Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 ہوم > سوالات > معاشی مسائل
مینو << واپس قرطاس موضوعات نئے سوالات سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سوال پوچھیے  

کیا صرف استحصالی سود ممنوع ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام Azam
تاریخ:  31 جنوری 2005  - ہٹس: 4523


سوال:
بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ صرف وہ سود منع ہے جس میں کسی کا استحصال ہو- اگر باہمی رضا مند ی سے سود کا تعین ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے- ہمارے ہاں تو عام طو ر پر لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض لیتے ہیں جبکہ استحصال کا عنصر عموماً نجی قرضوں میں پایا جاتا ہے- یہ حضرات اپنے موقف میں درج ذیل یت پیش کرتے ہیں-

اے ایمان والوسود نہ کھاؤ دگنا چوگنا بڑھتاہوا (130:3)

براہ کرم اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں؟


جواب:
میرا خیال ہے کہ اس آیت سے یہ استنباط درست نہیں ہے- آیت میں زبان کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ سود کی شناعت کو مزید واضح کرنے کیلئے ہے نہ کہ اس کی اجازت کے لیے- اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگرکوئی یہ کہے کہ خدا کے لیے اپنی بیوی کے سامنے تو دوسری عورتوں سے چھیڑ خانی سے باز رہا کرو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیوی کی عدم موجودگی میں یہ چھیڑ خانی کرلیا کرو- اب قرآن کریم کی ایک مثال سے اس کو سمجھیے-

’’ اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہوں محض اس لیے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہو جائے(24-33)

اب ظاہر ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں رضامندی سے پیشہ کریں تو ان کو اجازت ہے - یہ اسلوب تو ان لوگوں کے اس فعل کی شناعت کو واضح کیلئے ہے جو لونڈیوں کو اس قبیح کام پر مجبور کرتے تھے جبکہ وہ عفت کی زندگی گزارنا چاہتی تھیں-
قرآن نے ربا کے معنی واضح نہیں کیے اور اس کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی- جو لوگ قرآن کی عربی سے آشنا تھے وہ پہلے ہی سے اس سے آگاہ تھے- اسی طرح قرآن نے خمر کے معنی بھی واضح نہیں کیے کیونکہ یہ بھی لوگوں کو پہلے ہی سے معلوم تھے- قرآن نے تو صرف ان دونوں کی ممانعت کر دی- قرآنی عربی میں ربا اس مقررہ رقم (اصل زر کے علاو ہ) کو کہتے ہیں جس کامطالبہ ایک قرض دینے والا معینہ مدت کے بعد مقروض سے کرتا ہے- مزید براں قرآن سے یہ بھی واضح ہے کہ اس زمانے میں بھی لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض دیا کرتے تھے- کیونکہ تجارتی مقاصد کے لیے دیے گئے قرض میں ہی مال پروان چڑھتا ہے جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے:

’’اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ وہ دوسروں کے مال کے اندر پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا – اور جو تم زکوۃ دو گے اللہ کی رضا جوئی کے لیے تو یہی لوگ ہیں جو (اللہ کے ہاں) اپنے مال کو بڑ ھانے والے ہیں‘‘(39:30)

اس لیے اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ یہاں لفظ ربا کا مطلب صرف استحصالی سود ہے تو بار ثبوت اس کے ذمے ہے- درج ذیل آیت ہمارے موقف کو مزید موکد کر دیتی ہے-
’’اے ایمان والو اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہار ا باقی رہ گیا ہے ا س کو چھوڑ دو-‘‘(278:2)

’’ اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو اور بخش دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو‘‘-(280:2)

درج بالا دونوں آیات ایک ہی سیاق و سباق رکھتی ہیں لہذا یہ دونوں اس بات کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں کہ صرف وہ ہی سود منع نہیں ہے جہاں مقروض تنگ دست ہو- تنگ دستی کا بیان تو اصل میں ایک استثنا کا بیان ہے کہ اگر ایسا ہو تو ------ اور آیت 278:2 میں وہی سود منع کیا گیا ہے جو باہمی طور پر طے شد ہ ہو- امام فراہی کے نزدیک اگر یہاں استثنائی صورت حال کا بیان نہ ہوتا تو ’’ان کان ‘‘ کے بجائے’’ اذا‘‘ استعمال ہوتا- اس کو اس مثال سے سمجھیے :

فرض کریں کہ ایک پولیس آفیسر اپنے ما تحت سے یہ کہتا ہے کہ تمام ملزموں کو کل رہا کردینا اور اگر کوئی ملزم پولیس سے تعاون کرے تو اسے آج ہی رہا کر دینا- ان دونوں جملوں کا سیاق ایک ہی ہے- دوسرے جملے سے یہ با لکل واضح ہے کہ یہاں استثنا کا بیان ہے- اسی طرح جب قرآن یہ کہتا ہے کہ سود میں جو بھی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اور اگر مقروض تنگی میں ہو تو اس کی فراخی تک مہلت دو- تو واضح ہے کہ یہ دوسری بات اصل میں استثنا ہے- دوسرے الفاظ میں پہلی آیت میں سود کی ممانعت کا عموم ہے اور انہی قرضوں کے لیے ہے جو لوگ تنگ دستی کی حالت میں نہیں لیتے بلکہ مال کو پروان چڑھانے کے لیے لیتے ہیں- امام امین احسن اصلاحی اس آیت پہ بحث کرتے ہوئے ان الفاظ میں اس کو سمیٹتے ہیں-

’’ظاہر ہے کہ مالدار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے- پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ان قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں کیا فرق ہوا؟‘‘
چنانچہ قرآن سے یہ واضح ہوا کہ تمام اقسام کا سود ممنوع ہے اور اس میں وہ بھی شامل ہے جو لوگ تجارتی مقاصد کے لیے لیتے ہیں اور جس میں استحصال کا کوئی پہلو نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی مجبور کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے-

(آصف افتخار)
ترجمہ: صديق بخاري


Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email


Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker