محبت انسان
کاایک بنیادی اور فطری جذبہ ہے۔ انسانی وجود، رشتوں اور تعلقات میں یہ جذبہ بڑے
جمال اور حسن کے ساتھ اپنا ظہور کرتا ہے۔خدا اور بندے ، اولاد اور والدین، دوست اور
اقربا کے رشتوں کی ساری خوبصورتی نہ صرف اس جذبہ کی عطا کردہ ہے بلکہ ان رشتوں کو
زندگی کے ہر امتحان میں اگر کوئی سرخرو کرتا ہے تو بلا شبہ یہی محبت کا جذبہ ہے۔
محبت کے رشتے کی ایک اور لطیف شکل وہ ہے جو آغاز شباب میں دل کے صحرا پر پہلی پھوار
کی طرح برستی ہے۔بحر زندگی ایک نئے تلاطم سے آشنا ہوتاہے۔قدم بے اختیار کسی سمت
اٹھتے ہیں۔نظر بے سبب کسی کو ڈھونڈتی ہے۔دل کی دھڑکن بلاوجہ تیز ہوجاتی ہے۔نگاہ پر
بجلی سی کوندتی ہے۔ قلب جتنا بے چین ہوتا ہے دماغ اتنا ہی آسودہ رہتا ہے۔دل کو
بارہا بے وجہ قرار ملتا ہے اور بے وجہ قرار ملنے سے دل بہت بے قرارسا رہتا ہے۔
محبت کے اس جذبے کا ودیعت کرنے والا وہ خالق دو جہاں ہے جو خدائے قدوس ہے۔ ہر تعریف
کا مستحق، ہرخوبی کا سرچشمہ،ہر جمال کا خالق اور ہر جذبہ کا مالک۔وہ جس طرح اپنی
عطا میں لازوال ہے اسی طرح اپنی حکمت میں بھی باکمال ہے۔وہ قدسیوں کا ممدوح ہی نہیں
عارفوں کا محبوب بھی ہے۔ اس کی یہ حمد اور اس کی یہ محبت بے سبب نہیں۔زندگی کی
کہانی کا ہر ورق اسی نے لکھا ہے اور ہر سطر اسی کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔اس کہانی کا
آغاز وہ محبت کی اسی نرم و نازک کونپل سے کرتا ہے، جسے نکاح کے تحفظ کے بعد وہ ایک
شجر سایہ دار کی طرح دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ نوجوان محبت کے بیج کودلوں کی
زمین پر اگاتا ہے اور مضبوطی کے لیے جنس و شہوت کی کھاد ڈالدیتا ہے۔
مگر اس حیات بخش کھاد کوگناہ کی دلدل بنادینے والا ابلیس لعین ہے۔وہ شیطان مردود
جواپنی سرکشی کی وجہ سے بارگاہ ربوبیت سے دھتکاردیا گیا تھا۔ اور جس ہستی کے حسد
میں دھتکارا گیا تھا وہ یہی انسان تھا، جس کا دل محبت کے دریا میں بہرحال ڈوبتا ہی
ہے۔ شیطان ملعون نے خدائے ذوالجلال کی عزت کی قسم کھاکر انسان کی بربادی کا عزم کیا
تھا۔وہ اس دریا کا رخ نکاح کے بحر زیست کے بجائے بدکاری کے گندے نالے کی طرف موڑنے
کا خواہش مند رہتا ہے۔وہ عفت کی پاکیزگی کے بجائے شہوت کی گندگی کو مقصود زیست
ٹھہراتا ہے۔ وہ نکاح کے تقدس کے بجائے زنا کی غلاظت کو لذیذ تر بناکر پیش کرتا ہے۔
وہ حیا کی بلندی کے بجائے آوارگی کی پستیوں کو مقصود حیات بنادیتا ہے ۔
اور آخری زمانے کی یہ مغربی تہذیب کہ جس نے ہزار برس سے قید شیطان کو رہا کرایا ہے،
بحر و بر کو مسخر کرنے کے بعد دو عالم میں غالب ہے۔ یہ تہذیب میڈیا کی راہ سے شیطان
کا ہتھکنڈہ بن کردنیا اور اس کی اقدار پر حملہ آور ہوئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا حملہ
یہ ہے کہ اس نے محبت کے پاکیزہ تعلق کو شہوت کی غلاظت سے لتھڑ دیا ہے۔ اس نے (Love
Affair) کو (Lust Affair) بنادیا ہے۔ جونا مطلوب تھا اسے مقصود بنادیا ہے اور جو
مطلوب تھا اسے آزادی کی راہ میں کہیں کھودیا ہے۔
ہمیں نہ محبت سے نفرت ہے نہ جوانی میں دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کے ہم دشمن ہیں۔نہ
انسانی جذبوں سے ہم ناواقف ہیں نہ شباب کے رنگوں کو پہچاننے سے اندھے۔ ہم مغربی
تہذیب کے دشمن ہیں نہ مغربی اقدار و تہوار کے۔ نہ جوانی کے سیلاب پر بندھ باندھنے
کے خواہاں ہیں نہ جدیدیت کی موج کو قدامت کے کوزے میں بند کرنے کے خواہش مند۔ صرف
قوم کے فرزندوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پروردگار نے ان کے لیے اس دنیا میں
ایک ہی ویلنٹائن ڈے مقرر کیا ہے۔ وہ ان کی شادی کا دن ہے۔ رہی ان کی محبت تو اس کا
اظہار ہر روز چا ہتا ہے۔ بت پرستوں اور مسیحیوں کا مقرر کردہ صرف 14فروری ہی کیوں؟