلمان یا نیکوکار بنانے کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا۔ جو لوگ اسلام کے حوالے سے اس طرح کی بات کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے وہ لاریب نہ اسلام سے واقف ہیں، نہ قرآن و سنت کا کوئی علم و فہم رکھتے ہیں اور نہ ہی تاریخ کے حقیقی واقعات پر انہیں کوئی دسترس و آگاہی ہے۔ اسلام امن و خیرخواہی اور تعلیم و تبلیغ کا دین ہے۔ وہ طاقت و قوت اور جبر و اکراہ سے نہیں بلکہ پیار و محبت، بلند اخلاقی، روشن کردار، عمدہ سیرت، بہترین رویوں اور تلقین و ترغیب و فہمائش کے ذرائع سے فروغ و پھیلاؤ پاتا اور لوگوں کے دلوں اور زندگیوں میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس غلط فہمی کو بالکل دور کرلینا چاہیے کہ دوسروں کو سدھار دینا اور انہیں حق و راستی کی راہ پر لازماً استوار کردینا ہماری کوئی دینی و مذہبی ڈیوٹی ہے۔ ہمارا کام اور ذمہ داری بس اتنی ہی ہے کہ ہم دوسروں کو حق و ہدایت کے راستے کی طرف پوری خیرخواہی، حکمت و نصیحت اور دردمندی و دلسوزی کے ساتھ پکارتے رہیں، نیکی اور بھلائی کی تلقین کرتے اور بدی و برائی کو چھوڑنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ دوسرے ہماری اس دعوت و تبلیغ کا کیا اثر لیتے اور کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں، یہ اُن کا اپنا اختیار اور معاملہ ہے۔ اس حوالے سے ہم پر کوئی ذمہ داری لاگو نہیں ہوتی۔ خدا نے انسان کو پیدائشی طور پر بھی خیر و شر کا الہام فرمایا ہوا ہے اور انسان اپنی فطرت ہی کے بل پر بدی اور بھلائی دونوں سے واقف ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ خدا ہی نے اسے اچھا یا برا کوئی سا بھی راستہ اختیار کرنے اور نیکی یا بدی کوئی سی بھی راہ چلنے کی آزادی بخشی ہے لہٰذا ہمارا کام بھی بس یہی ہے کہ ہم لوگوں کو تذکیر و یاددہانی کرتے، اچھے کاموں کی ترغیب دیتے اور برے اور خراب کاموں سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کسی کے ساتھ زور زبردستی کرنا اور طاقت و قوت سے کام لے کر کسی کو کوئی سا خاص نظریہ اپنانے اور عمل کرنے کے لیے مجبور کرنا نہ صرف یہ کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ الٹا یہ خود ایک سرکشی کی حد کو پہنچا ہوا جرم اور انسانیت کے خلاف نہایت سنگین درجے کی زیادتی اور خدا اور اس کے دین سے کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔

لوگوں کو اس حوالے سے عام طور پر جو الجھن درپیش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ عام طور پر انسانوں کی اکثریت خدا سے غافل اور آخرت سے بے پرواہ ہوکر اور بدی و برائی کی بظاہر پرفریب و پر لذت زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں راہِ راست پر چلنے سے زیادہ مزہ شیطانی پگڈنڈیوں میں سرگردانی میں آتا ہے۔ انصاف سے زیادہ بے انصافی، دیانت سے زیادہ خیانت، خلوص سے زیادہ منافقت، سچ سے زیادہ جھوٹ اور اخلاق و انسانیت سے زیادہ خودغرضی، وحشت و درندگی اور بربریت و بہیمیت عالمی سطح پر غالب و جاری نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید سارے ہی لوگوں نے خدا کے خلاف علمِ بغاوت و سرکشی بلند کردیا اور کھلے طور پر جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ پھر میڈیا کے اس دور میں تو یہ معاملہ اور بھی زیادہ سنگین و دلخراش ہوگیا ہے۔ کیوں کہ میڈیا جہاں ہر انسان کو دنیا جہاں کی خبروں اور واقعات سے باخبر کرتا ہے وہیں اپنی پالیسی اور اپنے کارپردازان کی فطرت کی کجی کی بناء پر چن چن کر بری خبریں اور افسوسناک واقعات و سانحات ہی رپورٹ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں سماں اور زیادہ بھیانک اور صورتحال مزید ڈراؤنی اور بدنما ترین ہوجاتی ہے۔ سننے دیکھنے اور سوچنے سمجھنے والے کو ہر ایک انسان بداخلاقی اور شیطنت و شقاوت کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔ ایک سادہ دل، نیک طبیعت انسان جب اس صورتحال کو دیکھتا ہے تو فطری طور پر اسے شدید رنج و صدمہ ہوتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش یہ سارے لوگ درست ہوجائیں۔ خدا کی بندگی اور اس کے دین کی پیروی کے راستے پر آجائیں۔ برے کاموں کو چھوڑ کر نیکی اور بھلائی کے خوگر بن جائیں۔ بد اخلاقیوں کی تاریکیوں سے نکل کر اخلاق و شرافت کے اجالے میں آجائیں۔ یہ سارے معاملات بالکل فطری ہیں لیکن یہ نیک دل، سادہ طبیعت انسان جب اس بات کو نظر انداز کردیتا ہے کہ اس کا اس ابتر و بدحال صورتحال پر کڑھنا اور بے چین ہونا تو گو بالکل فطری ہے لیکن خدا نے ساری دنیا جہاں کا ٹھیکہ اسے نہیں دیا اور تمام لوگوں کو ظلم و ناانصافی سے باز رکھنا اور مظلوموں اور بے بسوں کی مظلومیت و بے بسی کو ختم کردینا اس کی ڈیوٹی اور ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری تو بس اپنے آپ کو حق و انصاف کے راستے پر استوار رکھنا اور اپنے دائرے میں خیر کا مبلغ اور شر و برائی کا مخالف بن کر جینا ہے۔ اس کی ذمہ داری کا دائرہ ایک محدود دائرہ ہے۔ دنیا جہاں کے معاملات سے سروکار رکھنا اور تمام لوگوں کی فکر کرنا اور ان کے لیے پریشان ہونا اس کا اپنے حدود سے باہر قدم رکھنا ہے۔ اپنی اصل ذمہ داریوں کو چھوڑ کر اپنے سے غیر متعلق معاملات میں دخل دینا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عام طور پر اچھی طبیعت، نیک روح اور خیرپسند مزاج رکھنے والے لوگ مغالطہ کھا جاتے اور اعتدال و توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر غیر معتدل اور غیر متوازن سوچ و عمل کی وادی میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ انسان کو جاننا چاہیے کہ خدا نے اسے محدود صلاحیتوں، قوتوں اور وسائل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس پر اس حوالے سے محدود ذمہ داری ہی ڈالی ہے۔ اسے اپنے علم و اطلاع یا میڈیا کی آگاہی سے متأثر ہوکر ساری دنیا کے بارے میں بے چین ہونے اور سب لوگوں کو درست کرلینے کی خواہش و آرزو میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے اس محدود دائرۂ ذمہ داری میں اپنے فرائض و واجبات سے عہدہ برآ ہونے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔ برائی کی کثرت اور پھیلاؤ سے مرعوب و مبھوت ہوکر دل نہیں چھوڑ بیٹھنا چاہیے اور نہ ہی خود کو درست رکھنے اور اپنے محدود دائرۂ تعلقات میں خیر کی تلقین اور شر سے پرہیز کی تبلیغ کو موقوف کرنا چاہیے۔ انسان اصلاً یہی غلطی کرتا ہے کہ وہ عالمی اسکیل پر اصلاح کے خواب دیکھتا اور امیدیں پالتا ہے پھر جب اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی پیمانے پر تو بہت دور رہا کسی اس سے نچلے درجے کے بڑے پیمانے پر بھی کوئی خوشگوار تبدیلی لانے اور سارے لوگ نہ سہی کم از کم چند افراد و اشخاص تک کو سدھار لینے کی طاقت و سکت نہیں رکھتا تو وہ بد دل و مایوس ہوجاتا ہے اور بجائے اس کے کہ دنیا جہاں کے معاملات کا اپنے آپ کو ٹھیکیدار سمجھنے اور تمام لوگوں کی اصلاح کو اپنی ڈیوٹی باور کرنے کی غلطی کرنے کے بجائے اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو سنوارنے کی کوشش میں لگا اور جتا رہے، وہ بے حوصلہ، پست ہمت اور مایوس ہوجاتا ہے۔ اس پر دل شکنی اور یاس کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ یہی وہ جگہ اور غلطی ہے جس سے ہمیں بچتے ہوئے خدا کے ٹھہرائے ہوئے تزکیۂ نفس کے مشن اور اپنے اردگرد اور حلقۂ تعلق کے ماحول کو روشن و تابناک بنانے کی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ انسان کی کامیابی اس بات میں پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو کہ اُس نے دنیا میں اپنے نفس کا بھی کامل تزکیہ کرلیا ہو اور دنیا جہاں کے تمام لوگوں کے حوالے سے وہ اصلاح و درستی کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن کھپا کر آیا ہو بلکہ انسان کی فوز و فلاح اور اخروی نجات کا راز یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پاک کرنے، اپنی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے اور اپنے اردگرد اور قریبی ماحول میں خیر و بھلائی کے فروغ اور شر و برائی کے استیصال کے لیے سرگرم رہا ہو۔ اور یہ سرگرمی جبر و تشدد اور داروغہ و فوجدار کے انداز کی نہیں بلکہ ایک ناصح و خیرخواہ کے انداز کی رہی ہو۔ انسان کو اپنی اور دوسروں کی ہدایت و اصلاح کی کوشش ہی کرنی ہے اس جدوجہد کے نتائج و ثمرات کیا نکلتے ہیں یہ بات خدا کی حکمت و مرضی پر موقوف ہے۔ انسان پر اپنے اس کام کا کوئی مثبت نتیجہ مرتب کرلینا ہرگز لازم نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا درست تعین کریں اور پھر اس دائرے کے اندر اندر اپنی حدِ استطاعت کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور نہ ہی کوئی کمی و کوتاہی ہونے دیں۔ اس کے بعد دنیا بدلے نہ بدلے، لوگ سنوریں نہ سنوریں ہمارا مستقبل اور ہماری آخرت قوی امید ہے کہ ضرور بدل اور سنور جائے گی اور ہم خدا کی رضا و خوشنودی اور جنت کے انعامات اور بادشاہی کے مستحق ضرور ٹھہریں گے۔

جہاں تک انقلاب کے حوالے سے میرے خیالات اور نقطۂ نظر کا تعلق ہے، میں کافی وضاحت کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک اسلامی حوالے سے انقلاب برپا کرلینا کوئی دینی یا اسلامی مشن ہے ہی نہیں۔ میں نے ایک خاص فکری تناظر میں یعنی اس وقت مسلمانوں میں جو انقلابی و سیاسی و جہادی فکر غالب و رائج ہے کے تناظر میں اپنے خیالات اس عنوان کے تحت پیش کیے تھے۔ ورنہ میں بہت وضاحت سے عرض کرچکا ہوں کہ اسلام کا مخاطب اصلاً فرد اپنی انفرادی و شخصی حیثیت ہی میں ہے اور اسلام اس کے سامنے کسی انقلاب اور سماجی تبدیلی کے بجائے شخصی طور پر تزکیۂ نفس ہی کا نشانہ رکھتا ہے۔ میں نے تو بس موجودہ غالب سیاسی و انقلابی فکر کے تناظر میں سماجی تبدیلی لانے اور کسی معاشرے اور سوسائٹی میں اسلام کو غالب اور قانون و نظام کی سطح پر جلوہ گر کرنے کے حوالے سے مفید و درست لائحۂ عمل کے حوالے سے اپنے محسوسات بیان کیے تھے۔ اس سے میرا مدعا یہ ہرگز نہیں تھا جس کی میں بار بار تفصیلی طور پر وضاحت کرچکا ہوں کہ سماجی انقلاب ہی اسلام کا نشانہ اور اہلِ ایمان کا مقصدِ زندگی ہے اور اس کا درست لائحۂ عمل یہ اور یہ ہے۔ براہِ مہربانی میری گزارشات کو میرے وضاحت کردہ تناظر میں دیکھیے اور پھر ان کے حوالے سے کوئی تبصرہ فرمائیے اور خدشہ و اشکال بتائیے۔ باقی پہلے اور اب میں نے اسلام کے حوالے سے ایک فرد کے معاملے کو بیان کرنے کی جو کوشش کی ہے اس سے آپ کے کنفیوژن اور اشکالات میں کوئی کمی یا تشفی کا سامان ہوا ہو تو ضرور آگاہ کیجیے اور اگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہو اور آپ کےا شکالات اور الجھنیں اور سوالات ابھی تک اپنی جگہ برقرار ہوں تو براہِ مہربانی انہیں نکتہ وار طریقے سے واضح اسلوب میں بیان کردیجیے تاکہ ان کو سمجھنا اور ان کے حوالے سے مزید گزارشات پیش کرنا آسان ہوسکے۔۔۔والسلام مع الحب و الاحترام
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Friday, September 3, 2010  -  4:47 PM Reply with quote
ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی استعداد و صلاحیت اور پہنچ و استطاعت کے اندر اندر خود کو اس طرزِ فکر و عمل سے مکمل طور پر بہرہ ور کرنے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنے کے ساتھ اپنے اپنے دائرۂ تعلق و حلقۂ رسائی میں انہی خیالات و روایات کو عام کرنے اور ایک واقعہ کی شکل دینے کی تگ و دو کرے۔ یہ یقیناً سماج کو سنوارنے اور معاشرے کو اصلاح پذیر بنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا اور اپنی اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہوگا۔
this is the summary of your revolution. Why don't you list at least 10--15 points which best describe your revolution then I can comment comprehensively.

Edited by: saba2 on Friday, September 03, 2010 4:49 PM
isfi22

PAKISTAN
Posted - Monday, September 6, 2010  -  6:03 AM Reply with quote
ایک مرتبہ پھر سلام و آداب۔۔۔۔۔۔۔ ہم اصل میں جس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں اس کے لیے انقلاب کا عنوان تو ایک خاص وقتی و زمانی و واقعاتی پس منظر کی وجہ سے معین ہوگیا ہے، ورنہ اس کے لیے ہم آسانی کی غرض سے ایک دوسرا واضح تر عنوان اسلامی دعوت اور اسلام کے حوالے اور اس کے فروغ و اشاعت کے لیے ایک مسلمان کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ بھی اپنے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ یہ موضوع و عنوان اپنے اندر بڑی جامعیت و وسعت اور پھیلاؤ اور ہمہ جہتی رکھتا ہے۔ اس کا تعلق پورے اسلام اور ایک مسلمان کی پوری زندگی سے ہے۔ ایسے پھیلے اور بے شمار پہلوؤں کے حامل عنوان کے لیے یہ آسان اور شاید کہ موزوں بھی نہیں ہے کہ ہم اسے کسی دس پندرہ نکاتی پروگرام اور لائحۂ عمل میں سمیٹ کر سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ اس بات کا عنوان ہے کہ ایک مسلمان پر اسلام سے تعلق کے بعد یہ لازمی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو ہر ہر پہلو اور ہر ہر زاویے سے اسلام کے مطابق ڈھالے۔ اس کے خیالات، اقدامات، جذبات، احساسات، معاملات، تہذیب کے اجزا و تفصیلات، تمدن کے علامات و نشانات، تعلقات، کاروبار، تفریحات، تنظیمات اور سیرت و سلوک و کردار وغیرہ ہر ہر چیز اسلامی تعلیمات و ہدایات یا اشارات کے ذیل و رہنمائی میں تشکیل پائے اور جاری و ساری ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حیثیت و استظاعت و لیاقت کے مطابق اپنے ماحول و سماج میں اسلام کی روشنی پھیلانے اور اپنے ربط و تعلق کے حدود میں موجود انسانوں کو بھی اسلامی رنگ میں رنگنے اور خدا کی بندگی و جاں سپاری کے راستے پر لانے اور گامزن کرنے کی کوشش و جستجو کرے۔ یہ ایک زندگی بھر کے جہاد اور حیات کے آخری لمحات تک جاری اور گرم رہنے والی جدوجہد اور تگ و دو کا نام ہے۔ اسے ہم چند نکات و اشارات میں کسی بھی طرح سمو کر بیان نہیں کرسکتے۔ اسے ایک دوسرے رخ سے یوں سمجھیے کہ آپ جب کسی کو خدا کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں تو گویا کہ اسے یہ تلقین کرتے ہیں کہ تم خدا کے بندے اور فرماں بردار بن کر رہو، اپنی زندگی اس کے احکام و ہدایات کے تابع اور پیرو بن کر گزارو، اپنے اخلاق و معاملات اور سلوک و برتاؤ اور تمام اقدامات اور رویوں میں اس کی مرضیات و مطلوبات کی پاسداری کرو۔ اب اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ ذرا براہِ مہربانی زندگی بھر خدا کی بندگی کے اس نسخے کو میری سہولت کے لیے چند نکات و اشارات میں سمو اور پرو دیجیے، تو یقیناً آپ کا جواب یہ ہوگا کہ یہ ایک ایسی اصولی ہدایت ہے جس کی تفسیر آپ کو اپنی پوری عملی زندگی کے ذریعے دینی ہے۔ آپ نماز پڑھیے، روزہ رکھیے، حج ادا کیجیے، زکوٰۃ پابندی سے دیتے رہیے، سچ بولیے، امانت و دیانت سے کام لیجیے، فواحش و منکرات اور زیادتی و حق تلفی کے کاموں سے بچتے رہیے، اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیجیے، حلال روزی کمائیے، صدقہ و خیرات کیجیے، لوگوں کے ساتھ بھلے طریقے سے معاملہ کیجیے اور تعلقات نبھائیے، ماں باپ کا ادب کیجیے، چھوٹوں پر شفقت کیجیے، ہر ایک کا حق ادا کیجیے، دینی تعلیم کے حصول کے لیے جستجو میں لگے رہیے، اپنے اخلاق و کردار کا محاسبہ و تصحیح کرتے رہیے اور ہر وہ کام کیجیے جو خدا کو پسند اور اس کی ہدایت کے مطابق مطلوب و مرغوب ہے اور ہر اس کام و اقدام سے دور رہیے اور پرہیز کیجیے جو خدا کو ناپسند اور اس کی تعلیم و تلقین کی روشنی میں برا اور گناہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ آپ بس مجھے چند جملوں میں خدا کی بندگی اور خدا پرستانہ زندگی کا سارا نقشہ اختصار کے ساتھ کھینچ کر دے دیجیے، تو بلاشبہ آپ معذرت کرتے ہوئے اس کی خدمت میں یہی گزارش کریں گے کہ اسلام پر چلنا اور خدا کی بندگی کی زندگی گزارنا کوئی ایسا پروگرام و کام نہیں ہے کہ جس کی تفصیلات اور شقیں میں آپ کو مختصر سی چند سطروں میں بتا اور سمجھا دوں۔ یہ تو ایک ایسی اصولی ہدایت ہے جس کی تفصیل کے لیے آپ کی زندگی بھر کے واقعات و معاملات کا احاطہ کرکے ان کے حوالے سے خدا کی مرضی و چاہت کو سامنے لانا پڑے گا۔ اور یہ کام کوئی ضروری نہیں ہے۔ آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ اپنا مقصود خدا کی بندگی کو بنالیجیے اور اپنے علم و فہم کے مطابق اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کرنے والے کام کیجیے اور نہ کرنے والے کاموں سے بچیے۔ یہ اصولی تلقین و ہدایت آپ کے لیے بہت کافی ہے۔ تفصیلی نقشہ آپ زندگی بھر اس پر عمل پیرا ہوکر ترتیب دیتے رہیے گا۔

اسلام کے حوالے سے ایک فرد کا عمل اور دعوت کے باب میں کیا کردار ہونا چاہیے، اسے ہم دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ خدا کی بندگی جو ایک مومن و مسلم سے اصلاً مطلوب ہے وہ کیا ہے اور اسے انجام دینے کا طریقہ کیا ہے۔ اوپر مثال کے ذریعے میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح آپ خدا کی بندگی کرنے کے حوالے سے کسی انسان کو یہ تلقین تو کرسکتے ہیں کہ اسے اپنی پوری زندگی خدا کا عابد و فرماں بردار بن کر رہنا چاہیے لیکن اس کا تفصیلی نقشہ کیا ہوگا، اس حوالے سے ہر ہر انسان کا معاملہ اور حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کے لیے اس کا تفصیلی نقشۂ کار اس لحاظ سے الگ الگ ہی ہوگا اور ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم کوئی ایسا تفصیلی خاکہ بناکر سامنے رکھ سکیں جس میں دیکھ کر مختلف احوال و پس منظر اور معاملات و ماحول رکھنے والے مختلف لوگ خدا کی بندگی کے حوالے سے اپنا اپنا تفصیلی لائحۂ عمل متعین کرسکیں۔ اس سلسلے میں جو چیز قابلِ عمل ہے وہ یہی کہ لوگوں کو بس بار بار اس بات کی تلقین کی جائے کہ وہ خدا کی مکمل بندگی اور اسلام کی مخلصانہ پیروی کی راہ پر استوار رہیں اور اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں اور جتنا جتنا ان کا اسلامی علم و فہم ترقی کرتا جائے وہ خدا کی بندگی کے حوالے سے اپنی زندگیوں میں تبدیلی اور تغیرات لاتے اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلام کے ماتحت و مطابق بناتے رہیں۔

کرنے کا اصل کام کیا ہے؟ اس کا اگر براہِ راست جواب دینے کی کوئی کوشش کی بھی جائے تو وہ یہی ہوگی کہ انسان بنیاد سے لے کر اسلامی زندگی کی عمارت کی آخری بلندی تک پہنچنے اور اور اسے اپنی زندگی اور معمولات میں معیاری حد تک اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ اسلام کی ہر تعلیم پر اس کا عمل ہو، اسلام کی ہر ہدایت کی وہ تعمیل کرے، اسلام کی ہر چاہت اس کے دل کا قرار اور اسلام کی ہر ناپسندیدہ چیز اس کے لیے باعثِ بیزاری و بخار بن جائے۔ اس کی فکر، نظر، سوچ، ذہنیت، پلانز، خواہشات، تمناؤں، امنگوں، خوابوں، امیدوں، اعمال و افعال اور رویوں اور سرگرمیوں میں ہر طرف اسلام رچا اور بسا ہوا ہو۔ یہی اس کی آنکھوں کا نور، اس کے دل کا سرور اور اس کی منزلِ مراد اور اس کا ٹارگٹی منشور ہو۔ پھر اس کا مقصد و مدعا خالی اپنی انفرادی حیثیت ہی میں اسلام کو غالب و بالا اور رائج و نافذ کرلینا ہی نہ ہو بلکہ وہ یہ ارمان بھی رکھے اور اس بات کے لیے بھی پورے جوش و جذبے سے سرگرم ہو کہ اس کے ارد گرد کے ماحول کا ہر ہر فرد بھی اسی اسلامی اور خداپرستانہ رنگ میں رنگ جائے، خدا کا مخلص و جاں نثار بندہ، عمدہ و برتر اخلاقیات سے آراستہ اور آخرت کو اپنی منزل و مراد بنانے کا خوگر بن جائے۔ آپ نے اس حوالے سے میرے جو الفاظ نقل کیے ہیں، ان کا تعلق گو ایک عام مسلمان فرد کی ذمہ داری بتانے سے ہے کہ:

ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی استعداد و صلاحیت اور پہنچ و استطاعت کے اندر اندر خود کو اس طرزِ فکر و عمل سے مکمل طور پر بہرہ ور کرنے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنے کے ساتھ اپنے اپنے دائرۂ تعلق و حلقۂ رسائی میں انہی خیالات و روایات کو عام کرنے اور ایک واقعہ کی شکل دینے کی تگ و دو کرے۔ یہ یقیناً سماج کو سنوارنے اور معاشرے کو اصلاح پذیر بنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا اور اپنی اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہوگا۔


ایک عالم و واقفِ دین شخص سے بھی یہی مطلوب ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ عام آدمی کا حلقۂ دعوت و اصلاح اس کا اپنا دائرۂ تعلق و ربط ہوتا ہے جبکہ اس حوالے سے عالم کے کام کا دائرہ اس کی پوری قوم تک وسیع ہوجاتا ہے اور اسے پوری قوم کے سامنے دین کا نمائندہ، اخلاق و اقدار کا مبلغ و محتسب اور آخرت کے انذار و چیتاؤنی کا پیامبر بننا ہوتا ہے۔ عام آدمی اور ایک عالمِ دین شخص کی اس حوالے سے جو ذمہ داری بنتی اور فریضہ ٹھہرتا ہے، میں نے اپنے فہم کی حد تک مختصراً یہاں اس کی وضاحت کردی ہے۔ اس حوالے سے بات کو آگے بڑھانے کے لیے یہ سوال یا اعتراض تو ہوسکتا ہے کہ میرا فہم درست ہے یا نادرست یا اس بیان کے فلاں فلاں حصے میں مجھ سے لغزش و کوتاہی ہوگئی ہے یا یہ کہ میں نے فلاں فلاں پہلوؤں کو نظر انداز کردیا ہے وغیرہ، لیکن یہ سوال کہ میں اس سارے بیان و پروگرام کو چند مختصر پوائنٹز کی شکل میں ایک مختصر و قابلِ عمل لائحۂ عمل بناکر پیش کردوں، میرے خیال سے درست مطالبہ نہیں ہے۔ اگر محض سمجھنے اور آسانی کے لیے ایسا کوئی داعیہ واقعتا موجود ہے تو جو پیراگراف آپ نے نقل کیا ہے، اس حوالے سے اس میں کافی اختصار اور روشنی موجود ہے۔ اس کو پڑھ اور سمجھ کر اسے اپنی ذات و شخصیت کی حد تک ایک پروگرام کی شکل دینا کوئی ایسا کٹھن و دشوار کام نہیں ہے جو آپ سے نہ ہوسکتا ہو۔ لہٰذا مجھے کوئی اسائنمنٹ دینے کے بجائے آپ اس حوالے سے تھوڑی سی زحمت و مشقت برداشت کیجیے۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Monday, September 6, 2010  -  2:35 PM Reply with quote
Isfi I understand all you have said and you did manage to summarize your thoughts. Sorry for being so slow to catch on. I agree with all you have put forward with so much effort, individuals in their own right are doing all that you have said in the way each understands but these individuals are very few and the society to be reached a lot. The speed at which new people added to this task are very few on the other side poverty and misery is increasing,We are far gone to listen to reason or persuasion we dont have the time for persuasion human life has lost its value. I am afraid drastic measures have to be taken soon to elevate the suffering of our fellow citizens. I dont only mean economic deprivation but spiritual too. Take the incidence of the boys killed in sialkot they were kids and they were publicly beaten to death in broad daylight in front of a crowd of common people and police yet people chose not to do any thing. They did not even leave but watched as the 2 boys died. That is spiritual and moral degradation of extreme so we need a drastic solution.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Tuesday, September 7, 2010  -  6:21 AM Reply with quote
محترمہ منتظم صاحبہ۔۔۔۔۔۔ آج آپ کی پوسٹ پڑھ کر مجھے کچھ تھوڑا سا طیش آیا اور دل چاہا کہ بہت ہی جارحانہ اور سخت اور تند و تیز انداز میں آپ کو جواب دوں لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں مجھے نارمل انداز ہی میں بات کرنی اور وضاحت دینی چاہیے۔ یقیناً آپ جاننا چاہیں گی کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مجھے آپ کے الفاظ اور جملوں پر یہ کیفیات لاحق ہوئیں۔ میں عرض کروں گا کہ اس کی وجہ خدانخواستہ آپ کی ذات سے کوئی شکایت و رنجش نہیں بلکہ وہ خیالات، تصورات اور رجحانات ہیں جو آپ کے اس مختصر بیان میں بہت گہرے طور پر رچے بسے ہوئے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ ذیل میں انہیں ایک ایک کرکے آپ کے سامنے لاؤں کیوں کہ عموماً اس طرح کے خیالات انسان کو غلطی لگنے کی بناء پر غیر شعوری طور پر اپنی گرفت میں لیتے اور اس کے دل، دماغ، سوچ، جذبات اور احساسات کا احاطہ کرلیتے ہیں۔امید ہے کہ آپ ان پر پوری سنجیدگی اور ہمدردی کے ساتھ غور فرمائیں گی اور شاید کہ میری بات سمجھنے اور اپنے دل و ضمیر کے اسے تائید دینے کے بعد اپنی تصحیح بھی فرمالیں گی۔

آپ فرماتی ہیں کہ آپ کو میری ساری باتیں سمجھ آگئی ہیں، آپ اُن سے اتفاق بھی کرتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوسائٹی میں بگاڑ بہت بڑے پیمانے پر آچکا ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو ان صحیح باتوں پر عمل پیرا اور صحیح روش و رویے پر قائم ہیں۔ اگر ایسے نازک وقت میں بھی ہم نے اپنی انہی بظاہر صحیح باتوں ہی پر اصرار کیا اور کسی دوسرے انداز کی فوری نتیجہ خیزی کی حامل پالیسی اور اقدام کی طرف توجہ نہ دی تو حالات کا بگاڑ قابو سے باہر ہوجائیگا اور پھر اسے سنبھالنا ہمارے لیے ممکن نہ رہے گا۔ مجھے آپ کی بات سے اس حد تک اتفاق ہے کہ واقعتا ہمارے حالات مذہبی و اخلاقی حوالے سے تو دگرگوں ہیں ہی، دنیوی اور معاشی و معاشرتی پہلو سے بھی نہایت گھمبیر و افسوسناک ہیں۔ حالات کا بگاڑ و فساد بے انتہا ہے لیکن جب آپ یہ مانتی ہیں کہ بات وہی ٹھیک اور اس بگاڑ و فساد کا علاج وہی درست ہے جو میں نے تجویز کیا اور بہت تفصیل سے بار بار بیان کیا ہے تو پھر یا تو آپ یہ کہیے کہ نہیں آپ کو اس سے اختلاف ہے، آپ اس کو درست نہیں سمجھتی اور موجودہ حالات کے تناظر میں کوئی دوسری تجویز اور پالیسی اور لائحۂ عمل آپ کے خیال میں زیادہ کارگر اور موزوں ہے، لیکن اگر آپ کو مجھ سے اتفاق ہے اور میرا بیان کردہ طریقۂ کار ہی آپ کے فہم و عقل کے مطابق بھی واحد مفید و درست طریقہ ہے تو پھر ایک درست و ٹھیک طرز و طریقے کو چھوڑ کر آپ کوئی دوسرا مفیدِ مطلب طریقہ و پالیسی کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گی۔ یا تو میرے بیان سے اختلاف کرکے کوئی دوسرا زیادہ مناسب و نتیجہ خیز طریقہ بیان کیجیے اور پھر اس کو زیرِ عمل لانے کی بات کریے، ورنہ پھر جو ہوتا ہے اسے ہونے دیجیے اور جس طریقے کو آپ کا فہم، ضمیر، عقل اور ذہن قبول کررہا اور واحد درست راستہ محسوس کررہا ہے، اس پر چلتے رہیے۔ آپ کو دنیا کا ٹھیکیدار یا خدا کی زمینی بادشاہی یا اس زمینی سلطنت کے مسلم حصے کا پاسبان و نگہبان اس معنی میں نہیں بنایا گیا کہ ضرور ہی اسے تباہی و بربادی کی طرف جانے سے روک لینا آپ کی ذمہ داری ہو۔ آپ کی ذمہ داری اپنے فرائض و واجبات بجالانا اور اپنے علم و فہم کی حد تک اصلاح کے درست نسخے کو زیرِ عمل لاتے رہنا ہے۔ اس سے کوئی فائدہ ہوتا ہے ہو، نہیں ہوتا نہ ہو۔ تبدیلی آتی ہے آئے، نہیں آتی نہ آئے، مسلم ملت کا فساد و بگاڑ رکتا ہے رکے، نہیں رکتا نہ رکے، آپ کا کام نتائج مرتب کرلینا اور اپنے حسین تخیلات اور خوابوں کو زمینی حقیقت کا مرتبہ دلوالینا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کرتے رہنا ہے۔ اس کے بعد جو ہوتا ہے ہوتا رہے اس کی ذمہ داری اور بوجھ آپ پر نہیں ہے۔

بہت کم لوگوں کے صحیح اندازِ فکر و عمل کے حامل ہونے اور صحیح راہ و روش پر استوار ہونے کی جہاں تک بات ہے تو میں جاننا چاہوں گا کہ آخر آپ کے پاس وہ کیا فارمولا اور پروگرام یا جادو ٹونہ اور منتر جنتر قسم کا طلسماتی نسخہ ہے جس کے ذریعے آپ افراد کی بڑی تعداد کو سیدھا کرسکتیں اور بگاڑ و فساد کے بجائے نیکی و پارسائی کے راستے کا مسافر بناسکتی ہیں۔ کیا آپ ان کے ساتھ زور زبردستی کریں گی۔ اگر نہیں تو پھر اس کے علاوہ اور کیا چارہ اور طریقہ رہ جاتا ہے کہ آپ تعلیم و تربیت، تبلیغ و تلقین، نصیحت و فہمائش اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے ہی ان کی اصلاح کرنے اور ان کے مزاج و طبیعت کو فساد پسندی کا طریقہ چھوڑ کر صلاح پسندی کا وطیرہ اپنانے کی جانب مائل کرسکیں۔ ہاں اگر آپ کے پاس کوئی خارقِ عادت قسم کا نفسی یا روحانی کمال و ہنر موجود ہے یا آپ نے باقاعدہ جادو اور عملیات کے فنون کی اس درجہ مہارت و تربیت پائی ہے کہ جس سے کام لے کر آپ بغیر کسی جبر و تشدد کے لوگوں کی بڑی تعداد کو ٹیڑھے راستوں اور رویوں سے ہٹاکر سیدھی راہ و روش کا خوگر بناسکتی ہیں تو پھر الگ بات ہے ورنہ یہ بات بہت اچھی طرح جان اور سمجھ لیجیے کہ خدا نے آپ کو ہرگز کسی کے ساتھ زور زبردستی کرنے اور اپنی بات کسی پر ٹھونسنے اور لادنے کا اختیار نہیں دیا بلکہ جبر و تشدد سے کام لے کر کسی کو کوئی خاص فکر و عمل یا مذہب و رائے اختیار کرنے پر مجبور کرنا وہ بدترین جرم ہے جس کے خلاف خدا نے اپنے پیغمبر کو جنگ و جدال اور جہاد و قتال کا حکم دیا تھا۔ قیامت تک ظلم کے خلاف جنگ و جہاد کے باقی رہنے کا جو معاملہ ہے اس کا سب سے زیادہ اطلاق اسی صورت پر ہوتا ہے کہ انسانوں کو ان کی مرضی کے خلاف کوئی فکر و رائے اپنانے کا پابند بنایا جائے او اس کے لیے زور و تشدد سے کام لے کر انہیں مجبور کیا جائے۔ لہٰذا یہ تو وہ دروازہ ہے جو خدا نے اپنے پیغمبروں کے لیے بھی کبھی نہیں کھولا، میرے اور آپ کے لیے اس کے کھلنے کا کیا سوال۔ اس کے بعد میں بڑے شوق اور تجسس کے ساتھ جاننا چاہوں گا کہ آخر آپ کے پاس وہ کون سا الٰہ دین کا چراغ یا طلسماتی وظیفہ و منتر ہے جس سے آپ یہ انہونی کرشمہ رونما کریں گی کہ انسانوں کی بڑی تعداد بغیر کسی جبر و اکراہ کے بے دینی اور بد اخلاقی کے مشغلے ختم کرکے پاکباز و باکردار بن جائے۔

دنیا میں یا ہمارے معاشروں میں غربت و جہالت بے حد زیادہ ہے اور روز بروز دگنی چوگنی ہورہی ہے اور ہم بہت تیزی کے ساتھ مزید تباہی، بربادی اور بگاڑ و ابتری کی جانب رواں دواں ہیں۔ یہ باتیں کرکے آخر آپ کیا تأثر دینا چاہتی ہیں۔ کیا یہ کہ خدا نے یہ معاملات آپ کو سونپ دیے ہیں اور آپ اس لیے بے چین ہیں کہ اگر آپ نے اس سلسلے کو بند نہ کرایا اور دنیا کو یا مسلم معاشروں کو بگاڑ و تباہی کے راستے سے ہٹاکر فلاح و خوشحالی کے راستے پر نہ ڈالا تو آپ خدا کی بارگاہ میں مجرم و قابلِ گرفت ٹھہریں گی۔ یقیناً آپ کے وہم و گمان میں بھی اس طرح کا کوئی خیال موجود نہ ہوگا۔ لیکن یقین کیجیے کہ آپ کی باتوں کے انداز و مزاج سے جو تأثر مجھ پر وارد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ باتیں کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جس کے دل و دماغ میں اس طرح کی کوئی غلط فہمی موجود ہو کہ خدا نے اسے ان معاملات کا ٹھیکیدار و چوکیدار بنادیا ہے۔ اپنے ملک و قوم اور سماج کے بگاڑ و اختلال پر کڑھنا اور افرادِ سماج کے مزاج و طبیعت کے فساد اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوں پر تشویش محسوس کرنا یقیناً ایک فرد پر اپنی قوم و سوسائٹی کا حق ہے۔ جو شخص اس احساس سے خالی ہو وہ ایک مردہ شخص ہے۔ ہر زندہ فردِ معاشرہ کو اس معاملے کی اصلاح کے لیے فکرمند اور سرگرم ہونا چاہیے۔ لیکن اس معاملے میں ایک فرد انفرادی طور پر کیا کرے گا؟ کیا وہ حالات کے بڑے پیمانے کے بگاڑ و فساد کو دیکھ کر یہ کرے گا کہ خدائی فوجدار اور آسمانی صاحبِِ اقتدار بن کر لوگوں پر چڑھ دوڑے اور طاقت و قوت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے انہیں آئندہ برائی کرنے اور بداخلاقیوں کا مرتکب ہونے سے روک دے اور انہیں مجبور کرے کہ آگے سے وہ سراپا نیکی و خوبی بن کر جییں اور کسی بدی و برائی کا ارتکاب تو دور رہا، اس کا سوچیں بھی نہیں۔ دین کی روشنی میں میں آپ کو تفصیل سے بتاچکا ہوں اور آپ نے اس سے اتفاق بھی کیا ہے کہ ایک فرد کے لیے طاقت و قوت کا استعمال تو بہرحال کسی صورت روا نہیں ، اسے جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنے گھرانے کو درست کرے۔ اپنے علم و عمل اور اخلاق و کردار کو کجیوں اور بگاڑوں سے پاک کرے اور پھر اپنے حلقۂ احباب و تعلق میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا بنکر کھڑا ہوجائے۔ یعنی وہ اپنے ملنے جلنے والوں کو خیر کے کاموں کی تلقین کرے اور خراب کاموں کو چھوڑنے کی دعوت دے۔ لوگوں کو اچھی باتوں کی رغبت دلائے اور بری باتوں سے متنفر کرنے کی کوشش کرے۔ وہ پوری ہمدردی و دلسوزی کے ساتھ لوگوں کو اپنے معاملات کو درست کرنے، اخلاقی رذائل کو چھوڑنے اور سیرت و کردار کی خوبیوں اور کمالات کو اپنانے کی نصیحت کرے۔ دیکھ لیجیے کہ ہر ہر پہلو سے وہی بات صحیح ٹھہر رہی اور ہر ہر کسوٹی پر وہی تجویز درست ثابت ہورہی ہے کہ ایک انسان کو بہر حال تعلیم و تبلیغ اور نصیحت و ترغیب کے حدود میں محدود رہ کر ہی افرادِ سماج کے افکار و خیالات اور عادات و اطوار اور اخلاق و معاملات کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا نے ہر ہر فردِ نسلِ انسانی کو خیر و شر میں سے کسی بھی راہ کو اپنانے کی آزادی اور اختیار دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں انسان کے نفس کو برائی بڑی پرلذت معلوم ہوتی اور بھلائی اس کی بنسبت اس کو اپنی جانب کم ہی راغب کرپاتی ہے۔ لوگ سامنے کے مفادات اور اپنی جائز و ناجائز اغراض کی خاطر ہر طرح کی بداخلاقی کرگزرنے اور ہر حد و قانون کو روند ڈالنے کے لیے آسانی سے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ تو ایسے ماحول میں خیر و نیکی اور اصلاح و راستی کی دعوت کے ساتھ صرف آج ہی یہ نہیں ہورہا کہ اس کا اثر کم لوگ قبول کریں اور اس راستے پر بہت تھوڑے لوگ چلیں بلکہ یہ تو اس دنیا کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ یہاں ہمیشہ خیر کے مقابلے میں شر غالب رہا اور زیادہ تعداد میں لوگ بھلائی کو چھوڑ کر برائی کو اپنائے اور اختیار کیے رہے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ خوامخواہ برائی کی کثرت اور اس کی طرف مائل ہونے والوں کی تعداد کی زیادتی کو دیکھ کر مایوس و بددل ہوا جائے یا پھر جوش میں آکر درست طریقے کو چھوڑ کر زور زبردستی سے کام لینے اور لوگوں کو مجبور کرنے کے غلط اور ناجائز راستے کو اپنانے کی بات کی جائے۔ بلکہ معقولیت اور دینی تعلیم و تربیت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں اور اصلاح کے باب میں جو درست لائحۂ عمل ہے اس پر پوری پختگی اور استقامت کے ساتھ عمل پیرا رہیں۔ اس کے بعد آپ کی محنت و قربانی کیا رنگ لاتی اور کیا ثمرات دکھاتی ہے، یہ معاملات خدا کی مرضی و مشیت پر منحصر ہیں۔ آپ کو ان حوالوں سے زیادہ فکرمند و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ تو اپنا کام کرتے رہیے اور اپنی ساری توجہات اس بات پر مرتکز رکھیے کہ اپنے کام، فرض اور ذمہ داری کی ادائیگی میں کہیں آپ سے کوئی کوتاہی اور کمی نہ ہوجائے۔

ہمیں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ یہاں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے اس کی مرضی و اجازت ہی سے واقع ہوتا ہے۔ ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ کوئی ذرہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور کوئی پتہ زمین پر نہیں گرتا مگر خدائے علیم و خبیر کے علم و حکم اور مرضی و مشیت ہی کے تحت یہ سارے معاملات ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ دنیا پر کس قوم و ملت کو اقتدار و غلبہ ملے یا کسی ملک و ملت اور قوم و سماج کے حالات صلاح پذیر رہیں یا بگاڑ آلود ہوجائیں، یہ واقعات بغیر خدا کی مرضی کے یونہی رونما ہوجاتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان معاملات کو اپنے تخیلات اور خوابوں اور خواہشوں کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ ایسا سوچنا اور گمان کرنا یقیناً نہایت فاش اور سنگین غلطی اور خدا کی ذات و صفات کی معرفت و شناسائی سے آخری درجے کی محرومی ہے۔ لہٰذا جس طرح وہ مسلمان بالکل واضح طور پر غلطی پر ہیں جو بڑی تعداد میں اپنے سیاسی و انقلابی مفکرین کے لٹریچر سے متأثر ہوکر دنیا میں جہاد و قتال اور جبر و تشدد کے ذریعے اسلامی انقلاب لانے اور اسلام کو نظام و قانون کی سطح پر غلبہ دلانے کے لیے کوشاں ہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی درستیٔ فکر سے محروم ہیں جو گو مذکورہ انقلابی و سیاسی و جہادی نقطۂ نظر کو درست نہیں سمجھتے لیکن اس کے بعد جو واحد تعلیمی و تربیتی اور تبلیغی و فہمائشی طریقۂ اصلاح بچتا ہے اسے بھی بہت زیادہ وقت طلب اور نہایت سست رفتاری سے نتائج و اثرات مرتب کرنے والا کہہ کر کسی درمیان کی راہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایک مثال سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ جس طرح کسی قاتل کو سزا دینا صاحبانِ اقتدار اور قانون و عدالت کا اختیار ہے۔ کسی عام شہری کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی قاتل کو خود ہی سزا دے ڈالے، کیوں کہ یہ اس کے اختیار اور ذمہ داری کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ بالکل اسی طرح ایک عام مسلمان کا کام اپنی، اپنے گھرانے اور اپنے رابطہ و تعلق کے حدود میں آنے والے لوگوں کی اصلاح و درستی کی کوشش کرنا ہے۔ ان حدود سے باہر نکل کر سارے معاشرے یا پھر ساری دنیا کے بارے میں فکرمند و مبتلائے تشویش ہونا اور سوسائٹی یا دنیا کے بگاڑ و فساد کو اپنا بخار و دردِ سر بنانا ایک حماقت و نادانی کا معاملہ ہے نہ کہ کوئی قابلِ تعریف و پذیرائی کاروائی۔ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر وہ اپنی، اپنے گھر کی اور اپنے ماحول کی اصلاح میں کامیاب ہوگئے اور اسی طرح دوسرے بہت سے لوگ بھی اگر اس ٹارگٹ کو سر کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس طرح یہ چھوٹے چھوٹے اصلاح پذیر دائرے مل کر سماجی پیمانے پر کتنی بڑی اصلاح یافتگی کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لوگ ان حقائق اور پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے اور اپنی ذمہ داری کے اس میدان میں سرگرمِ عمل ہونے کے بجائے اپنے تخیلات و تصورات اور غیر ضروری جوش سے مغلوب ہوکر سارے سماج اور ساری دنیا کو سدھارنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح اور تو کچھ نہیں ہوتا، نہ سماج سدھرتا ہے اور نہ ہی دنیا سنورتی ہے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ اپنی ذمہ داری کے اس اصلی و حقیقی دائرے میں توجہ نہ دینے اور دوسرے دوسرے دائروں میں سرگرم و مصروف رہنے کے باعث اپنے اس قریبی و واقعی دائرے تک میں سدھار و نکھار لانے میں ناکام رہتے ہیں اور اس طرح جو فوائد سماج و دنیا کو ان سے مل سکتے تھے اور ملنے چاہیے تھے، یہ لوگ وہ ممکن فوائد و ثمرات بھی سوسائٹی اور دنیا کو نہیں دے پاتے۔ میرے محترم ریحان احمد یوسفی کا اس حوالے سے ایک خوبصورت آرٹیکل ذیل کے لنک کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش ہے:

http://ishraqdawah.org/CurrentIshraqArticleDetail.aspx?Id=806&;Ser=1
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Tuesday, September 7, 2010  -  6:33 PM Reply with quote
If I am guilty of any thing, it is despair I do not believe in agression , violence or brutal force, I also donot believe in verbal agression. I believe everyone has a right to live their life the way they choose to. If I say or sound desperate about our society does it mean I am questioning God's wisdom? Is it right to do nothing or not even think or plan ahead because it is meant to be? We have to think and as you said individually and collectively do what ever we think is right and pray and hope for the best. When you think you plan you annalyise you are not interfering in God's plan but using the power of thought and intelligence which separates Man from animal. Do i think i am the chosen one or any special
gifted person blessed by god who has to make these changes in the society? no I don't think that but yes I do believe I will be asked by God on the day of judgement if I had done enough in terms of responsibility to society. When I mentioned the incident of sialkot the crowd of people who were standing and watching were ordinary evryday people like you and me, not hardened criminals. So what if I was there what would I have done? The same? or better still taken out my mobile phone and made a movie to show to my family and friends? Or the right thing step forward and try and stop the beating? I am grateful to God he did not put me through any such test.
Why do I react to your plan as I do? The answer to that is very complicated but I will try and explain as well as i can, I have seen two genrations before me my granparents who were the founders so to speak of pakistan or who saw the birth of Pakistan, my parents who took the responsibility of a young country and then my generation who now is on the brink of handing over to your generation. None of us have been able to come up to the challenge collectively or individually of any marked change or any remote improvement morally ethically by religious or any standard. This is what we are handing over to our next generation that is your generation maybe it is our shame and guilt of
being the bad parent teacher or planner that makes me think so.Wisdom sometimes does not come with age, maybe your genration will be wiser than ours and the way you foresee of each individual working in their own circle taking baby steps will result in a collective giant step.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, September 8, 2010  -  7:21 AM Reply with quote
تشدد و جارحیت یقیناً ایسی چیزیں ہیں جو فکری معاملات میں بہرصورت قابلِ مذمت اور لائقِ احتراز ہیں۔ لیکن اس کے باوصف کچھ خیالات و رجحانات ایسے ہوسکتے ہیں جن کے حوالے سے کوئی فریق یہ احساس رکھتا ہو کہ یہ سنگین ترین نوعیت کے فکری مغالطے اور انحرافات ہیں، لہٰذا وہ ان کے حوالے سے تنقید و تردید کا نہایت سخت اور تیز و تند لب و لہجہ اختیار کرے۔ عملی جارحیت کے برخلاف فکری و تنقیدی جارحیت بعض اوقات اس لحاظ سے مفید و مؤثر اور شاید کہ ضروری بھی ہوتی ہے کہ وہ زیرِ نقد فکر و نقطۂ نظر اور ہدفِ تردید افکار و خیالات کے حوالے سے ذہنوں کو گہرائی کے ساتھ جھنجوڑسکے اور اپنی غلطی و کوتاہی کا ادراک کراسکے۔ اسی پہلو سے میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں آپ کے بعض احساسات و تأثرات پر جارحانہ و متشددانہ تنقید کی خواہش پیدا ہونے کا ذکر کیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھا کہ اس کا سبب اور ہدف کسی کی ذات و شخصیت نہیں بلکہ وہ چند خیالات و تصورات ہیں جنھیں میں سخت غلطی اور لغزش کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ ورنہ میں اپنی بہت سی پوسٹوں میں اس حقیقت کا اعتراف اور کھلے لفظوں میں تائید و حمایت کرچکا ہوں کہ انسان کے لیے خدا کی طرف سے عطا کی گئی فکر و عمل کی آزادی بہر حال قابلِ احترام ہے۔ کسی بھی عام یا خاص شخص یا طبقے اور ٹولے کو کسی انسانی فرد یا معاشرے کو اس سے محروم کرنے اور فکر و عمل کے انتخاب کے باب میں کسی جبر و اکراہ کا نشانہ بنانے کا کوئی حق و اختیار حاصل نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا نے ہر ہر انسان کو سوچنے سمجھنے اور اپنے عقل و ضمیر اور فہم و تحقیق کے مطابق درست محسوس ہونے والی رائے اور روش اپنانے کی نہ صرف آزادی اور اختیار دیا ہے بلکہ زندگی کی تخلیق اور کائناتِ انسانی کی تشکیل و تعمیر کے پس منظر میں اُس کی جو اسکیم کارفرما ہے اس کا بھی لازمی فطری تقاضا یہی ہے کہ انتخابِِ فکر و عمل کی اس آزادی کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے۔ اسی لیے اسلام نے ظلم و عدوان کے خلاف استطاعت ہونے اور جہاد کے شرائط و لوازمات پورے ہونے کی صورت میں مسلمانوں پر جنگ کی جو ذمہ داری عائد کی ہے، اس کی سنگین ترین صورت یہی ہے کہ اُس ظالم و جابر انسان یا گروہ کے خلاف ہتھیار اٹھایا جائے جو انسانوں کے کسی طبقے اور گروہ کو جبر و تشدد کے ذریعے ان کی اس فطری و پیدائشی آزادی اور حریتِ فکر و عمل سے محروم کرکے انہیں کوئی خاص دین و مذہب یا رائے اور عمل اختیار کرنے پر مجبور کررہا ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اب ہر ہر انسان کو لامحدود طور پر سوچنے اور عمل کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے اور اس کی اس آزادیٔ فکر و عمل کے لیے کوئی حدود و قیود ہی باقی نہیں بچے ہیں۔ انسان کی یہ آزادی ایک محدود آزادی ہے۔ اسے اپنی ذمہ داری کے حدود ہی کے اندر رہ کر سوچنا اور اِس دائرے میں محدود رہ کر ہی عمل کرنا ہے جس کی سرحدوں سے دوسروں کی آزادی شروع ہوتی ہو اور جن کے حوالے سے غیر محتاط رویہ دوسروں کی آزادی کو مجروح کرنے کا باعث بنتا ہو۔ میں نے لاسٹ پوسٹ میں ایک مثال کے ذریعے سے اپنی بات کی وضاحت پیش کی تھی کہ کسی قاتل کو سزا دینا صاحبانِ اقتدار، ان کی طرف سے مقرر بااختیار محکمے اور قانون و عدالت کے کارپردازان کا کام ہے نہ کہ ہر ہر فردِ سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ قاتل جس عام شہری کے ہتھے چڑھ جائے، وہ قتل کے جرم میں اسے سنگسار کرنے اور پھانسی لٹکانے کا فریضہ ادا کرڈالے۔ جس طرح انسانی عمل کے حدود و قیود ہیں بالکل اسی طرح سوچ اور فہم اور غور و تعقل کے حوالے سے بھی انسان کا ایک دائرہ اور حلقہ ہے جس کے اندر رہ کر ہی اسے سوچنا اور پھر اس سوچ اور غور و فکر کے نتائج کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی حوالے سے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ ایک بڑی بھیانک اور تباہ کن غلطی ہے کہ آپ اُس دائرے اور ذمہ داریوں کے حدود سے باہر جاکر سوچیں اور پریشان و مضطرب ہوں جو آپ سے متعلق نہیں ہے۔ اس عمل کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان مثلاً سماج میں بدی و برائی، ظلم و زیادتی، افلاس و جہالت، خود غرضی و مفاد پرستی، لوٹ مار، منافقت، بے حسی اور دیگر اخلاقی خرابیوں اور بحرانوں کو دیکھ دیکھ کر بہت زیادہ کڑھتا تو رہتا ہے اور یقیناً ہر زندہ اور حساس انسان کو اپنے دائرۂ علم و خبر کی حد تک حالات کی خرابی پر بے چین اور غمگین ہونا بھی چاہیے لیکن ایسا کرنے والے اکثر انسانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرنے اور اپنا اصل میدان و محدود حلقہ چھوڑ کر بڑے ملکی و عالمی پیمانے پر اصلاحی مہم چلانے اور سماج و انسانیت سدھار مشن کھڑا کرنے کے خواب دیکھنا، آرزوئیں پالنا اور کوششیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنی محدودیتوں اور محدود وسائل و ذرائع کے باعث کسی بہت بڑے پیمانے پر تو اصلاح و درستی کا مینارہ کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، لیکن اس کی اپنی ذمہ داری کا جو قریبی اور تعلقاتی دائرہ ہوتا ہے وہ وہاں کے حوالے سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادر کرنے میں ناکام رہتا ہے کیوں کہ اس کی توجہ اور کوششیں دوسرے رخ پر مصروف ہوتی ہیں۔ فکر و عمل کے معاملے میں اپنی حدود سے تجاوز کا یہی وہ رویہ ہے جسے میں نے خود کو آسمانی ٹھیکیدار اور خدائی فوجدار بننے سے تعبیر کیا تھا۔ یعنی ایک ایسا شخص جو یہ سمجھتا ہو کہ اسے بہرحال سماج کو یا ساری دنیا کو سدھار کر ہی دم لینا ہے اور اس پر خالی اس کے ارد گرد کے دائرے اور حلقے کے حوالے ہی سے اصلاحی کام کا بوجھ نہیں ہے بلکہ اسے سماج بھر یا دنیا جہاں کے معاملات کا نگہبان و چوکیدار مقرر کیا گیا ہے۔

قوموں کی سطح پر اصلاح و بگاڑ کے جو معاملات پیش آتے ہیں ان کا تعلق افراد کے اُن مجموعی رویوں اور کردار سے ہوتا ہے جو وہ اپنے اپنے دائرے اور انفرادی حدود میں انجام دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ چند اشخاص یا چند جماعتیں مل کر بدی و بد اخلاقی کا راستہ اختیار کریں اور پورے کے پورے معاشرے کو بگاڑ و فساد زدہ بناکر رکھ دیں۔ معاشرہ جب بگڑتا ہے تو وہ اپنے اجزا و افراد کے کثیر تعداد میں انفرادی بگاڑ و فساد کے نتیجے میں بگڑتا ہے۔ اسی طرح معاشرے کی اصلاح و سنوار کا انحصار بھی اسی بات پر ہے کہ افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد اپنی انفرادی زندگیوں میں اصلاح پذیر ہوجائے اور درست رویوں اور عمدہ اخلاقیات کو اپنالے۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہوگا کہ چند لوگوں یا چند تحریکوں کی خواہشوں اور کوششوں سے سماجی و معاشرتی پیمانے پر سنوار و سدھار کی فضا قائم ہوجائے۔ جس طرح فرد کی اصلاح اس کے قلب کی اصلاح پر موقوف ہے اسی طرح سماج و سوسائٹی کے سنوار و نکھار کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں بسنے والے افراد زیادہ تعداد میں اپنی قلبی اصلاح کے نتیجے میں اپنے معاشرے کو مجموعی حیثیت سے خیر و خوبی کے غلبہ کا معاشرہ بنادیں۔ لیکن اگر افراد کی زیادہ تعداد اپنے انفرادی بگاڑ اور قلبی فساد کو دور نہ کرے تو یقیناً مجموعی حیثیت سے وہ معاشرہ شر و شقاوت کے غلبے کا معاشرہ ہوگا اور چند نیک لوگ یا کوئی ایک دو اصلاحی تنظیمیں اور جمعیتیں اس معاشرے کو خیر و خوبی کی آماجگاہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں گی۔ ایسے میں کرنے کا کام یہ ہے کہ بگاڑ کی صورت میں افراد کو اپنی توجہات اور سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے اور تعلیم و تربیت، ترغیب و نصیحت اور تلقین و فہمائش کے ذریعے افراد کے انفرادی فکر و عمل کو خامیوں اور خرابیوں سے پاک کرکے خوبیوں اور بلندیوں کا حامل بنایا جائے۔ اور یہ کام ہر اصلاح پسند شخص و جماعت اپنے اپنے دائرے اور حدود ہی کے اندر انجام دے گی نہ یہ کہ ہر ہر شخص پورے سماج یا دنیا بھر کے انسانوں کو اپنا میدانِ کار قرار دے کر اپنے قریبی حلقے کو تو نظر انداز کرے اور سوسائٹی کے ہر ہر فرد یا دنیا کے ہر ہر نفس کی انفرادی اصلاح کا بیڑہ اور جھنڈا اٹھا کر کھڑا ہوجائے۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے، ایسے ہی انفرادی اصلاح کے یہ چھوٹے چھوٹے حلقے اور افراد کے محدود تعلقاتی دائرے مل کر اجتماعی و معاشرتی سطح کی اصلاح پذیری کا منظر پیدا کردیتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ میں معاشرے کے بگاڑ و فساد کو دیکھ اور جان کر بے حس بنے رہنے کی تلقین نہیں کررہا بلکہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی حدود پہچاننے اور اُن حدود کے اندر اندر ہی متحرک و فعال بننے کی بات کررہا ہوں تاکہ آپ کی کوششیں نتیجہ خیز ہوسکیں اور آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں، بجائے اس کے کہ آپ سماجی و عالمی پیمانے پر اصلاح برپا کرنے کی نیک خواہشات کا اظہار کریں اور اس کو اپنا ٹارگٹ و نشانہ بناکر ایسی کوششیں اور قربانیاں رقم کریں جو آپ کی محدودیت اور محدود وسائل کے باعث شاید نتیجہ خیز نہ ہوسکیں۔ انسان سے آخرت میں بھی جو سوال ہوگا وہ پورے معاشرے اور ساری دنیا کی اصلاح کے لیے تڑپنے اور محنت و کوشش کرنے کے حوالے سے نہ ہوگا بلکہ اپنے قریبی حلقے اور تعلقاتی دائرے میں خیر کے فروغ اور شر کے خاتمے کے لیے فکرمند و کوشاں رہنے سے متعلق ہوگا۔ لہٰذا میرا کہنا یہ ہے کہ آپ ضرور سماج و دنیا کی بری حالت دیکھ کر کڑھیے مگر جب آپ اصلاح کے میدان میں قدم رکھیے تو خود کو اور اپنی فکرمندیوں اور کوششوں کو اپنے حدود اور اپنی ذمہ داریوں کی سرحدوں تک محدود رکھیے، تاکہ آپ اپنے سماج اور مجموعی انسانیت کو اپنے حصے کا فائدہ اور ثمر دے پائیں۔ یہ نہ ہو کہ آپ سماجی اور عالمی پیمانے پر فساد و بگاڑ کو مٹانے اور صلاح و فلاح کو برپا کرنے کے بس خواب ہی دیکھتے، امیدیں ہی پالتے، خواہشیں ہی رکھتے اور اس کے لیے بس باتیں ہی بناتے رہ جائیں اور عملی سطح پر آپ کا سماج اور دنیا آپ سے کوئی فیض و فائدہ نہ حاصل کرپائے۔ اس حوالے سے یہ تاریخی حقیقت بھی ضرور اپنے پیشِ نظر رکھیے کہ خدا کے آفتاب و ماہ تاب بندے، پیغمبرانِ گرامی قدر بھی اپنی اپنی اقوام ہی کی ہدایت و اصلاح کے لیے تگ و دو کرتے تھے۔ ہم ایسی کسی تاریخی حقیقت و داستان سے واقف نہیں ہیں کہ انہوں نے ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے لیے کوششوں اور قربانیوں کا تہلکہ مچایا ہو۔ پھر ہم تو اُن کی بنسبت بہت ہی زیادہ کمزور اورمحدود لوگ ہیں۔ یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ خدا نے ہم پر پورے معاشرے اور سارے عالم کے انسانوں کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی ہو اور ساری انسانیت ہماری اصلاحی کوششوں کا ہدف و موضوع ہو۔

جن اقدامات اور کوششوں کو آپ بچکانہ قدم فرمارہی ہیں، غور کیجیے تو وہ ایک انسان کے حوالے سے اس کی واقعی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے اور اس لحاظ سے ایک انسان کی طرف سے کوئی بچکانہ قدم نہیں بلکہ ایک مکمل انسانی عمل ہے۔ یہ کسی انسان کی طرف سے کوئی چھوٹا حصہ نہیں بلکہ اس کے ذمہ کا مکمل حصہ ہے۔ یہ ایک انسان کی طرف سے سماج اور انسانیت کی کوئی معمولی اور حقیر خدمت نہیں بلکہ اس کے دائرۂ استطاعت کے پہلو سے مکمل اور پوری پوری خدمت ہے۔ جو قطرے مل کر دریا بناتے ہیں انہیں دوسرے قطروں سے اپنا ملاپ قطرے ہی کی سطح پر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس زعم و ادعا کے ساتھ کہ وہ قطرہ نہیں بلکہ خود اپنی ذات میں ایک دریا ہے۔ اسی طرح انسان کو اپنی ذات، اپنے گھرانے اور اپنے قریبی ماحول اور تعلقات و روابط کے حدود کے اندر اندر ہی اصلاح و درستی لانے کے لیے فکر و عمل کی سطح پر کوششیں سرانجام دینی ہیں۔ اس طرح کسی معاشرے کے جب بہت سے انسانوں یا ساری دنیا کے مختلف گوشوں میں سے افراد کی ایک بڑی تعداد کے اصلاحی قطرے باہم دیگر ملاپ کریں گے تو ہمیں ایک بڑے پیمانے پر اصلاح، راستی، امن، اخوت، ایک دوسرے کا احساس، انسانیت، مروت، شرافت اور بلند اخلاقی جیسے موتیوں سے مالامال سمندر کا سراغ مل سکے گا۔ جس طرح ستارے اپنے اپنے حدود میں سفر کرتے ہیں اور تبھی ہمیں آسمان پر ایک خوش رنگ منظر نظر آتا ہے، ورنہ تو وہ باہم ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں اور آسمان سے ہم پر بربادی اور تباہ کے گولے برسائیں۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنے دائرے ہی میں اصلاح کے لیے سرگرم ہونا ہے، تبھی یہ واقعہ رونما ہوگا کہ سماجی اور عالمی پیمانے پر انسانوں کے معاملات امن و انصاف پر استوار اور ان کے حالات خوشگوار و پرسکون ہوسکیں۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Wednesday, September 8, 2010  -  12:30 PM Reply with quote
I am not in favor of a global revolution but a small revolution for us in Pakistan would be nice, I am not in favor of violence or blood shed. I am not capable of that at all but if i see a movement which I dont see so far which can elevate suffering in the long run i will definitely support it and so would you and other people who want a change. What you are saying about working in your close circle is true and should be done but whenever an opportunity arises which can widen the circle must be taken. For example your being on this forum has widened your circle and your views are reaching a wide audience of different backgrounds which you would not have managed if you had stayed in your circle only.
As far as Global or world wide revolution is concerned it is not a concept I harbor at all. nor am I stopping my work for any revolution. " آپ بچکانہ قدم فرمارہی ہیں،" i said taking "baby steps" will result in a collective giant step not "childish steps" which would be بچکانہ قدم but baby steps will result in a collective giant step is like what you said "qatra qatra mil ker darya ban jata hai."
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, September 9, 2010  -  5:19 AM Reply with quote
ڈیئر آنٹی جان صاحبہ، سلام و آداب اور بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ خیراً کہ آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر مجھ پر اپنی ایک غلطی یا بے اعتدالی واضح ہوگئی۔ وہ یہ کہ اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ایک کامن مین اور بالکل عام آدمی کا فریضہ اور دائرہ یہی ہے کہ وہ اپنے قریبی حلقے اور نزدیکی ماحول میں اصلاح و درستی اور خیر و بھلائی کے فروغ اور شر و برائی کے خاتمے یا کمی کے لیے کوشاں ہو، لیکن جس طرح ایک عالم کو قومی پیمانے پر دینی حوالے سے بیداری پیدا کرنے اور دین کے حوالے سے متنبہ و خبردار کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے، ایسے ہی سوسائٹی کے وہ لوگ جو گو عرفی طور پر دینی عالم و اسکالر کی حیثیت نہیں رکھتے لیکن عاقل و فہیم اور دانشور لوگ ہیں، سماج و سوسائٹی کے مسائل پر غور و فکر کرتے اور سماجی و معاشرتی مسائل اور قومی اضطراب و ابتری کے حوالے سے درد مندی اور جذبۂ بہتری رکھتے ہیں، انہیں بھی سماج و قوم کی عام دینی و سیکولر شعبوں کے حوالے سے تعمیر و ترقی کے باب میں رائے دینے اور سرگرمِ عمل ہونے کا قومی پیمانے ہی پر حق دار ہونا چاہیے۔ انہیں بھی ہم پابند نہیں کرسکتے کہ وہ بس اپنی قریبی ماحول ہی میں اپنے فکر و عمل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور سماجی یا قومی اسکیل پر بڑے پیمانے پر بہتری لانے یا کسی مفید و کارآمد منصوبے اور پروگرام کو چلانے کی طرف مائل نہ ہوں۔ میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ گو میں اس حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں لیکن پچھلی پوسٹوں میں میں اس پہلو کو نظر انداز بہرحال کرتا رہا ہوں اور میری اس بے اعتدالی کا ایک سبب ہے جو غور کرنے پر مجھ پر واضح ہوا۔ وہ انسان کی یہ محدودیت ہے کہ وہ اپنے علم و فہم، طبیعت و مزاج اور معلومات و تجربات ہی کے دائرے میں رہ کر سوچ پاتا اور اپنے آراء و افکار بناتا ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں دین و مذہب کی طرف بہت گہرا لگاؤ رکھتا ہوں اور پھر دینی و مذہبی حوالے سے ہمارے عام لوگوں، ظاہری دینداروں اور قوم و ملت کی جو نہایت ابتر و افسوسناک اور خراب و تشویشناک حالت و صورت ہے، اس کے حوالے سے اپنے دل و دماغ میں بے حد کڑھن، بے چینی اور درد و اذیت محسوس کرتا ہوں۔ پھر مذہبی حوالے سے اس وقت مسلمانوں کی جو فکر اور رویے ہیں، انہیں میں چونکہ اپنے دینی علم و فہم اور مطالعے و واقفیت کی بنیاد پر بہت حد تک انحراف و لغزش پر مبنی سمجھتا ہوں اس لیے ان کے حوالے سے میرے اندر سخت نکیر و تردید پائی جاتی ہے۔ لہٰذا جب کبھی اس موجودہ انحراف زدہ مذہبی سرمائے میں سے کوئی فکر یا رویہ میرے سامنے آتا ہے تو میں اس پر شدید تنقید کرنے لگتا ہوں اور میری خواہش یہ ہوتی ہےکہ میں اس کی غلطی و نادرستی بالکل آخری درجے میں واشگاف کرکے ہی دم لوں۔ زیرِ بحث ڈیبیٹ میں میں نے جو افراد کے اپنی قریبی ماحول ہی کی اصلاح کے لیے فکرمند و سرگرمِ عمل ہونے پر جو بہت زیادہ زور دیا، یہاں تک کہ میں اس معاملے میں بے اعتدالی کا شکار ہوگیا اور میں نے اس بات کو بھی یا تو نظر انداز کردیا یا پھر غلط ٹھہرادیا کہ سماج کے دانشور اور سمجھدار طبقے کے افراد بہر حال اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے محدود قریبی حلقوں اور ارد گرد کے نزدیکی دائروں سے باہر نکل کر سماجی پیمانے پر قومی خرابیوں اور امراض کے ازالے کی کوشش کریں، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس وقت کی ہماری مذہبیت کی اس باب میں جو فکر اور تبلیغ و تعلیم ہے وہ یہ ہے کہ عام سے عام مسلمان پر اس کی قوم بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ساری دنیا کے انسانوں کی اصلاح کے لیے فکرمند و سرگرمِ عمل ہونے کی ذمہ داری ہے۔ اب یہ خیال و تصور میرے نزدیک چونکہ سخت قابلِ اعتراض اور بالکل ہی غلط ہے لہٰذا اپنے مذکورہ پس منظر اور انسانی محدودیت کے باعث میں نے یہی چاہا کہ میں اس خیال کی خامی و نادرستی کو بالکل مبرہن کروں اور اس پر سخت سے سخت اور جارحانہ سے جارحانہ تنقید کرکے اس کی غلطی و کجی بالکل آخری درجے میں نمایاں کروں۔ اپنے اسی رجحان و کوشش میں میں اس بے اعتدالی کا غیر شعوری طور پر ارتکاب کرگیا۔ یا یوں کہہ لیجیےکہ انسانی محدودیت کا شکار ہوکر ایک پہلو کی طرف زیادہ مائل ہوگیا، اس حد تک کہ دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کرگیا یا پھر انجانے میں غلط کہہ گیا۔ آپ کی تازہ پوسٹ سے مجھے اس بارے میں تنبہ ہوگیا ہے لیکن اتفاق کی بات ہے کہ تھوڑی ہی دیر پہلے آپ کے جواب کو پڑھنے سے قبل میں اسی نکتے کے حوالے سے یہ سوچ رہا تھا کہ سماجی اصلاح کے حوالے سے دانشور طبقے کا رول سماجی اسکیل اور قومی پیمانے تک وسیع ہوتا ہے، اُن کے لیے ہم اپنے قریبی ماحول ہی کو اصل دائرۂ کار و میدانِ عمل نہیں قرار دے سکتے۔ یہ پوائنٹ تو میں چاہ رہا تھا کہ آج واضح کرنے کی کوشش کروں گا لیکن اس معاملے میں اپنی مذکورہ غلطی کا مجھے ادراک نہ تھا۔ خیر آپ کی پوسٹ نے وہ بھی کرادیا، جس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔

مجھے اس معاملے میں کوئی اشکال یا تردد نہیں ہے کہ معاشرے کا اہلِ دانش اور صاحبِِ فہم و فراست و بصیرت طبقہ قومی مسائل اور خرابیوں کو دور کرنے اور قوم کی ترقی، فلاح و بہبود اور استحکام و عروج کے لیے قومی سطح پر سوچے اور اقدام کرے۔ ایک دینی عالم کا دینی فہم اگر اسے قومی اسکیل پر دینی حوالے سے ذمہ دار بناتا اور اصلاحی کوشش کا حقدار ٹھہراتا ہے تو دانشور طبقے کا دنیوی علوم و فنون سے واقف ہونا، جدید حالات اور تقاضوں کو سمجھنا اور نئی ٹیکنالوجی سے روشناس ہونا جیسی خوبیاں یقیناً انہیں یہ حق دیتیں اور ان کے لیے اس بات کو سراسر جائز و مطلوب قرار دیتی ہیں کہ وہ اپنے محدود حلقوں اور قریبی دائروں سے آگے بڑھ کر قومی و سماجی پیمانے پر قوم کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے تگ و دو کریں۔ اصل چیز جو قابلِ اعتراض ہے وہ یہ کہ جس طرح دینی بصیرت سے محروم عام آدمی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے قریبی ماحول میں بھی مسلَّم بھلائیوں اور ہر ایک کے نزدیک ثابت شدہ برائیوں کے حوالے سے تنبہ کی فضا قائم رکھنے کی کوشش تو کرے، لیکن دینی مسائل و مقاصد کے حوالے سے لیڈر و رہنما اور تبصرہ و تجزیہ کار بن کر کھڑا نہ ہو، اس عام آدمی کا قومی سطح پر دینی رہنمائی کا ٹھیکیدار بن کر اٹھ کھڑا ہونا تو اس سے بھی آگے درجے کی برائی اور جرم ہے۔ بالکل اسی طرح سماج و معاشرے کے عام لوگوں کو دنیوی حوالے سے بھی اپنے متعلقین ہی کی اصلاح اور درستیٔ اخلاق تک محدود رہنا چاہیے، ان کا قومی پیمانے پر اصلاح لانے اور سماج سدھارنے کی بات کرنا اور اس کے لیے تنظیمیں یا تحریکیں قائم کرنا ان کے زیادہ سمجھدار و اہل نہ ہونے کے باعث مفید ہونے کے بجائے الٹا سخت مضر اور نقصان دہ ہوگا۔لیکن جس طرح ایک دینی عالم دینی حوالے سے قومی پیمانے پر ایک نمائندہ شخصیت ہوتا ہے ایسے ہی دنیوی حوالے سے دانش و فراست اور مہارت و دستگاہ رکھنے والا معاشرے کا اشرافیہ اور صاحبِ علم و فہم طبقہ دنیوی حوالے سے قومی پیمانے ہی پر نمائندگی اور رہنمائی کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اس کے لیے نہ صرف جائز و روا بلکہ مطلوب و مرغوب ہے کہ وہ سوسائٹی کی اصلاح اور اس کے بگاڑ و فساد کو ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر سوچے اور لائحۂ عمل بنائے، اس مقصد کے لیے تحریکیں اور انجمنیں تشکیل دے اور بڑے پیمانے پر پروگرام اور منصوبے زیرِ عمل لائے۔

یہاں تک تو بات بالکل صحیح اور معقول ہے لیکن جلد یا فوری طور پر من پسند نتائج کے حصول کی امید پر، طاقت و ہتھیار اور جبر و تشدد کے زور پر تبدیلی لانے کے مدعی کسی طبقے اور ٹولے کا ساتھ دینا ہرگز کوئی صحیح کام نہیں ہے، نہ کسی عام آدمی کے لیے اور نہ ہی کسی دینی عالم یا دنیوی پہلو سے کسی دانشور شخص کے لیے۔ تبدیلی لانے کا ایک ہی درست اور نتیجہ خیز راستہ ہے اور وہ انسانوں اور افراد کے ذہن و فہم اور اخلاق و کردار کی تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذرائع سے اصلاح و تعمیر کی جدوجہد ہے، ان کے اندر صحیح افکار، درست رویوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اشاعت و ترویج ہے۔ اسلحہ اور طاقت صرف انتشار و انارکی اور خانہ جنگی ہی کی فصل اگاتے ہیں۔ ان کے ذریعے اگر بظاہر کوئی تبدیلی آبھی جائے تو وہ نہایت وقتی ہوتی ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے پیچھے پہلے سے بھی زیادہ بڑے مسائل اور مصیبتوں کے انبار چھوڑ کر رخصت ہوجاتی ہے۔ لہٰذا عام آدمی سے لے کر دینی عالم اور دانشور طبقات تک سب کو قوم و سماج کی اصلاح، فلاح و بہبود اور عروج و استحکام کے حوالے سے اپنے اپنے دائرے اور صلاحیت و استطاعت کی حد تک سوچنا اور تگ و دو کرنا چاہیے لیکن جبر و اکرہ کی سوچ رکھنے والے کسی ٹولے اور اسلحہ اٹھانے والے کسی غیر حکومتی گروہ یا خونی انقلاب کے مدعی کسی طبقے کا ساتھ دینا یا اس راستے سے کسی بہتری اور پائدار ترقی کی توقع رکھنا نہایت سنگین غلطیاں ہیں۔ قومی تعمیر بہر حال ایک نازک اور طویل وقتی جدوجہد ہے۔ اس میں بہرحال لمبی مدت اور بے پناہ کوشش و قربانی کی سوغات خرچ ہوتی ہے۔ یہی اس کی فطرت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر سے جلد بازی اور فوری طور پر نتائج اور تبدیلی مرتب ہوجانے کی جذباتی خواہشات نکال کر اس عمل کی حقیقت و فطرت کو سمجھیں، اس کے تقاضوں اور شرائط کو جانیں اور پھر پورے دل سے اس راہ کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے، اس راستے کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اور ہر قیمت اور قربانی چکاتے ہوئے اس سفر کو جاری رکھیں اور ہمیشہ اس بات کو پیشِ نظر رکھیں کہ پائدار تبدیلی اور حقیقی انقلاب تدریجی طور پر آہستہ آہستہ ہی ابھرا کرتے ہیں۔ فوری تبدیلی اور یکایک انقلاب الفاظ کی حد تک تو درست اصطلاحات ہیں لیکن حقیقی دنیا میں ان کی ذرہ برابر بھی کوئی حقیقت و معنویت نہیں۔ آپ ایک انسانی شخصیت کی مثال ہی کی روشنی میں اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شخص جب اپنے اندر تبدیلی لانے اور اصلاح کو قبول کرنے کا اردہ کرتا ہے تو اس کے اندر اچانک تبدیلی نہیں آجاتی بلکہ پہلے وہ قائل ہوتا ہے، پھر اس کے اندر عزم و ارادہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ ایک لمبی جدوجہد اور طویل مشقت اور بے شمار قربانیوں کے بعد ہی اپنی پرانی سوچ اور عادات کو چھوڑنے اور نئے تصورات و اقدار و معیارات کو اپنانے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔ جب ایک انسان کا یہ معاملہ ہے کہ اس کی شخصیت کی حد تک اصلاحی عمل اور انقلابی پروسس کافی ٹائم لیتا ہے تو افراد کے مجموعے کسی بگڑے ہوئے سماج اور قوم کے معاملے میں اصلاحی عملی اور انقلابی پروسس کتنے وقت، کتنے عزم و ارادے، کتنی مشقت، کتنی قربانی اور کتنی لگن اور جدوجہد کا متقاضی ہوگا، یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں فوری نتیجہ دیکھ لینے کی سطحی جذباتیت سے باہر آکر پائدار تبدیلی اور انقلاب لانے کے لیے فرد فرد کی ذہنیت، سوچ اور کردار و اخلاق میں تبدیلی لانے ہی کے مشن سے جڑنا اور اسی کٹھن اور طویل مدتی راستے ہی پر گامزن ہونا چاہیے۔
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, September 9, 2010  -  7:09 AM Reply with quote
اب شاید تمام دوستوں سے عید کے بعد ہی بات ہوسکے گی۔ اس لیے میری طرف سے تمام دوستوں کو پیشگی طور پردلی عید مبارک، اللہ تعالیٰ آپ سب کو عید کی خوشیوں کی طرح اخروی کامیابی اور جنتی خوشیوں کی سوغات سے بھی مالامال فرمائے، مجھے، میرے گھر والوں، بالخصوص میرے بیمار والد صاحب اور ملتِ مسلمہ کے تمام افراد کو اپنی پرخلوص قیمتی دعاؤںمیں یاد رکھیے گا، والسلام مع الحب الکثیر والاحترام۔۔۔۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Thursday, September 9, 2010  -  5:03 PM Reply with quote
Eid mubarak to all and special greetings and prayers for you father Isfi.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Sunday, September 12, 2010  -  2:33 AM Reply with quote
Economic and social changes and a network of support is very important to avoid a bloody revolution. It is only when people have nowhere to turn to and they are desperate then this kind of mass hysteria takes place.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Saturday, September 18, 2010  -  4:44 PM Reply with quote
Isfi how are you and your father? haven't heard from you.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Thursday, September 30, 2010  -  4:22 PM Reply with quote
Isfi Eid is over and you seem to be busy, do drop a line so that we know you are okay.

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

<< Previous Page
1 2 3 4
Next page >>
Page 3 of 4


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker